بات کرنا سب سے مشکل فن ہے اورتمام عمر سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔مبالغے اور مغالطے سے پاک گفتگو کا صرف تصور ہی موجود ہے۔عقل کا کام ہے آپ کی مرضی کے حق میں جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کرلانا، جو استدلال کی بنیاد بنتے ہیں۔سیدھے سیدھے الفاظ میں کی گئی بات کو لہجے کے نشیب و فرازبگاڑ دیتے ہیں۔ وہ بات جسے قرانِ حکیم "قولِ سدید” کہتاہے، اُس کا عملی اطلاق ماسوائے منطق کے کہیں دیکھنا قریب قریب ناممکن ہے۔منطق کسی بات کی صداقت کو پرکھنے کے نہایت معیاری آلات فراہم کرتی ہے۔بالخصوص جدید منطق ، جو "مغالطۂ وجود” سے بھی پاک ہے۔مغالطۂ وجود ارسطالیسی منطق میں موجود رہا اور اسلام کے عظیم ادوار میں بھی دور نہ کیا جاسکا۔ جدید منطق نے جس کے جد امجد کو دنیا برٹرینڈ رسل کے نام سے جانتی ہے، "مصادرۂ علی المطلوب” اور "مغالطۂ وجود” کو منطق سے نکال باھر کیا۔مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ،
"فرانس کا بادشاہ گنجا ہے”
تو منطق قدیم اس مادی سچائی کو نظر انداز کردیتی تھی کہ آیا فرانس میں بادشاہت فی الواقع ہے بھی کہ نہیں؟ یہی وجہ تھی کہ عجیب الخلقت مخلوقات کو تصور کرکے مقدمات بنائے جاتے جو کے قضیات سے نتائج اور نتائج سے پھر قضیات قائم ہوتے ہوتے آخر میں اُن مخلوقات کا وجود ثابت کردیا جاتا۔
علامہ اقبالؒ نے بجا طور پر لکھا کہ عصر ِ حاضر کی تمام تر ترقی کا سہرا استقرائی عقل کے سر ہے جس کا آغاز رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہوا۔اپنے قارئین کی آسانی کے لیے میں یہاں استخراج اور استقرأ کو اپنے تئیں آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
منطق میں مقدمات قائم کرنے کی دو بڑی قسمیں ہیں۔
۱۔ استخراجی منطق (Deductive Logic)
۲۔استقرائی منطق (Inductive Logic)
استخراجی منطق میں کُل سے جزو کی طرف اور استقرائی منطق میں جزو سے کُل کی طرف سفر کیا جاتا اور نتائج قائم کیے جاتے ہیں۔ کُل سے جزو کی طرف سفر کی مثال یہ ہے،
تمام انسان فانی ہیں
سقراط ایک انسان ہے
لہذا سقراط فانی ہے
اس کے برعکس استقرائی منطق میں جزو سے کُل کی طرف سفر کیا جاتاہے۔ جس کی مثال یہ ہے۔
جزو الف = ہندوستان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزوب= افغانستان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزوج = ایران کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزود= امریکہ کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزو س= جاپان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
غرض ، اسی طرح جتنے زیادہ ممکن ہوسکیں اجزأ اکھٹا کیے جاتے ہیں اور پھر نتیجہ نکالا جاتا ہے ۔ مثلاً مذکورہ بالا استقرائی مقدمہ میں نناوے فیصد اجزأ یہ کہتے ہیں کہ "کوّا کالا ہوتاہے”۔ چنانچہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ "کوّا کالا ہوتاہے”۔
یہ تو سادہ سی مثال تھی۔ اسی استقرائی عقل نے پہلے نیچرل سائنسز اور اب سوشل سائنسز کو دنیا سے منوایا۔ فی زمانہ اینتھروپولوجی (علم الانسان) بطور علم کی ایک شاخ کے ، الگ ہوتے ہی” انسان” کے مطالعہ نے بعید ازشمار موضوعاتِ تحقیق اور نئے نئے امکانات کو جنم دیا ہے ، جن کا سارا دارومدار استقرائی مقدمات پر ہوتا ہے۔ سوشیالوجی اور اینتھروپولوجی کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کوئی دور استقرائی عقل کے عروج کا دور کہلانے کا حقدار ہے تو وہ دور ِ حاضر ہے۔
منطق کا کام ہے قول کی صداقت کو پرکھنا۔ قول کو ہرطرح کے مغالطوں سے پاک کرکے نتائج تک پہنچنا۔ منطق کے بغیر دنیا کی کسی حقیقت کا ادراک نہیں کیاجاسکتا۔تصورات پر کوئی پابندی ، کبھی نہیں رہی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تصورات کو منطق نے کم ازکم عظمت ِ یونان کے بعد سے آج تک ننگا ناچنے بھی نہیں دیا۔منطق مغالطوں کو پہچانتی ہے۔ عام انسانی عقل مغالطوں کو نہیں پہچان سکتی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی یہ مقدمہ قائم کرے کہ،
بارش آئیگی تو زمین گیلی ہوگی
اور یہ نتیجہ نکالے کہ،
بارش نہیں آئی اس لیے زمین گیلی نہیں ہوئی۔
تو یہ ایک مغالطہ ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ کہتا کہ "بارش آئی اور زمین گیلی ہوئی ” تو اُس کا قول منطقی اعتبار سے صادق ہوتا۔
مغالطوں کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً مغالطہ ، مصادرہ علی المطلوب میں کسی چیز کو پہلے سے فرض کرلیا جاتا ہے اورپھر اُس فرضی تصور پرقضیات اور نتائج کا سلسلہ قائم کیا جاتاہے۔ِاسی طرح مغالطہ غیرجامع حدِ اکبر میں خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثلاً میں نے اپنی کتاب "تصوف، سائنس اور اقبالؒ” میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک استخراجی مقدمہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ مولانا صاحب نے اس مقدمہ میں غیر جامع حدِ اکبر کا ارتکاب کیا ہے۔ اُن کا مقدمہ یہ ہے،
Major Premise : ماخلقتَ ھذا باطلا(قران)
ترجمہ: اس کائنات کو باطل تخلقیق نہیں کیا گیا۔
Minor Premise : کُلُّ غیرِ اللہ ِ باطلُ(حدیث)
ترجمہ:ہر غیرُاللہ باطل ہے۔
نتیجہ:۔ یہ کائنات عین اللہ ہے۔ اور اس طرح انہوں نے وحدت الوجود کو ثابت کردیا۔
اس میں قضیہ اولیٰ میں "اِس” کا لفظ کائنات کو جزو بنا رہا ہے۔ "ھذا” کے ہوتے ہوئے ہم قضیہ اولیٰ کو جامع نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ اس مقدمہ میں مغالطہ غیر جامع حداکبر پایا جاتاہے۔
مزید بہتر طور پر سمجھنے کے لیے میرا ایک استخراج ملاحظہ کریں،
Major Premise : اللہ ُ نورُ السمٰوٰتِ والارض (قران)
ترجمہ:۔ اللہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے۔
Minor Premise : العلم نورُ (حدیث)
ترجمہ: علم نور ہے۔
استنتاج: اللہ ُ علم السّمٰوٰات ِ والارض
ترجمہ: اللہ زمینوں اور آسمانوں کو علم ہے۔
منطق کا اطلاق تمام علوم کے ماہرین اپنی اپنی حدود میں ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ ماضی میں مذہبی سکالرز کا بہترین شغل ، منطق ہی ہوا کرتی تھی۔ لیکن جدید منطق نے مغالطۂ وجود اور مصادرہ ٔ علی المطلوب کی تلوار سے مذہب کے لیے منطقی مقدمات قائم کرنے پر ایک طرح سے پابندی عائد کردی ہے۔
چنانچہ جدید منطق وجود ِ خدا کو "مغالطۂ وجود” کے زمرے میں شمار کرتی ہے ، اور اس پر بھی مصادرۂ علی المطلوب ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔
القصہ! منطق کی چھلنی میں چھانے گئے تصورات کی صداقت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اُن کے ہاں کانٹ اور ہمارے ہاں غزالی ؒ نے منطقی استدلال سے ثابت کیا کہ "عقلِ انسانی وجود ِ خدا کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے”۔علامہ اقبالؒ نے بھی انہی کے تطبع یہی تسلیم کیا اور ادلۂ ثلاثہ پر کڑی تنقید کی۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ڈیکارٹ کی دلیلِ وجودی کا رَد ممکن نہیں۔ جس کی تفصیل آئندہ کسی مضمون میں پیش کرونگا۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“