آنس زمیں کی دھڑکن کومحسوس کرنےوالاحساس فن کارہے۔فسق فساد نےاوربغض ونفاق نےبدامنی کے طوفاں برپاکررکھے ہیں۔اعتمادویقیں کی دیواریں ڈھے چکی ہیں۔لوگ اپنی اپنی جگہ دبکےہوئے ہیں۔آنس اچانک ایک آوازسنتا ہے۔وہ کہہ اٹھتاہے کہ ابیہ تیزہوایاطوفان باد وباراں نہیں ہے۔یہ کوئی اورآوازہے۔ "دستک"کی آواز شایدیہ کوئی پیم برہو؟کوئی خوش خبری لایاہو؟لوگ اس قدروحش زدہ تھے کہ آنس کی بات پرکان نہیں دھرے۔اسے سقراط توکہامگر"کم سن" کے سابقے کے ساتھ،اسے رومی توکہامگر"ننھا"لگادیا۔اسے ارسطوتوسمجھامگر"نئی سوچوں کا"،اے کاش کہ کوئی اسے آنس سمجھ کراس کایقیں کرلیتا۔۔۔!؟اس لیے آنس آخر کار بول اٹھا" اسے ملے ہومگرجانتے کہاں ہوتم"۔اور دلیل بھی ساتھ تھی کہ آنس توابھی اپنے آپ پرنہیں کھلا،تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو؟اورساتھ ہی ایک ادق سوال داغ دیا:
دلا سکے گی کوئی صبح کیا یقین مجھے؟
کہ اس زمیں پہ نہ اترے گی رات آج کے بعد
آنے والےدورکی خبریں دینے والو!کیاتم نجھے یقیں دلاسکتے ہوکہآج کے بعد،یہ رات،یہ ظلمت،یہ اندھیرا،یہ جبر،یہ انسانیت کاماتم کرنے والے انسانیت کے دشمن ختم ہوجائیں گے۔یاپھران کی کایاکلپ ہوجائے گی۔یہ آج کے بعد نسلِ انساں کو کچھ نہ کہیں گے۔کوئی صبح،کوئی روشنی،کوئی امید کی کرن ،کوئی گیانی مجھے اس گومگو کی کیفیت سے چھٹکارہ دلاسکتاہے۔
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
جواب میں ایک مجرم خاموشی اور سناٹا۔آنس جوچندلمحے پہلے ایک جمِ غفیرسے گفت گوکرتاہوامحسوس ہورہاتھا۔اپنی ذات کے خول میں سمٹ جاتا ہے۔اپنے آپ سےخود کلامی کرنے لگتاہے۔
اکثرصبحیں وقت سے پہلے آتی ہیں
اس لیے ہرخواب ادھورارہتاہے
شب کے باطن سے وہ اجالانہیں پھوٹا۔جس اجالے کودیکھ کت لوگ صبح سمجھ بیٹھے تھے۔وہ صبح نہیں تھی۔لوگوں نے شورمچادیا۔مری آنکھ کھل گئی اورمیراخواب ادھورارہ گیا۔
میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے
وہ کم نظرہے جوخودمنظروں کی زدمیں ہے
آنس پھرکہتاہے۔عمروں کے بھیدمت کھولو۔میری آوازپرکان دھرو۔کیوں کہ زمین وزماں کی وسعتوں نے اپنے رازوں کے درمجھ پرکھول دیے ہیں۔اس لیے جوکچھ میں کہتاہوں اس پرکان دھرو۔لیکن وہاں کیاتھا؟
اک دھوکاساکیوں ہوتاہےاب بھی کچھ آوازوں پر
دستک کون دیاکرتاہے کھلے ہوئے دروازوں پر
کھلے دروازوں پردستک ایک سوال بن جاتاہے؟آنس نے توباہا کہاکہ:" میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے"اورجس نے اپنے آپ کومنظرمیں سجالیا ہے۔ جواس تماشاگہہِ عالم میں خود تماشابن چکاہے۔وہ کم نظر ہے۔وہ دیدۂ بینانہیں رکھتا۔اس کی بات کااعتبارمت کرنا۔لیکن دورِ جاہلیت کی طرح لوگوں نے اپنے دیوتاؤں کے بتوں کوتوڑنا اپنی ہتک اورناکامسئلہ بنالیا۔نتیجہ سامنے کی بات تھی۔
گردہٹی توآئینے میں اپناچہرہ دیکھوگے
اک موہوم ساپردہ لوگو!رہنے دوان رازوں پر
آنس اس پربھی لوگ کے رازظاہرنہیں کرناچاہتا۔وہ مشورہ دیتاہے کہ آئینوں کے سامنے نہ آؤ!اگرتیز ہوایابارش نے آئینے سے گردہٹادی تواس میں 'اپناہی چہرہ نظر آئے گا'۔جواک پردہ ہے،اٹھ جائے گا۔
میرے سرکودیکھ کے میرے شانوں پر
شاخ نے گل کابوجھ اٹھاناسیکھاہے
شاعریہ سب کچھ یونہی نہیں کہہ رہاہے۔وہ باربارحوالے دیتاہے۔مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ظلم یہ ہے کہ کوئی بھی "رازدارِدرونِ مے خانہ" نہیں ہے۔اس لیے فطرت سے مثالیں لاتاہے۔
یادہے آنس پہلے تم خودبکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھراناسیکھاہے
آئینے کاکام ہے،منعکس کرنا،بکھرنانہیں۔لیکن آنس جو اس بے دل دنیاکے ایسے ہجوم میں گھرچکاہے جوجدیدعلوم وفنون کی روشنی سے چکا چوندتوہے۔لیکن عام حالات کوسمجھنے سے عاری ہے۔
ع ساحل کی آرزومیں بہت سے بھنورملے
اس لیے وہ باربار تجربات سے گزرتاہے۔اپنے آپ کومشکل میں ڈالتاہے۔طوفانوںسے نبردآزماہوتاہے۔ساحل ،ساحل رہتاہے۔بھنوردربھنوراک سلسلۂ ہے جوختم نہیں ہوتا۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے شاعر ان تمام کیفات سے اپنی "ذات کے معبد"میں دست وگریباں ہے۔اسے پھرایک راستہ سُوجتاہے۔
جونقشِ پاسے نہ ہوں شناسا،کچھ ایسے رستے تلاش کرنا
محبتوں کے سفرمیں آنس نئے جزیرے تلاش کرنا
اس باروہ "یادکےان بے نشاں جزیروں"تک جاناچاہتاہے جونقشِ پاسے شناسانہ ہوں۔اور'محبتوں کے نئے جزیرے'تلاش کرنے کی لگن ہے۔مگر'میں پاپم ایسی جلی کوئلہ بھیو نہ راکھ'۔
دیکھ رہاہوں خالی ہاتھ کی تنہائی
دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے
"کعبہ میرے پیچھے ہے،کلیسامیرے آگے"ایسی صورت میں ہاتھخالی رہ جاتے ہیں۔اورحاصل ،کفِ افسوس'کے سوکچھ اورنہیں ہوتا۔سب سے خوب صورت بات یہ ہے۔شاعرکوشعوروادراک کی ایسی نعمت عطاہوئی ہے۔جواسے بتاتی رہتی ہے۔" دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے"۔لیکن کہیں کہیں آنس خودبھی رک جاتاہے۔شکستوں کے جال نے اس کے وجودکوگھیررکھاہے۔کبھی کبھی وہ خودبھی چونک اٹھتاہے۔اپنے آپ سے ڈرجاتاہے۔
گونجتاہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکاںہو جیسے
انبیاؑ تلمیذالرحمٰن ہوتے ہیں۔یاپھرچنیدہ اولیا اللہ طاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجودباطنی علم سے اس قدرمزین ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتے ہے۔اس کے لیے "حضرت بایزیدبسطامی" کی زندگی اور پانچ سو عیسائی راہبوں سے ن کا مناظرہ دیکھاجاسکتاہے۔یاپھر"الابریز"کامطالہ کیاجاسکتاہے۔آنس کو فرت سے حیران کن صلاحیتیں عطاہوئیں لیکن نہ ماحول ساز گارملا نہ کوئی ایساراہبر(مرشد)ملاجو"تھل ماڑوداساراپینڈا" اک نگاسے طے کرادیتا۔بقول اقبال "عشق کی اک جست نے طے کردیاقصہ تمام"یہ مرحلہ نہیں آسکا۔لہذا بعض اوقات اندرکی روشنی ڈرکاسبب بنی۔اب انہدمرلی نے گنبدِروح میں جب"سرِکن فکاں"تان چھیڑی توآنس اسے سناٹے کی گونج سمجھ بیٹھا۔اوراسے مادی دنیاکے معاملات میں شامل کردیا۔کیوں کہ معاشرہ اورٹوٹتی ہوئی معاشرے کی تنابیں،اس کے سامنے تھیں۔اورکبھی کہہ اٹھتاہے۔ڈرناہوتوانجانی آواز سے ڈرنا"۔آنساپنے آپ میں واضح نہیں ہے۔وجہ سامنے ہے،باطنی عطاکے ساتھ ساتھ،ظاہری راہنماکی ضرورت بھی پڑتی ہے۔وہ صرف نبی ہواکرتاہے جودنیاوی علل سے بے نیازہوتاہے۔اب سناٹے کی گونج سے ڈر پیداہواہے۔اورظاہری تنہائی کو"وہ خالی مکاں"سمجھ رہاہے۔یہاں سے آنس کی شخصیت میں شک سرابھارناشروع کرتاہے۔
عجیب شورسااک جسم وجاں میں رہتاہے
ہواکازوربھی خالی مکاں میں رہتاہے
آنس کو'وہ سِر'شورمحسوس ہوتاہے۔اورآنس کے سامنے ایساکوئی نمونہ موجودنہیں ہے۔جسے وہ پیشوایاراہبرمان لے۔اس کی تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی۔وہ نازونعم میں پلاہے۔وہ سادات گھرانے کاچشم وچراغ ہے۔اس نے آنکھ کھولی تودورکے اہم ترین لوگوں نے اسے'کم سن سقراط' اور'چھوٹی عمرکابزرگ دانش ور' کہا۔اسے تومعلوم ہی نہیں ہوا کہ ابھی تو ابتدائے عشق تھی۔یہ دنیانہ تھیکسی اوردنیاکے رازتھے جو آنس عالمِ ناسوت میں تلاش کرتارہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ بدن اورروح میں فاصلے بڑھنے لگے۔
خالی ہے مکاں پھربھی دیے جاتے ہودستک
کہ روزنِ دیوارسے اندرنہیں دیکھا
عجب طرح کی مدہوشی کااثر اورغیریقینی کہ دروازہ پیٹتے رہے،اس طرف دھیان بھی نہیں گیا کہ مکاں خالی بھی توہوسکتاہے۔مسلسل دستک اور روزن سے نہ دیکھنا، عجب ذہنی کیفیت کی عکاسی کررہاہے۔چوں کہ مکیں جاچکے ہیں۔اوراتنی خاموشی سے گئے ہیں کہ کسی کوکچھ پتانہیں چلا۔اب خالی مکاں ایک سوال بن کر ابھررہا ہے۔دوسری طرف:
دستکیں دینے سے پہلے سوچ لو
بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟
اس طرح اب دیکھتاہوں آئینہ
جیسے کوئی خودسے پوچھے۔ کون ہے؟
دستک تودے رہے ہو؟لیکن تم ایک ایسی جگہ پر ہو جو بالکل نئی ہے۔مکاں کس کا ہے؟مکیں کون ہے؟جواب کیا مل سکتاہے؟اتنی ساری باتوں کاجواب کہاں سے ملے گا؟آپ نے دیکھا جب روح اوربدن میں بعد کی کیفیت اجگرہونے لگی۔جب طائرِ روح کو جسد ایک بندپنجرے سے زیادہ کچھ بھی نہ لگا۔تو پہلے یہ احساس پیدا ہواکہ دستک دے کے دیکھ لیاجائے۔اب شاعراس خوف میں مبتلاہے کہ:"تیرگی من میں نہ درآئے کہیں"اسے اپنے جسم کے مکاں کے خالی ہونے کاپتاہی نہیں چلا۔اوردوسرے شعرمیں وہ یقیں بھی کھوچکاہے۔اورکہتاہےپہلے سوچ لو!بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟اپنی ذات کی اک روشن جہاں تھا؟ اب اس کے لیے نادیدہ جزیرہ یا ایک ان جانی دنیابن گیاہے۔یہ اس لیے ہوا کہ باہر کواندرکی طاقت نہیں ملی۔من وتوایک نہیں ہوسکے۔اوربات ایں جارسید:"آئینہ دیکھتاہوں اور خود سے سوال کرتاہوں"جیسے کوئی خودسے پوچھے کون ہے؟"۔
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
چپ رہنے کی ہرشخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہربھراجام بھلادیں توکسے دیں؟
اب بات حقیقت تک پنچ چکی ہے۔وہ بے رنگ حقیقت جوکائنات کی اصل ہے۔لیکن اہلِ دنیاظاہری چمک دمک اورریاوتصنع کے دل دادہ ہیں۔اورمیرے پاس ہیں توپھول مگربے رنگ ہیں۔ان کون ان بے رنگ پھولوں کودیکھگا،خریدنے کامرحلہ توبعدکی بات ہے؟منافقت کے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔طلب کی دلدل نے ہربوالہوس کو جکڑ لیاہے۔اب ہرطرف بے دست پاابدان پڑے ہیں۔جونہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجبورہیں(جھوٹی انا)،نہ کسی کوبلاتے ہیں کہ چھٹکارے کی کوئی صورت ہو(منافقت)،اب بےرنگ پھولوں کوکوں خریدے؟چوں کہ حرص وہوس،لالچ وخودپردتی نے بدحال کررکھاہے۔خود دلدل میں ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ ہم دلدل میں ہیں۔دوسرے بچ جائیں یابچاؤکاکوئی طریقہ سوچیں!معلوم اس وقت ہوتاہے جب ایک آوازکے ساتھ کوئی اور بھی ان میں آن شامل ہوتاہے۔ہرشخص نے مجرم خاموشی اختیارکرکھی ہے۔اب سچ کازہرکون پیئے؟
شورتویوں اٹھاتھاجیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیاہے
آخری خواہش پوری کرکے جیناکیسا؟
آنس بھی ساحل تک آکے ڈوب گیاہے
'ہرنئے حاثے پہ حیرانی،پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی'عموماً شورکاپیداہوناایک ان ہونی کے ہونے کی خبرہوتاہے۔اوریہ شورتاکسی طوفاں کے اٹھنے کامحسوس ہوت اتھا۔لیکن یہ کیاہواکہ سناٹے کے طلسم نے اسے بھی نگل لیا۔اوراب یوں خاموشی ہے کہ جیسے کچھ ہواہی نہیں۔وہ لاشعورجوآنس کو انتہائے مایوس میں بھی نئی منزلوں کی طرف لے جاتاہے۔وہ کسی نہ کسی تبدیلی کے ذریعے سے اپنااظارکرتاہے۔لیکن ہربارناکامیابی اسے ایک ایسی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔جہاں حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
جب کشتی ثابت وسالم تھی،ساحل کی تمناکس کوتھی
اب اس شکستہ کشتی میں ساحل کی تمناکون کرے؟
ساحل کی تمناکسے نہیں ہوتی ؟لیکن آخری خواہش کے طور،اگرتمام کوشِ پیہم کاحاصل 'کفِ افسوس'ہوتوساحل کوقبول کرنا،بھی 'اک اناکی بات بن جاتی ہے'۔ اس لیے آنس نے بھی ساحل سے پہلے پتوار ڈال دیے۔'اب لیے پھرتاہے دریاہم کو'۔امیدتواب بھی تھی کہ ہواؤں کا رخ ابھی اتنا بے یقیں نہیں ہواتھا۔موسم نے شدت اختیارنہیں کی تھی۔
اناکی دیوارٹوٹنے میں ہے دیرآنس
وجودمیراابھی میرے اختیارمیں ہے
حوصلے ابھی جواں ہیں۔اپنی ذات پراب بھی بھروسہ ہے۔وجودپر اختیاربھی باقی ہے۔حالات نہیں بگڑے۔لیکن" ایک اوردریاکاسامناتھامنیرمجھ کو"
سلجھی تھیں گھتیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا،بس اب تواماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی،جنگل سکڑ گئے
اس بند گھرمیں کیسے کہوں کیاطلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل،وہ ہونٹوں پہ پڑگئے
آنس کے وجودکے اندرایک اعصاب شکن جنگ جاری رہی۔اورہمیشہ آخری لمحوں میں کوئی سوارپیادے کوبچالیتاتھا۔یہ ایسی کمک تھی،جو آنس کو واضح طورپرسمجھ نہ آسکی۔لیکن وہ لاشعوری طورپر اس کی روشنی میں چلتابھی رہا۔اورایک کش مکش مسلسل اس حاصل کامقدربھی رہی۔لیکن محبتوں (ظاہری)کے تمام رشتے ایک ایسے معاشرتی دائرے میں قیدتھے جواسے کوئی بھی لائحۂ عمل طےکرنے کی مکمل آزادی نہ دے سکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی عمل مکمل تقین سے نہیں ہوپایا۔ آنس سمجھتارہاکہ 'گتھیاں سلجھ رہی ہیں'،لیکن ہواکیا؟وہ وجود جو پہلے ہی زخم زخم (روحانی کرب) تھا۔ دکھ کی شدت میں اوراضافہ ہوگیا۔شکتیوں کی تلاش یاگیان کی منزل توخواب وخیال ہونے لگی اب 'اماں'کے لالے پڑ گئے۔تہذیب نے ہریالی کونگل لیا۔
جن کی سانس کا ہرجھونکا
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...