محلے کی بیوہ کے گھر آئے دن غنڈے گھس آتے تھے۔ تنگ آکر اس نے چودھری کو بتایا جو محلے کا کھڑپینچ بنا ہوا تھا۔ چودھری نے اسے مشورہ دیا کہ ایک سلائی مشین خرید لو تاکہ تمہارے مالی حالات بہتر ہوجائیں !
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس مشورے سے غنڈوں کا تدارک ہوگیا ہوگا؟ یقینا نہیں! مالی حالات بہتر ہو بھی گئے تو غنڈوں کے حملوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ پہلے وہ صرف عزت لوٹنے کی نیت سے آتے تھے۔ اب وہ روپیہ لوٹنے بھی آئیں گے!
آپ اس سادہ اور عام فہم معاملے کی تہہ تک آسانی سے پہنچ گئے ہیں لیکن حکومت کے وزراء کرام ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ خدانخواستہ یہ نہیں کہ یہ وزراء کرام غبی ہیں اور ان کے آئی کیو ان کے دماغوں کے پیندوں کو چھو رہے ہیں! یہ سب ہوشیار لوگ ہیں اور اپنے اپنے کاروبار، دفاتر ، بزنس ایمپائرز ،جاگیریں ، زمینداریاں ، صنعتیں کمال چابک دستی سے چلارہے ہیں۔ یہ عوامی یعنی سرکاری معاملات کو سمجھنے سے اس لیے ’’ قاصر ‘‘ ہیں کہ اصل مقصد کرسی کو قائم رکھنا ہے اور وقت پورا کرنا ہے۔ جس حکومت کے سربراہ کا نظریہ یہ ہو کہ باغیوں کو نہ چھیڑو، وہ چھیڑیں تو جواب دے دو ، اس حکومت کے کارندے کسی معاملے کی گہرائی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟
دارالحکومت میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا، موضوع تھا، ’’ فاٹا میں امن کے استحکام کے لیے تجارت اور کاروبار کے امکانات کا جائزہ ‘‘۔ ایسی کانفرنسیں عمومی طور پر ان علاقوں سے دور، بہت دور ، منعقد کی جاتی ہیں جو ان کانفرنسوں کا موضوع ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ کانفرنس بھی فاٹا سے دور اسلام آباد میں برپا ہوئی۔ بدقسمتی سے اس کانفرنس میں ایک وکیل صاحب بھی شریک تھے۔ یہ اعجاز مہمند تھے جو فاٹا کے وکیلوں کی تنظیم کے صدر ہیں۔ انہوں نے رنگ میں بھنگ ڈالی اور ایسی باتیں کر ڈالیں جن کا وزیر صاحب کے پہلے سے تیار شدہ نکات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں ، ان باتوں کا فاٹا سے گہرا تعلق تھا۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وزیر صاحب کے بیان کردہ نکات کا فاٹا سے کتنا تعلق ہوسکتا ہے!! بس مختصراً یہ کہ آپ پطرس بخاری کا وہ فقرہ ذہن میں لائیں جو انہوں نے اپنی سائیکل کے بارے میں لکھا اور اردو زبان کو مالا مال کردیا۔’’ سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا تھا سوائے گھنٹی کے۔‘‘
اعجاز مہمند نے یہ وحشت اثر خبردی کہ خیبرایجنسی میں اور وادیٔ تیراہ میں طالبان نے ہر بچے کا مدرسہ میں داخل ہونا لازمی قرار دے دیا ہے اور اگر کوئی شخص اپنے بچے کو سکول میں داخل کرانا چاہتا ہے تو اسے فی بچہ طالبان کو چار لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا ہے۔
اعجاز مہمند نے کانفرنس کو بتایا کہ اصل ایشو قبائلی علاقے میں بسنے والے عوام کے بنیادی حقوق کا ہے۔ ان بنیادی حقوق میں جمہوری حق بھی شامل ہے۔ جب بھی حکومتوں سے کہا جاتا ہے لوکل گورنمنٹ کا نظام متعارف کرائیں، وہ جواب میں معاشی سرگرمیوں اور انفراسٹرکچر کی بات کرتی ہیں جس کا اصل مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں، کیا وفاقی اور کیا صوبائی، احکام صادر کرچکی ہیں کہ فاٹا کے عوام کو ان کے آئینی حقوق دیے جائیں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ آئین کا آرٹیکل 247ترمیم چاہتا ہے۔ اس آرٹیکل کی رو سے پارلیمنٹ کے کسی بھی ایکٹ کا اطلاق فاٹا پر نہیں ہوتا جب تک کہ صدرمملکت اضافی منظوری نہ دیں۔ اعجاز مہمند کا سوال صرف یہ تھا کہ آخر کیوں ؟ انگریزوں کی پالیسی کو چھیاسٹھ سال بعد بھی کس دلیل سے برقرار رکھا جارہا ہے؟
اب آپ اپنا سر پیٹئے، ہوسکے تو کمر سے پٹکا باندھ کر بال کھول دیجیے اور آہ وزاری بلند آواز سے کیجیے اور اس بیوہ کی حالتِ زار پر غور کیجیے جس کے گھر پر غنڈے حملہ کرتے تھے اور علاقے کے کھڑپینچ نے مشورہ دیا تھا کہ مائی ! سلائی مشین لو اور پیسے کمائو! اعجاز مہمند کے نالہ و فغاں کا جواب وفاقی وزیر تجارت نے یہ دیا کہ…’’ فاٹا کے مسائل کا حل یہ ہے کہ وہاں کے معاشی حالات میں بہتری لائی جائے!…‘‘لیکن اصل زر و جواہر کی جھلک تو آگے آرہی ہے… ’’اگرچہ تاثر یہ ہے کہ فاٹا انتہا پسندی کا گڑھ ہے تاہم یہ علاقہ وسط ایشیا کے لیے تجارتی پٹی (کاریڈور) ثابت ہوسکتا ہے اور اگر پاکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تجارت ہوتو فاٹا کی ترقی پر مثبت اثر پڑے گا…!‘‘
سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! سراج الدین ظفر یاد آگئے ؎
میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے
اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو
میں نے کہا کہ ہم سے زمانہ ہے سرگراں
اس نے کہا کہ اور اسے سرگراں کرو
میں نے کہا کہ صرف دل رائگاں ہے کیا
اس نے کہا کہ آرزوئے رائگاں کرو
میں نے کہا کہ رخ سے اٹھائو نقابِ راز
اس نے کہا کہ ہم سے نہ دل بدگماں کرو
ظاہر ہے وزیر تجارت رخ سے نقاب راز اٹھاتے تو اتنا ضرور کہتے کہ جس علاقے میں لوگ اپنے بچوں کو سکول داخل کرنے کے لیے چار چار لاکھ روپے کا بھتہ دے رہے ہیں وہاں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ وزیر داخلہ سے کہتے کہ جناب ! اپنی ذمہ داریاں نبھایئے، لیکن یہ سب کچھ کہتے تو کرسی چھن جانے کا خطرہ تھا! یہی وجہ ہے کہ وزیروں کے لیے بہترین پالیسی یہ ہے کہ مسائل کا ذکر ہو تو شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپالو! وزارت بچائو۔ آخر جھنڈے والی کار روز روز کب ملنی ہے!!
آج تاریخ سلطان تغلق کو تو پڑھا لکھا بے وقوف کہتی ہے لیکن اس شخص کا نام کسی کو نہیں معلوم جس نے بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ دارالحکومت دہلی سے دولت آباد لے جائو۔ ہزاروں لوگ گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو واپسی کا حکم صادر ہوا۔ بدایوانی لکھتا ہے کہ تغلق کا انتقال ہوا تو ’’ اس کی رعایا سے اور رعایا کی اس سے جان چھوٹی !‘‘ کل کا مورخ میاں نوازشریف کے تیسرے دور حکومت کی ناکامی کا ذکر کرے گا تو ذمہ داری ساری کی ساری میاں صاحب پر ڈالے گا۔ تاریخ کے صفحات پر خواجہ صاحبان کا نام ہوگا نہ پرویز رشید صاحب کا ! پرویز رشید کہتے ہیں کہ…’’ پیمرا کے ترجمان کی جانب سے جو بیان جاری ہوا وہ اس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں…‘‘اس لیے کہ ترجمان صاحب نے متنازعہ ٹی وی چینل کے لائسنس کی منسوخی کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا!
اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جناب پرویز رشید میاں صاحبان کے وفادار رہے۔ انہوں نے قربانی دی، تشدد کا شکار ہوئے۔ ان پر ظلم ہوا، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس تشدد اور ظلم کے نتیجہ میں ان کی ایک خاص نفسیات بن چکی ہے جو انہیں بعض معاملات میں غیر جانب دار نہیں ہونے دیتی ! ؎
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“