”مانی“نامی ایک بزرگ نے تیسری صدی مسیحی(216-274ء)کے دوران بابل میں اپنی نبوت کااعلان کیا۔ان کی تعلیمات کو تاج شاہی کی سطح پر تسلیم کرلیاگیااور دس سالوں تک وہ آزادانہ تبلیغ کرتے رہے۔یہ مشہور ایرانی بادشاہ شاپورکازمانہ تھا۔اس نئے مذہب کے پھیلاؤ سے زرتشت کے پیروکار بہت خفاہوئے۔انہوں نے مانی کے ساتھ مناظرہ کیاجس میں مانی کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔مناظرانہ شکست دربارشاہی کے لیے بھی چونکہ باعث ندامت تھی اس لیے مانی کے قتل کاحکم صادرکردیاگیا۔مانی کسی طرح فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔ایرانی بادشاہ بہرام کے دورمیں مانی واپس آئے اورمحض ایک سال زندہ کر داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔مانی سے سات کتب منسوب ہیں،ان میں سے ایک کتاب پہلوی زبان میں ہے باقی چھ کتب سریانی زبان میں تھیں۔ابوریحان البیرونی نے مانی کی کتب کامطالعہ کیاتھالیکن بعدمیں ان کتب کا تاریخی تواترمجروح ہوگیا۔مانی کی تعلیمات زیادہ تراخلاقیات پر مبنی ہیں اور کسی بھی جاندارکومارنے کی سخت ممانعت ہے،حتی کہ موذی جانوروں کوبھی مارنے کی اجازت نہیں۔انبیاء علیھم السلام کے بارے میں مانی کے خیالات کچھ اچھے روایت نہیں کیے گئے بلکہ نبیوں کے بارے میں مانی کی بعض آراء ناقابل تحریرہیں۔مانی کے ماننے والوں میں دوطبقات پائے جاتے ہیں،”اسماعون“یہ پہلااوردنیادارطبقہ ہے جس کے لیے مانی مذہب میں بہت سی رعایات ہیں اور اخلاقیات کی کچھ پابندیاں ان پر عائد کی گئی ہیں۔دوسراطبقہ ”صدیقون(برگزیدان)“کاہے جس پر سخت قسم کی پابندیاں عائد ہیں،یہ دولت کی بجائے فقرپر عل پیراہوتے ہیں،غصہ اور شہوت پر قابورکھنے کے پابندہیں،تجردکی زندگی کوفوقیت دیتے ہیں اورملتاہے راہ خدامیں خرچ کردیتے ہیں اور خود روزے سے رہتے ہیں۔مانویت کی یہ تعلیمات بدھ مت کی تعلیمات سے بہت میل کھاتی ہیں،شایداس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مانی بذات خود مہاتماگوتم بدھ کو نبی مانتے تھے۔
مانی مذہب میں روزے کاآغازخود مانی سے ہی ہوتاہے،کیونکہ مانی سے منسوب کتب میں مانی کے روزہ رکھنے کاذکرتفصیل سے ملتاہے اور اس سے مانی کے روزے کاخاکہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔مانی کاروزے کے بارے میں خیال ہے کہ روحانیت کی صفت جو کہ نیکی کی خدا”اہورمژدا“نے انسان کو دی تھی اس پاکیزہ صفت کو بدی کے خدا”اینگرومینا“یا”اہرمن“نے مادیت کے ذریعے نقب لگاکر زخمی کردیاہے یا انسانی رویوں میں اسے غیرموثرکردیاہے۔خلاصہ یہ کہ مانی کے مطابق مادیت نے روحانیت کومجروح کردیاہے۔چنانچہ روزہ ایک ایساعمل ہے جس نے روحانیت سے مادیت کاسفرماندپڑ جاتاہے اور انسان کے اندر مادیت سے پیداہونے والی آلائیشوں کی آلودگی کم ہونے لگتی ہے۔مانی نے اس مقصد کے لیے ایک اصول متعارف کرایاہے کہ انسان اپنے منہ کو ”مہربند“ کردے یا اس کااستعمال کم سے کم کر دے اوراس پر سخت سے سخت اورکڑی نگرانی عائدکردے۔خاص طورپر”دینداران“ طبقے کے لیے مانی نے روزے کے دوران ان کے گوشت کھانے پر اور ہرطرح کے صنفی اعمال پر مکمل قدغن لگادی ہے۔مانوی مذہب کے اس طبقے کے پیروکاعموماََپیرکے دن کاروزہ رکھتے ہیں اوریہ روزہ دن کی روشنی کے دورانیے پرمحیط ہوتاہے جب کہ سورج غروب ہونے پرسبزیوں پر مشتمل ایک کھانااوراس کے ساتھ کچھ پھل کھالیے جاتے ہیں کیونکہ گوشت کی ممانعت ہے۔پیرکے دن جب روزہ رکھاجاتاہے تو آرام کیاجاتاہے اور اموردنیاوی سرانجام نہیں دیے جاتے،اسے چھٹی کادن یا ہفتہ وارتعطیل بھی کہ دینے میں مضائقہ نہیں۔جب کہ عام لوگ جنہیں اس مذہب کی اصطلاح میں ”نیوسوگان“کہاجاتاہے وہ اتوارکے دن روزہ رکھتے ہیں اوران کاروزہ بھی غروب آفتاب تک ہی ہوتاہے لیکن ”دینداران“کے علی الرغم عام لوگوں کے لیے گوشت کاکھانااس مذہب میں مباح رکھاگیاہے لیکن پھربھی گوشت سے احترازکو فوقیت حاصل ہے۔یہ اتواراورپیرکاروزہ سورج اورچاندکے احترام میں رکھاجاتاہے،ہفتے کے پہلے دن کاروزہ سورج کے احترام میں اوردوسرے دن کاروزہ چاندکے احترام میں۔مانی مذہب کے لوگ سال بھرمیں پانچ مرتبہ دو دو دنوں کے روزے رکھتے ہیں،یہ ہرنئے چاندکے ابتدائی دودن ہوتے ہیں اورسال بھرمیں ایک دن کاروزہ مکمل چاندکے موقع پر بھی رکھاجاتاہے۔یہ پانچ مواقع ان کی عیدوں کے اور دعاؤں کے اوقات ساتھ منسلک ہیں، روزوں کے لیے دعاکے وقت کابھی انتخاب کیاجاتاہے جسے مذہب کی اصطلاح میں ”یمکی“ اور”روزہ مانی“کہاجاتاہے۔ان پانچ میں سے سب سے اہم موقع اس مذہب کی عیدکاہے جسے”عیدبیرنا“کہتے ہیں۔یہ عیداس ایک ماہ کے آخرمیں آتی ہے جب رات اوردن کے دوارانیے برابرہوتے ہیں اوریہ ماہ روزوں کامہینہ کہلاتاہے جو چاندکی آٹھ تاریخ سے شروع ہوتاہے۔اس موقع پر اپنے گناہوں کااقرارکرکے معافی مانگی جاتی ہے اوردعاکی قبولیت کے لیے روزے رکھے جاتے ہیں۔روزے رکھنے کے ان مواقع میں ایک موقع وہ دن بھی ہے جب ساسانیوں نے مانی کاقتل کیاتھا۔اس طرح مانی مذہب میں روزوں کی تعداد تقویم سالانہ کے مطابق ایک سینکڑے کے قریب پہنچ جاتی ہے جب کہ روزے کا بہت بڑامقصد گناہوں کااقرارکرنا،ان سے بچنااور ان کی معافی مانگناہے۔
مانی مذہب اگرچہ کافی حد تک زرتشت کے خیالات سے ہم آہنگ ہے یہاں تک کہ زرتشت کی ثنویت الہی بھی مانی مذہب میں جگہ پاگئی ہے لیکن ایک بات قابل توجہ ہے کہ دونوں ایک ہی جگہ،سرزمین فارس،کے مذاہب ہونے کے باوجودزتشت مذہب میں روزہ کاکوئی وجودنہیں بلکہ روزہ کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔اس کا فلسفیانہ سبب بھی ان دونوں مذاہب کا روح اور جسم کے بارے میں اختلاف ہے۔مانی مذہب میں روح بمقابلہ جسم ہے،اس مذہب میں روح کوپاکیزگی کے معنوں میں لیاگیاہے جب کہ جسم کوآلودگی کامرقع سمجھاگیاہے اورروزے کے ذریعے جسم کوبھوکاپیاسااورجنسیت سے دوررکھ کر روح کی بالیدگی حاصل کی گئی ہے۔جب کہ زرتشت مذہب میں جسم کی توانائی کو روحانی طاقت کاسبب بتایاگیاہے۔یعنی جسم جتناکھائے پئے گا تروتازہ ہوگا اتنی ہی روح بھی طاقت ورہوگی اور برائیوں کامقابلہ کرنے کی سکت حاصل کرسکے گی۔اسی طرح اوستا،زرتشت کی مقدس کتاب،کی بعض دستاویزات میں صنفی اعمال کو انسان کے اس دنیامیں واردہونے کے سبب بہت ضروری خیال کیاگیاہے۔بہرحال مذاہب کی تاریخ میں ایک ہی جگہ کے مذاہب میں بہت سے مشترکات دیکھے جاسکتے ہیں اور ہرآنے والامذہب گزشتہ کاتکملہ سمجھاجاتاہے لیکن یہاں یہ امر اختلاف مرکزنظرہے۔قرآن مجیدکے نزدیک چونکہ گزشتہ تمام امم پر بھی روزہ فرض کیاگیاتھااس لیے یہاں یہ بات محل نظرہے کہ زرتشت مذہب کے مقدس اوراق متاخرین کی تحریفات کاشکارہو چکے ہوں۔مانی کی آمد چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ہوئی جب کہ زرتشت کادورکم و بیش ایک ہزارسال قبل مسیح کاہے اس لیے تعلیمات زرتشت میں انسانی دست برد قرین قیاس ہے۔
مذہبی تعلیمات نے انسا ن کوانسان بنایاہے،اگرانبیاء علیھم السلام اس دنیامیں تشریف نہ لاتے توجنگل کابادشاہ انسان ہوتا۔یہ وحی کی نازل کردہ ہدایات ہیں جن کے باعث انسان نے پیٹ اورپیٹ سے نیچے کی خواہش پر قابو پاناسیکھاہے۔لیکن قبیلہ بنی نوع انسان میں ایک عنصرہمیشہ ایسارہاہے جس نے انسان کو شیطان کاسبق پڑھایااور انسان سے حیوان بنانے کی کوشش کی۔فی زمانہ سیکولرازم وہ شیطانی فکرکاحامل نظریہ ہے جس نے انسان کو جانوربنانے کی ازحد سعی خبیثہ کی ہے۔انبیاء علیھم السلام نے انسان کو اشرف المخلوقات قراردیاتھا لیکن ایک سیکولرمفکرفرائڈ کہتاہے کہ انسان جنسی جانورہے،دوسرا سیکولرمفکرمالتھس کہتاہے کہ انسان معاشی جانورہے،تیسراسیکولر مفکر ڈارون کہتاہے کہ انسان نسبی جانورہے،چوتھاسیکولرمفکر برٹرنڈرسل کہتاہے کہ انسان معاشرتی جانورہے،ان سب کے باواآدم میکاولی نے انسان کو سیاسی جانورتصورکیا اور جنگل سے مستعاروہ اصول حکمرانی بتائے کہ کس طرح سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے انسانوں کو بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کران سے مفادات حاصل کیے جائیں۔ماضی سے حال تک سیکولرازم،لبرل ازم،ایتھیسٹس،ہیومن ازم،ہیپی ازم،سوشل ازم،کیمونزم،فاش ازم،ریشیل ازم،سرمایادارانہ نظام یا مادرپدرآزادسیکولرجمہویت یہ سب شیطان کے کھیل ہیں اورانسان کو جانور قراردینے کے بہت سے مقاصدہوسکتے ہیں لیکن اولین مقصد ان تمام پابندیوں،حدوقیود،اعلی اخلاقی اقدار،حرام و حلال،جائزوناجائز،فرائض و واجبات اورتاریخی روایات سے بیگانہ کرکے اسے صرف ہوس نفس کاپجاری بنادیاجائے تاکہ وہ پیٹ اورپیٹ سے نیچے کی خواہش کا غلام بن کر زندگی گزارے اور انسانوں کے ایک خاص طبقے کے سامنے نان شبینہ کے لیے سربسجودرہے۔ان شیطانی نظاموں نے انسان کو اس کے خالق و مالک،مقصد وجود اور اپنی عاقبت اورآخرت سے بے نیازکرکے بنی آدم میں شروفساد کے دہانے کھول رکھے ہیں۔بقول اقبال ”تماشادکھاکرمداری گیا“کے مصداق اب سیکولرازم کے سائے لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں اورایک ایک کرکے یہ شیطانی نظام زمیں بوس ہوا چاہتے ہیں اور خطبہ حجۃ الوداع کاخاورباوقارعالم انسانیت پرطلوع ہونے کوہے،ان شااللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...