من موہنا ۔۔ عرفان ستار
********************
"جن دنوں احمد جاوید کراچی آتے تو اُن کے کمپلکس سے ملحق بلوچ ہوٹل میں جانیئے میلہ سا لگ جاتا۔ جانے کیسے شہر بھر کو ان کی آمد کی نوید مل جاتی اور ان کے پروانے وہاں یلغار کر دیتے۔ ان کی میز پر صوفیوں اور شاعر ادیبوں کی موجودگی عجب بہار دکھاتی۔ ایسے ہی دنوں میں محفل گرم تھی، احمد جاوید، قیصر عالم کے سوال پر برسرِ کلام تھے کہ ہوٹل سے لگی سڑک پر ایک بڑی سی کار آکر رکی۔
فرنٹ سیٹ پر رضی حیدر کا چہرہ جھلملا رہا تھا، ڈرایونگ سیٹ سے پہاڑ ایسے تن و توش کا ایک گول مٹول شخص برآمد ہوا۔ یہ نووارد میرے لیے اجنبی تھا، مگر جانے کیوں رضی حیدر کی ہمراہی میں وہ مجھے بے جوڑ سا لگا، یہ آدمی خاصا خوش اطوار، مہذب اور خوش لباس تھا، وہ دونوں قدم بھرتے ہماری میز پر پہنچے۔ جاوید نے مکالمے کی ترنگ میں گویا انہیں دیکھا ہی نہیں پھر کسی نے خیر مقدمی کے کلمات کہے تو جاوید چونکے۔
رضی حیدر کہہ رہے تھے۔" جاوید صاحب یہ عرفان ستار ہیں، جن کا میں نے آپ سے تذکرہ کیا تھا۔" جاوید نے نظر پھیر کر عرفان کو دیکھا، مسکرائے اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ جب وہ دونوں بیٹھ چکے اور چائے بھی آچکی تو جاوید نے سرسری انداز میں عرفان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئےکہا۔ " اچھا تو آپ شعر کہتے ہیں؟ رضی صاحب نے آپ کے بارے میں تذکرہ کیا تھا۔" میں نے دیکھا چشمے کی اوٹ سے عرفان کی چمکتی آنکھوں میں بلا کا تجسس تھا ، مجھے لگا جیسے وہ ناپ تول کے مرحلے میں ہو کہ کیا واقعی احمد جاوید اسی درجے کے آدمی ہیں جیسا اسے بتایا گیا ہے، اس کا یہ عمل اس کی زیرگی پر دلیل تھا۔ ایک موہوم سے وقفے کے بعد وہ جاوید کے سوال کے جواب میں بولا۔ " جی، کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھ سکوں۔ " یہ جملہ جس انکسار سے کہا گیا تھا اس سے مجھے باور آیا کہ یہ بہت اچھا شاعر نہ سہی لیکن اچھا شاعر ضرور ہے۔ ادھر جاوید کہہ رہے تھے تو کچھ سنائیں۔ عرفان نے اس پُرشور جگہ پر ادھر اُدھر نظر گھمائی اور اعتماد سے غزل آغاز کی۔ اگر لفظ میں سکت ہو تو وہ ہر جگہ اپنے لیئے گنجائش نکال لیتا ہے۔ میز پر شاعری کی چڑیا چہچہا رہی تھی۔ میں نے دیکھا جاوید گہرے استغراق سے شاعری کی طرف متوجہ تھے، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ انہیں اس نوجوان کی شاعری میں امکانات نظر آرہے ہیں، ان کے چہرے پر گہری پسندیدگی چمک رہی تھی اور میز پر گونجتی داد و تحسین دیگر میزوں پر براجمان افراد کو بھی گردنیں اٹھا اٹھا کر اس طرف متوجہ کر رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا شاعری تو غوروفکر کی متقاضی ہوتی ہے لوگ کیسے شعر مکمل ہوتے ہی واویلا مچا دیتے ہیں؟ اس غزل سے عرفان کی مشق، مشاہدے اور فنی لوازمات پر دسترس ہویدا تھی۔ غزل تمام ہونے کے بعد جاوید نے پان کے پڑے سے گلوری کلے میں دابی، آسمان پر نظر ٹکائی اور غزل پر نہایت پُر مغز لیکن مختصر گفتگو فرمائی۔ میں جان چکا تھا کہ جاوید کے دل پسند افراد میں ایک اور کا اضافہ ہوچکا ہے۔
اب جاوید عرفان سے کلاسیکل اردو شعرا کے حوالے سے محو کلام تھے۔ یہ چھان پھٹک کا دوسرا مرحلہ تھا۔ مجھے عرفان کا مطالعہ اور گہری نظر حیران کر رہی تھی، احمد جاوید، عزیز حامد مدنی کے حوالے سے بات کر رہے تھے، عرفان گہری توجہ سے یہ مکالمہ سماعت کر رہا تھا۔ میری سوچ بھٹک کر رضی حیدر اور عرفان کی سنگت کی طرف بہہ نکلی، یہ تو ظاہر تھا کہ ان دونوں میں قدر مشترک شاعری تھی مگر سوال یہ تھا کہ کس نے کسے اختیار کیا؟ عرفان تو خیر رضی سے کیا پاتے اور رہا رضی تو وہ تو خود مکتفی تھا تو پھر، اچانک میرے ذہن میں کوندا سا لہکا۔ اچھا تو یہ قصہ ہے، شر بھر سے رابطے کے لیے رضی سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ میز پر عزم بہزاد کی محفل کا تذکرہ چل رہا تھا اور جاوید دوسرے دن ان کے ہم راہ جانے پر رضامندی ظاہر کرچکے تھے۔ عرفان کے چہرے پر بشاشت تھی، میری نظر اس آدمی پر ٹک گئی، جلد یا بدیر اسے چاک پر چڑھنا تھا۔ محفل برخاست ہوئی تو میں گھر کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا، اگر جاوید ایسا شاعری کا پارکھ کسی جوان کے کلام کی تحسین کردے تو وہ اڑا اڑا پھرے لیکن یہ عرفان ستار کیسا بندہ ہے کہ اس کا انکسار اور عاجزی اسے زمین سے پیوست کیے رکھتے ہیں، مجھے ثمر سے لدھے پیڑ یاد آئے جن کا جھکا رہنا عین فطرت ہے۔
اب یہ آئے دن کا پھیرا ہوگیا تھا وہ دونوں آتے اور جاوید کو لے اڑتے۔ جب یہ روز کا معمول بن گیا تو جاوید کے سالکین آزردہ رہنے لگے ادھر شاعر ادیب بھی نا خوش تھے کہ جاوید کے مکالمے سے جاتے رہے، انیق احمد کو یہ دکھ کھا رہا تھا کہ وہ اپنے پروگرام کی تیاری کیسے کرے۔ میں نے ان سےتذکرہ کیا تو بولے۔ " بھئی تمام دن تو یہیں ہوتا ہوں، مجھ پر ان کا بھی تو حق ہے۔" پھر کچھ ٹھہر کر بولے۔ " ممتاز ہر طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جاوید کی محفلوں میں عرفان کی آرجار سے میری ان سے قربت کی راہ نکل آئی اور ہم میں فاصلے سے ہی سہی تعلق استوار ہو گیا۔ عرفان کم سخن آدمی ہیں ان سے بے تکلفی کی راہ و رسم ان کی مرضی پر منحصر ہے، وہ لیے دیئے رہنے والے انسان ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا سبب نخوت ہے، ہرگز نہیں یہ محض مزاج کا معاملہ ہے، وہ کوئی تند مزاج آدمی بھی نہیں بلکہ سچ پوچھئے تو میں نے تو کبھی ان کی تیوری بھی چڑھی نہیں دیکھی، ہاں وہ ٹھٹول نہیں کرتے اور نہ ہی جملہ چست کرنے کے شوقین ہیں اور کسی دوسرے کو بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میں کیسا گاودی ہوں باتیں کیے جاتا ہوں یہ نہیں دکھاتا کہ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ آپ کا مطالبہ درست سہی لیکن کیا ضرور ہے کہ سراپا بیان میں آئے، لیکن نہیں صاحب، آپ ماننے والے کہاں؟ اچھا تو آئیں عرفان ستار سے آپ کی ملاقات کرائے دیتے ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ کئی برس ُادھر کا احوال ہے۔
سر پہ گھنے چمک دار بال اور کشادہ دمکتا ہوا ماتھا جو اُن کے شان دار مستقبل کا نقیب تھا اور سوچ میں ڈوبی پُرتجسس آنکھیں جیسے ہمہ دم کچھ نیا جاننے کے ہڑکے میں رہتی ہوں اور ان پہ سجا نفیس سا چشمہ اور چوڑے چہرے پر ناک کان اپنے حدود میں مطمعن اور گال بھرے بھرے اور ہونٹ باریک نہ سہی لیکن موٹے بھی نہیں تھےاور کشادہ سینے سے جڑے مضبوط کاندھے اور توانا ہاتھ پاوں اور اور پیٹ مائل بہ فربہی اور رنگت جیسے دھلی کپاس اور لباس سے نفاست اور خوش سلیقگی نمایاں ہوتی ہوئی۔ مجھے عرفان کی شخصیت میں ایک نوع کی جاذبیت محسوس ہوتی مگر میں ٹھہرا خاموش آدمی سُو یہ بات بھی شرمندۂ بیان نہ ہوسکی۔
عرفان نے شاعری کے رمز کی شناوری کے لیے بہت جوکھم اٹھائے۔ شاید ہی کسی اہل علم کی چوکھٹ تھی جس پر اس نے دستک نہ دی ہو۔ جون ایلیا سے لے کر عزیز حامد مدنی تک اس نے ہر دوار کا پھیرا بھرا۔ اس حوالے سے عرفان نے چھوٹے بڑے کا امتیاز روا نہیں رکھا، اس کے یار دل پسند رضی حیدر میری اس بات کا بین ثبوت ہیں ورنہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ (شاید میرے اس بیان سے یہ تاثر مرتب ہو کہ میں رضی حیدر کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہوں، قطعی یہ بات نہیں ہے رضی حیدر کے اپنے خواص ہیں لیکن یہاں دو شاعروں کی شاعرانہ قدوقامت کا تذکرہ ہو رہا ہے۔) جون ایلیا لفظ اور شاعری کے بھید بھاؤ کے بڑے جاں کار مانے اور جانے جاتے تھے، ان کے ہاں عرفان کا برسوں کا آنا جانا رہا۔ جون شاعری کے کیسے ہی بڑے عالم اور شاعر سہی لیکن وہ کتنی ہی انسانی کم زوریوں سے مرصع تھے، اردو کے اکثر شعرا کی مانند انہیں بھی یہ مغالطہ تھا کہ شاعری کی دیوی کو راضی رکھنے کے لیے بنت انگور سے یارانہ ازبس ضروری ہے اور اگر یہ موزی کسی پہ سواری گانٹھ لے تو اچھے بھلے انسان کوتماشا بنا دیتی ہے۔ شاید عرفان اور جون کا تعلق تا دیر قائم رہتا لیکن جب جون نے بوتل کی فرمائش شروع کی تو دوستی کے ریشم میں گانٹھیں پڑنے لگیں۔ اب تک عرفان، جون سے خاصا کچھ کشید کرچکے تھے، وہ کب تک خود کو خسارے کے اس سودے میں اٹکائے رکھتے؟ ان دنوں شہر میں کتنی ہی جگہ مکالمہ جاری رہا کرتا تھا اور آدمی اگر سیکھنے کا خوگر ہو تو سکھانے والوں کی کیا کمی۔ وہ جون کی محفل سے اٹھ کر کہیں اور جا بیٹھے۔ کئی محفلیں بھگتا کر وہ عزم بہزاد کی منڈلی تک جا پہنچے، یہاں ان کی آمد سے گویا جان سی پڑگئی اور جہاں پہلے شاعری کے پرندے ہی اڑان بھرتے تھے وہاں اب ایک بامعنی مکالمہ بھی راہ پانے لگا، اس کی بنیاد احمد جاوید رکھ گئے تھے لیکن قیصر عالم بھی ادب پر خاصی چٹخارے دار گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ یہ محفل پھل پھول رہی تھی مگر برا ہو اس پیسے کا جس نے یہ اچھی بھلی محفل اجاڑ کر رکھ دی۔ یہ بات اچانک بیان میں آئی، آپ چاہتے ہوں گے کہ میں اس قضیے کو تفصیل کروں لیکن میں اس ناگوار معاملے پر مزید بات کرنے سے قاصر ہوں۔ رضی حیدر نے اس تلخی کو بہت اچھالا لیکن عرفان ستار نے رسانیت اور تدبر سے صورت حال کو کشیدہ ہونے سے بچا لیا حالاں کہ عرفان کو ہی اس واقعے میں مالی صدمہ جھیلنا پڑا تھا، یہی سبب ہے کہ چاہے یہ منڈلی سلامت نہ رہی لیکن ایک وقفے کے بعد ان میں سے اکثر افراد آپس میں باہم رہے۔
عرفان کچھ جاننے کی ہمک میں اپنے ذہن کے دریچے ہمیشہ وا رکھا کرتا اور مکالمے کے ساتھ کتاب کو بھی آنکھ کا سرمہ بنائے رکھتا، یہی وجہ تھی جو اسے زیبسٹ میں لے آئی۔ یہ معتبر ادارہ شہر میں خاصا نیک نام تھا، میں ناواقف ہوں کہ وہاں اسے کس علم کے حصول کی ہوس لے آئی تھی ہاں اس سے واقف ہوں کہ جلد ہی وہ سیکھنےسے سکھانے کے مرتبے پر فائز ہوگیا ۔ اس شہرِ بد بخت میں ہر چمکتے آدمی سے بہتان منسوب کرنے کی کہنہ روایت موجود ہے لیکن انسان چوکس ہو توکسی کی ایک نہیں چلتی۔ عرفان جوان اوردیدہ ذیب تھا مگر جانےکیسے وہ ہمیشہ کسی اسکینڈل سے محفوظ رہا۔ آدمی سیکھنا چاہے تو ہزار راستے، عرفان جس محفل میں جاتا وہاں سے کوئی نہ کوئی کرن کشید کر کے اپنے سینے کو مزید منور کر لاتا۔ ہر آدمی اپنے ساتھ دانش سے بھری ایک گٹھری لیے پھرتا ہے، اب چاہے وہ خود اس سے بے خبر ہو لیکن آنکھ والے سے یہ خزینہ کہاں مستور رہتا ہے اور عرفان اس معاملے میں بلا کا تیز نظر تھا، وہ ہر آدمی سےاپنے نصیب کے موتی چنتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس قماش کے لوگوں میں ایک نوع کی ہمہ جہتی در آتی ہے اور آگے چل کر عرفان نے یہ ثابت بھی کیا، اکثر شعرا خود کو شاعری سے باندھے رکھتے ہیں اور نثر کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ خیال کرتے ہیں حالانکہ نثر کا مطالعہ ان کے لیے خام مال مہیا کرنے کا زریعہ بن سکتا ہے۔ عرفان کیونکہ ایک جینوئن فنکار ہے اس لیے اس نے ہر میدان میں خود کو آزمایا۔ ایک دن عرفان میرے گھر آیا اور سبھا پٹھان ہوٹل میں سجی۔ عرفان کے چہرے پر دبا دبا جوش تھا۔ کچھ نیا ہونے والا ہے، میرے ذہن میں گھنٹی بجی اس نے کچھ اوراق نکالے جن پر وہ کراچی کی بے باک شاعرہ ریحانہ روحی پر ایک شخصی مضمون لکھ لایا تھا جس میں عرفان نے اس عورت کواُس کی ہر نرت کے ساتھ زندہ کر دکھایا تھا۔ ہم سب بھونچکےبیٹھے ایک شاعر سے اس کا نثری شہ پارہ سماعت کر رہے تھے۔ اس مضمون کی بنت، جملوں کا تیکھا پن، ٹریٹمنٹ اور بہتا ہوا بیانیہ مجھے ششدر کر رہا تھا،ایسا لگا کہ ابھی اور نثری تحریریں سننے کو ملیں گی مگراس مرد بےنیاز کو اس کا یارا کہاں ، عرفان کی پہلی محبت شاعری تھی اور وہی رہی لیکن اگر وہ سنجیدگی سے نثر پر توجہ دیتا تو اس میدان میں بھی دھومیں مچا سکتا تھا۔ وہ اس مضموں کو کہیں رکھ کر فراموش کر چکا تھا، آدمی اچھی نثر لکھنے پر قدرت رکھتا ہو تو اس سے اس کے نثر کے سلجھے ہوئے ذوق کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
ایک دن مجھے دعوت دی گئی کہ میں محفل میں اپنا تازہ خاکہ پڑھوں، اس نشست کا اہتمام گلشن اقبال میں کیا گیا تھا۔ یہاں عرفان اور رضی تو تھے ہی ان کے علاوہ بھی کئی ایک موجود تھے۔ میں نے قیصر عالم کا خاکہ مجاور پڑھا، خاکے کی سماعت کے دوران میں نے اکثر سامعین کے چہرے پر بےچینی دیکھی جیسے وہ کچھ کہنے کو اوتاولے ہو رہے ہوں۔ خاکے کی قرات مکمل ہوتے ہی وہ ایک آواز ہو کر کسی کوڑے کی مانند مجھ پر برس پڑے، میں نے ان دھکتی آوازوں میں عرفان کی آواز کو شامل نہیں دیکھا جب کہ رضی حیدر اوسان کھوئے دیتے تھے۔ عرفان خاموش بیٹھا ٹکر ٹکر انہیں دیکھے جاتا تھا، میں اس ردعمل پر حیران تھا مجھے لگا یہ مجھ سے اپنی کسی ذاتی پرخاش کا حساب چکا رہے ہوں۔ ہم محفل نمٹا کر باہر آئے تو عرفان نے خلوت میں مجھ سے کہا،" ممتاز بھائی دل میلا نہ کریں، آپ نے عمدہ خاکہ لکھا ہے یہ کیا جانیں خاکہ کیا ہوتا ہے۔" اس کی آواز میں سچائی مہک رہی تھی، مجھے تسلی ہوئی کہ چلئے کسی ایک نے تو تحریر سے حظ اٹھایا لیکن یہ خیال بھی ذہن میں گونج رہا تھا کہ عرفان نے یہ سب محفل میں کیوں نہیں کہہ دیا۔
عرفان میں ایک خفی سا اکھڑ پن وجود رکھتا ہے، آدمی ذرا زیر زبر ہوا نہیں کہ اس نے دانت نکوسے، ایک بار میں نے چہل کی تو موصوف نے فورا رنگ بدلا اور بھنائی ہوئی آواز میں گویا ہوئے۔" صاحب یہ سب آپ رضی بھائی سے کیا کیجئے۔" اب انسان کو اتنی گنجائش تو دینی ہی چاہئے، ان میں اور جانے کیا کچھ ہوگا جو مجھ کور چشم کے تجربے میں نہیں آیا، شاید نسیم سید سچ کہتی ہو کہ ممتاز تم تو عرفان کو بہت کم جانتے ہو۔ عرفان عام طور پر دوستوں کے لیے ریشم و کم خواب ہیں بس یہ ہے کہ انہوں نے حد بندی کر رکھی ہے کہ کسے کہاں تک رسائی کا حق حاصل ہے۔
عرفان ہر میدان کے لوگوں سے گہرا تعلق استوار رکھتا۔ طارق روڈ پر ایک کمپیوٹر آرٹست تھے جو کتب بھی شایع کرتے،ان کا نام تو ذہن میں تازہ نہیں، ہاں یہ یاد ہے انہوں نے ہی نصیر ترابی کی کتاب " نقش فریادی " کا ٹائیٹل بنایا تھا۔ نصیراس کتاب سے ادب میں کسی بھونچال کی توقع باندھے بیٹھے تھے، تقریب میں جاوید کو خاص طور سے مدعو کیا گیا تھا جب کہ میزبانی کا قرعہ عرفان ستار کے نام نکلا، جاوید آئے تو نصیر نے وہاں کا پھیرا باندہ لیا وہ جاننا چاہتے تھے کہ جاوید اتنی دور سے ان کی کتاب کے لیے کیا مقدمہ تیار کر کے لائے ہیں، انہوں نے لاکھ جتن کیے لیکن ہر بار انہیں تسلی سے ٹال دیا گیا۔ کتاب کی تقریب نیپا آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی، جس کی صدارت علامتی طور پر عزیز حامد مدنی کی تصویر کر رہی تھی، احمد جاوید تقریب کے خاص مقرر تھے وہ روسٹرم پر آئے، گفتگو آغاز ہوئی اور سرورق کے فنی محاسن سے کلام کی ابتدا کی اور اسی پر اپنی گفتگو کا اختتام کیا ، کیا مجال کہ نصیر کی شاعری کے حوالے سے ایک لفظ بھی کہا ہو، یہ الگ بات کہ جاوید کی گفتگو کا سحر مہینوں لکیروں اور رنگوں کے دیوانوں پر قائم رہا۔ تقریب کے بعد کھانا ہوا میں نے جاوید سے کہا " آپ نے شاعری پر کچھ نہیں کہا۔ وہ مسکائے۔"جو چیز بولنے قابل تھی اس پر بول دیا۔" پھر ایک وقفے کے بعد بولے ۔"میں نصیر کی دل شکنی نہیں چاہتا تھا"۔ تقریب میں عرفان کا ایک اور جوہر سامنے آیا کہ وہ نہایت عمدہ میزبان بھی ہیں۔
میں نے عرض کیا تھا عرفان کی ہر رنگ اور مزاج کے آدمی سے علیک سلیک تھی، ایک دن علم میں آیا کہ عرفان کے دوست اپنی آڈیو لائبریری کے لیے جاوید کی غزلیں ریکارڈ کریں گے، ہم پی سی ایچ ایس ان کے ریکارڈنگ روم میں پہنچے تو وہ کیسٹوں سے اٹا ہوا تھا۔ اس محفل میں مجھے خاصی خفت کا سامنا اٹھانا پڑا، جاوید غزل پڑھنےبیٹھے تو مجھے یاد ہی نہ رہا کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے، میں نے مطلع مکمل ہوتے ہی بے ساختہ واہ کا نعرہ لگا دیا، میں نے دیکھا میزبان کی آنکھوں میں ناگواری کے رنگ ہیں اور جب بار بار یہی ہوا تو ناگواری آنکھوں سے زبان پر اتر آئی اور مجھے ناگاہ تنہا گھر لوٹنا پڑا۔ اب تک جاوید کی عرفان سے خاصی گاڑھی چھننے لگی تھی اور رہے رضی حیدر تو وہ بقول جاوید بڑے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آدمی کو اس کی اپنی میرٹ پر جانچتا ہوں ۔عرفان کی شاعری کے بارے میں جاوید کچھ کہتے تو نہ تھے لیکن میں ان کی آنکھوں میں اس شاعری کے حوالے سے اعتراف کے رنگ پڑھ چکا تھا۔ مجھے علم نہیں کہ اب تک عرفان کا کوئی شعری مجموعہ زیور اشاعت سے آراستہ ہوا یا نہیں اگر ہوا بھی ہو گا تو مجھ گوشہ گیر کو کون اس لائق گردانتا ہے کہ مجھے اپنی کتاب سے نوازے۔ عرفان سے جڑی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے اس کا بڑا پن ہویدا ہے مثال کے طور پہ یہی کہ میری بیٹی کی شادی میں مجھے تردد تھا کہ گاڑی کہاں سے آئے کہ دلہن کو ہال تک پہنچائیں، عرفان کے علم میں یہ بات آئی تو خفگی سے بولا " جناب آپ کے گھر کی خوشی ہماری بھی تو خوشی ہے، فکر نہ کریں آپ کے بھائی کی گاڑی کب کام آئے گی۔ میں نے جاوید کا خاکہ لکھنے کا ارادہ کیا تو عنوان نہیں سوجھتا تھا عرفان ستار ہی نے یہ مشکل آسان کی اور شعلے پر صافہ کا عنوان تجویز کیا۔ اب میرے ممدوح کی شاعری کی مہک عامیوں سے ہوکر خواص تک جا پہنچی تھی۔ ایک بار ڈاکٹر اسلم فرخی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا آصف فرخی کا انتظار کھینچ رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ عرفان، رضی سے کاندھا جوڑے کمرے میں داخل ہو رہے ہیں میں سمجھا یہ بھی آصف ہی کے بیراگی ہوں گے لیکن معلوم ہوا یہ ڈاکٹر صاحب کے مہمان ہیں، مجھے تعجب ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کسی کم عمر سے ایسی حلاوت کا مظاہرہ کم ہی کرتے تھے۔ وہ ان سے تپاک سے ملے اور کچھ ہی دیر بعد عرفان اپنی غزلیں سنا رہے تھے جن کی سماعت اسلم فرخی کے لیے کسی خوش گوار تجربےسے کم نہ تھی۔ میں نے بھی کسی ایک نشست میں پہلی بار عرفان کا اتنا بہت کللام سنا اور شاد ہوا۔
اردو عرفان کی مادری زبان نہ سہی لیکن وہ اس پر کسی اہلِ زبان کی سی قدرت رکھتے ہیں اور ایک اردو ہی کیا انگریزی بھی جانیئے جیسے ان کے گھر کی لونڈی ہی ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میرا قلم اب تک زخم کاری سے کیوں کر باز رہا تو بھائی وہی تو بیان میں آئے گا جو دکھائی دے گا۔ عرفان نے کراچی میں اچھا بڑا کاروبار جما رکھا تھا پھر جانے کیا ہوا کہ سب چھوڑ چھاڑ کینیڈا سدھارے، وہاں بھی وہ ادب میں خاصےمتحرک ہیں اور شاعری بھی خوب ہو رہی ہے، میرا وہاں بھی ان سے برقی رابطہ ہے، وہاں بھی سیکھنے کی للک زندہ ہے لیکن اس بار انہوں نے اپنے لیے ایک نیا میدان چنا ہے، عرفان کرکٹ ایمپائر کا کورس کر کے اب کرکٹ میچز سپروائز کر رہے ہیں، کون جانتا ہے کہ ایک دن وہ کرکٹ کینیڈا کو بامِ عروج پہ پہنچا دیں اور ہم انہیں بین الاقوامی میچز سپروائز کرتا دیکھیں گے۔ اب عرفان مجھ سے دور سہی لیکن کچھ لوگ دل میں آباد ہوتے ہیں ورنہ قربت تو محض ایک واہمہ ہے۔"
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“