” مَنگدا نصیبا کُجھ ہور اے ۔ ۔ ۔ “
( گلوکارہ مبارک بیگم کی نذر )
راجستھان سے واقف لوگ اس کے جے پور، اُودھے پور ، اجمیر ، جودھ پور اور بیکانیر جیسے شہروں بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے اور شاید یہ بھی کہ’ ہوا محل‘ کہاں ہے ، مہران گڑھ قلعہ کہاں اور خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کہاں ہے۔ وہ شاید یہ بھی تقسیم کر سکتے ہوں کہ اس میں تھر کے ریگستان کے ساتھ ساتھ ' آراوالی پہاڑی سلسلہ ' بھی ہے جو گجرات سے چلتا راجستھان میں سے ہوتا ، ہریانہ عبور کرتا دہلی میں آ کر ختم ہوتا ہے جہاں دہلی رِج (Delhi Ridge) اس کی آخری پہاڑی ہے ۔
یہ پہاڑی سلسلہ شمال مشرق کی سمت میں برصغیرکے اُن فولڈ (Fold) پہاڑوں کا سلسلہ ہے جس نے مزید بلندی اختیار کرنا بند کر دیا بلکہ اس کے الٹ ارضیاتی و موسمی ریشہ دوانیوں کے ہاتھوں عرصے سے گھٹنانا شروع کر دیا ہوا ہے اور دن بدن ان کی بلندی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس شمال مغرب سے جنوب مشرق میں پھیلے ہمالیہ پہاڑوں کا سلسلہ بھی ہے۔جو ہے تو فولڈ (Fold) پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہی لیکن اس کی چوٹیوں کی بلندی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
آراوالی پہاڑی سلسلہ کے قدموں میں چُرو کا علاقہ ہے جسے پار کریں تو تھر کا ریگستان شروع ہو جاتا ہے۔ اسی علاقے کا ایک شہر سوجان گڑھ ہے جس کے نواح میں جوہنجہنو (Jhunjhunu) نامی بستی ہے جس میں 5 جنوری 1936 ء کو ایک ایسی لڑکی پیدا ہوئی ، جس کاخاندان اندرونِ ' سارنگ پور دروازہ ، احمد آباد ، گجرات میں بسا تھا ۔ وہاں اس نے بچپن میں ہی فلمیں دیکھنے کا شوق پال لیا ۔ ثریا کا زمانہ تھا ، وہ اپنے تایا کے ہمراہ جاتی اور فلم آدھی بھی نہ ہو پاتی تھی کہ خراٹے بھرنے لگتی البتہ گھر آ کرگراموفون ریکارڈوں اور ریڈیو پر ثریا کے گانے سن کر اس کی نقل کرتی ۔ یہ شوق دیکھ کر بڑوں نے اسے استاد عبدل کریم خاں کے بھتیجے ریاض الدین خان کے حوالے کیا کہ کلاسیکی موسیقی کی شدھ بدھ اس حد تک حاصل کر لے کہ ریاض کر سکے ۔ مکمل عبور کے حوالے سے ان کا خیال تھا کہ وہ ہلکی پھلکی موسیقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔ وہ خود کہتی ہے :
" ہمارے یاں یہ باور کیا جاتا تھا کہ کلاسیکی موسیقی کی زیادہ جانکاری اور گہرائی سے تربیت گانے والوں کی آواز کو گیتوں ، غزلوں اور حمد و نعت کے لئے ناموزوں کر دیتی ہے جبکہ ہم تو گاتے ہی ہلکا پھلکا گانا تھے ۔ "
اس کا گانا محفلوں میں پسند کیا جانے لگا ۔ آل انڈیا ریڈیو والے یہ محفلیں ریکارڈ کرکے ریڈیو پر بھی نشر کرتے تھے ۔ سننے والوں میں موسیقار رفیق غزنوی بھی تھے جنہوں نے فلم ' تقدیر 1943ء' کا میوزک ترتیب دیا تھا ۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں نرگس بطور ہیروئین آئی تھی ۔ انہیں اس کی آواز پسند آئی ۔ گانوں کی ریہرسل ہوئی لیکن مبارک بیگم سٹوڈیو ریکارڈنگ میں مائیک کے سامنے نہ گا سکی ۔ یہی بات پھر اس وقت ہوئی جب رام دریانی کی فلم ' بڑی بہن 1949 ء' کے لئے اس نے گانوں کی ریہرسل تو کر لی لیکن سٹوڈیو کا مائیکروفون پھر آڑے آیا اور وہ گانے ریکارڈ کرانے میں ناکام رہی ۔ ' بڑی بہن 1949 ء' کے گانے کچھ ثریا نے گائے اور باقی لتا کے حصے آ گئے ۔
اگلے کچھ ماہ میں مائیکروفون کے سامنے اس کی گانا گانے کی جھجک ان دو بھائیوں نے اُتاری جو یعقوب برادرز کے نام سے مشہور تھے ۔ یوں فلم ' آئیے ' کے لئے وہ اپنا پہلا گانا ' مجھے آنے لگی ہے انگڑائی ۔ ۔ ۔ ' گا پائی ۔ اِسی فلم کے لئے اس نے لتا کے ساتھ بھی ایک گانا ' آﺅ چلیں ، چلیں سکھی وہاں ۔ ۔ ۔ ۔' بھی ریکارڈ کرایا ۔ اس فلم کی موسیقی شوکت دہلوی عرف ناشاد نے ترتیب دی تھی ۔
اس کے ان دونوں گانوں میں اس کی آواز پر ثریا کی چھاپ اور مائیکروفون شائی (shy) ہونا کچھ ایسے آڑے آیا کہ اکثر موسیقار اسے کام دینے سے انکاری رہے اور لتا کو گانے ملتے رہے ۔ ایسے میں البتہ ایس ڈی برمن اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ وہ اپنی آواز پر سے ثریا کی چھاپ دور کرے اور اپنا سا کوئی انداز بنائے ۔
جی پی پوار کی فلم ' پھولوں کا ہار 1951 ء' سے کمال امروہوی کی فلم ' ڈیرا 1953ء' تک کا سفر ڈیڑھ دو سو روپے فی فلم چلتا رہا ۔ وہ تو ابھی اہم نہ تھی ، کمال امروہوی ، مینا کماری اور رفیع کے نام بھی فلم ' ڈیرا ' کو کامیاب نہ بنا سکے اور یہ بری طرح فلاپ ہو گئی ۔ یہ شاید اس کی بدقسمتی تھی ۔ ایسے میں ادھر کئی ایسی فلمیں تھیں جو ہٹ رہیں اور ان میں لتا کے گانے بھی تھے ۔
1953ء ہی تھا شاید ، ایم صادق بھارت بھوشن اور نوتن کو لے کر فلم شباب بنا رہے تھے اور اس کی موسیقی نوشاد ترتیب دے رہے تھے ۔ انہوں نے مبارک بیگم کو گلوکاری کے لئے بلایا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ ’ شباب1954 ء ‘ ایک بڑی فلم تھی ۔ اسے توقع تھی کہ اگر اس میں اس کا ایک بھی گانا ہٹ ہو گیا تو اس کے پاﺅں انڈسٹری میں جم جائیں گے ۔ وہ بھاگتی ہوئی نوشاد کے پاس گئی ۔ انہوں نے رفیع کی آواز میں گائے جانے والے ایک گیت کے بول اس کے سامنے رکھے ۔ یہ گانا ’ محلوں میں رہنے والے ہمیں تیرے در سے کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ تھا ۔ انہیں اس میں ایک ایسی گلوکارہ کی آواز چاہیے تھی جو بچگانہ آواز میں اس کورس میں رفیع کا ساتھ دے سکے ۔ کورس میں بندے خان کو نوشاد پہلے ہی منتخب کر چکے تھے ۔ اس کا دل بجھ گیا ۔ نوشاد کایاں تھے اس کے موڈ کو بھانپ گئے ، بولے:
'' تم یہ تو گاﺅ ، میں تمیں سولو گیت بھی دوں گا ۔ مبارک بیگم نے اس لالچ میں رفیع اور بندے خان کے ساتھ یہ گیت گا دیا لیکن نوشاد اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور اسے کوئی سولو گیت نہ دیا ۔ ڈیڑھ دو سال اور بیتے اور اسے اِکا دکا فلمیں ملتی رہیں ۔
بمل رائے ، شرت چندر چٹو پھادے کے بنگالی ناول ’ دیوداس‘ کو پھر سے فلما رہے تھے ، یہ پہلے خاموش زمانے (1927 ء) میں بننے کے بعد بنگالی (1935ء) ،ہندی (1936 ء ) اور آسامی (1937 ء) زبانوں میں فلمایا جا چکا تھا ۔ پی سی بورا کی تینوں فلمیں ہٹ گئی تھیں ، خاص طور پر ہندی ورژن کے ایل سہگل ، جمنا بورا اور ٹی آر راجکماری کی اداکاری اور گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ رہی تھی ۔ بمل رائے ان فلموں میں پی سی بورا کے ساتھ سینماٹوگرافر رہا تھا ۔ بمل رائے کی فلم میں سچن دیو برمن موسیقی ترتیب دے رہے تھے ، انہوں نے مبارک بیگم کو بلایا اور اسے بھی گیتا دت ، لتا ، آشا اور اوشا کے ساتھ ایک گانے کے لئے چن لیا ۔ دیوداس کے گانے جب ریکارڈ ہو کر گراموفون اور ریڈیو پر بجے تو ’ وہ نہ آئیں گے پلٹ کر۔ ۔ ۔ ‘ ہر ایک کی زبان پہ تھا ۔ 1955ء میں جب فلم سامنے آئی تو چندرمکھی (وجنتی مالا ) جب کوٹھوں والے بازار سے دیوداس ( دلیپ کمار ) کو جاتے ہوئے دیکھتی ہے تو دو بول کا یہ گانا بیک گراﺅنڈ میں کسی کوٹھے پر بجتا ہوا دکھایا گیا ۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت دیگر گانوں پر ابھی بھی قائم ہے ۔
اس کے بعد اس نے بمل رائے کی تقریباً سبھی فلموں میں گایا ۔ جن میں فلم’ مدھومتی 1958 ء ‘ کا گانا ، ’ ہم حال دل سنائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘ سپر ہٹ ہوا ۔ اسے شیلندر نے لکھا تھا جبکہ دُھن سلیل چوہدری کی تھی ۔ اس گانے میں صرف تین ساز ہارمونیم ، طبلہ اور سارنگی استعمال ہوئے تھے اور سارنگی پنڈت رام نارائن نے بجائی تھی ۔ یہ انہیں سالوں کی بات ہے کہ اس نے پاکستان کے اپنے دورے کے دوران پاکستانی فلم ’ راز ‘ 1959 ء او ر شاید ایک دو اور فلموں کے لئے بھی گیت گائے۔ راز کا گانا ’ اے زندگی رُلائے جا ۔ ۔ ۔ ‘جسے کلیم عثمانی نے لکھا تھا اور اس کی دُھن فیروز نظامی نے بنائی تھی ، اپنی جگہ یادگار ہے ۔
‘ فلم ’ ہمراہی ‘ 1963 ءکا یہ دوگانا ” مجھ کو اپنے گلے لگا لو ۔ ۔ ۔ ‘ جس میں وہ محمد رفیع کے ساتھ تھی ۔ اس فلم کی موسیقی شنکر جے کِشن نے ترتیب دی تھی ۔ یہ گانا آج بھی اتنا ہی رومانی لگتا ہے جتنا ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں لگتا تھا ۔ اس گانے کی دو ورژنز ہیں ۔ ایک میں رفیع کے ساتھ مبارک بیگم ہے جبکہ بعد میں یہ لتا سے بھی ڈب کرایا گیا تھا ۔
مبارک بیگم نے کیدار شرما کی بھی لگ بھگ سبھی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا جن میں فلم ’ ہماری یاد آئے گی 1961ء ‘ کا گیت ’ کبھی تنہائیوں میں ہماری یاد آئے گی ۔ ۔ ۔‘ تو اس کی پہچان بن گیا تھا ۔
1981 ء تک وہ سو سے زائد فلموں میں گا چکی تھی اور تقریباً ہر موسیقار نے کسی نہ کسی طور اس کی آواز کو برتا تھا لیکن اس کے نصیبے کا کیا کریں کہ اِسے تو وہ ' آراوالی پہاڑی سلسلے ' کے قدموں سے اٹھا کر لائی تھی ۔ یہ پہاڑی سلسلہ بحیر ہ عرب سے عمودی رخ پر واقع ہونے کی وجہ سے اس میں سے اٹھنے والی جنوب مغربی مون سون مرطوب ہواﺅں سے فیض یاب نہیں ہو پاتا ۔ بحیرہ عرب ہے تو چھوٹا ساگر لیکن ساگر تو پھر ساگر ہوتا ہے یہ تو انہی کوفیض یاب کرتا ہے جو اس کے سامنے عمود ی طور پر نہ کھڑے ہوں ۔ کچھ ایسا ہی مبارک بیگم کے ساتھ ہوا موسیقی کے ساگر سے اٹھنے والی کوئی بھی مرطوب ہوا اسے اُس طرح ہرا بھرا نہ کر سکی جس طرح ' ہمالیہ پہاڑی سلسلے ' کے قدموں میں پڑے اِندور کی لتا کو ماسٹر غلام حیدر اورآشا کو او پی نیر نے سرسبز کیا تھا ۔
آشا اور لتا کا قد ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرح بڑھتا رہا جبکہ مبارک بیگم کا ' آراوالی پہاڑیوں ' کی طرح گھٹتا رہا ۔
2010 ء کے آس پاس میڈیا میں کچھ ایسی خبریں آئیں کہ وہ شاید کسمپرسی کے عالم میں ممبئی میں زندگی گزار رہی ہے ۔ میڈیا کئی اوقات رپورٹنگ کرتے ہوئے لوگوں کی عزت نفس سے بھی کھیل جاتا ہے ۔ درست ہے کہ مبارک بیگم اس طرح خوشحال نہ تھی جس طرح لتا اور آشا ہوں گیں لیکن وہ تہی دست بھی نہیں تھی ۔ اپنے بیٹے اور پوتیوں کے ہمراہ جوگیشواری ویسٹ ، ممبئی میں درمیانے طبقے کے لائف سٹائل کے ساتھ عزت سے رہی ۔ اس کی پوتیاں مناسب پڑھی لکھی ہیں ، اچھے بر رکھتی ہیں ۔ وہ دادی کو نجی محفلوں اور کنسرٹس میں لے جاتی رہیں جو اپنی غزلوں اور دعائیہ گیتوں سے اتنا کما لیتی کہ کسی پر بوجھ نہ بنے ۔ نام تو اونچا ہے ، لمبا کامیاب کیرئیر نہیں تو کیا ؟ صحت بھی ویسی نہیں رہی تھی جیسی ہم عصر گلوکاراﺅں کی رہی بہرحال نصیب کا ہارا روکھی سوکھی کھا کر عزت سے ہی جی لے تو کم نہیں ہوتا ۔
لتا آج 88 + برس کی ہے ، آشا 84 + کی جبکہ مبارک بیگم چار بیسئے ہی پورے کر پائی ۔ لتا اور آشا ماﺅنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کی طرح ایستادہ ہیں جبکہ مبارک بیگم اس طرح بَونی ہوتی گئی جس طرح ' گُروشخار ' کی چوٹی سکڑے جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ 18جولائی 2016 ء کو خاک ہو گئی ۔ جس روز ممبئی میں اس کا جنازہ اٹھا ، اس روز اس کے نصیبے پر بادل بھی کھل کر روئے تھے ۔ موم جامے میں لپٹے اس کے جنازے کو کندھا دینے والوں بھی بس چند ہی لوگ تھے ۔
راجستھان میں پھیلی تہذیب ِوادی ِسندھ کی باقیات کی طرح ماضی میں گائے اس کے کچھ ہی گیت ہیں جو ہم سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔