ایڈ گر ایلن پو (Edgar Alen Poe)کا قو ل ہے کہ ،افسا نہ وہ مختصر کہا نی ہے جو آدھ گھنٹہ سے لے کر ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ کے ا ندر پڑ ھی جا سکے ،اس کا مطلب ہے کہ افسانہ اس قدر مختصر ہو نا چا ہیے کہ وہ ایک نشست میں پڑ ھا جا سکے ،لیکن پو کی تعر یف بڑی حد تک نا مکمل ہے ،کیوں کہ اس میں فنی خصو صیات کا ذ کر نہیں کیا گیا ۔اس سے بہتر تعر یف افسا نہ کی ESEHWISHنے کی ہے ،وہ افسانہ کے اختصار پر زور دیتا ہے ،ساتھ ہی وہ واقعات کردار اور پلاٹ کو بھی اس میں شامل کر تا ہے ،اس کے علاوہ وہ مختلف اجزا کے اتحاد کو بھی اہم سمجھتا ہے ۔
منشا یا د کے اب تک چھ افسا نوی مجمو عے اور کم و بیش ۱۲۵افسا نے شا ئع ہو چکے ہیں۔’’بند مٹھی ‘‘سے ’’دور کی آوازتک ‘‘ہمیں منشا یاد کے ہاں مو ضوعات ،اسا لیب اور فکر کا تنوع نظر آتا ہے ۔انہوں نے مختلف سما جی و سیاسی اور نفسیات مو ضوعات پر قلم اُٹھایا ہے ۔سیدھی سادی حقیقت نگاری سے ابتداء کر کے تمثیلی ،علا متی اور تجر ید ی اسا لیب کو بر تا ہے ۔ سما ج اور فر د کے علا وہ فر د کے با طن میں جھا نکنے کی بھی کو شش کی ہے ،شہری اور د یہی ز ند گی کے تضاد کو بیان کر نے کے ساتھ ساتھ محبت کے جذ بے کو بھی بار بار چھواہے ۔انمٹ بھو ک اور محبت میں لا حاصلی کے مو ضو عات منشا کی کہا نیوں میں تواتر سے ظاہر ہو تے رہے ہیں۔’’بند مٹھی میں جگنو‘‘میں ’’ تیر ا ھوں کھمبا ‘‘ محبت میں نا کا می کے تجر بے کو گرفت میں لینے کی کو شش ہے ۔ کہا نی کے انجام تک مرداور نسوانی کردار بد لتی ہو ئی صورت میں سامنے آتے ہیں۔’’بند مٹھی میں جگنو ‘‘تشنہ جذ بات کے انسان پر اثرات کامطا لعہ ہے،دیہاتی عو ر توں کی لڑائی میں استعمال ہو نے والی ز بان اور گا لی گلو چ ایک نو خیز لڑ کی کے جذ بات میں ارتعاش پیداکر تی ہے ۔کہا نی کے بعض مقا مات سے افسانہ نگار بڑے سلیقے سے گزرا ہے ۔لیکن افسانے کی ز بان Cult Of Uglinessکے اثرات واضح انداز میں ملتے ہیں۔
’’جب سے کالج بند ہوا تھا اس کے ذ ہن میں ہر وقت چھو ٹی چھوٹی
بھبھیڑ یاں اپنے آپ چلتی رہتی تھیں۔ وہ سو چنا نہ چا ہتی تو بھی
سوچ کی سخت جان اور بد شکل چھچھو ندر اس کے دما غ میں تھو تھنی
ڈالے مسلسل چیختی ر ہتی۔‘‘۱؎
رجحانا ت اور موضو عات کے اعتبار سے دیکھا جا ئے تو ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘ میں ہمیں منشا یاد کی د لچسپی کے کم و بیش وہ سارے عناصر ملتے ہیں جو آگے چل کر اس کے فنی سفر میں اہم مقام حاصل کر نے والے تھے ۔بھو ک اور جنسی جبلت کے انسان پر اثرات، شہر ی اوردیہی زند گی کا تضاد فر د کی با طنی ز ند گی، معاشر تی جبر اور خا ر جی ما حول کے فر د کے با طن پر اثرات ہیں۔ ان کے افسانے ’’پا نی میں گھرا ہو پا نی ‘‘’’با گھ بگھیلی رات‘‘’’ماس اور مٹی‘‘’’بو کا‘‘ ’’تما شا ‘‘ ’’راست بند ہیں‘‘’’سا ر نگی ‘‘ ’’پنج کلیان ‘‘ وغیرہ اس سلسلے کی ا ہم مثا لیں ہیں۔
’’راستے بند ہیں‘‘ کا سارا لینڈ سکیپ ہی میلے سے تیا ر کیا گیا ہے ۔جہاں وہ خود کو میلے میں گھرا د یکھتا ہے ۔جہاں طرح طرح کے لو گ اور اشیا ء مو جو د ہیں۔
’’تما شا ‘‘ منشا یاد کا لا فا نی افسا نہ ہے ۔اس افسا نے نے گو پی چند نا ر نگ اور مظفر علی سید جیسے نقادوں سے بھر پور داد وصول کی ۔تقد یر کی جبریت افسا نے کے پو رے ما حول اور کردارں پر چھا ئی ہو ئی ہے ۔’’تما شا‘‘ کی ساری فضا طلسمی معلو م ہو تی ہے جہاں جو کچھ نظرآتا ہے وہ حقیقت سے ز یادی حقیقت کا اقتباس ہے ۔’’تما شا ‘‘ دکھا نے والے خود تما شا بن جا تے ہیں۔
’’نظر کا دھوکہ ‘‘ بھی میلے ہی پیش آنے والی انسا نی صورتِ حال ہے ۔جہاں انسان اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کر نے کے لیے انسا نی اقدار سے منہ موڑ لیتا ہے ۔منشا یاد کے کردار اکثر معا شرے کے ا نتہا ئی نچلے طبقے سے تعلق ر کھتے ہیں۔کو ڈو، فقیر، علیا نا ئی ،دتا ،کمہار،صادر، شیرو،مہترانی ،منشایاد کے بہت مضبو ط کردار ہیں۔جو معا شر ے کے بے ز بان طبقے کو پیش آتے ہیں۔
’’نا تو سا نسی‘‘ انسانوں کے اس گروہ سے تعلق ر کھتا ہے جنہیں صد یوں سے صرف جبلتوں کی تسکین کے ا دنیٰ چکر میں ڈال د یا گیا ہے ۔وہ اپنی ازلی بھو ک مٹا نے کے لیے بے تحاشا کھا نے میں مصروف ہے۔لیکن اس کی بھو ک مٹنے ہی نہیں آتی۔وہ حرام حلال کے چکر میں نہیں پڑتا۔اسے صرف اپنی بھو ک مٹانا ہے چا ہے بھو ک پیٹ کی ہو یا جنس کی ۔
’’خلا اند خلا‘‘ کا آغاز ہی ’’بو کا‘‘ اور ’’تما شا‘‘ جیسے افسانوں سے ہو تا ہے۔’’بو کا‘‘ میں خواب کی وسا طت سے سما جی و سیاسی جبر یت کو پیش کرنے کی بڑی کا میاب کو شش کی گئی ہے۔’’بو کا ‘‘افسانے کا انجام ’’تماشا کے آغاز سے جڑا محسوس ہو تا ہے ۔
’’بحران‘‘ (مطبو عہ اوراق) میں افسانہ نگا ر نے مر یض کو فر ضی تیما رداروں کی ہمدردی سے صحت یاب ہو تے د کھا یا گیا ہے ۔جد ید شہر ی ز ند گی کی بیگا نگی کو منشا یاد اس سے پہلے بہت سے افسا نوں میں پیش کر چکے ہیں لیکن یہاں تو فر د کے اکیلے رہ جا نے کو پیش کر ر ہے ہیں۔ اس افسانے کی دوسری معنو یت یہ بنتی ہے کہ ہم جس سما جی و سیا سی بحران میں مبتلا ہیں اس سے با ہر نکلنے کے لیے ہمیں ’’مسیحا ‘‘ کا انتظا ر ہے۔
منشا یا د کے افسانوں کے مجمو عی مطا لعے کے بعد معلو م ہو تا ہے کہ ان کے پاس بہت اچھے اور بُرے دونوں طر ح کے افسا نے مو جود ہیں۔لیکن جس معا ملے میں وہ اپنے د یگر ہم عصر افسا نہ نگا روں پر فو قیت ر کھتے ہیں وہ یہ کہ ان کے بعض افسا نے فنی و فکری اعتبار سے ان بلندیو ںکو چھو لیتے ہیں جہاں تخلیق معمول کی سطح سے او پر اُٹھ جا تی ہے ۔ اس معا ملے میں ان کا مقا بلہ صرف خا لدہ حسین سے کیا جا سکتا ہے کسی بھی تخلیق کار کے ادبی قدو قا مت کا تعین اس کی اہم اور بہتر ین تحر یروں سے کیا جا تا ہے اور منشا یاد کے بہتر ین افسانے انہیں نہ صرف معاصر صورتحال میں اہم مقام عطا کر تے ہیں بلکہ وہ اُردو افسانے کی روایت میں بھی اپنی جگہ بنا تے نظر آتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...