منشیات خوری، مہلک معاملہ، مشکل مسئلہ
1978 کا دسمبر تھا یا 1979 کا جنوری۔ ان دنوں لاہور سے ایک ہفت روزہ شائع ہوتا تھا، غالبا" "احساسات" نام تھا۔ مدیر حسن نثار تھے۔ تب اس سے میری خاصی گاڑھی چھنا کرتی تھی۔ میں نے ایک مبسوط مضمون لکھا تھا۔ میں نے تو اس مضمون کو کوئی علمی سا عنوان دیا تھا مگر موصوف چونکہ ہمیشہ سے سنسنی پسند رہے ہیں اور میرے خیال میں پیدائشی ایڈیٹر بھی چنانچہ "احساسات" میں اس مضمون کو "نشے" عنوان دیا گیا تھا۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے ہر اس نشہ آور مادے کا جس کے اس مضمون میں جسمانی، ذہنی، سماجی، معاشرتی اور نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا، بذات خود استعمال کرکے اثرات محسوس کیے تھے۔ ذہین منشیات خوروں سے آراء لی تھیں اور کتابوں سے مدد۔ اسی لیے وہ مضمون اپنے طور پر ایک نادر شے بن گیا تھا تاحتٰی میرے پسندیدہ استاد پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حیدر صاحب نے وہ مضمون پڑھ کے حسن نثار سے رابطہ کرکے مجھے بلایا تھا اور مجھے اپنے ساتھ "اینٹی نارکوٹک کنٹرول بورڈ" میں ملازمت دینے کی پیشکش کی تھی تب گاڑی اور گھر دیے جانے کی آفر کی تھی۔ میں نے کچھ وجوہ کی بنا پر ان کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کا مجھے ایک عرصے بعد بہت قلق ہوا تھا۔
اس دوران پاکستان میں جس طرح ہر مسئلہ اپنی شدت میں بیشتر ہوا ہے اسی طرح منشیات فروشی اور منشیات خوری کا معاملہ بھی کئی گنا بڑھا ہے۔ آج بیس ستمبر کو ایک مقامی اخبار میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پرچون منشیات بیچنے والوں نے فیس بک پر پیج بنائے ہوئے ہیں پہلے وہ کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوانوں یا کمانے والے جوان لوگوں کو اپنا فیس بک فرینڈ بناتے ہیں پھر منشیات جس میں ہیروئن، چرس وغیرہ کے علاوہ آئس پاؤڈر جیسا مہلک نشہ بھی شامل ہے مفت فراہم کرتے ہیں، جب انہیں اس کی لت لگ جاتی ہے تو وہ یہی مواد انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس رپورٹ کے مطابق آئس پاؤڈر کے نام سے مہلک دوا کے ایک گرام کی قیمت 2000 روپے ہے۔ یہ دوا دراصل Metamphetamine ہے۔ اس دوا کے انجکشن "ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں" کو لگائے جاتے تھے،تاکہ وہ جی توڑ کر دوڑیں۔ اس مواد کے استعمال سے مستعدی، خود کو فطین، قابل ترین اور عظیم خیال کرنا، بلاتوقفبولے چلے جانا قسم کے رویے جنم لیتے ہیں۔ اس کے زیادہ دیر تک یا زیادہ استعمال سے شدت پسندی، تشدد پرستی، وہم و گمان کا پیدا ہونا معاملات کو بہت الجھا دیتا ہے۔ یہ براہ راست دماغ کے خلیوں کو تباہ کرتی ہے چنانچہ انسان پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے۔ اس کو چھوڑے جانے سے اگرچہ یہ تمام اثرات بہت حد تک زائل ہو سکتے ہیں تاہم اگر کوئی چھوڑنا چاہے تو ہی۔ کوئی بھی نشہ زبردستی چھڑوانا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
ہیروئن، آئس وغیرہ چھڑوانے کے لیے ڈاکٹر کیا کرتے ہیں کہ اس سے ملتی جلتی شے جیسے ہیروئن سے ملتی جلتی دوا میتھاڈون دے دیتے ہیں جو آہستہ اہستہ کم کی جاتی ہے یا آئس کے عادی کو مدھم کرنے کی خاطر شدید مسکن ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے۔ چھ ہفتے سے چھ ماہ کے اس عمل کو "ڈی ٹاکسیفیکیشن" یعنی زہریلے اثرات کو زائل کرنا کہا جاتا ہے۔ البتہ کلینک/ ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد اس شخص پر کم از کم دو سال نگاہ رکھنے کو کہا جاتا ہے جو بالکل ممکن نہیں ہوتا چنانچہ ایسے لوگ پھر سے منشیات کا استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ " منشیات خور نشئی نہیں ہوتا۔ منشیات کے استعمال سے جس کی ذات اور اقرباء کو آزار پہنچے وہ نشئی ہوتا ہے"۔ نشئی درحقیقت خودکشی کر رہا ہوتا ہے اور خودکشی کرنے والے کو خودکشی سے روکنے کی کوئی دلیل کارگر نہیں ہوا کرتی۔
اخباری مضمون میں منشیات کے استعمال کی جانب راغب ہونے کے نفسیاتی و سماجی پہلووں کا احاطہ کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی جتنی وجوہ بتائی جائیں وہ سب نشئی خود اپنے نشہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بچپن کی محرومیوں، والدین کی باہمی چپقلش، معاشرے کی صرف نگاہی، مادی وسائل کے فقدان، اہلیہ سے ناچاقی قسم کے تمام معاملے جواز بھی ہیں اور وجوہ بھی۔ پاکستان میں پہلی بات تو یہ کہ نشہ کرنے والے سے ہمدردی کی بجائے نفرت کرنے یا کم سے کم بے توجہی برتنے کا رواج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیروئن کے عادی افراد کو "جہاز" کے سے تضحیک آمیز لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پھر ایسے مریضوں کے لیے حکومتی ادارے بہت کم ہیں جن میں ایسے مریضوں کو رکھے جانے کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پرائیویٹ کلینک اس قدر مہنگے ہیں کہ عام لوگ ان سے استفادہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اگر بحالت مجبوری انہیں رجوع کرنا بھی پڑے تو بے مائیگی کے سبب "ڈی ٹاکسیفیکیشن" کا عمل پورا ہونے سے کہیں پہلے ایسے کلینکس کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔
منشیات فروشی کو روکنے کی خاطر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فعال ہونا اشد ضروری ہے مگر ہمارے ہاں یہ ادارے دہشت گردی سے بھی پوری طرح نہیں نمٹ پا رہے تو منشیات کی روک تھام پر پوری توجہ کیونکر دے سکتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ منشیات فروشی کا دہشت گردی کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے۔ ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کیے جانے میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کا آغاز افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف "پراکسی وار" کے دوران ہوا تھا جب سوویت یونین کے مخالف ملک نے افغانستان میں کاشت پوست سے حاصل ہوئی افیون کو ہیروئن میں بدلنے کی راہ سجھائی تھی جس کی وجہ سے یہ لعنت پاکستان میں عام ہوئی تھی۔ اب فعال لوگوں کو راغب کرنے کی غرض سے "آئس" وغیرہ فروخت کی جانے لگی ہے۔
قدرتی منشیات جیسے چرس افیون وغیرہ اتنے برے نہیں تھے اگر مناسب خوراک لی جاتی رہتی تو لوگ بہت لمبی اور صحت مند زندگیاں گذارنے کے قابل ہوا کرتے تھے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں حشیش کو قانونی طور پر طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے مگر مصنوعی منشیات جن کا ذکر ہو رہا ہے اول تو کہیں زیادہ عادی کرنے والی اور مہلک ہوتی ہیں جیسے !ٹھ کلوگرام افیون سے ایک کلوگرام ہیروئن تیار ہوتی ہے چنانچہ وہ افیون سے آٹھ گنا زیادہ منشی ہوگی۔ پھر یہ کہ ایسے مواد خالص ملنا مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی غرض سے ان میں طرح طرح کی مضر صحت ملاوٹیں کی جاتی ہیں جو زندگی کے عرصے کو کم سے کم کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ نشہ کرنے والا شاید ہی کوئی شخص محتاط ہوتا ہو۔ جب کسی عادی انسان کو منشی مواد کے استعمال کی شدید خواہش ہوتی ہے تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھتا۔
ہیروئنچی زندگی سے منہ موڑے لوگ ہوتے ہیں جبکہ آئس کا نشہ کرنے والے دوسروں کی زندگی کو اجیرن کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ سناتا چلوں۔ یہ بات غالبا" 1980 کے موسم سرما کی ہے، تب میرا مطب (کلینک) کینال پارک گلبرگ کے مین بازار میں تھا۔ ہارمون لیب کے مالک ڈاکٹر خالد جو تب خالد خاور ہوا کرتے تھے میرے شریک تھے چناچہ کلینک کا نام "کو کلینک" تھا۔ میرا چھوٹا بھائی مرزا اویس جو آج کراچی میں کسٹم کیسز کا معروف وکیل ہے تب پنجاب سوشل سیکیورٹی میں کام کرتا تھا۔ ایک روز وہ ایک شخص کو لے کر آیا اور کہا، "بھائی جان دیکھیں میں آپ سے کس کو ملانے لایا ہوں"۔۔ میں "اوئے اللہ بخش" کہہ کر اس کے گلے لگا اور اسے اوریگا کملکس کے نزدیک "زوبیہ ریستوران" میں لے گیا۔ تواضع کی اور گپ شپ لگائی۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے اقبال ہوسٹل میں اللہ بخش نام کے دو طالبعلم ہوا کرتے تھے۔ ایک کو ہم اللہ بخش کالا کہتے تھے، دوسرے کو اللہ بخش چٹا۔ اول الذکر اللہ بخش گوندل صاحب آج لاہور ہائیکورٹ کے معروف وکیل ہیں۔ اور جو مجھے ملنے آیا تھا وہ آخر الذکر تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ بی ایس سی کرنے کے بعد بیکار تھا۔ اس نے بازار سے ادویہ خرید لی تھیں۔ ان کا لٹریچر پڑھ کے گاؤں کی مسجد میں اعلان کروا دیا تھا کہ جس نے علاج کروانا ہو وہ اس کے پاس آ جائے۔ یوں اس کا کہنا تھا کہ اس کی "ڈاکٹری" خوب چل گئی تھی اور اب ہو ڈاکٹر اللہ بخش تھا۔
وہ کئی بار مجھے ملنے آیا۔ ہر بار نئی کار پر۔ میرے ہاں قیام بھی کیا۔ اس کے پاس اپنی سرنج ہوتی تھی اور ملٹی ویٹامین 50 سی یسی والی شیشی میں سفید محلول۔ وہ میری اہلیہ کو کہتا سرنج گرم کر دیں۔ پھر اس میں سی سی دو سی سی محلول بھر کے یا مجھے کہتا ٹیکہ لگا دو یا خود لگا لیتا تھا۔ میں نے ایک بار پوچھا بھی کہ یہ کیا ہے تو کہنے لگا " مجاہد کمزوری ہوندی اے تے ملٹی دا ٹیکہ لا لینا واں"۔ میں نے اسے کہا تھا کہ وہ تو رنگین ہوتا ہے تو اس نے ہنس کر کہا تھا،"ایسا بھی ہوتا ہے"، میں چپ ہو گیا تھا۔
پھر ایک روز میرا موٹر سائیکل چوری ہو گیا۔ ڈاکٹر خالد میرے ساتھ مقیم تھا۔ اس نے کہا تھا،" تم مانو یا نہ مانو، جو تمہارا دوست آتا ہے، رات میں نے اسے گلی کی نکڑ پر دیکھا تھا"۔ میں نے اسے کہا تمہیں ایسے ہی لگا ہوگا اور اس کے موٹر سائکل پر اس کے ساتھ جا کر ایف آئی آر لکھوا آیا۔ شام کو ہی ڈاکٹر اللہ بخش کا فون آ گیا تھا۔ جب میں نے موٹر سائکل چوری کے بارے میں بتایا تو اس نے چور کو موٹی موٹی گالیاں سنائیں اور کہا،" میں صبح پہنچتا ہوں اور یار کو نیا موٹر سائیکل لے کے دیتا ہوں"۔ میں پریشان کہ کل کہیں وہ احسان ہی نہ کر دے۔ خالد نے کہا وہ جھوٹ بول رہا ہے، آئے اور دلوائے تو لے لینا۔
سال بیت گیا۔ مجھے چونا منڈی بلایا گیا۔ سی آئی اے سٹاف چونا منڈی کے باہر وہی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں جن میں بیٹھ کر ڈاکٹر اللہ بخش آیا کرتا تھا۔ پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ ملزم نشے کے ٹیکے لگاتا تھا۔ پرائیویٹ ٹیکسی کرائے پر لیتا تھا۔ راستے میں ڈرائیور کو قتل کرکے گاڑی بیچ دیا کرتا تھا۔ وہی آپ کی موٹر سائیکل بھی لے گیا تھا۔ تو وہ جو ٹیکے لگاتا تھا وہ amphetamine کے ٹیکے ہوتے تھے جنہیں لگا کر وہ بظاہر ہشاش بشاش لگتا تھا مگر جرائم سوچ رہا ہوتا تھا۔
منشیات کے استعمال اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نشئی نشہ خریدنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہیروئنچی چونکہ سست ہوتے ہیں اس لیے وہ چھوٹے موٹے جرائم کرتے ہیں جب کہ ہیجان خیز مادے استعمال کرنے والے چست و مستعد اس لیے وہ بڑے اور گھناؤنے جرم بھی کر سکتے ہین۔
حکومت کو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ منشیات کی فروخت اور منشیات خوری میں اضافے سے بھی نمٹنا چاہیے۔ نشے کے عادی افراد کو پکڑ کر اپنی جیب گرم کرکے چھوڑ دینے کی بجائے ان بڑے مجرموں کو پکڑیں جو یہ دھندا کرتے ہیں۔ وگرنہ دہشت گردی اور منشیات فروشی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دے گی۔ نوجوان ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں جب وہ ہی کارآمد نہیں رہیں گے یا مجرم بن جائیں گے تو ملک کیا خاک ترقی کر سکے گا۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔
شنگھائی تنظیم تعاون نے اس سلسلے میں پاکستان سمیت تمام رکن ملکوں کے ساتھ ورکنگ گروپ بنائے ہوئے ہیں۔ مشترکہ منشیات مخالف سرگرمیاں بھی کی جاتی ہیں مگر ابھی بہت کچھ مزید کیے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“