شوکت صاحب میرے سامنے سہمے ہوئے بیٹھے تھے‘ چہرہ پسینے میں تر تھا اور بار بار پانی پی رہے تھے۔ میں نے ماجرا پوچھا تو کانپتی ہوئی آواز میں بولے 'رات بہت خوفناک خواب دیکھ بیٹھا ہوں‘ پتا نہیں بتانا بھی چاہیے کہ نہیں‘۔ مجھے تجسس ہوا‘ تسلی دی اور پوچھا کہ کیا دیکھا؟ شوکت صاحب نے پانی کا ایک اور گھونٹ بھرا اورصوفے پر تھوڑا قریب کھسکتے ہوئے بولے 'کیا بتائوں‘ رات خواب میں دیکھا کہ سنی لیون اور میری بیوی میں شدید لڑائی ہو رہی ہے‘ دونوں اس بات پر جھگڑ رہی ہیں کہ 'شوکت میرا ہے… شوکت میرا ہے‘۔ میں نے حیرت سے شوکت صاحب کی طرف دیکھا 'قبلہ! یہ خوفناک خواب کیسے ہو گیا، یہ تو انتہائی خوبصورت خواب ہے‘۔ اُنہوں نے ایک جھرجھری سی لی‘ کانوں کو ہاتھ لگائے اور دائیں بائیں دیکھتے ہوئے انتہائی رازدارانہ لہجے میں بولے 'خواب کا خوفناک حصہ تو آپ نے ابھی سنا ہی نہیں… میری بیوی جیت گئی…‘‘۔
شوکت صاحب کو میں نے پہلی بار پنکچروں کی دکان پر لڑتے جھگڑتے دیکھا تھا۔ وہ پنکچر والے پر برس رہے تھے کہ پنکچر لگوانے کے باوجود بار بار ان کی موٹر سائیکل پنکچر کیوں ہو جاتی ہے؟ اور لڑکا بے بسی سے ٹیوب انہیں دکھاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ٹیوب میں پچیس پنکچر لگ چکے ہیں اب تو ہوا بھی بھرتا ہوں تو ٹیوب میں جگہ جگہ زخم نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی شوکت صاحب نے گھور کر لڑکے کو دیکھا اور موٹر سائیکل گھسیٹے ہوئے آگے نکل گئے۔ مجھے شوکت صاحب پر بہت ترس آیا۔ ظاہری بات ہے ایک غریب انسان کے لیے نئی ٹیوب خریدنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میں نے پنکچر والے لڑکے کو ڈانٹا کہ تمہیں ایک غریب آدمی کا مذاق اڑاتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ یہ سنتے ہی لڑکے نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ''یہ غریب بندہ نہیں جناب… سامنے والے پٹرول پمپ اور چھ گھروں کا مالک ہے جو اس نے کرائے پر دیے ہوئے ہیں۔ میں بوکھلا گیا اور لڑکے سے کہا 'شکر ہے یار تم نے بتا دیا ورنہ میں تو اس کی جیب میں سو روپیہ ڈالنے لگا تھا‘۔ لڑکا چہک کر بولا 'کوئی مسئلہ نہیں تھا‘ ڈال دیتے‘ انہوں نے کون سا انکار کر دینا تھا…‘‘۔
شوکت صاحب کا ایک ہی شوق ہے‘ پیسہ جمع کرنا‘ نیا گھر بنوانا اور اسے کرائے پر چڑھا دینا۔ چھ گھروں اور پٹرول پمپ کے کرائے کی مد میں جناب کو لگ بھگ پانچ لاکھ روپے ماہانہ کرایہ موصول ہوتا ہے لیکن حرام ہے جو اپنی ذات پر دس روپے بھی خرچ کر جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب اپنے بڑھاپے کے لیے جمع کر رہے ہیں‘ غالباً بڑھاپے میں ان کا پروگرام روزانہ سنگا پور جا کر لنچ کرنے کا ہے۔ کفایت شعار اتنے ہیں کہ محلے میں کہیں بھی چاول تقسیم ہو رہے ہوں تو قطار میں پہلا شاپر‘ شوکت صاحب کا ہوتا ہے۔ خود تین مرلے کے معمولی سے گھر میں رہتے ہیں‘ بچت کا یہ عالم ہے بلب کے بٹن کی جگہ پنکھے والا 'ڈمر‘ لگا رکھا ہے تاکہ روشنی کم زیادہ کی جا سکے‘ اس کے باوجود ان کی اہلیہ نوحہ کناں رہتی ہیں کہ قبلہ بہت فضول خرچ ہیں۔ آپ کی اہلیہ آپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں‘ لہٰذا برے وقت کے لیے ہر گلی میں چھ چھ ہزار کی کمیٹی ڈال رکھی ہے۔ برے وقت کے انتظار میں اچھے وقت کی گردن پر چھری پھیرنے والے ان دونوں میاں بیوی کو یقین ہے کہ انشاء اللہ ایک نہ ایک دن برا وقت ضرور آئے گا…!!!
عجب معاملہ ہے۔ غریب اچھے وقت کا منتظر ہے اور امیر بُرے وقت کا۔ شوکت صاحب نے حال ہی میں ایک نیا مکان بنوانا شروع کیا ہے۔ انتہائی دلجمعی کے ساتھ ٹھیکیدار سے بحث کرتے ہیں‘ ریت اور سیمنٹ کا تناسب چیک کرتے ہیں‘ مکان کی خوبصورتی کو دوبالا کرنے کے لیے مختلف ڈیزائنز کی ٹائلز پسند کرتے ہیں۔ یہ سب وہ اس لیے کرتے ہیں کہ جانتے ہیں گھر جتنا خوبصورت ہو گا اتنا ہی زیادہ کرایہ ملے گا۔ خدا نے اُنہیں دنیا میں کیشئر بنا کر بھیجا ہے۔ وہ پیسہ اکٹھا تو کر سکتے ہیں ‘ خرچ نہیں سکتے۔ ان کے اردگرد دولت کے ڈھیر لگے ہیں لیکن نصیب میں غربت ہی لکھی ہے۔ ان کا نیا گھر بنتے دیکھ کر پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے جیسے اوپر سے کوئی حکم آیا ہے کہ 'مسٹر شوکت! ایک بندے کو گھر چاہیے… چلو فوراً ایک کروڑ روپے نکالو اور اپنی زیر نگرانی خوبصورت سا گھر بنوائو… اس ایک کروڑ کے بدلے تمہیں تیس چالیس ہزار ماہانہ مزدوری ملتی رہے گی لیکن خبردار تم نے خود اس گھر میں کبھی قدم تک نہیں رکھنا… بس گھر بنائو اور نکل جائو…‘‘
آپ نے زندگی میں کئی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا اور وہ مجبوراً چھوٹی چھوٹی بچتیں کرتے ہیں۔ لیکن یقین کیجئے کنجوسی کا پیسے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ دل کا معاملہ ہے۔ جن کا دل کشادہ ہے وہ غریبی میں بھی 'شاہ خرچ‘ نظر آتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے‘ آپ کے وہ دوست‘ وہ رشتہ دار‘ وہ محلے دار جو غربت کو بنیاد بنا کر ہر وقت اپنی جیب کو تالا لگائے رکھتے ہیں کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان کے پاس اگر اچانک دس کروڑ آجائیں تو یہ بدل جائیں گے؟ نہیں‘ بالکل بھی نہیں… یہ تب بھی ویسے ہی رہیں گے۔ ایک دفعہ دل سکڑ جائے تو دوبارہ نہیں پھیلتا۔ پیسہ خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہیں حوصلہ چاہیے۔ خود آپ کے کئی ایسے دوست ہوں گے جو مالی تنگدستی کا شکار ہونے کے باوجود اپنے رکھ رکھائو اور لباس سے ہمیشہ خوشحال لگتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے بی ایم ڈبلیو گاڑی میں سی این جی کٹ لگوا رکھی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو صرف کھا کر خوش ہوتے ہیں۔ رزق میں برکت کا مطلب رزق کا بڑھ جانا نہیں‘ پھیل جانا ہے۔ وہ لوگ جو خوش ہوتے ہیں کہ اپنا کچھ خرچ کیے بغیر دوسروں کے خرچے پر پل رہے ہیں انہیں احساس ہی نہیں کہ وہ دوسروں کو بیوقوف نہیں بنا رہے بلکہ خود اپنے بارے میںطے کر رہے ہیں کہ انہیں 'منگتا‘ ہی رہنا ہے۔
شوکت صاحب کا ساتواں گھر زیر تکمیل ہے‘ ایک دو ماہ تک بن جائے گا۔ پھر وہ اس پر 'کرائے کے لیے خالی ہے‘ کا بینر لگائیں گے اور ایک دن کوئی ایسا شخص آئے گا جو مالی طور پر شوکت صاحب سے بہت کم ہو گا‘ لیکن شوکت صاحب کے نئے گھر میں رہے گا۔ خود شوکت صاحب اپنے تین مرلے کے اُسی گھر میں قیام پذیر رہیں گے جس کی سیمنٹ اکھڑی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ اِس گھر کی ڈور بیل خراب ہے‘ مین گیٹ کو زنگ لگ چکا ہے‘ کوئی ڈھنگ کا برتن موجود نہیں… لیکن بینک اکائونٹ بھرا ہوا ہے‘ ہر مہینے بھرتا ہے۔ شوکت صاحب 1980ء ماڈل کے موٹر سائیکل پر جب کرایہ اکٹھا کرنے نکلتے ہیں تو ہر کرایہ دار کے گیراج میں گاڑی کھڑی نظر آتی ہے۔ واپسی پر ان کی جیب میں لاکھوں کے چیک ہوتے ہیں‘ یہ چیک وہ بینک میں جمع کراتے ہیں‘ گھر آتے ہیں اور مزید بے سکون ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے میں خشوع و خضوع سے دعا کروں کہ یااللہ شوکت صاحب کا برا وقت فوراً شروع ہو جائے تاکہ وہ کچھ تو اپنی ذات پر بھی خرچ کریں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ مجھے شوکت صاحب کے اچھے وقت کے لیے دعا کرنی چاہیے… برا وقت تو ان کا چل ہی رہا ہے…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔