مانوس اجننی۔آنس معین(مظہرفریدی)۔حصہ اول
پہلی باردیکھاتو،چشمِ آہوکے طلسم کااسیرہوکررہ گیا۔اتنی زندہ آنکھیں،زندگی کی ایسی چمک دمک اورللک بہت کم چہروں پہ سجی آنکھوں میں دیکھی تھی۔1993-94 میں لاہورمیں تھا کہ ایک دوست نے کہاکہ ایک دوست کے ہاں جاناہے،چلوگے۔پوچھاکہاں،توجواب دیا کہ "محفلِ مسافر" میں،بھائی یہ محفلِ مسافر کیا ہے؟جواب ملا فخرالدین بلے،جو آنس معین کے والدہیں۔ان کے ہاں ہر مہینے یہ محفل منعقدہوتی ہے۔آنس معین کانام آتے ہی ،رہانہ گیااورچل پڑا۔دعوت عام کےباوجود،وہاں چنیدہ لوگ تھے۔محفل ختم ہوئی تو"فخرالدین بلے صاحب سے گفت گو کی،اورپوچھا کہ "آنس معین"کی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔کبھی آپ نے بھی کچھ سنا' یا'محسوس کیا؟توطرح دے گئے اورفرمایاکہ وہ اپنی بہن سے زیادہ قریب تھا،زیادہ بہترہے کہ ان سے پوچھ لیں۔ ان سے گفت گوہوئی جوبارآور ثابت نہ ہوسکی۔البتہ کچھ چیزیں ان سے مل گئیں۔آج انہی صفحات کی مددسے کچھ لکھنے کاقابل ہواہوں۔
اس سے پہلے کچھ اپنی گزارشات پیش کروں ۔صاحب علم وفن کے خیالات پیش کردوں۔1977 میں شعری دنیامیں قدم رکھنے والاآنس،5فروری 1986ءکواس دنیاکو ہمیشہ کے لیے خیربادکہہ گیا۔وادیٔ ادب کوسوناکرنےوالے نے صرف نو سال شاعری کی۔
* آنس معین کم سِن سقراط ہے۔(شبیرحسن خاں جوش ملیح آبادی، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* فیض احمد فیض نے آنس کی شاعری دیکھ کران جانے خدشے کااظہارکیاتھا۔اوربے ساختہ ان کے منہ سے یہا الفاظ نکلےتھے کہ:
I am yet to see a more grown up intellectual. )آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور(
وہ چھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہے،میں نے ایسا زیرک دانش ور،اس عمرمیں نہیں دیکھا۔(فیض احمدفیض، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* مجھے وہ ننھارومی نظر آتا ہے۔(جابر علی سید، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس نئی سوچوں کاارسطوہے۔(نسیمِ لیہ، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* میں آنس معین کےا شعارپڑھ کردم بخودرہ جاتاہوں اوررشک کرتاہوں کہ اس جیسے شعرکہہ سکوں۔(احمدنادیم قاسمی،آوازجرس،ج 2،ش27،لاہور،ص 13)
* آنس کی شاعری چونکادینے والی ہے۔(رازسنتوکھ سری، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* آنس کا شکیب اورمصطفےٰ زیدی سے موازنہ ،ادبی غلطی ہوگی۔(انورجمال، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* اس کے اشعارجدیدشاعری پر اثرات مرتب کررہے ہیں۔(تنویر صہبائی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* آنس کو شکیب اورن م راشد کے حوالے سےسمجھناافسوس ناک ہے۔(محمدفروز شاہ، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* مجھے جواں سال آنس کی موت پرشکیب جلالی بہت یاد آیا۔(انورسدید، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* لہجے کی الگ پہچان کے باعث ،اس کی شاعری زندہ رہے گی۔(عاصی کرنالی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* اگروہ چندبرس اور زندہ رہ جاتاتومجھے یقیں ہے کہ اس کاادبی مرتبہ کیٹس سے کم نہ ہوتا۔(ڈاکٹر وزیر آغا، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین چھوٹی عمرکااتنابڑاشاعرنکلا کہ اس کی قدوقامت کاجائزہ لینے کے لیےگردن اٹھاکردیکھناپڑے تواپنی دستارضرورسنبھالنی پڑتی ہے۔(طفیل ہوشیارپوری،اظہاریہ،آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین جدیداسلوب ہی کا نہیں بل کہ منفردتوانالہجے کاخوب صورت شاعر تھا۔(مسعود ملک، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین نے چھوٹی عمر میں ذات اورکائنات کے اسرارِرموزکوسمجھ کراتنے رنگوں میں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے۔(بیدارسرمدی، گہراب، گوشہ ٔ آنس معین)
* اسے زندگی حرف ناتمام کی صورت نظر آئی اوراس نے اپنے ادھورے پن کادکھ اپنی موت سے ختم کرلیا۔(مقصودزاہدی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* آنس نے اپنے اندر بسی ہوئی لامتناہی دنیاکاسفریونہی نہیں بل کہ بہ تقاضائے جستجواختیارکیااوراس سفرکے دوران کبھی وہ وجودی مناظر سے ماوراء ہوکرچلااورکبھی قلزمِ روح میں غوطہ زن ہوا۔(فخرالدین بلے،گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
* آنس معین کی کتابِ شعر بجنسہٖ ایک سمندرہے جس کاہرورق ایک موجِ لغت اورگنجینۂ معنی ہے۔وہ اس حیرت کدے تک بہت کم وقت میں پہنچا،جس کی مسافت طے کرتے ہوئے گیانیوں کو صدیاں لگ جاتی ہیں۔(پروفیسرانورجمال، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین کاہرشعری اظہاربھرپور،ایسامکمل اورایسا spontaneous ہے کہ اسے سوائے ایک تخلیقی معجزے کے کچھ اورنہیں کہاجاسکتا۔اس کے قطعی منفرداور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے اشعارملتے ہیں کہ ان میں سے ایک شعر بھی کوئی کہہ پائی تو اس کاسر فخر سے بلندہوجائے۔(اسلم انصاری،آنس معین نمبر، محفل،ایضاً، ص11)
* ڈاکٹرخورشیدرضوی نے اس خوف کااظہارکیا کہ آنس معین کے اندر ایک جوالا مکھی سلگ رہاہے۔جو خدانہ کرے کہیں اسے بھسم کر دے۔ (محفل،ایضا!،ص35)
* پروفیسر غلام جیلانی اصغر کے خیال میں لمحہ آنس معین کوقید کیے ہوئے تھا اوروہ اس قیدسےنکلنے کے لیے بے تاب ومضطرب تھا۔ (آنس معین نمبر،محفل،ایضا!،ص35)
"توڑاجو توآئینہ تمثال دارتھا"،آنس آئینہ خانۂ دنیامیں ایک ایسی بے چین روح تھی،جس کے لیے زمان ومکاں کی وسعتیں بے معنی تھیں۔وہ عرفانِ ذات کی اس سرحدپرتھا،جہاں تک پہنچتے پہنچتے سانس اکھڑجاتی ہے،گیانیوں کااگیان حرف غلط ہوجاتاہے۔روایت ہے کہ بوعلی قلندرنے بارہ(12) سال پانی میں کھڑے ہوکر عبادت کی ،غیب سے نداآئی ،میرے بندے کیاچاہتاہے۔جواب دیا"علی"سناہے تمام عبادت مٹی ہوگئی۔لیکن سیدآنس معین بلے،خانوادۂ چشتیہ کاچشم وچراغ تھا۔ اس آئینہ خانہ میں اسے کیاکچھ نظر آیا،اوروہ کون حالات تھے کہ زیست نے ممات کالبادہ پہن لیا۔اس سوال کوتومیں حل نہیں کرسکتا۔اس کاکچھ جواب دے سکتے تھے تو ان کے والد،والدہ یابہن بھائی تھے۔جن کے سامنے اس کی تمام زندگی تھی۔آنس معین کچھ بھی تھا یانہیں تھا مگر"آنس"ضرور تھا۔ہم لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کے نام دے کرخوش ہوتے ہیں۔
ان آرامیں سے جو کچھ سمجھ میں آتاہے،وہ کم سِن سقراط ہو،یاننھارومی ہو،نئی سوچوں کاارسطوہویاچھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہو ،وہ ایک ایسا عبقری تھا کہ وقت کی طنابیں اس کے سامنے ہیچ تھیں۔اسرارِ رموز کاایساپارکھ کہ عقل وخرد بے بس نظر آتے ہیں۔ورنہ اس عمر کاایسا شاعر آج تک کسی نے دیکھاہے؟یہ خوبی غالب میں تھی کہ اس کاپہلادیوان "گلِ رعنا"جب شائع ہوا تو غالباً 'غالب'کی عمر 21 سال تھی۔آنس کے مجموعے کاانتظارکرتے انکھیں ترس گئیں۔خداجانے کب شائع ہو، یا ہوگا کہ نہیں؟
آنس پرلکھے گئے مضامین میں سے سب سے بہترمضمون 'فخرالدین بلے'کاہے۔اس کا مطلب ہے کہ انھیں آنس کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔لیکن "عشقکی ایسی جست"شاید ان کے وہم وگماں میں نہ تھی۔
نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظرجیسی
بدن تھکابھی نہیںاورسفرتمام ہوا
انھوں نے آنس معین کے ایسے خیالات کوشاعرکاذہنِ رساخیال کیا۔کم سن سقراط ،جیسے الفاظ سن کرخوش ہوئے۔طھوٹی عمرکابزرگ دانش ور سمجھتے رہے۔ ننھارومی اورنئی سوچوں کے ارسطو کو سمجھنے کی کوش نہ کی۔وہ جوالا مکھی جواس کے شعورولاشعورمیں پک رہاتھا اسے کسی ہم دمِ نرینہ کی تلاش تھی،جونہ ملا۔وہ کم گودل میں ہزاروں اندیشے،ارماں اورراز لیے چلتابنا۔ہم سب منہ دیکھتے رہ گئے۔
فخرالدین بلے نے بھی اپنے مقالے کو مغربی مفکرین کے حوالہ جات سے بھردیاہے دوسرے تصوف کے حوالہ جات اوران سے آنس معین کے اشعار کاتطابق، بعض اوقات سوچنے پرمجبورکردیتاہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ گھرمیں تصوف پر کتابوں کاوافر ذخیرہ موجود رہاہوگا۔جس کا مطالعہ آنس نے دل جمعی سے کیا ہوگا۔لیکن زندگی کاآخری عمل تصوف کی تعلیمات،ذہن عجب مخمصے کاشکارہوجاتاہے؟یاپھر آنس نے منصور بننے کاسوچا اورخودہی فیصلہ صادر کردیا؟اس کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے؟آنس کے بعض افکارنہ صرف چونکادیتے ہیں بک کہ اندرسے ہلا دیتے ہیں۔چوں کہ ہمارے سامنے چندشیزیں ہیں جن کی بنیادپرگفت گوہورہی ہے۔اس لیے کوئی بات تیقن سے نہیں کہی جاسکتی۔لیکن چند نظمیں یا نظموں کے ٹکڑے ایسےضرورہیں جن میں اس کی روح کی پرواز کون ومکاں کی حدیں پھلانگ گئی ہے۔اوروہ "راز درونِ مے خانہ" کا واقف نظر آتاہے۔
آنس کی شاعری کو سامنے رکھ کر اس کی شعری جہات اورشخصیت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول شبیرحسین جعفری آنس کی زندگی کاپہلاشعر یہ تھا:
آخرکو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بورہے گی گلاب میں
تحّیر کی وہ دنیا،جسے تسخیرکرنے میں زمانہ لگتاہے،یہاں پہلے ہی شعرکے انداز سے ظاہر وباہرہے۔آنس نے شاعری کی ابتدا وہاں سے کی جہاں اکثر شعرا کے دیوان ختم ہوجاتے ہیں۔ایسی اڑان کا یہ اختتام،مجھے کچھ حیرت نہیں ہوئی۔کیوں کہ جب غنچہ پھول بنا،اس کے مصھف سے نہ صرف حسن کے جلوے افروزاں ہوئے بل کہ اس کی روح(خوش بوپھول کی روح ہوتی ہے)آب وگل کی اس دنیاکومہکانے پرمصر ہوتی ہے۔اسے اس حقیقت کاادراک ہوتاہے کہ یہ عمل اسے ایک ایسی وادی میں لے جائے گا،جووادیٔ عدم ہے۔لیکن یہ اس کی فطرت ہے اور فطرت تبدیل ہونا تقریباًناممکن ہوتاہے۔ لہٰذا آنس بھی اپنی روح کو کائناتی تناظر میں قربان کرنے کی جلدی میں تھا۔اس لیے جلد ہی وادیٔ ایک ایسی دنیاکی طرف روانہ ہوگیا۔جس کے اسرارِرموز سے ہم قریباً غافل ہیں۔فنی اعتبارسے دیکھ جائے تو آنس پہلے مصرع میں اپنی بات کہہ چکاہے۔لیکن شعری پیکر کی مجبوری نے اسے مجبورکردیا اوراس نے یہ تلازمہ تراشا کہ جیسے خوش بو 'پابند نہیں رہ سکتی'اسی طرح روح کو مقیدرکھناناممکن ہے۔
اب آنس کاکلام ترتیب میں نہیں ،کہ کون سی غزل کب کہی گئی اب جوبھی گزارشات ہوں گی،مختلف غزلوں کے تناظر میں ہوں گی۔تاوقتِ کہ ان کاکلام تاریخوار مرتب ہوکرسامنے آجائے۔آنس نے جب دیدۂ بینا واکیے توعالمِ حیرت سامنے تھا۔تمام عالم اسے "بازیچۂ اطفال"نظر آیا۔تووہ کہہ اٹھا:
جیون کودکھ،دکھ کوآگ اورآگ کوپانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے،کس سے کہانی کہتے
چوں کہ " وا کر دیے ہیں، شوق نے، بندِ نقابِ حسن "آنس نے آئینہ خانۂ حیرت میں جب نگاہ کی تو اسے کئی رنگ اورانگ نظر آئے۔اب جو اس کے دل پر شگاف ہوئے تھے ان میں سب کو شامل کرنے کی لگن میں ،دنیا کی طرف متوجہ ہوتاہے۔لیکن اسے دنیامحوِ خواب اور مدہوش نظر آئی۔
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے
(اسداللہ خاں غالب)
آنس کااندازاتنانیااوراچھوتاہونے کے ساتھ ساتھ روایت کوبھی اس طرح اخذ کرتاہے کہ شعربالکل نیامعلوم ہوتاہے۔گھرمیں علوم وفنوں کا ایک سرمایہ موجود تھا۔آنس نے اس علم وفن کو حرزِ جاں کرلیا۔اسے بدن کی کٹھالی سے گزارکرایساکندن کیاکہ فارس اوراردو زابان وادب کاعطرکشیدکرکے رکھ دیا۔لیکن اس خیال میں ب آنس شامل ہوا توچیزے دگر بن گیا۔لیکن آنس کو اس پربھی افوسوس ہوا۔
تیرالہجہ اپنایااب ،دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تواپنی زبانی کہتے
جولوگ لہجہ بدلنے کومعمولی سی چیز یافن سمجھتے ہیں۔ان کےلیےسوچنے کامقام ہے کہ لہجہ بدلنے سے سوچ اور پھرلاشعوری طورپرجو فرق پڑتا ہے وہ اہلِ علم جانتے ہیں۔آنس کوخودبھی اس بات کاادراک تھاکہ وہ ایک نئے طرز کے اسلوبِ شاعری کو رواج دے رہاہے۔اس نے زندگی،زمان ومکاں اورانسانی روبط کی سائیکی کو اس آسانی سے اشعارمیں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔اس عمر میں زنگی کاایساانوکھا اظہار، سوائے عطائے ربی کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے۔عملی زندگی میں وہ ادب کاطالب نہیں تھا۔وہ ایک بینکرتھا،لیکن اشعارمیں ایسی بایک باتوں کااس سہولت سے اظہاریہ ظاہرکرتاہے کہ جہاں ظاہری علم نے اس کی رہنمائی کی،وہیں باطنی علم کے خزانوں سے بھی اسے وافرحصہ ملاتھا۔
چپ رہ کراظہارکیاہے،کہہ سکتے توآنس
ایک علیحٰدہ طرزسخن کاتجھ کوبانی کہتے
جس معاشرے میں اسے رہنے اوردیکھنے کاموقع ملاتھا۔وہ اس معاشرے کاکھوکھلاپن،تصنع، دکھاوا،ریاکاری، فریب،جھوٹ اورمنافقت سے بدظن تھا۔اس کیروح جو خوش بو تھی،اس تعفن زدہ ماحول میں گھٹ کررہ گئی۔ممکن ہے وہ کچھ اوردن زندہ رہ جاتا،لیکن ظاہروباطن کے تضادات اور لوگوں کے رویوں نے اسے وقت سے پہلے آخری فیصلہ کرنے پرمجبورکردیا تھا۔تعلقات کوبھی،ریا سمجھتاتھا۔اس لیےکہ:
ہوجائے گی جب تم سے، شناسائی ذرااور
بڑھ جائے گی شایدمری تنہائی ذرااور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرااور
پھرہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکوگے
یہ الجھی ہوئی ڈورجوسلجھائی ذرا او ر
اب وہ معاشرے کے ان زخم خوردہ حسوں کو سدھانہ اورسہلاناچاہتاہے۔لیکن لوگ اسے ناسور ماننے کوتیانہیں ہیں۔اس لیے "وہ الجھی ہوئی ڈورکوباوجوداس کے کہ سلجھاناچاہتاہے،نہیں سلجھاسکتا"۔اس کربِ مسلسل نے شکستِ ذات میں کلیدی کرداراداکیا۔اس لیے وہ کہہ اٹھتاہے۔ میرے ہاتھوں پہ زخموں کی تعداد تمھارے تصور سے زیادہ ہوگی۔
پتھرہیں سبھی لوگ ،کریں بات توکس سے؟
اس شہرِ خموشاں میں صدادیں توکسے دیں؟
ہے کون کہ جوخودکوہی جلتاہوادیکھے؟
سب ہاتھ ہیں کاغذکے دیادیں توکسے دیں؟
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ!
اورپاس ہے بس ایک ردادیں توکسے دیں؟
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں،توتھامے گابھلاکون؟
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصادیں توکسے دیں؟
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
آپ نے دیکھا،"پتھردل"لوگ ہیں یاپھر"شہرِ خموشاں "ہے۔اس میں صدادینا،نقارخانے میں طوطی کی آوازتو ثابت ہوسکتاہے۔کیوں کہ حقیقت کاسامناکرنے کی ہمت وجرأت مفقود ہے۔اس کے لیے'شاہیں کاتجسس اورچیتے کاجگر'،چاہیے۔اپنی زات کاسامناکرنے کادیوانہ پن درکارہے۔"سرِ بازارمی رقصم"کالافانی حوصلہ ساتھ ہو۔کیوں کہ اسے جوذمہ داری سونپی جارہی ہے۔اس کے لیے اسے اپنے وجودکوکٹھالی سے گزارکرکندن کرناپرتاہے۔خودکوجلتاہوادیکھنے کاحوصلہ کس مین اورکتنا ہے۔یہ زبانی نہیں عملی قدم اٹھانے کے بعد دیکھناہوگا۔کیوں کہ ہجومِ خلقت میں کوئی تو جو آگے بڑھ کے بِیڑااٹھالے۔وجہ بھی خودہی بیان کردی ہے"سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیادیں توکسے دیں"۔بے کلی اوربڑھ جاتی ہے۔روح کی پھڑپھڑا ہٹ اور بے خودکیے دیتی ہے۔
آنس تم بھی سامنے رکھ کرآئینہ
زورسے اک آواز لگاؤ ،لوٹ آؤ!
آنس اپنے اندرسمٹ جاتاہے۔اسے چاروں اوراندھیرانظر آتاہے۔ایک گہرااعصاب شکن سکوت،روح کاسناٹا،جواسے بےکل کیے دیتاہے۔
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
کس سے بولوں ،یہ تواک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یاپھرگونگابہراسناٹاہے
محوِ خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والابس اک اندھاسناٹاہے
ڈ رناہے توانجانی آوا ز سے ڈ ر نا
یہ توآنس دیکھابھالاسناٹاہے
آنس معین کی شاعری معاشرتی رویوں پرنشترتوچلاتی ہے۔اوران ناسوروں کاعلاج بھی چاہتاہے۔لیکن گنگے ،بہرے لوگوں میں وہ کسسے کہے۔اک طرف شورِشر انگیزہے۔جس سے سناٹابھی سہم گیاہے۔اس پر ستم یہ کہ جودیدۂ بینا ہیں،وہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہیں۔آنس کی شاعری قنوطی نہیں ہے۔ اس کے اشعار زندگی کی للک سے معمورہیں۔آنس بارہا زیست کی طرف پلٹتااور لپکتاہے۔ کہ یہ سناٹاکوئی نئی چیز نہیں۔یہ تواب ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔لہٰذااس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں ایک بات خوف وخطرسے خالی نہیں ہے کہ"کوئی انجانی آواز"جو محبت کالبادہ اوڑھ کرنفرتوں کے بیج بو دے۔اس سے احتیاط لازم ہے۔ مایوسیاں آنس پر سوارنہیں ہوتیں،پرآنس انتہائی محتاط شاہ شوارہے۔وہ وقتی فتح پریقین نہیں رکھتا۔اسے دائمی فتح سے پیارہے۔لیکن چاروں اور"اندھاسناٹا"ہونے کی وجہ سے خود میں سمٹ کررہ جاتاہے۔اسے کہیں سے کمک نہیں ملتی۔اندرکی روشنی اسے بار بار راستہ دیتی ہے۔
بدن کی اندھی گلی توجائے امان ٹھہری
میں اپنے اندرکی روشنی سے ڈراہواہوں
نہ جانے باہربھی کتنے آسیب منتظرہوں
ابھی بس اندرکے آدمی سے ڈراہواہوں
اب اماں ملی توکہاں ملی "اندھے سناٹے" سے بدن کی "اندھی گلی"میں،باطن جگ مگ تھا،اب گھپ اندھیرے سے ،انسان جب اچانک چکا چوندروشنی میں آتاہے تو اس کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔باہر آسیب زدہ ماحول کاحول،اس قدرشدید تھا کہ اسے روشنی سے بھی ڈر لگنے لگتاہے۔اوروہ اپنے آپ کواجنبی لگنے لگتاہے۔وہ اپنے آپ سے ڈر جاتاہے۔ حالاں کہ 'وہ تواندرکی روشنی' تھی ،جواسے جادہ منزل تک جانے کاراستہ سُجارہی تھی۔یہیں آنس کو کسی ہم دمِ نرینہ کی کمی کااحساس شدت سے ہوتاہے۔
اک آشنائے رازہے حیرت سے وہ بھی گنگ
اک آئینہ ہے وہ بھی مجسم سوال ہے
اب اک آشناتو ہے!لیکن وہ خود ورطۂ حیرت میں ہے۔اسے آنس کی وجود سے خوف محسوس ہونے لگتاہے۔وہ آنس کی اندرکی روشنی کوسمجھ نہیں پاتا۔اور مجسم سوال بن جاتاہے۔ادھر تحیرکی جستجو نے آنس کو خودبھی"مجسم سوال"بنا رکھاہے۔کیوں کہ آئینہ تو منعکس کرنے ولا ایک آلہ ہے۔اور آئینے کی سامنے "آنس"، یہ سوال اس کے چہرے پربھی ہے۔
جھیلوں کی طرح سب کے ہی چہروں پہ ہے سکوت
کتنایہاں پہ کون ہے گہرانہیں ۔ کھلا!
وہ پھرزندگی کی طرف لوٹتاہے۔"لیکن" جیسےاک طوفاں سے پہلے کی خاموشی"اندرکی دنیامیں ہل چل مچی ہے۔اندیشوں کے اژدر پھنکاررہے ہیں۔سفینۂ دل میں تلاطم بپاہے۔لیکن کسی کوبھی دیکھ کر محسوس نہیں ہوتاکہ کچھ ہونے ولاہے۔یاتوخوف نے سکتہ کردیاہے یاپھروہ سب بے خبرہیں۔آنس تھک کے بیٹھ جاتاہے۔ دوست دشمن کی پہچان نہیں ہوتی۔
ایک چہرہ نگاہوں کے دس زاویے
لوگ شیشہ گری کی دکاں ہوگئے
احمدندیم قاسمی نے کہاتھا کہ:
ہرآدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس آدمی کودیکھنا سوباردیکھنا
لیکن آنس کاانداز بیاں نہ صرف منفرد ہے بل کہ نئے خیال کومہمیز بھی لگاتاہے۔کس کس زاویے سے دیکھیں۔ہرلمحہ بدلتے چہرے،بدلتے رویے ،اعصاب شل کیے دیتے ہیں۔اب آنس کی پریشانی شروع ہوتی ہے،یہ انساں ہیں یا"شیشہ گری کی دکاں"ہیں۔
کچھ دیرمیرے ساتھ تماشابنے مگر
پھرتم بھی مل گئے تھے تماشائیوں کے ساتھ
اب بات"تم" تک آگئی ہے۔تم میں بھی ہو سکتاہوں،آپ بھی،اور'تم'وہ بھی ہوسکتاہے۔جواردو ادب کا'تم'ہے۔اب" تماشا"بنناکون ساآساں کام ہے؟اور ساتھ دینا،دنیاکامشکل ترین مرحلہ،جہاں اعصاب چٹک جاتے ہیں،رگیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔اس لیے تو بھرے بازارمیں،تماشا بناکے ،خود تماشائیوں میں شامل ہو گئے۔
جاگ اٹھتے ہیں کتنے اندیشے
ایک مٹی کاگھربنانے سے
من کی وحشت توکم نہیں ہوتی
د ر و دیوا ر کے سجانے سے
جب فضاؤں سے ربط بڑھتاہے
ٹوٹ جاتاہے آشیانے سے
اب یہ کیوں اورکیسے ہوا؟اندیشوں نے طوفانِ بلاخیز کی شکل کب اورکیوں اختیارکی؟جواب بھی خود دیا ہے" ایک مٹی کاگھربنانے سے" ۔اس کاایک پہلو یہ بھی ہے۔جب اس فانی دنیامیں انسان گھربناتاہے۔تواس میں دنیاکی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔پھر گھرانہ شروع ہوتاہے۔اہل وعیال بنتے ہیں۔راستے ،رشتوں میں بدلنے لگتے ہیں۔موت کاخوف جاگزیں ہوتاہے۔اندیشے سر ابھارتے ہیں۔لیکن جو شخص اس دنیا کو ایک سنہری پنجرہ سمجھتاہو؟وہ اس میں گم نہیں ہوتا۔گھرسجانے سے "من کی وحشت "کم نہیں ہوتی۔جو آزاد فضاؤں کے طائر ہیں۔انھیں آزاد فضا ہی راس آتی ہے۔وہ زیادہ دیر اس قید کوبرداشت نہیں کرتے۔اور ان دیکھی، ان سنی دنیاؤں کی لگن انھیں بے خودکرتی ہے،تو وہ خواجہ غلام فریداحمت اللہ علیہ کے الفاظ"دنیاکوں چونچی لاڑ آ"کے مصداق اڑ جاتے ہیں۔پھرانھیں اس کاغم نہیں ہوتا کہ آشیاں تھا یا نہ تھا۔ان کا دنیاسے تعلق واجبی سارہ جاتاہے۔خلق سے بے گانگی انھیں فطرت کے حسن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔لیکن فخرِانسانیت یہاں بھی آڑے آتاہے۔آنس عالمِ ناسوت کے حسن کے پاس جاتاہے۔حسن کیاہے؟علامہ محمد اقبال کی نظم"حقیقتِ حسن"سے پوچھتے ہیں۔
خداسے اک روز یہ حسن نے سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
اسے جواب ملا:
شبِ درازِعدم کافسانہ ہے دنیا
یہاں سے حسن کی سوگواری شروع ہوتی ہے۔مجیدامجد نے نظم"حسن" میں حسن کے عجب تیور بیان کیے ہیں۔
جمالِ گل ؟نہیں،بے وجہ ہنس پڑاہوں میں
نسیمِ صبح ؟نہیں،سانس لے رہا ہوں میں
یہ عشق توہے اک احساسِ بے خودانہ مرا
یہ زندگی توہے اک جذبِ والہانہ مرا
ظہورِکون ومکاں کا سبب!فقط میں ہوں
نظامِ سلسلۂ روزوشب !فقط میں ہوں
آنس نے ایک اورزاویہ واکیاہے۔ایک اورپہلوسے دیکھاہے۔
گیاتھامانگنے خوش بو، مَیں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں، وہ بھی، گدالگامجھ کو
آنس نے'پھٹے لباس'میں دیکھا۔اب آنس توشاہ کارِ حسن سے اس کا وہ حصہ، جو وہ پوری دنیامیں، بلا تمیز تقسیم کرتاہے،فیض اٹھانا چاہا۔لیکن جب آنس نے چشمِ بصیرت سے دیکھا تو وہ توخود کسی درکے سامنے کاسہ لیس تھا۔اشرفِ مخلوق کووہ مظلوم اورمجبوردکھائی دیا۔آنس کی غیرت نے گوارانہ کیا،وہ لوٹ آیا۔
ہمارے حسنِ طلب کولوگ کیاجانیں
شبِ سیاہ میں جگنواک استعارہ ہے
اترے والی ہے آنس تھکان آنکھوں کی
بہت بڑاہے افق اور ایک تارہ ہے
جو فرد ایک جگنو کوشبِ سیاہ میں روشنی کااستعارہ کہہ کر،اس کو امید کاپیام برسمجھتاہے۔یقیناً عام لوگ اس کے 'حسنِ طلب' کوسمجھنے سے عاری ہوسکتے ہیں۔ اور "لکڑی جل کوئلہ بھئی اور کوئلہ جل بھیو راکھ"( لکڑی جل کر کوئلہ بنی اور کوئلے ہو گئے راکھ)۔اب ایک تارہ ۔صرف ایک چنگاری اس خاکستر میں ہے۔تاحدِ فریبِ نظر افق کی پہنائیاں ہیں۔لیکن ایکتارہ ہے جوٹمٹماتاہے۔اب چہرےپرتھکن کے آثار نمایاں ہو چلے ہیں۔انکھوں میں نینس اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ہے صبح کے باطن میں وہی شب کی سیاہی
یہ صبح کامنظر اسی منظر سے اٹھاہے
اک چیخ سے مجروح نہ ہوگی یہ خموشی
طوفاں کبھی جھیل میں کنکرسے اٹھاہے
"یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر"ایساکیوں ہوا۔اس کاجواب بھی آنس نے دیاہے کہ 'یہ منظر اسی منظر سے اٹھاہے'۔صبح کاانتظارکرنے والو،تم نے فقطِ انتظارِ سحر کیاہے!لیکن اسے اجالنے کاکوئی عمل۔۔۔!تو صبح کے باطن میں بھی شب کی سیاہی درآئی ہے۔اورآنس پکار پکار کے کہہ رہاہے۔تمھیں بارہا چلاچلاکرخبردار کیا گیاتھا۔ لیکن :
کشتی طوفاں کی طرف بڑھتی رہی
میں پکارتارہاتیزہواکے شورمیں
لیکن یہ چیخ گشتِ باز ثابت ہوئی اورجیسے ایک کنکرسے کبھی جھیل میں تلاطم پیدانہیں ہوتا،میری آوازبھی اک گونج بن کررہ گئی۔اوراب:
جیسے حاصل ہوصرف لاحاسل
خواب ،تعبیرِ خواب سے نکلے
اک غلط فیصلہ کیالیکن
عالمِ اضطراب سے، نکلے
کیاعجب ایک دوسراآنس!
ذات کے احتساب سے نکلے
حاصل کچھ نہیں۔لاحاصلی کوخوف آشیاں میں آبساہے۔اس پر بھی آنس نے اطمینان کرلیا۔اورمایوسی کوطاری نہیں ہونے دیا۔لیکن چاروں اوراک مجرم خاموشی نے اسے پھرسے معبدِ ذات میں قیدہونے پر مجبورکردیا۔
ذراتوکم ہوئیں تنہائیاں پرندے کی
اب اک خوف بھی اس آشیاں میں رہتاہے
محبسِ ذات سے طاہرِ روح نالاں ہے۔اس لیے 'خوف'سے بھی امید کشیدکرلیتی ہے۔کم ازکم تنہائی کے عذاب سے چھوٹے۔اب اس کاہم نشیں اک خوف بھی ہے۔آنس کی شاعری میں بارہا، زندگی کی ہماہمی کی طرف لوٹنے کاذکرہے۔اب یاس سے آس کا پیداہونا کوئی آسان عمل نہیں،نہ ہی مذاق ہے۔ شاعر اس پربھی راضی ہے،فیصلہ چاہے درست ہویا غلط لیکن"عالمِ اضطراب سے نکلے"یہ روز کی کش مکش، گومگو،'ہے ،نہیں ہے' کی تلوار،کم سے کم اس سے تونجات ملی۔ آنس پھر ہمکتی زندگی کی طرف لپکتاہے۔ممکن ہے، اس دوران میں احتسابِ ذات کے عمل سے ،ایک دوسراآنس،سامنے آئے۔ایسے مثبت رویے رکھنے والاشاعر قنوطی یا موجودیت(Existentialismعام طورپراسے وجودیت لکھاجاتاہے) پرست نہیں ہوسکتا۔آنس میں سادیت نام کونہیں ہے۔وہ اس دنیاکو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دریافت کرنا چاہتاہے۔
مرے اندربسی ہوئی ہے اک اور دنیا
مگرتونے کبھی اتنالمباسفرکیاہے؟
یہ" تو" کوئی اورنہیں ہے۔یہ 'میں'اور'تو'ہیں۔یہ معاشرہ ہے۔جواقداروروایات،آداب واخلاق سے خالی ہوتاجارہاہے۔جہاں نفس پرستی ہی زندگی ہے۔جہاں خودپرستی ہی روشنی ہے۔جہاں خودنمائی ہی سب خوشی ہے۔ایسے میں آنس کیوں نہ کہے کہ کیاتم نے کسی حضرت انسان کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔خبثِ ذات سے نکلنے سےخوف،اور تعفن کے پھیلنے کے احساس نے،ہرکسی کو دھوکے میں مبتلاکررکھاہے۔اورکوئی بھی تو نہیں بولتاکہ:"بادشاہ سلامت آپ کےجسم پر لباس نہیں ہے۔جو بولے،وہ ولدالحرام ٹھہرے یاپھرگردن زدنی ہو۔تاوقتِ کہ ایک بچہ بول پڑتاہے۔بس پھرکیاتھا،سرگوشیان،چہ مگوئیاں جنم لیتی ہیں۔بادشاہ سلامت سوچنے پر مجبورہوجاتاہے۔بچہ جھوٹ کیوں بولےگا؟
ع کبھی توبچہ صلیب جتنابڑابھی ہوگا
اب آنس کو شدیدقحط الرجال کاسامناہے۔وہ بچہ کہاں سے لائے؟لیکن اسے اس بات کااحساس ہے اس لیے توکہہ اٹھتاہے" کبھی توبچہ صلیب جتنابڑابھی ہوگا"۔
لیکن مایوس اب بھی نہیں ہے۔
اک سردشام آئے گی تپتی سحرکے بعد
لاحاصلی کادکھ بھی ہے لمبے سفرکے بعد
اک دائرے میں گھومتی رہتی ہیں سب رتیں
ویرانیاں شجرپہ اگیں گی ثمرکے بعد
رہتاہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گامیں
جائے اماں اک اوربھی ہوتی ہے گھرکے بعد
اسے امیدہے کہ اب بھی ظلم تادیر طلم نہیں رہ سکتا۔یہ جھلسادینے والی دھوپ،یہ جلادینے والی "تپتی سحر"زیادہ دیررہنے والی نہیں ہے۔اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔اگرچہ لوگ ایک طویل جدوجہدکے بعد تھک چکے ہیں،'لاحاصلی کے سنپولیے بھی لپٹے ہوئے ہیں۔لیکن اسے پھر بھی امید ہے۔کرہ اپنادائروی چکر مکمل کرنے والاہے۔اب درختوں پر شجر آئے گا۔اس کے بعد ویرانیوں کی باری ہوسکتی ہے۔لیکن میں مایوس نہیں ہوں اورنہ ہی گھر کے ہونے نہ ہونے کاغم ہے۔ کیوں کہ" جائے اماں اک اوربھی ہوتی ہے گھرکے بعد"۔دل کی گہرائیوں سے پھر ایک کرن پھوٹتی ہے۔
تھامے ہوئے گرتی ہوئی دیوارکواب تک
شایدمرے ہاتھوں کے سوااوربھی کچھ ہے
میں اکیلانہیں ہوں یہ'گرتی ہوئی دیوار' صرف میرے تھامنے سے نہیں رکی،کوئی اوربھی ہے۔جو مرے ساتھ ہے۔عرفانِ ذات آنس کو الہامی طورپر مدد کرتا ہے۔اسے نچلانہیں بیٹھنے دیتا۔اندرکی روشنی اسے زعمِ ذات میں مبتلانہیں ہونے دیتی۔اسے اپنی کم زوریوں کابھی علم ہے۔اوراپنی انتہاؤں کوبھی جانتا ہے۔وہ صرف معاشرے کے رِستے ناسوروں پرنشترنہیں چلاتا بل کہ اپنامحاسب بھی آپ ہے۔اس لیے خوش فہمی میں مبتلاہونے کی بجائے یا نمائشِ ذات کی بجائے ،وہ واضح کرتاہے"کوئی اورہے،جس نے دیوارکوبھی تھاماہواہے اورمجھے حوصلہ بھی دے رکھاہے۔
ذراساکھول کے دیکھوتوگھرکادروازہ
یہ کوئی اورہی دستک ہے اب ہواکب ہے
اسے ملے ہومگرجانتے کہاں ہوتم
خوداپنے آپ پہ آنس ابھی کھلاکب ہے
مانوس اجننی۔آنس معین(مظہرفریدی)۔حصہ دوم
آنس زمیں کی دھڑکن کومحسوس کرنےوالاحساس فن کارہے۔فسق فساد نےاوربغض ونفاق نےبدامنی کے طوفاں برپاکررکھے ہیں۔اعتمادویقیں کی دیواریں ڈھے چکی ہیں۔لوگ اپنی اپنی جگہ دبکےہوئے ہیں۔آنس اچانک ایک آوازسنتا ہے۔وہ کہہ اٹھتاہے کہ ابیہ تیزہوایاطوفان باد وباراں نہیں ہے۔یہ کوئی اورآوازہے۔ "دستک"کی آواز شایدیہ کوئی پیم برہو؟کوئی خوش خبری لایاہو؟لوگ اس قدروحش زدہ تھے کہ آنس کی بات پرکان نہیں دھرے۔اسے سقراط توکہامگر"کم سن" کے سابقے کے ساتھ،اسے رومی توکہامگر"ننھا"لگادیا۔اسے ارسطوتوسمجھامگر"نئی سوچوں کا"،اے کاش کہ کوئی اسے آنس سمجھ کراس کایقیں کرلیتا۔۔۔!؟اس لیے آنس آخر کار بول اٹھا" اسے ملے ہومگرجانتے کہاں ہوتم"۔اور دلیل بھی ساتھ تھی کہ آنس توابھی اپنے آپ پرنہیں کھلا،تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو؟اورساتھ ہی ایک ادق سوال داغ دیا:
دلا سکے گی کوئی صبح کیا یقین مجھے؟
کہ اس زمیں پہ نہ اترے گی رات آج کے بعد
آنے والےدورکی خبریں دینے والو!کیاتم نجھے یقیں دلاسکتے ہوکہآج کے بعد،یہ رات،یہ ظلمت،یہ اندھیرا،یہ جبر،یہ انسانیت کاماتم کرنے والے انسانیت کے دشمن ختم ہوجائیں گے۔یاپھران کی کایاکلپ ہوجائے گی۔یہ آج کے بعد نسلِ انساں کو کچھ نہ کہیں گے۔کوئی صبح،کوئی روشنی،کوئی امید کی کرن ،کوئی گیانی مجھے اس گومگو کی کیفیت سے چھٹکارہ دلاسکتاہے۔
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
جواب میں ایک مجرم خاموشی اور سناٹا۔آنس جوچندلمحے پہلے ایک جمِ غفیرسے گفت گوکرتاہوامحسوس ہورہاتھا۔اپنی ذات کے خول میں سمٹ جاتا ہے۔اپنے آپ سےخود کلامی کرنے لگتاہے۔
اکثرصبحیں وقت سے پہلے آتی ہیں
اس لیے ہرخواب ادھورارہتاہے
شب کے باطن سے وہ اجالانہیں پھوٹا۔جس اجالے کودیکھ کت لوگ صبح سمجھ بیٹھے تھے۔وہ صبح نہیں تھی۔لوگوں نے شورمچادیا۔مری آنکھ کھل گئی اورمیراخواب ادھورارہ گیا۔
میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے
وہ کم نظرہے جوخودمنظروں کی زدمیں ہے
آنس پھرکہتاہے۔عمروں کے بھیدمت کھولو۔میری آوازپرکان دھرو۔کیوں کہ زمین وزماں کی وسعتوں نے اپنے رازوں کے درمجھ پرکھول دیے ہیں۔اس لیے جوکچھ میں کہتاہوں اس پرکان دھرو۔لیکن وہاں کیاتھا؟
اک دھوکاساکیوں ہوتاہےاب بھی کچھ آوازوں پر
دستک کون دیاکرتاہے کھلے ہوئے دروازوں پر
کھلے دروازوں پردستک ایک سوال بن جاتاہے؟آنس نے توباہا کہاکہ:" میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے"اورجس نے اپنے آپ کومنظرمیں سجالیا ہے۔ جواس تماشاگہہِ عالم میں خود تماشابن چکاہے۔وہ کم نظر ہے۔وہ دیدۂ بینانہیں رکھتا۔اس کی بات کااعتبارمت کرنا۔لیکن دورِ جاہلیت کی طرح لوگوں نے اپنے دیوتاؤں کے بتوں کوتوڑنا اپنی ہتک اورناکامسئلہ بنالیا۔نتیجہ سامنے کی بات تھی۔
گردہٹی توآئینے میں اپناچہرہ دیکھوگے
اک موہوم ساپردہ لوگو!رہنے دوان رازوں پر
آنس اس پربھی لوگ کے رازظاہرنہیں کرناچاہتا۔وہ مشورہ دیتاہے کہ آئینوں کے سامنے نہ آؤ!اگرتیز ہوایابارش نے آئینے سے گردہٹادی تواس میں 'اپناہی چہرہ نظر آئے گا'۔جواک پردہ ہے،اٹھ جائے گا۔
میرے سرکودیکھ کے میرے شانوں پر
شاخ نے گل کابوجھ اٹھاناسیکھاہے
شاعریہ سب کچھ یونہی نہیں کہہ رہاہے۔وہ باربارحوالے دیتاہے۔مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ظلم یہ ہے کہ کوئی بھی "رازدارِدرونِ مے خانہ" نہیں ہے۔اس لیے فطرت سے مثالیں لاتاہے۔
یادہے آنس پہلے تم خودبکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھراناسیکھاہے
آئینے کاکام ہے،منعکس کرنا،بکھرنانہیں۔لیکن آنس جو اس بے دل دنیاکے ایسے ہجوم میں گھرچکاہے جوجدیدعلوم وفنون کی روشنی سے چکا چوندتوہے۔لیکن عام حالات کوسمجھنے سے عاری ہے۔
ع ساحل کی آرزومیں بہت سے بھنورملے
اس لیے وہ باربار تجربات سے گزرتاہے۔اپنے آپ کومشکل میں ڈالتاہے۔طوفانوںسے نبردآزماہوتاہے۔ساحل ،ساحل رہتاہے۔بھنوردربھنوراک سلسلۂ ہے جوختم نہیں ہوتا۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے شاعر ان تمام کیفات سے اپنی "ذات کے معبد"میں دست وگریباں ہے۔اسے پھرایک راستہ سُوجتاہے۔
جونقشِ پاسے نہ ہوں شناسا،کچھ ایسے رستے تلاش کرنا
محبتوں کے سفرمیں آنس نئے جزیرے تلاش کرنا
اس باروہ "یادکےان بے نشاں جزیروں"تک جاناچاہتاہے جونقشِ پاسے شناسانہ ہوں۔اور'محبتوں کے نئے جزیرے'تلاش کرنے کی لگن ہے۔مگر'میں پاپم ایسی جلی کوئلہ بھیو نہ راکھ'۔
دیکھ رہاہوں خالی ہاتھ کی تنہائی
دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے
"کعبہ میرے پیچھے ہے،کلیسامیرے آگے"ایسی صورت میں ہاتھخالی رہ جاتے ہیں۔اورحاصل ،کفِ افسوس'کے سوکچھ اورنہیں ہوتا۔سب سے خوب صورت بات یہ ہے۔شاعرکوشعوروادراک کی ایسی نعمت عطاہوئی ہے۔جواسے بتاتی رہتی ہے۔" دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے"۔لیکن کہیں کہیں آنس خودبھی رک جاتاہے۔شکستوں کے جال نے اس کے وجودکوگھیررکھاہے۔کبھی کبھی وہ خودبھی چونک اٹھتاہے۔اپنے آپ سے ڈرجاتاہے۔
گونجتاہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکاںہو جیسے
انبیاؑ تلمیذالرحمٰن ہوتے ہیں۔یاپھرچنیدہ اولیا اللہ طاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجودباطنی علم سے اس قدرمزین ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتے ہے۔اس کے لیے "حضرت بایزیدبسطامی" کی زندگی اور پانچ سو عیسائی راہبوں سے ن کا مناظرہ دیکھاجاسکتاہے۔یاپھر"الابریز"کامطالہ کیاجاسکتاہے۔آنس کو فرت سے حیران کن صلاحیتیں عطاہوئیں لیکن نہ ماحول ساز گارملا نہ کوئی ایساراہبر(مرشد)ملاجو"تھل ماڑوداساراپینڈا" اک نگاسے طے کرادیتا۔بقول اقبال "عشق کی اک جست نے طے کردیاقصہ تمام"یہ مرحلہ نہیں آسکا۔لہذا بعض اوقات اندرکی روشنی ڈرکاسبب بنی۔اب انہدمرلی نے گنبدِروح میں جب"سرِکن فکاں"تان چھیڑی توآنس اسے سناٹے کی گونج سمجھ بیٹھا۔اوراسے مادی دنیاکے معاملات میں شامل کردیا۔کیوں کہ معاشرہ اورٹوٹتی ہوئی معاشرے کی تنابیں،اس کے سامنے تھیں۔اورکبھی کہہ اٹھتاہے۔ڈرناہوتوانجانی آواز سے ڈرنا"۔آنساپنے آپ میں واضح نہیں ہے۔وجہ سامنے ہے،باطنی عطاکے ساتھ ساتھ،ظاہری راہنماکی ضرورت بھی پڑتی ہے۔وہ صرف نبی ہواکرتاہے جودنیاوی علل سے بے نیازہوتاہے۔اب سناٹے کی گونج سے ڈر پیداہواہے۔اورظاہری تنہائی کو"وہ خالی مکاں"سمجھ رہاہے۔یہاں سے آنس کی شخصیت میں شک سرابھارناشروع کرتاہے۔
عجیب شورسااک جسم وجاں میں رہتاہے
ہواکازوربھی خالی مکاں میں رہتاہے
آنس کو'وہ سِر'شورمحسوس ہوتاہے۔اورآنس کے سامنے ایساکوئی نمونہ موجودنہیں ہے۔جسے وہ پیشوایاراہبرمان لے۔اس کی تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی۔وہ نازونعم میں پلاہے۔وہ سادات گھرانے کاچشم وچراغ ہے۔اس نے آنکھ کھولی تودورکے اہم ترین لوگوں نے اسے'کم سن سقراط' اور'چھوٹی عمرکابزرگ دانش ور' کہا۔اسے تومعلوم ہی نہیں ہوا کہ ابھی تو ابتدائے عشق تھی۔یہ دنیانہ تھیکسی اوردنیاکے رازتھے جو آنس عالمِ ناسوت میں تلاش کرتارہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ بدن اورروح میں فاصلے بڑھنے لگے۔
خالی ہے مکاں پھربھی دیے جاتے ہودستک
کہ روزنِ دیوارسے اندرنہیں دیکھا
عجب طرح کی مدہوشی کااثر اورغیریقینی کہ دروازہ پیٹتے رہے،اس طرف دھیان بھی نہیں گیا کہ مکاں خالی بھی توہوسکتاہے۔مسلسل دستک اور روزن سے نہ دیکھنا، عجب ذہنی کیفیت کی عکاسی کررہاہے۔چوں کہ مکیں جاچکے ہیں۔اوراتنی خاموشی سے گئے ہیں کہ کسی کوکچھ پتانہیں چلا۔اب خالی مکاں ایک سوال بن کر ابھررہا ہے۔دوسری طرف:
دستکیں دینے سے پہلے سوچ لو
بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟
اس طرح اب دیکھتاہوں آئینہ
جیسے کوئی خودسے پوچھے۔ کون ہے؟
دستک تودے رہے ہو؟لیکن تم ایک ایسی جگہ پر ہو جو بالکل نئی ہے۔مکاں کس کا ہے؟مکیں کون ہے؟جواب کیا مل سکتاہے؟اتنی ساری باتوں کاجواب کہاں سے ملے گا؟آپ نے دیکھا جب روح اوربدن میں بعد کی کیفیت اجگرہونے لگی۔جب طائرِ روح کو جسد ایک بندپنجرے سے زیادہ کچھ بھی نہ لگا۔تو پہلے یہ احساس پیدا ہواکہ دستک دے کے دیکھ لیاجائے۔اب شاعراس خوف میں مبتلاہے کہ:"تیرگی من میں نہ درآئے کہیں"اسے اپنے جسم کے مکاں کے خالی ہونے کاپتاہی نہیں چلا۔اوردوسرے شعرمیں وہ یقیں بھی کھوچکاہے۔اورکہتاہےپہلے سوچ لو!بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟اپنی ذات کی اک روشن جہاں تھا؟ اب اس کے لیے نادیدہ جزیرہ یا ایک ان جانی دنیابن گیاہے۔یہ اس لیے ہوا کہ باہر کواندرکی طاقت نہیں ملی۔من وتوایک نہیں ہوسکے۔اوربات ایں جارسید:"آئینہ دیکھتاہوں اور خود سے سوال کرتاہوں"جیسے کوئی خودسے پوچھے کون ہے؟"۔
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
چپ رہنے کی ہرشخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہربھراجام بھلادیں توکسے دیں؟
اب بات حقیقت تک پنچ چکی ہے۔وہ بے رنگ حقیقت جوکائنات کی اصل ہے۔لیکن اہلِ دنیاظاہری چمک دمک اورریاوتصنع کے دل دادہ ہیں۔اورمیرے پاس ہیں توپھول مگربے رنگ ہیں۔ان کون ان بے رنگ پھولوں کودیکھگا،خریدنے کامرحلہ توبعدکی بات ہے؟منافقت کے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔طلب کی دلدل نے ہربوالہوس کو جکڑ لیاہے۔اب ہرطرف بے دست پاابدان پڑے ہیں۔جونہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجبورہیں(جھوٹی انا)،نہ کسی کوبلاتے ہیں کہ چھٹکارے کی کوئی صورت ہو(منافقت)،اب بےرنگ پھولوں کوکوں خریدے؟چوں کہ حرص وہوس،لالچ وخودپردتی نے بدحال کررکھاہے۔خود دلدل میں ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ ہم دلدل میں ہیں۔دوسرے بچ جائیں یابچاؤکاکوئی طریقہ سوچیں!معلوم اس وقت ہوتاہے جب ایک آوازکے ساتھ کوئی اور بھی ان میں آن شامل ہوتاہے۔ہرشخص نے مجرم خاموشی اختیارکرکھی ہے۔اب سچ کازہرکون پیئے؟
شورتویوں اٹھاتھاجیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیاہے
آخری خواہش پوری کرکے جیناکیسا؟
آنس بھی ساحل تک آکے ڈوب گیاہے
'ہرنئے حاثے پہ حیرانی،پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی'عموماً شورکاپیداہوناایک ان ہونی کے ہونے کی خبرہوتاہے۔اوریہ شورتاکسی طوفاں کے اٹھنے کامحسوس ہوت اتھا۔لیکن یہ کیاہواکہ سناٹے کے طلسم نے اسے بھی نگل لیا۔اوراب یوں خاموشی ہے کہ جیسے کچھ ہواہی نہیں۔وہ لاشعورجوآنس کو انتہائے مایوس میں بھی نئی منزلوں کی طرف لے جاتاہے۔وہ کسی نہ کسی تبدیلی کے ذریعے سے اپنااظارکرتاہے۔لیکن ہربارناکامیابی اسے ایک ایسی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔جہاں حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
جب کشتی ثابت وسالم تھی،ساحل کی تمناکس کوتھی
اب اس شکستہ کشتی میں ساحل کی تمناکون کرے؟
ساحل کی تمناکسے نہیں ہوتی ؟لیکن آخری خواہش کے طور،اگرتمام کوشِ پیہم کاحاصل 'کفِ افسوس'ہوتوساحل کوقبول کرنا،بھی 'اک اناکی بات بن جاتی ہے'۔ اس لیے آنس نے بھی ساحل سے پہلے پتوار ڈال دیے۔'اب لیے پھرتاہے دریاہم کو'۔امیدتواب بھی تھی کہ ہواؤں کا رخ ابھی اتنا بے یقیں نہیں ہواتھا۔موسم نے شدت اختیارنہیں کی تھی۔
اناکی دیوارٹوٹنے می