مشہور اسلامی مفکرمحترم جناب سید فخر الدین بلے صاحب کا ترانہ ”من کنت مولافھذا علی مولا“میرے پیشِ نظر ہےجس کے لیے یہ بات بڑے بڑے ادباء،خطباء۔علماء،اسکالرزاور ماہرینِ نفسیات نے کہی ہے کہ فوت امیر خسرو رحمۃاللہ کے 700 سال کے بعد نیا قول ترانہ بجائے خود اہمیت کا حامل ہے۔میں نے بہت غور سے سید فخرلدین بلے صاحب کی اس انمول تخلیق کے ایک ایک شعر کا جائزہ لیا ہے،میرے خیال میں یہ ایک تخلیقی معجزہ ہے اور ان کی اس تخلیق میں یہ اثر صرف ان کی فنی مہارت کا نہیں ہے بلکہ اس اثر میں ان کی قابلیت ،زبان و بیان پر مہارت کے ساتھ عشق کا بھی ہے جو انہیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام سے والہانہ ہے۔
مولاعلی کی شرح نہج البلا غہ سنی اور شیعہ دونوں مکاتبِ فکر کے تمام معروف علماء نے تحریر کی ہیں،ان کی تعدادمیری معلومات کے مطابق 150 سے زیادہ ہے انہی میں علامہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح لکھی ہے۔ تمام علماء ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان تمام اشراح میں جو مقام ابن ابی الحدید کی شرح کو حاصل ہے وہ آج تک کسی فرقے کے کسی عالم کی شرح کو حاصل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی وجہ کیا ہے؟کیا محض ابن ابی الحدید معتزلی کا علم و فضل اورزبان و بیان اس کا سبب ہے؟بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ نہیں،کیونکہ ان سے بڑے کئی علماء و فضلاء نے بھی اس میدان میں کام کیا لیکن ان کی شرح نہج البلاغہ کو وہ مقام،شہرت اور وہ ہر دلعزیزی حاصل نہیں ہو سکی جوعلامہ ابن ابی الحدیدکی شرح کو حاصل ہوئی ،میں نے بہت غورکیا اور مزکورہ شرح کی تحریروں پر غور کیا تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ ان کی اس تخلیق کو یہ غیر معمولی عزت اس لیے حاصل ہوئی کہ اس کا ایک ایک لفظ انہوں نے عشق علی علیہ السلام کے سمندر میں وضوکرکے تحریر کیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل یہی خیالمیرا سید فخرالدین بلے صاحب کے اس ترانہ کے لیے بھی ہے کہ اس میں جو غیرمعمولی اثر نظر آرہا ہے وہ موصوف کی فنکارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کے دل کی حقیقت ولایت علی ابن ابی طالب کو ہر دل میں اتار دینے کی جو تڑپ ہے اللہ تعالی کی طرف سے تائید کے طور پر ان کے اس ترانے میں موجود ہے۔
سید فخرالدین بلے صاحب نے ”ولایت پناہ“ جیسی گرانقدر جو کتاب تحریر کی ہےاس کا صاف صاف عکس اس ترانے میں موجود ہے۔
من کنت مولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل اسلام کی روح ہے،حقیقی اسلام کی پیشانی پر”غدیر اور من کنت “تحریر ہےاس کے علاوہ جو بھی ہے اس پرلیبل تومحمدؐ کا ہے مال ابو سفیان کا ہے۔موجودہ دور میں جو آج ہمیں بڑی بڑی کانفرنس اورپریس ریلیز کرکے دنیا کویہ بتانا پڑ رہا ہے جو آج بنام اسلام متعارف کرایا جا رہا ہےوہ حقیقی اسلام نہیں ہے،یہ بوکو حرام،یہ طالبان،یہ آئی ایس،یہ الشباب۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب اسلام کے ٹھیک 180 ڈگری زاویہ والابرعکس اسلام پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔سچ ہے اگر ہم نےغدیرکے مولا کا دامن پکڑے رکھا ہوتا تو آج ہماری یوں رسوائی نہ ہوتی۔یہ صفائیاں ہمیں اس لیے دینی پڑ رہی ہیں کہ من کنتُ کے فرمان کو ہم نے اپنی نفسانی خواہشات کے نیچے دبا دیااور پھر جو اسلام ابھرا وہ خوانخوار تھا۔
مولا کے معنی کو جوبدلنے اور دبانے کی کاوشیں کی گئی ہیں۔سید فخرالدین بلے نے مولا کے اصل معنی کو پوری صلاحیتوں کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں ،بلے صاحب کے ترانے کے بعد بعض اشعار انہیں تار تار کیے دیتے ہیں۔
عربی زبان ایک بڑی زبان ہے اور اس کے مقابل ہماری اردو ایک چھوٹی زبان ہے ،بڑی زبان اور چھوٹی زبان میں ایسا ہی فرق ہوتا ہے جیسا کسی محل اورایک فلیٹ میں،محل میں بہت بڑے بڑے عالیشان کمرے ہوتے ہیں مگر فلیٹ میں بس دوچار کمرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ عربی میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی لفظ کے کیا معنی مراد لیے جائیں یہ لفظ کے محل استعمال سے طے کیا جاتا ہے،چنانچہ صاحبِ زبان کو کبھی دھوکا نہیں ہوتا کہ اس مقام پر اس لفظ کو کن معنوں میں بولا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے غدیر خم میں حضرت علی کےلیےمن کنت مولا۔۔۔۔۔ فرمایااس میں کسی مورخ اور کسی سیرت نگار کو اختلاف نہیں ہے،مگر موقع اور محل کے اعتبار سےمولا کے معنی بالکل واضح ہونے کے بعد بھی حالات کی مار سے مجبور لوگوں نے مولا کے معنی میں نقب زنی کردی ۔۔۔۔۔۔کیوں کی؟یہ بہت اختلافی مسئلہ ہے،اس پر بحث نہیں کرتے۔مگر یہ تو طے ہے کہ جو لوگ مولا کے عربی میں 70،70 معنی ہونے کی دہائی دے کر علی کی مولائیت کو ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو اتنا بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ علی کی مولائیت کو رسولؐ نے اپنی مولائیت کے ساتھ جوڑ دیا ہےچنانچہ آپ کا جتنا دل چاہےمولا کے معنی ہلکا کرلیں مگر آپ جن معنوں میں رسولؐ کو مولا سمجھ رہے ہوں گے عین انہی معنوں میں علی کو بھی مولا سمجھنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔فخرالدین بلے کے ترانے میں یہ پیغام صاف صاف موجود ہے۔
غدیر خم میں تو پیغمبرؐ نے آخری عمر میں علی کی مولائیت کا پیغام سنایامگر سچ یہ ہے کہ یہ پیغام تو رسولؐ آغازِ اسلام میں دعوتِ ذوالعشیرہ کے دن ہی سنا چکے تھے۔
مورخ جلیل علامہ طبری کی زبانی سنیں ۔سردارانِ قریش سے ذوالعشیرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا؛ ”اے فرزندانِ عبدالمطلب!خدا کی قسم میں نہیں جانتاکہ عرب میں کوئی جوان اس چیزسے بہتر چیز لایا ہوجو میں تمہارے لیے لے کر آیاہوں ،میں تمہارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس بھلائی کی طرف تمہیں دعوت دوں۔تم میں کون شخص ہے جو اس سلسلہ میں میرا معاون و مددگار ہوگا،میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہی میرا بھائی ،میرا وصی اور میرا جانشین قرار پائے گا۔“(تاریخ طبری جلد 2)
جو چیز غدیر خم میں بتائی گئی دراصل وہ یہی ذوالعشیرہ کا مشروط وعدہ تھا۔۔۔۔۔
اور جب بار بار اس اعلان پر صرف علی ہی تائید اور نصرت کرنےکے وعدے کے ساتھ کھڑے ہوئے اور باقی تمام سردارانِ قریش نہ صرف خاموش رہے بلکہ تضحیک و تکذیب کرتے رہے تو آخری مرتبہ پیغمرؐ نے علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا”یقینا یہ میرا بھائی ،میرا وصی اور میرا جانشین ہے۔تم سب کو لازم ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔“(طبری جلد 2)
لازم تھا کہ اعلان غدیر مولائیت کو دعوت ذوالعشیرہ کے وعدے کی وفا کی عینک سے دیکھا جاتامگر افسوس نفسیاتی خواہشات نے نہ ذوالعشیرہ یاد رہنے دی نہ غدیر۔اگر ذوالعشیرہ میں علی کی تصدیق نہ ہوتی تو بس تکذیب ہی تکذیب سنائی دیتی۔
ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ میں بزرگوں کا جو رول اور حکمت عملی رہی اس کا کوئی منکر نہیں ہو سکتا،حضرت نظام الدین اولیاء نے جو حکمت عملی اپنائی اس سے یہاں کے مشرک معاشرہ میں توحید کی روشنی پھیلی،،حضرت امیر خسرو نے اس پر غور کیا کہ یہاں کے طریقہ عبادت میں دیوی دیوتاؤں کے نغمہ،بھجن،کیرتن اورگانا بجانا عام تھا،چنانچہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اس معاشرہ کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ”قوالی“ایجاد کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ قوالی آج تک لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ایک بہترین زریعہ ثابت ہو رہا ہے۔
اب امیر خسروکے 700 سال کے بعد جناب فخرالدین بلے نے جوترانہ”من کنت“ کونیا چہرہ دیا ہے اس کو تخلیقی معجزہ ہی کہا جائے گا کیونکہ یہ صرف شاعرانہ اور فنکارانہ کلام نہیں ہے بلکہ پوری تاریخ سمیٹے ہوئےایک قیمتی د ستاویز ہے۔
معنی و مطالب کے اثر سے اس ترانے کو سننے والا وجد سے جھوم جاتا ہےاور جب اس ترانے کے ہم ایک شعر کو سنتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ شاعرکا طائر فکراس وقت اپنی پرواز کی آخری حد پر ہےاس سے اونچی پروازاب ممکن نہیں ،لیکن جب اگلا شعر ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے ہمیں اپنا خیال بدلنا پڑتا ہے اور سوچتے ہیں کہ اس شعر میں نہیں بلکہ شاعر کی فکر کی پروازاس شعر میں آخری حد پر ہےلیکن جب اس سے اگلا شعر سنتے ہیں تو ہمیں پھر اپنا خیال بدل کر اس شعر کے بارے میں یہ خیال طے کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک برقرار رہتا ہے۔
دراصل اس اثر انگیزی کے پیچھے عشقِ حضرت علی ابن ابی طالب ہے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں فخرالدین بلے عشقِ علی کی جس کشتی میں سوار ہوکر زندگی کا سفر پار کر رہے ہیں ان کی خواہش اور ان کی تڑپ ہے کہ ہر کلمہ گو اس کشتی میں سوار ہو کر نجات کےساحل تک پہنچے۔۔۔۔۔۔اسی لگن،اسی تڑپ اور اسی عقیدت نے ان کےترانے کو زندہ جاوید بنا دیا ہےاور اس میں مہکتے ہوئے پھول سب کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔
رسولِ اکرمؐ نے حضرت علی کی محبت کو ایمان اور بغض کو نفاق سے تعبیر کیا ہے،چنانچہ امام ابوالحسینی مسلم بن حجاج اپنی شہرہء آفاق صحیح مسلم شریف میں زرین جیش اسرکوفی کی ایک روایت پر فٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں
”حضرت علی آنحضرتؐ کے چچا ذاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور بچپن ہی سے ایمان لائے تھے،اورآپؐ ان سے بہت محبت رکھتے تھے۔جب بڑے ہوئے تو بہت مدد کی انہوں نے آپؐ کی اور لڑائیوں میں بڑی بہادری اورجاں بازی کی اورسخت کافروں کو مارا توان کا احسان ہرایک مسلمان پر ہے اور ہر ایک مسلمان کو ان سے محبت رکھنا ضروری ہے۔“
(صحیح مسلم شریف۔جلد اول۔کتاب الایمان)
دورِ حاضر میں ناصبیوں کا ایک ٹولہ مسلسل حضرت علی اور اہل ِ بیت اطہارکے خلاف اپنے خصوصی مشن کے تحت بھونکتا رہتا ہے،دراصل یہ بدر کے پٹے ہوئے سپاہیوں کی مخبوط الحواس نسلیں ہیں جنہیں علی سے لڑنے والے پیارے اورعلی سے محبت کرنے والے خار نظر آتے ہیں، ایسے میں محترم مفکرِ اسلام ،شاعرِ بےبدل،عاشقِ مولائے کائنات،غلام ِاہل بیت حضرت سید فخرالدین بلے کا یہ ترانہ گھر گھر اور بچے بچے تک پہچانے کا کام ہمیں ایک مشن کی صورت میں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اس شاندار ترانے کے خالق حضرت فخرالدین بلے صاحب کا شمار حضرت علی کے محبوں اور وفاداروں میں فرمائے ،ان کی عقیدت کے عوض ،ان کی گرانقدر دینی خدمات کے پیشِ نظر ان پر اہل بیت اطہار کی نظرِ کرم رہے۔
من کنت مولا فھذا علی مولا ، ثانئ علامہ ابن ابی الحدید ۔ سید فخرالدین بلے
تحقیق و تحریر : علامہ ڈاکٹر سید عباس نقوی علیگ (دہلی) بھارت
============================================================
من کُنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ۔ سیّد فخرالدین بَلّے کا نیا قول ترانہ
امیر خسرو کے سات سو سال بعد ایک تاریخ ساز کارنامہ
تحریر و تحقیق: مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی ، قم شریف
مایہء ناز شاعر ،ادیب، دانشور، اسکالراورتخلیق کار سیّد فخر الدین بَلّے نے جنوبی ایشیاء میں قوالی کے بانی حضرت امیر خسرو دہلوی کے سات سو سال بعد نیا قول ترانہ تخلیق کرکے ایک تاریخ سازکارنامہ انجام دیا ۔یہ مجموعی تاثر ہے تمام معروف مسالک اور مکاتب کے نامور علمائے کرام ،مشائخ ِعظام اور دانشورانِ ذی احتشام کا۔معروف عالم ِ دین علامہ سید نصیرالاجتہادی سیّد فخرالدین بَلّے کاقول ترانہ سن کر جھوم اٹھے اور اپنے مخصوص انداز میں اس کی مدح و ستائش کرتے ہوئے بس اتنا کہا ” اللہ اللہ ! کیا زبان و بیان ہے۔ ایمان کو ترو تازہ کرنے کا سامان ہے۔ ہر شعر معانی کا جہان ہے۔ اس کا ہر مضمون شرحِ آیتِ قرآن ہے اور بلاشبہ یہ کاوش معرفت کا ایک دبستان ہے”۔غزالی ء زماں ،رازی ء دوراں اوراپنے عہد کے امام اہل ِ سنّت حضرت علامہ سیّد احمد سعید کاظمی نےلکھا ہے”قولِ سید المرسلین حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی من کنت مولاہ فعلی مولاہ و من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی جو نئی تصریحی تہذیب جناب سیّد فخر الدین بَلّے صاحب نے فرمائی ہے۔ وہ ان کی علمی قابلیت، روحانی ذوق،بالخصوص بارگاہِ سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے کمال عقیدت و محبت کی آئینہ دار ہے۔ قول کی صوتی و تصریحی تہذیب کا جو کام حضرت نظام الدین اولیاِ ء نے حضرت امیر خسرو کے سپردفرمایاتھا،بلے صاحب کی یہ تصریحی تہذیب اسی کاتکملہ نظرآتی ہے ۔حقیقت ِ ولایت کمال عشق ِ خداوندی اور محبت ِایزدی ہے۔ جس کا قطب مدار مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا وجودِ گرامی ہے ۔ قوالی کا مفاد ساز سے سوز پیدا کر کے عشقِ الٰہی کی حرارت سے دلوں کو گرمانا ہے۔ اس لئے اس کی روح و رواں منبعِ عشق و محبت کی شان میں قولِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“ کا قرار پانا قوالی کے مفاد کا عین مقتضی ہے”۔علامہ سید احمد سعید کاظمی نے اپنے تاثرات میں یہ بھی لکھاہے کہ”لفظ مولا میں مولا ئے کائنا ت کے جو فضائل و کمالات مخفی تھے۔ بَلّے صاحب نے اس نئی تصریحی تہذیب میں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ان کا اظہار کیا ہے۔ جو قابلِ داد اور موجب ِ ستائش ہے۔ اہلِ ذوق حضرات اس سے محظوظ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبولیت ِعامہ کا شرف عطا فرمائے ۔آمین۔معروفادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نےتاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا “طوطیء ہند حضرت امیر خسرو دہلوینے ہندو معاشرے میں راگ اور رنگ کی اہمیت کےِ پیش نظر شاعری اور موسیقی کے امتزاج سے ایک نئی صنف “قوالی” کومتعارف کرایا اوراسی لئےقول ترانہ بھی تخلیق کیا اور اپنا رنگ بھی جمایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی سطح پر قوالی سننے والوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔آج بھی قوالی کی محفلوں کا آغاز امیرخسرو ہی کے قول ترانے سے ہوتاہے۔ستر کی دہائی میں امیر خسرو دہلوی کا سات سو سالہ جشن ِولادت منایا گیا تو یہ خبر بھی آئی کہ محترم سیّدفخرالدین بَلّےنےنیا قول ترانہ تخلیق کیا ہے اور ریڈیو پاکستان ملتان اس کی دُھنیں بنارہاہے۔ یہ شاہکار دیکھ کرمیں دم بخود رہ گیا۔اور جو دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیارکی تھیں ،وہ بھی ایک محفل میں سنیں تو بے ساختہ دوالفاظزبان پر آگئے اور وہ ہیں سبحان اللہ ۔ امیر خسرو کے بعد جو کام ، کوئی شاعر نہیں کرپایا،وہ سیّدفخرالدین بَلّےنے انجام دے کر ارباب ِ ادب و فن سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کالوہا منوایا”۔
معروف دانشور اشفاق احمد نےسیّدفخرالدین بَلّےکو تصوف پراہم اتھارٹی قراردیا اور کہا تصوف ان کی زندگی، شخصیت اور شاعری میں رچا بسا ہے۔بلّے صاحب قوالی کےبھی رسیا ہیں ۔ انہوں نے امیر خسرو کے بعد “من کنت مولاہ فعلی مولاہ اور من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ” کی بنیادپر نیا قول ترانہ تخلیق کیا،جس میں مولائے کائنات کی فضیلتوں کو بڑی خوبصورتی کےساتھ پینٹ کیاگیاہے۔مقام ِعلی کےعرفان کے بغیرایسا شاہکار تخلیق نہیں کیاجاسکتا۔ میں نے خلوت اور جلوت میں اسےکئی بار سناہے۔عزیز میاں قوال نے بھی ایک محفل میں یہ نیا قول ترانہ پیش کرکے خوب رنگ جمایا۔یہ دلوں کو چھولینے والا کلام ہے اور میری دعاہے کہ اللہ رب العزت اسے قبولیت ِ دوام بخشے۔
عظیم روحانی پیشواحضرت غوث بہاالدین زکریا سہروری اورحضرت شاہ رکن الدین والعالم رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ ِعالیہ کے سجادہ نشیں مخدوم سجاد حسین قریشی نے کہا”بَلّے صاحب ایک قدآورعلمیشخصیت ہیں۔یہ تصوف پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے جو قول اور رنگ تخلیق کیا ہے۔ یہ تاریخی کارنامہ اور روحانی جذبوں سےسرشارتوشہ ءآخرت ہے”۔گولڑہ شریف کی عظیم ادبی اور روحانی شخصیت پیر سید نصیرالدین نصیر نے لکھا”سبحان اللہ ! سبحان اللہ۔ بَلّے بَلّے ۔ سیّد فخر الدین بَلّے کا یہ قول ترانہ موجب ِ تحسین و آفرین اور لائق ِصد ستائش تاریخی کارنامہ ہے اور سات صدیوں کے بعد دوسری بارقول کی نئی تصریحی تہذیب کا اعزاز ملتان کا مقدر بنا ہے”۔مایہ ء ناز مذہبی اسکالر ،ادیب اور جدید لہجے کے خوبصورت شاعر محسن نقوی ادبی محفلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ سید فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے جو تحقیقی کتاب” ولایت پناہ “لکھی ہے، اس کا مسودہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتاہوں کہ اپنے اس قول ترانے میں انہوں نے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ اس کتاب کانچوڑ پیش کردیا ہے،اسی لئے یہ قول ترانہ سننے والوں کو اپنے دلوں میں اترتا اوردعوت ِ فکر دیتا ہوامحسوس ہوتاہے۔رباعیاتِ سرمدی کے مترجم اور انہیں اردوشعری جامہ پہنا کر ”سرمد ایک سمندر” کتاب لانے والی ادبی شخصیت اور ریٹائرڈ سینئرپروڈیوسر ریڈیوپاکستان ملتان محمد انورمعین زبیری نقشبندی مجددی نے قوالی کے تاریخی تناظر میں ایک کتاب “امیرخسرو سے سیدفخرالدین بلے تک “لکھنی شروع کی تھی ،لیکن زندگی نے انہیں یہ منصوبہ پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کی مہلت نہیں دی ۔ایک در بند ہواتو مولانے ایک اوردروازہ کھول دیا ۔ابنجف ِ اشرف میں برسوں سے مقیم بھارت کے ادیب، دانشور، اسکالر اور محقق مولاناسید کلب ِحسن نونہروی نے سید فخرالدین بلے کے قول ترانے پر قلم اٹھایا ہے اور اس ادب پارےکے ایک ایک شعر میں مفاہیم کی جو دنیائیں اور معانی کے جوجہانآباد ہیں ، انہیں دریافت کیاہے ۔ نجف اشرف ہی کی ایک اور علمی اور ادبی شخصیت سلطان علی نجفی نےمولا نا سید کلب ِ حسن نونہروی کی تحقیقی کتاب کی تقریظ میں لکھا ہے” مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی نےقرآنی آیات ، احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معتبر تاریخی روایات کی روشنی میں فخرِادب سید فخرالدین بلے کے قول ترانے کے ہر ہر شعر کی شرح کمال مہارت سے سپرد ِقلم فرمائی ہے۔ اور تاریخی فن پارے کی گہرائی میں اترکر معانی کےجوگوہر ِِ نایاب سامنے لائےہیں ،اس نے قول ترانے کی تفہیم کوآسان بنادیاہے۔اور عربی، فارسی اور اردو کے بہت سے الفاظ کے معانی اوراس مدحیہ شاعری میں مستور تلمیحی اشاروں کےمطالب بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔جوزہ علمیہ مشہدالمقدس،ایران کےمحترم سید محمد طاہر عابدی غازی پوری نے اپنی تقریظ میں اس تحقیقی مقالے کوایک قابل ِستائش کاوش قراردیاہے۔ کتاب کے محقق اور مصنف مولا نا سید کلب ِحسن نونہروی نے لکھا ہے کہ سید فخر الدین بلے کی ذات گرامی اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے تمام اشعار میں صرف قو ل ترانہ کافی ہے ، اس لئے کہ یہ قول ترانہ صرف اشعار یا قافیہ پیمائی نہیں بلکہ اس ترانہ میں ایک پوری تاریخ مجملاً مخفی ہے ،جس کی اہل ِعلم و قلم ہی قدر کرسکتے ہیں ۔اور اس تحقیقی مقالے کے ساتھ حوالہ جات اس لئے درج کئے گئے ہیں کہ قول ترانہ کو کوئی ضعیف نہ سمجھے بلکہ اس میں ہر ہر لفظ اپنے اپنے مقام پر ایک سند لئے ہوئے ہے ۔اور یہ بھی ذکر کرنا مناسب رہے گا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ علی علیہ السلام کی پوری زندگی کی معلومات حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ اس قول ترانہ کو پڑھ لے ۔ میری تو خواہش یہ ہے کہ اسی قول ترانہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کتاب مولا علی کی سیرت پر لکھ دینی چاہئے تاکہ عام و خاص ہر ایک کے لئے مفید ثابت ہو سکے اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے علی علیہ السلام کی محبت کو عقیدہ کا تعویذ بنا کر پہن لیں ،جو روز ِمحشر بخشش کا وسیلہ بن سکے ۔ مولانا سید کلب ِحسن نونہروی کایہ تحقیقی مقالہ نامور شخصیات کے مقدمے، دیباچے اور بہت سے دلکش اضافوں کےساتھ کتابی صورت میں منظرعام پر آنے والاہے ۔محبان ِ علی علیہ السلام اور قارئین ِکرام کی دلچسپی کیلئےسید فخرالدین بلے کاقول ترانہ اورشاہ ِ نجف کی راجدھانی نجف اشرف میں مقیم مولانا سید کلب ِحسن نونہروی کی اس بصیرت افروز اور فکرانگیز کاوش کے چاروں ابواب کو عالمی اخبار کی زینت بنایا جارہاہے۔ جسے آپ بہت جلد کچھ اہم اضافوں کے ساتھ “ای ۔ بُک“ کی صورت میں ملاحظہ فرماسکیں گے.. ناشر: ادارہ عالمی اخبار
…………………………………………………
من کُنتُ مولاہ فَعَلی مولاہ ۔
و مَن کُنتُ مولاہ ،فھٰذا علی مولا
اب ملاحظہ فرمائیے ۔ مندرجہ بالا قول سیدالمرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بنیاد پر امیر خسرو کے 700سال بعد وہ قول ترانہ جو سیّد فخر الدین بَلّے نے تخلیق کیا ، جسے سن کر علامہ طالب جوہری نے تاریخ ساز کارنامہ اور معرفت کا انمول خزانہ قرار دیا تھا۔
امیر خسرو کے سات سو سال بعد
سیّد فخر الدین بَلّے کا قول ترانہ
من کُنتُ مولاہ فَعَلی مولاہ ، ۔۔۔ و مَن کُنتُ مولاہ ، فھٰذا علی مولاہ،
اللہ تو واللہ ھُوَ اللہ ُ اَحد ہے
وہ قادرِ مطلق ہے‘ وہ خالق ہے،صمد ہے
احمدمیں اِدھر “میم” اُدھر”مِنّیِ و مِنھہ ”
ادراک ہے ، اک عقل کی حد ہےاک پردہء
……..
اللہ ُ غنی مولا‘ اللہ ُ قوی مولا
اللہ ُ خفی مولا‘ اللہ ُ جلی مولا
اللہ ُ ولی مولا‘ اللہ ُ عَلِی مولا
مولا کا نبی مولا‘ مولا کا ولی مولا
لاریب نبی مولا‘ واللہ علی مولا
……..
من کُنتُ مولاہ ،فَعَلی مولاہ،
من کُنتُ مولاہ ،فھٰذا علی مولاہ،
……..
لَو کَانَ نبی بعدی‘ فی الحق علی مولا
وَاجعل لی وزیری ومن اھلِی اخی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
الطاھر و الشاّھد، الصّالح و الذَاہد
المومن و الصائم ‘ صدیق و صفی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ، فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ، فھٰذا علی مولا
……..
السیّد وا لسّاقی‘ المھدی و الہادی
القاری و الداعی‘ ہمرازِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
ایلی وعَلی عَالی ،مولودِ حرم والی
درحالِ رکوع بخشش‘ بِصوّم سخی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
فی الخندق و فی الخیبر،فی البدر واُحد حیدرؑ
قتّالِ حُنین اولیٰ‘ ذوالبرقہ علی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
معراجِ ِ نبی برحق‘ معراجِ ِ علی برحق
ہے کعبہ ء مولامیں بردوشِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
مِن لَحمِکَ لَحمِی و بالقولِ علی مِنّی
مولا کا اخی مولا‘ مولا کا وصی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
ہم اوّل و ہم آخر‘ ہم ظاہر و ہم باطن
ہم مولا و ہم قرآں‘ ہم نورِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
اِقرار کُنَم بَلّے ‘ من بندہ ء مولائی
اللہ و نبی مولا‘ واللہ علی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ، فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ، فھٰذا علی مولا
……..
ان کی بیاض میں اس قول کا مقطع یہ بھی موجود ہے۔
ہر سالک و عارف کا بَلّے یہی مسلک ہے
اللہ و نبی مولا، واللہ ُ علی مولا
{یہ تھا وہ قول ترانہ جو امیرخسرو کے 700سال بعد سید فخرالدین بلے نے تخلیق کیا}
تحقیقی مقالہ
من کنت مولاہ فھٰذا علی مولا۔ سیّد فخر الدین بَلّے کا نیا قول ترانہ
امیر خسرو کے سات سو سال بعد ایک تاریخ ساز کارنامہ
تحریر و تحقیق؛ مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی، قم شریف
سلطان القول
دل کے مطالب زبان سے صادر ہوتے ہیں ۔اگر زبان نہ ہو تو سارے مطالب دل میں ہی گھٹ گھٹ کر رہ جائیں ۔ یہ مطالب کبھی نظم بن کے چلتے ہیں ،کبھی نثر کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں، نظم میں مہارت رکھنے والے کو ناظم یا شاعر کہتے ہیں اور نثر میں مہارت رکھنے والے کو مقرر یا خطیب کہتے ہیں ،لیکن اہل ِعلم و ادب کی نظر میں بہترین شاعر و مقرر وہ ہے جو الفاظ اور معانی کے رشتے کا خیال کرتے ہوئے اس طرح استعمال کرے کہ ادب کا میزان بن جائے ، بلاغت کی جان ہو جائے ، فصاحت کی شان ہو جائے ، مفرد ہو یا مرکب ، مہمل ہو یا مستعمل ،سبھی ادب کی عدالت میں اپنے حقوق پا رہے ہوں ۔زبان سے نکلی ہوئی بات کو عربی زبان میں قول کہا جاتا ہے ( بات ، گفتار ، بولنا ، کہنا وغیرہ۔۔۔) اب اس قول میں عمومیت پائی جارہی ہے۔ ہر شخص کے پاس زبان ہے اور ہر شخص بولتا ہے لیکن جب فعل کی نسبت فاعل کی طرف دی جائے تو اب وہی قول معتبر ہوجاتاہےاوراگرنسبت نہ دی جائےتو قولضعیف مانا جاتا ہے ۔
لفظ قول ( قاف ، واو ، لام ) سے مل کر بنا ہے ( جس کے معنی گفتار کے ہیں ) اس قول کا ماضی : قالَ ہے ( جیسے قال َاللہُ ۔ اللہ نے کہا ، قالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا) اس کا مضارع : یَقولُ ہے ( جیسے یقول زید ۔زید کہتاہے یا کہے گا ) اس کا امر : قُل ہے ( تم کہو ) اس کا اسم فاعل :قائل ہے ( کہنے والا ) اس کا اسم مفعول : مقول ہے ( کہی ہوئی بات ) اس کا اسم مبالغہ : قَوّال ہے ( بار بار کہنے والا )عربی زبان کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ ایک لفظ سے ہزاروں لفظ بنا ئے جا سکتے ہیں اور عربی زبان میں تقریباً چودہ علوم ہیں ( صرف، نحو ، لغت ، اشتقاق، کتابت ، قرأت ، تجوید ، معانی ، بیان ، بدیع، شعر ، انشاء، اَمثال و تاریخ ادبیات) ان میں بہترین علوم صرف و نحو ،لغت ہے۔ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ قرآن مجید کے مطالب کو سمجھے تو اس کے لئے صرف و نحو و لغت کا جاننا ضروری ہے ۔مذکورہ بالا عبارت میں جو لفظ قول کی مختصر سی تشریح کی گئی ہے، وہ علم صرف ہے اسی لئے علم صرف کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک لفظ کو مختلف شکلوں میں لے جانےتا کہ سے متعدد معنی حاصل ہوں ۔( یعنی کلمہ سازی و کلمہ شناسی )فخر ادب سید فخر الدین بلے صاحب کو کلمہ سازی اور کلمہ شناسی دونوں پر عبور حاصل تھا ، جس کی مثال موصوف کے اشعار سے پیش کی جائےگی۔
لفظ قول مصدرہے ۔ اس کا اسم مبالغہ قوّال ہے ( بار بار کہنے والا ) قوّال کے آخر میں یاء نسبتی ملحق ہوگئی ہے (قوّالی )یہ اردو زبان میں، خداوند ِ عالم اور رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ران کے جانشین حضرت علی ؑ کی مدح کرنے والے کو قوّال کہاجاتا ہے اور جو چیز مدح و ثناء میں بیان ہورہی ہے، اُسے قوّالی کہا جاتا ہے ۔ اور قوالی کا لازمہ آلات ِموسیقی کا ہونا ہے ۔اسی لئے قوالی کا تصور بغیر آلات ِموسیقی کے نہیں ہوتا ، قوالی کی ابتدا حضرت شیخ نظام الدین محمد بن احمد معروف بہ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص حضرت حکیم ابوالحسن یمین الدین بن سیف الدین محمود معروف بہ امیر خسرو، ملقب بہ سعدی ءہند ، متخلص بہ سلطانی و طوطی ء ہند، دہلوی ( متوفی ۷۲۵ ہجری قمری ) سے مانی جاتی ہے، جو اپنے عہد کے ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔
مختصر یہ کہ امیرخسرو کے نقش قدم پر چلنے کی بہت سے شعراء نے کوشش کی لیکن بہت کم افراد نشان ِ منزل کو پاسکے ، ان میں نور الدین عبد الرحمن معروف بہ جامی، اور فخر ادب سید فخر الدین بلے کی ذات گرامی اس بات کو آشکار کر رہی ہے کہ ایران و ہند و پاک ، مکان ضرور بدلے ہوئے ہیں لیکن امیر خسرو کے نقش قدم پر چلنے والوں کا نشان ِ منزل ایک ہے ۔
خاندان ِچشت کے چشم و چراغ اور آل ِ امام جعفر صادق علیہ السلام فخر ادب سید فخر الدین بلے شاہ صاحب جعفری الچشتی نے نیا قول ترانہ اُسی رنگ پر تحریر کیا ،جس کی ہدایت امیرخسرو کو ان کے جدِ امجد نے کی تھی ۔وہ ہدایات کیا تھیں ؟ قول ِ پیامبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔ کو قول ترانہ میں اس طرح بیان کیا جائے کہ محفل کی ابتدا اسی کلام سے ہو، سات سو برس بعد اسی کام کو جناب فخرِ ادب سید فخر الدین بلے صاحب نے انجام دیا ہے۔ صاحبان ِ بصیرت اور اہل ِحل و نقد جناب فخرِ ادب سید فخر الدین بلے صاحب کی ذات و شخصیت سے بخوبی واقف ہیں ، لیکن اہل ِنظر کو چاہئے کہ وہ سوچیں آخر کیا وجہ تھی کہ قول ترانہ میں منکنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی قید ہے اور حضرت نظام الدین اولیاء نے امیرخسرو ایسا شاگرد تیار کیا، جس نے قول ترانہ میں اس حدیث ِمبارک کو مقام ِاوّل قرار دیا اور یہی چیز جو سات سو برس سے گمنامی کی زندگی بسر کر رہیتھی،فخر ِادب سید فخر الدین بلے صاحب نے دوبارہ اسےگمنامی سےمعروف بنادیا ۔
تاریخی شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول ( من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ) حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۱۸ ذی الحجۃ دسویں قمری ہجری کو غدیر ِ خم کے مقام پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے فرمایا تھا ، واقعہ در اصل یہ ہے کہ رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی زندگی کا آخری حج تھا، جسے حجۃ الوداع یا حجۃ الکمال کہا جاتا ہے ، رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پانچ یا چھ روز ماہ ذی الحجۃ سے پہلے حج کے لئے روانہ ہوئے ، مکہ پہنچے اور حج کے تمام اعمال انجام دینے کے بعد مکہ سے خارج ہوئے۔ اٹھارہویں ذی الحجۃ کو غدیر ِخم کے مقام پر پہنچے ،وہیں جبرئیل ِامین نازل ہوئے اور فرمان ِ خدا سنایا : يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ۔ (اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جوکچھ آپ پر آپ کے خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے، اُسے آپ پہنچا دیجئے ۔اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویا اپنی رسالت کے فرائض کو انجام نہیں دیا اور خدا وند ِعالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔یقیناً خداوند ِ عالم قوم ِ کفار کی ہدایت نہیں فرماتا۔ ) رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم ِخدا کے مطابق جو حاجی آگے بڑھ گئے تھے، اُن کو پیچھے بلایا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ،اُن کا انتظار کیا ، جب سب جمع ہوگئے تو اونٹوں کے کجاوے کا منبر بنانے کے لئے حکم صادر کیا ، حاجیوں نے منبر اونٹوں کے کجاوے کا بنایا ، جب منبر تیار ہوچکا تو رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس منبر پر تشریف لے گئے، پہلے خداوند ِ عالم کی حمد و ثناء کی۔ اس کے بعد لوگوں سے سوال کیا لوگو، میرے متعلق تمہاری کیا گواہی ہے ؟ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع تھا ،سب نے ایک زبان ہوکر کہا : نشھد أنّک قد بَلّغتَ و نَصحٹَ و جَھدتَ فَجَزاک اللہ خیراً ۔ ہم سب گواہی دیتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ ّآلہ وسلم نے ابلاغ ِرسالت کے فرائض کو انجام دیا اور نصیحت کی اور آپصلی اللہ علیہ ّآلہ وسلم کی آخری کوشش ہم سب کو راہ ِہدایت پر لگانے میں تھی ۔ پھر رسول ِاسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا ، کیا خدا اور میری رسالت اور روزِ قیامت پر یقین ہے ؟ سب نے کہا ، ہاں یقین ہے ۔ تو اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا خدایا گواہ رہنا ، پھر پوچھا کیا میری آواز تم تک پہنچ رہی ہے ؟ سب نے کہا ہاں ، جب سب سے رسول ِ گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اقرار لے چکے ،تب فرمایا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ان سے تمسک اختیار کرو ۔ اس ایک لاکھ بیس ہزار کے مجمع میں سے ایک نے پوچھا ،وہ دو چیزیں کیا ہیں ؟ تو فوراً رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ایک کتاب ِ خدا دوسرے میری عترت ۔ جب سب متوجہ ہوگئے تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دستِ مبارک کو پکڑا اور اتنا بلند کیا کہ سارے مجمع نے دیکھا اور فرمایا : أیھاالناس مَن اولیٰ النَّاس بالمؤمنین مِن اَنفُسِھِم ۔ وہ کون ہے جو سب سے زیادہ سزاوار ہے کہ تمہارے اوپر حاکمیت کرے ؟ سب نے کہا خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ اس کے بعد رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :ایھا الناس ُ انّ اللہ مولای و انا مولی المؤمنین ۔ اللہ میرا حاکم ہے اور میں مومنوں کا حاکم ہوں۔
اس کے فوراً بعد فرمایا : من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ۔ میں جس جس کا مولا ہوں، یہ علی بھی اُس اُس کے مولا ہیں ۔ اور اس کے بعد دعائیہ کلمات فرمائے : اللھم والِ مَن والاہُ و عادِ من عاداہ ُ وَانصُر مَن نَصَرَہُوَاخذُل مَن خَذَلَہ ۔خدایا جو علیؑ کو دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کراور جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کو رسو ا کرے تو اُسے بھی رسو ا کر ۔ اُس کے بعد پھر رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو حضرات یہاں پر موجود ہیں، وہ غائبین تک اس پیغام کو پہنچائیں ۔ ابھی مجمع اپنی جگہ سے منتشر بھی نہیں ہوا تھا کہ دوسری آیہ ٔ کریمہ نازل ہوئی :
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ۔
ترجمہ:آج میں نے دین ِاسلام کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تمام کردیا اور اس دین ِاسلام سے راضی ہوگیا ۔
محقق کبیر علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں یہ ذکر کیا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابیوں میں سے ایک سو دس صحابی ، اور ۸۴ تابعین اور اس واقعہ کو اہل ِ تشیع کے علاوہ ۳۶۰ بزرگ علمائے اہل سنّت نے بھی نقل کیا ہے ۔
فخر ِِادب سید فخر الدین بلے صاحب نے اپنے قول ترانے کاآغاز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی حدیث مبارک ( من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ) سے کیا ، جناب موصوف کے اس “قول ترانہ” کو چار ابواب میں تقسیم کیاجاسکتاہے ۔
باب ِ اوّل
۱۔ توصیف ِ خداوند ِ عالم اور اس کی ولایت ِمطلقہ کا تذکرہ :
الف : سب سے پہلے جناب فخر ِ ادب نے اپنے قول ترانہ میں خداوند ِعالم کی حمد و ثناء کی ہے اور اس کا آغاز بھی خداوند ِعالم کی پاک و پاکیزہ کتاب قرآن مجید ، جس میں ایک مکمل سورہ ، سورۂ اخلاص کے نام سے معروف ہے اس کی پہلی آیت سے کی ہے ۔
اللہ تو واللہ ( ھُواللہ احد ) ہے
وہ قادر ِمطلق ہے ،وہ خالق ہے ، صمد ہے
پہلے مصرعہ میں اللہ کی توصیف خود واللہ کہہ کر یعنی اللہ کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ( ھو اللہ احد ) ہے ۔ اور یہ قرآن مجید کی آیت ہے ۔اللہ اسم ِخاص ہے اور اسی لفظ اللہ میں خداوند ِعالم کی تمام صفات ِ جلالیہ و جمالیہ کا اشارہ بھی ملتا ہے ۔لیکن لفظ احد مادہ ءوحدت سے ہے ۔جس کے معانی یکتا ہونے کے ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک لفظ احد و واحد دونوں سے مراد یگانگی ء خدا ہے ، وہ اپنی قدرت میں بھی بے نظیر ہے اور اپنے علم میں بھی بے نظیر ہے۔ اپنی رحمانیت و رحیمیت میں بھی یکتا ہے ۔کوئی اس جیسا نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ یکتا ہے ۔بے مثل ہے لیکن بعض کے نزدیک لفظ احد و واحد میں فرق ہے ، احد یعنی جو کثرت کو قبول نہ کرتا ہو ، نہ خارج میں نہ ذہن میں ، یعنی اس کی ذات قابل ِ شمار نہیں ہے کہ کوئی اپنی گنتی سے گنے ، جیسے ایک ، دو کے مقابل میں ہے۔ اس طرح سے اس کو بھی کسی کے مقابل میں کرے برخلاف واحد کہ اس کے مقابل میں دو ، تین ، چار تصور و تصدیق ہر دو میں ہے ۔ جنگ جمل کا واقعہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھ لیا کہ خدا وند ِعالم کو واحد کہا جاتا ہے ۔اس سے مراد کیا ہے ؟ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں فرمایا : اس سے چار معنی مراد ہیں ، جس میں دو صحیح اور دو غلط ہیں ۔ (۱) وحدت عددی ہے یعنی ایک کو دو کے مقابل میں لانا ،جب کہ میرا خدا ایسا ہے کہ دوسرا اس کے مقابل میں تصور میں بھی نہیں آسکتا ۔ (۲) وحدت نوعی ہے مثلا یہ کہا جا ئے کہ فلاںشخص اُنھیں میں سے ہے تو اس میں نوعیت پائی جارہی ہے اور خداوندِ عالم نوعیت و ہر طرح کی شباہت سے پاک و پاکیزہ ہے۔ (۳) خدا واحد ہے یعنی اس جیسا کوئی نہیں ہے ۔ (۴) خدا واحد ہے یعنی تقسیم پذیر نہیں ہے ۔ بعد والے یہ دونوں معنی صحیح ہیں ۔
ب : خداوند ِعالم قادرِ مطلق ہے یہ صفات ِثبوتیہ میں سے ایک صفت جمالی ہے ، لفظ قادر اسم ِفاعل ہے یعنی قدرت رکھنے والا ، قادرِ مطلق یعنی قدرت ِلا متناہی ، ایسی قدرت کہ جس کی کوئی حد نہیں بیان کی جاسکتی۔ لفظ قادر کا استعمال قرآن مجید میں متعد دجگہوں پر ہوا ہے (أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ) اور اس مادہ سے دوسرے لفظ بھی مستعمل ہیں، جیسے لفظ قدیر و مُقتَدِر وغیرہ ۔۔۔
ج : خداوندِعالم خالق ہے ، یعنی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ کائنات کی ساری چیزیں اور خود کائنات مخلوق ہے ، لیکن خلق کے اصل معنی اندازہ گیری کے ہیں ،معنی کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ خالق یعنی اندازہ گیر ۔ خداوند ِ عالم جس چیز کو خلق کرتا ہے ،اس اندازہ گیری کے ساتھ پیدا کرتا ہے کہ اس میں کوئی نقص و عیب نہیں رہ جاتا اور یہ خدا ہی کی ذات کے لئے کہا جاسکتا ہے ۔اور اس کی مثال قرآ ن مجید میں بھی ملتی ہے (ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ )
د : خداوند ِ عالم صمد ہے اور یہ سورہء اخلاص کی دوسری آیت ہے (اللَّهُ الصَّمَدُ )یعنی پوری دنیا اس کی محتاج ہے اور وہ بے نیاز ہے اور ایسا بے نیاز ہے کہ نہ ُاسے مکان کی ضرورت ہے نہ زمان کی ، نہ اُس کے لئے کب اور کہا ں ہے؟ وہ ہر جگہ ہے ۔ہر ایک کی سنتا ہے ، حیات و ممات بھی اسی کے دست ِ قدرت میں ہے ۔
اللہ ُ غنی مولا ، اللہ ُ قوی مولا
اللہ ُ خفی مولا ، اللہ ُ جلی مولا
اللہ ُ ولی مولا ، اللہ ُ علی مولا
مولا کا نبی مولا ، مولا کا ولی مولا
لاریب نبی مولا ، واللہ ُ علی مولا
ابتدائی تین مصرعوں میں اوصاف ِ خدا بیان کئے گئے ہیں ۔ جیسے ۱۔غنی ۲۔ قوی ۳۔ خفی ۴۔ جلی ۵۔ ولی ۶۔علی ۔
۱۔ غنی : خداوند ِ عالم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ خدا بے نیاز ہے اور ساری کائنات اس کی محتاج ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے (يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )
۲۔ قوی : یعنی صاحب ِ قوت و قدرت۔یہ بھی اسماء باری تعالیٰ میں سے ہے۔ جس کی مثال قرآن کریم ہے ۔(لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ )
۳۔ خفی : جناب فخر ِ ادب سید فخر الدین بلے صاحب نے لفظ خفی کا ا ستعمال کر کے خداوند ِ عالم کی قدرت ِکاملہ کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے کہ جتنی چیزیں ہیں، اس میں خدا کی قدرت پوشیدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب جب کسی چیز پر تحقیق ہوتی ہے،نئے نئے انکشافات دنیا کے سامنے آتے ہیں اور دنیا حیران ہوجاتی ہے ۔
۴ ۔جلی : لفظ خفی کا لازمہ تھا کہ جلوہ ء ربوبیت کا بھی تذکرہ کیا جائے ، حقیقت یہ ہے کہ جب دنیا ظاہری چیزوں کو نہ سمجھ سکی تو اس کے اندر جو قدرت کا جلوہ مخفی ہے ،اُسے کیا سمجھے گی ؟ اور خود قرآن مجید میں بھی بہت ساری آیات ایسی ہیں، جو انسان کو تعقل و تفکر و تدبر کی دعوت دیتی ہیں ۔ ( أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ۔ وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ ۔ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ۔ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (
5۔ ولی :فخر ادب نے خداوند ِ عالم کی ولایت کا تذکرہ کیا ہے ، (أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ )
۶۔ علی : خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔جو قرآن مجید کی جگہ جگہ زینت بنا ہوا ہے ۔(ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ )
بعد کے مصرعوں میں خداوند ِعالم کی ولایت اور اس کے اوصاف کو بیان کرنے کے بعد یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ مولا کا نبی مولا ہے ۔یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ مولا ہے ،اسی طرح اسکے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مولا ہیں ۔اسی طرح مولا کا ولی بھی مولا ہے اور یہ کہہ کر لوگوں کے شبہات کو دور کردیا ہے کہ لاریب نبی مولا ۔ نبی کے مولا ہونے میں کوئی بھی کلمہ گو شک نہیں کرتا تو اس کو چاہئے کہ یہ بھی جان لے کہ واللہ علی مولا، خدا کی قسم علی بھی مولا ہیں اور ان کے مولا ہونے میں بھیکوئی شک و شبہات نہیں ہیں ۔
باب ِ دوم
۲۔ توصیف ِ پیامبر ِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماور ان کی ولایت کا تذکرہ :
جناب فخر ادب سید فخر الدین بلّے صاحب نے خداوند ِ عالم کی ولایت ِمطلقہ کا تذکرہ کرنے کے بعد خاتم النبیین ، سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولایت کا بھی ذکر کیا ہے لیکن ولایت کے ساتھ ساتھ ان اوصاف کا بھی ذکر کیا ہے ،جس کی طرف عوام کیا اکثر خواص کا بھی ذہن متوجہ نہیں ہوتا ہے ۔
احمد میں اِدھر میم ، اُدھرمِنّی و مِنہ
اک پردہ ءادراک ہے ، اِک عقل کی حد ہے
موصوف کے اس بیت کو سمجھنے کے لئے فارسی زبان کے عظیم شاعر سعد الدین محمود بن امین الدین عبد الکریم بن یحیی معروف بہ محمود شبستری ( متوفی ۷۴۰ ہجری ) کی طویل نظم سے ایک بیت نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
زاحمد تا احد یک میم فرق است
جھانی اندر آن یک میم غرق است ۔
شیخ محمود شبستری نے بڑے اچھے انداز میں سمندر کو کوزے میں سمو نے کی کوشش کی ہے کہ خدا احد ہے اور نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احمد ہیں ۔لفظ احد کا تذکرہ مذکورہ بالا عبارت میں آچکا ہے کہ جوسورہ اخلاص کی پہلی آیت ( قل ھو اللہ احد ) ہے اور لفظ احمد کا بھی ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے، جب جناب عیسی ٰعلیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اپنی رسالت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے آنے کی بشارت دی (وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ) بشارت دیتا ہوں میں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ۔ لیکن محمود شبستری فرماتے ہیں کہ احد اور احمد میں صرف ایک میم کا فرق ہے اور اس میم کے اندر تمام جہان غرق ہے ۔ یہ میم نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمالات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ میم سے مصطفیٰ ، محمد ، مخلوق اوّل ، مظہر الوہیت ، مرضی ربوبیت ، ممکن الوجود ، معراج ِبر حق ، مکتب ِہدایت ، مسبب ِ خلقت ِجہان ، محبوب ِ الہی ۔ یا یہ بھی بیان کیاجا سکتا ہے کہ میم کا عدد ۴۰ بنتا ہے ،جو ایک رمز ہے اور اس رمز کو عارفان و سالکان ہی سمجھ سکتے ہیں اور قرآن مجید میں حروف ِمقطعات بعض سوروں کے ابتداء میں آئے ہیں ۔جیسے الم ( الف ، لام ، میم ) وغیرہ ۔
احمد میں اِدھر میم ، اُدھر منّی ومنہ ، احمد کی میم رمز ِ ِکائنات ہے اور منی و منہ ذات واجب الوجود اور ممکن الوجود کے رابطے کو بیان کررہی ہے کہ میں احمد سے ہوں۔ ذات ِ محمد کو اس لئے خلق کیا کہ میں پہچانا جاؤں اور احمد مجھ سے ہے ۔گویا یہ مخلوق ِ اوّل عقل ِ اول ہے ۔زپردہ ادراک اتنا میرا شفاف نہیں ہے کہ اوصاف ِمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکو بیان کرسکوں اور میرے عقل کی حد یہ کہتی ہے کہ جسم ِ محمد اور خلقت ِ محمد کو تو دنیا سمجھ نہ سکی ، عقل ِ محمد کو کیسے سمجھے گی کہ جو عقل ِ اول ہے ، نور ِ اول ہے ، مخلوق ِاول ہے ۔
باب ِ سوم
۳۔ توصیف ِ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ اور ان کی ولایت کا تذکرہ :
مولائے کائنات کے وصف ِ جمیل کو جناب فخرادب نے بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے ۔جس میں احادیث کے بعض کلمات کا استعمال اور القابِ ِ مشہورہ و معروفہ کا بیان اور جنگوں کے نام میں ہی علی علیہ السلام کے شجاعت کا اشارہ اور معراج ِعلیؑ کے ساتھ ساتھ دوسرے کمالات بھی عشق ِ علی میں قصیدہ پڑھتے ہوئے قول کی تسبیح بنتے نظر آتے ہیں ،علی کا دیوانہ ایک ایک دانہ کو اس حُسن سے پروتا ہے کہ دنیا کا ہر دانا چاہتا ہے کہ کوئی دانہ شرح ِدفتر ِ فضیلت سے محروم نہ رہ جائے اور عاشقان ِ علی کی طبیعت اتنی سیر ہوجائے کہ زمزم اچھل پڑے ، دیوار ِ کعبہ مسکرانے لگے ، کوثر نغمہ ءمحبت سنانےلگے ، باغ ِجنت انتظار کی آنکھیں بچھانے لگے ۔
احادیث کا استعمال : جناب فخر ادب نے بعض اشعار میں احادیث کا استعمال کیا ہے ۔
لو کان نبی بعدی ، فی الحق علی مولا
واجعل لی وزیری و مِن اھلی اخی مولا
مِن لحمک لحمی ، و بالقول علی مِنّی
مولا کا اخی مولا، مولا کا وصی مولا
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احادیث کے کلمات جو استعمال ہوئے ہیں ،ان اشعار میں کون کون سے جملے مبر س و مستند ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ( لو کان نبی بعدی ) یہ کسی حدیث کا جملہ نہیں ہے۔ شاید یہ عقیدت میں کہہ دیا ہو چونکہ یہ ثابت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین اور سید المرسلین ہیں یعنی آخری نبی اور تمام انبیاء کے سردار ہیں ۔جب آخری نبی ہیں تو، لو یا کاش، ایسا ، ویسا ، اگر ، مگر کی بات ہی نہیں رہ جاتی ہے ، فی الحق علی مولا یہ ایک عربی جملہ ہے، جو پہلے والے جملے سے مربوط ہے یعنی لو کان نبی بعدی ، اگر کوئی میرے بعد نبی ہوتا تو وہ علی ہوتے یعنی یہ بات علی علیہ السلام کے حق میں ہے ( فی الحق علی مولا) ۔
واجعل لی وزیری ، یہ بھی حدیث کا جملہ نہیں ہے بلکہ موصوف کا دعائی جملہ ہے اور اس کا یوں ترجمہ کیا جاسکتا ہے : خدایا میرے لئے ایک وزیر مقرر فرما ، ومِن اھلی اخی مولا ۔جو میرے اھل سے ہو اور میرا بھائی ہو۔ یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یقینا ًموصوف کی نظروں سے یہ حدیث ِمبارک گزری ہے ،جس کے مفہوم کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے ۔ ( علی منّی بمنزلۃ ھارون مِن موسیٰ الاّ أنّہ لا نبی بعدی ) جس کا مطلب یہ ہے کہ علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسے ہی ہے، جیسے ہارون کو موسیٰ سے تھی ۔بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ یہ نبی اکرم کی مشہور ومعروف حدیث ہے ، اور دوسری حدیثِ مبارک جب اپنے خاندان والوں کو جمع کرکے بیان کیا ۔جس سے وزارت علی ابن ابی طالب ثابت ہوتی ہے اور یہ واقعہ دعوت ِ ذوالعشیرہ کے نام سے مشہور ہے ۔ وَ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَزْدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ وَ شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَالْأَقْرَبِينَ وَ رَهْطَكَ الْمُخْلَصِينَ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ص بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ هُمْ إِذْ ذَاكَ أَرْبَعُونَ رَجُلًا يَزِيدُونَ رَجُلًا أَوْ يَنْقُصُونَ رَجُلًا فَقَالَ أَيُّكُمْ يَكُونُ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَارِثِي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ بَعْدِي فَعَرَضَ عَلَيْهِمْ ذَلِكَ رَجُلًا رَجُلًا كُلُّهُمْ يَأْبَى ذَلِكَ حَتَّى أَتَى عَلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ هَذَا أَخِي وَ وَارِثِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ بَعْدِي فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ وَ تُطِيعَ لِهَذَا الْغُلَام ۔
ترجمہ حدیث : اس حدیث کے نقل کرنے والے ، عبد العزیز نے مغیرۃ بن محمد سے ، انھوں نے ابراہیم بن محمدبن عبد الرحمن ازدی ، انھوں نے قیس بن ربیع اور شریک بن عبد اللہ سے ،ان حضرات نے اعمش سے ، انھوں نے منہال بن عمر سے ، انھوں نے عبد اللہ بن حارث سے ، انھوں نے نوفل سے ، انھوں نے علی ابن ابی طالب علیہ اسلام سے کہ انھوں نے فرمایا : جب خداوند ِ عالم نے اس آیت کو نازل کیا کہ ( اے پیغمبر) سب سے پہلے تم اپنے خاندان والوں کو ڈراؤ، اور گروہ مخلصین ( جس میں عورتیں نہ ہوں ) کو بلاؤ ، تو رسول اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اولاد ِعبد المطلب کو جمع کیا اور یہ چالیس نفر یا اس سے زیادہ یا اس سے کم مرد تھے تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمان سے مخاطب ہوئے اور پوچھا تم میں کون ہے جو میرا بھائی اور میرا وصی اور میرا وارث اور میرا وزیر اور میرے بعد میرا جانشین بنے ؟ ایک ایک سے پوچھا، سب نے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ مجھ سے بھی پوچھا تو میں نے کہا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں یا رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا : اے اولادِ عبد المطلب یہ میرا بھائی ہے اور میرا وارث ہے اور میرا وصی ہے اور میرا وزیر ہے اور میرے بعد تم میں میرا جانشین ہے ۔ ( اب یہ سننا تھا کہ ) سارے افراد اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہہ کے ہنسنے لگے اور ( یہاں تک کہ میرے باپ کو طعنہ دینے لگے ) میرے باپ ابوطالب سے کہتے کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے اس بچے کی بات سنیں اور اطاعت کریں ۔
اب تیسری حدیث جو مِن لحمک لحمی ہے یعنی تیرا گوشت میرا گوشت ۔ اسے بھی یہاں بیان کرنا ضروری ہے ۔ یہ ایک مشہور ومعروف حدیث ہے ۔جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فتح ِخیبر کے موقعے پر علی علیہ السلام کے باب ِ فضیلت میں بیان کیا تھا ، حقیقت تو یہ ہےکہ یہ ایک طویل حدیث ہے، جسے یہاں طوالت کی وجہ سے ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا ،یہ حدیث دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہاں پر بحارا لانوار کا حوالہ اس لئے تحریر کر رہا ہوں کہ اس میں تفصیل کے ساتھ اس حدیث کا ذکر ہے ۔
چوتھی حدیث : بالقول علی منّی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکا قول ہے کہ علی مجھ سے ہے اس حدیث کا ذکر مختلف مواقع پر اور مختلف عبارات و مفاہیم کے ساتھ مختلف کتابوں میں ہے ۔جسے علمائے اہلِ تشیع کے ساتھ ساتھ علمائے اہل ِتسنن نے بھی ذکر کیا ہے ۔ اور اس سے پہلے حدیث ِ منزلت کا ذکر آیا ہے۔ یہاں پر بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ حدیث ِمنزلت کا ہی ذکر کروں ۔بس ذرا عبارت کے بدلنے سے مفہوم بھی الگ ہے ۔ اور وہ یہ ہے ( قول ِ رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله وسلم : عليمني بمنزلة هارون من موسى (حديث المنزلة) صحيح البخاريّ: ج ۵5 ص ۲۴/۱۲۹24، 129. صحيح مسلم: ج 5 ۵ص۱۷۳ 173. خصائص النسائي: ص 19۱۹- و۲۰ )
مولا کا اخی مولا ، مولا کا وصی مولا ۔ جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے بعد علی علیہ السلام جانشین ہیں اور مذکورہ بالا احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے تو گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے تین مصرعوں کے بعد چوتھا مصرعہ چودہویں کا چاند بن گیا ، رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے بھائی مولا و آقا ہیں اور جو بھائی ہے، وہی وصی بھی ہے تو وصی بھی مولا ہے تو لفظ اخی جو مانع اغیار ہے ( میرا بھائی )وہ چہار دیواری کا کام کررہی ہے کہ کوئی غیر اس کے اندر آنے نہ پائے۔ بس وہی آئے کہ جس کی ولایت پر نبی صلی اللہ علیہ ّآلہ وسلم کی مہر لگ چکی ہے اور یہ مقام ِفضیلت، علی سے مختص ہے ۔
القاب مشہورہ و معروفہ کا بیان :
الطاھر والشاھد ،الصالح و الزاھد المومن و الصائم ،صدیق وصفی مولا
السید و الساقی ، المھدی والھادی القاری و الداعی،ہمرازِ نبی مولا
ایلی وعلی عالی ،مولود ِحرم والی در حال ِرکوع بخشش ،بصوم سخی مولا
ہم اوّل و ہم آخر ، ہم ظاہر و ہم باطن ہم مولا و ہم قرآں، ہم نور ِ نبی مولا
۱۔ الطاھر : یعنی پاک و پاکیزہ ۔ فخرِ ادب نے سب سے پہلے طہارت کا تذکرہ کیا ہے کہ جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کسی کی ولایت کو ہم تسلیم کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا ہر رجس سے پاک ہونا ضروری ہے اور پاکیزگی ء اہلبیت ؑ قرآن مجید میں ثابت ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و حضرت علی ؑ و امام حسنؑ و امام حسین ؑ اور بی بی فاطمہ زہرا ؑ چادر کے نیچے سب جمع ہوگئے تو آیہ ء تطہیر کا نزول ہوا (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ) اور یہ واقعہ حدیثِ کساء کے نام سے مشہور ہے ۔
۲۔ الشاھد : یعنی گواہ ۔حضرت علی علیہ السلام شاہد ہیں۔ اس کا اثبات بھی قرآن مجید میں ہے (أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دلیل و حجت پر آیا اور اس کے پیچھے پیچھے گواہ بھی آیا ۔ تو دلیل و حجت پر آنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ اور شاہد سے مراد حضرت علی ؑ ہیں ۔
۳۔الصالح : یعنی نیک ۔ ( فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ )اس آیت کی تفسیر میں بہت سے مطالب پوشیدہ ہیں لیکن صرف میں یہاں پر صالح المؤمنین کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سےمراد اہل ِتسنن و تشیع کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔
۴۔ الزاھد :یعنی عبادت گزار، تارک الدنیا ۔زاھد کے علاوہ مولا علی کا لقب ازھد الزاھدین بھی ہے ۔ بعض القاب و صفات خود مولا کے فعل کی وجہ سے ان پر منطبق ہوتے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک لفظ زاھد بھی ہے ۔
۵۔ المؤمن :یعنی ایمان لانے والا، تصدیق کنندہ ۔ ( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : علی امیر المؤمنین ۔ ) اس لقب سے ثابت ہوتا ہے کہ مولائے کائنات جب امیر المؤمنین ہیں تو مؤمن ہونا یوں ثابت ہوجاتا ہے ۔
۶۔ الصائم : یعنی روزہ دار ۔اہل ِعلم بخوبی واقف ہیں کہ جب امام حسن ؑو امام حسین ؑبیمار ہوئے تھے تو اس وقت رسول اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا تھا منت مان لو، جب شفا مل جائے گی تو تین روز روزہ رکھیں گے تو اس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام اور ساتھ میں گھر کی کنیز فضہ نے بھی روزہ رکھا تھا۔ تب پورا سورہ ءدہر اہل ِ بیت ِ اطہار کی شان میں نازل ہوا ۔
۷۔ صدیق : یعنی انتہائی سچّا ، اپنے قول کی عمل سے تصدیق کرنے والا ۔عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً يَقُولُ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَ أَخُو رَسُولِ اللَّهِ وَ أَنَاالصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ مُفْتَرٍ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ.
اس روایت سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ خود مولائے کائنات نےمقام ِفخر میں فرمایا ہے کہ میں صدیق اکبر ہوں، سوائے جھوٹے کے میرے بعد کوئی اپنے کو صدیق نہیں کہے گا ۔
۸۔ صفی : منتخب بندہ ۔(علی صفی رسول اللہ ۔ ) یہ لقب بھی مولائے کائنات علی علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی طرف سے ملا ہے ۔
۹۔السیّد : سردار ، آقا و مولا۔ لفظ سید کے ساتھ مولا کے بہت سارے القاب ہیں، جیسے سید العرب ، سید لبررۃ ، سید المسلمین ، سید الاوصیاء، سید سید النجباء و۔۔۔ یہ تمام القاب مولائے کائنات علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملے ہیں، جس میں سے ایک لقب کا حوالہ دینا کافی ہوگا کہ رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا علی سید العرب ہیں ۔( علی سید العرب )
۱۰۔ الساقی :شراب پلانے والا ، یہاں مراد ساقیء کوثر ہے ۔ علی ساقی ہیں اس سلسلے میں بہت ساری روایتیں ہیں جن کا ذکر لازم نہیں ہے مگر پھر بھی ایک کتاب کا حوالہ ضروری ہے الطرائف صفحہ نمبر ۳۴۰ میں اس لقب کا ذکر ہے ۔
۱۱۔ المھدی : ہدایت یافتہ ۔پروردگار ِعالم نے جسے بھی ہادی بنایا ہے ،وہ مہدی بھی ہے ۔ اس لئے کہ اگر وہ خود ہدایت یافتہ نہ ہو تو کس طرح سے دوسروں کی ہدایت کرے گا ۔
۱۲۔ الھادی :ہدایت کرنے والا۔ یہ بھی مولا کا لقب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے اس قول سے لیا گیا ہے ( انا المنذر و علی الھادی الی امری )
۱۳۔ القاری: پڑھنے والا۔مولا علی علیہ السلام کی جب ولادت کعبہ میں ہوئی، اسی وقت رسول اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا تھا ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممیں کیا سناؤں؟ توریت ، زبور ، انجیل یا قرآن اور یہ واقعہ کتابوں کی زینت آج تک مدح ِ علی میں بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکم ِ نبیاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق وحی کو لوگوں کے درمیان پہنچاتے اور پڑھ کر سناتے ۔
۱۴۔ الداعی : دعوت دینے والا ۔ یہ لقب امیر المؤمنین مشہور و معروف ہے اور اس طرح سے بھی روایات میں نقل ہوا ہے۔ الداعی الی اللہ
۱۵۔ ایلی : صدیق اکبر ۔ ایلیا بھی مولائے کائنات کا لقب ہے۔ تمام خاندانِ نبوت کا تذکرہ انجیل میں موجود ہے ۔شاعر نے ایلیا کی جگہ ایلی ضرورت ِ شعری کی بناء پر استعمال کیا ہے
۱۶۔ علی : بلند درجہ ۔جب مولائے کائنات علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، اس وقت ہاتف نے ندا دی کہ اس بچے کا نام خداوندِ عالم نے اپنے نام پر رکھا ہے۔ وہ علی اعلیٰ ہے تو یہ علی ہے ۔
۱۷۔ عالی :بلند درجہ ، ممتاز،۔یہ لفظ بھی علی سے مشتق ہے ، عالی اسم فاعل ہے یعنی بلند مرتبہ ۔ اور اسی طرح اعلیٰ اسم تفضیل ہے یعنی دوسروں کے مقابل میں سب سے بہتر ، برتر ، سب سے زیادہ بلند مرتبہ یہ سارے لفظ مولا علی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔
۱۸۔ مولود ِحرم :مولائے کائنات کو مولود ِحرم بھی کہتےہیں ،چونکہ ان کی جائے ولادت خانہ کعبہ ہے ۔
۱۹۔ والی : سرپرست ۔ یہ لفظ ولی سے مشتق ہے، جب مولا علی ولی ہیں تو والی بدرجہ اولیٰ ہیں۔
۲۰۔سخی : یعنی فیاض ، فراخ دل ۔ ( الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ) اس آیت میں مولائے کائنات علیہ السلام کی مدح کی گئی ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اموال کو رات اور دن میں مخفی اور برملا طور پر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کا اجر خدا کے نزدیک ہے ،اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ رنج وملال ۔
۲۱۔ حیدر :یعنی شیر ، اسد۔ خود علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جنگِ خیبر کے موقع پر فرمایا ( انا الذی سمّتنی اُمّی حیدرۃ ) مرحب کے جواب میں ، میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ۔
۲۲۔ اولیٰ : بہتر ، زیادہ حق دار (قال رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : علی امیر المؤمنین ، وعلی اخی ، وعلی وزیری ، و علی وصی، وعلی خلیفتی علیٰ امّتی مِن بعدی ، و علی اولیٰ الناس بالناس مِن بعدی ۔ )رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا علی میرا بھائی ہے ، میرا وزیر ہے ، میرا وصی ہے اور میرے بعد میری امت کے لئے میرا جانشین ہے اور لوگوں میں میرے بعد سب سے برتر و بہتر ہے ۔
۲۳۔ ذوالبرقہ :(لقبُ أَميرِ المُؤْمنينَ عَلِيّ بنِ أَبي طالِب- رضِيَ اللَّه تَعالَى عنه- لقَّبَه به عَمُّه العَبّاسُ بنُ عبدِ المُطَّلِبِ رضيَ اللَّهُ تَعالَى عنه يومَ حُنَيْن۔ )
یہ لقب حضرت علی علیہ السلام کو جنگِ حنین میں عباس ابن عبد المطلب نے دیا تھا ۔
۲۴۔ اوّل : آخر کی ضد ، پہلا ۔ لفظ اول کے ساتھ بھی مولا علی کے بہت سارے القاب ہیں۔ جیسے اوّل العابدین ، اوّل القوم اسلاما، اوّل مظلوم ، اوّل من آمن باللہ ، اوّل مَن غُصِبَ حقہ و۔۔۔ (قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لَقَدْ أَسْرَى بِي رَبِّي فَأَوْحَى إِلَيَّ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَوْحَى وَ كَلَّمَنِي وَ كَانَ مِمَّا كَلَّمَنِي أَنْ قَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلِيٌ الْأَوَّلُ وَ عَلِيٌّ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ) رسول اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو وہاں مجھ سے کہاگیا علی اوّل ہے یعنی جس نے تمام ائمہ علیھم السلام میں سب سے پہلے عہد و پیمان کیا ،وہ علی ہیں ، اور اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلمعلی آخر ہیں یعنی تمام ائمہ علیھم السلام میں سب سے آخر میں علی کی روح قبض کی جائے گی۔ اور اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی ظاہر ہیں،یعنی ہر وہ چیز جس کی وحی ہم نے تمھیں کی، وہ علی پر سب ظاہر ہے ۔ اور اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی باطن ہیں یعنی ہر وہ راز جو ہم نے مخفی کیا ،وہ علی کے نزدیک بھی مخفی و محفوظ ہے ۔
۲۵۔ آخر :اوّل کی ضد ۔(قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لَقَدْ أَسْرَى بِي رَبِّي فَأَوْحَى إِلَيَّ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَوْحَى وَ كَلَّمَنِي وَ كَانَ مِمَّا كَلَّمَنِي أَنْ قَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلِيٌالْأَوَّلُ وَ عَلِيٌّ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ )اس حدیث کی شرح مولا علی کی صفت : اول میں آچکی ہے ۔
۲۶۔ ظاھر :یعنی نمایاں ، واضح۔ (قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لَقَدْ أَسْرَى بِي رَبِّي فَأَوْحَى إِلَيَّ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَوْحَى وَ كَلَّمَنِي وَ كَانَ مِمَّا كَلَّمَنِي أَنْ قَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلِيٌ الْأَوَّلُ وَ عَلِيٌّ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ) اس حدیث کی شرح مولا علی کی صفت : اول میں آچکی ہے
۲۷۔ باطن : پوشیدہ ، پوشیدہ اسرار سے آگاہ ۔(قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لَقَدْ أَسْرَى بِي رَبِّي فَأَوْحَى إِلَيَّ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَوْحَى وَ كَلَّمَنِي وَ كَانَ مِمَّا كَلَّمَنِي أَنْ قَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلِيٌ الْأَوَّلُ وَ عَلِيٌّ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ )اس حدیث کی شرح مولا علی کی صفت : اول میں آچکی ہے۔
۲۸۔ مولا : آقا ۔ یہ لقب مولا علی علیہ السلام کو غدیر کے روز سب کے سامنے ملا ۔یعنی سب کا رسول ِاسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کو مولا بنایا۔ جسے اوپر بیان کیا جا چکا ہے ۔
۲۹۔ قرآن :یعنی تلاوت و قرأت ۔ خود مولائے کائنات علیہ السلام اپنے باب ِ فضیلت میں فرماتے ہیں ( انا کلام اللہ الناطق ۔ ) یعنی مولا علی قرآن ِناطق ہیں ۔ بولتا ہوا قرآن۔
۳۰۔ نور ِنبی : نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور ۔ ( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: انا و علی من نور واحد ) رسول ِاسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا : میں اور علی، ایک ہی نور کے دو ٹکڑے ۔ اسی لئے علی علیہ السلام کو نور ِ نبی ءاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکہا جاتا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کے بہت سارے القاب ہیں۔ جس میں سے فخر ادب نے تیس القاب کا ذکر کیا ہے ، یہاں پر سب کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو القاب مولا کو ملے ہیں، ان میں سے بعض کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور بعض القاب حضرت ختمی مرتبتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرحمت فرمائے ہیں اور بعض القاب آپ کو خود اہل ِعرب نے دئیےہیں ۔
جنگوں کے تذکرے :
فی الخندقِ فی الخیبر ، فی البدرو اُحد حیدر قتال حنین اولیٰ، ذوالبرقہ علی مولا
۱۔ بدر :قرآن مجید میں ( آل عمران آیت ۱۲۳) اس جنگ کا نام جنگ بدر آیا ہے جو ہجرت کے دوسرے سال ، ۱۷ رمضان یا ۱۹ رمضان کو اہلِ مدینہ ( مسلمان ) اور اہلِ مکہ کے درمیان واقع ہوئی اور اس جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تن بہ تن کے لحاظ سے اپنے لشکر میں سے تین افراد کو بھیجا ۔حمزہ کوعتبہ کے مقابل ، علی کو ولید کے مقابل اور عبیدۃ بن حارث کو شیبہ کے مقابل ، ایک روایت کے مطابق علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے دشمن کو قتل کرنے کے بعد حمزہ اور عبیدۃ کی مددکی اور اُن دشمنوں کو بھی فی النار کیا ۔
۲۔ اُحد :یہ جنگ ہجرت کے تیسرے سال پانچ شوال کو واقع ہوئی ، اور یہ جنگ بدر میں شکست کی وجہ سے کفارِ مکہ نے کی اور اس جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے ترتیب جو لشکر کی مرتب کی تھی، اس سے کامیابی ملی لیکن لوگوں نے مال ِ غنیمت کے لالچ میں ترتیب کو باقی نہیں رکھا یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی بات پر عمل نہیں کیا ۔جس سے مسلمانوں کو شکست ہوئی ، اور اس جنگ میں شیطان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل ہونے کی آواز بلند کی، جس سے دوسرے افراد بھی فرار اختیار کرنے لگے لیکن حضرت علی علیہ السلام اپنی جگہ پر باقی رہے اور نبی اکرم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی نصرت کی اور ایسی نصرت کی کہ جبرئیل نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا (لافتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار )اور اسی جنگ میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب حمزہ کو شہید کیا گیا ۔
۳۔ خندق : یہ جنگ بین کفار و مسلمانان ۱۷ شوال پانچ ہجری کو واقع ہوئی ، مسلمانوں کے سرپرست حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمتھے اور کفار ِمکہ کا سرپرست ابوسفیان تھا، ابو سفیان کے ساتھ ۱۰ ہزار کا لشکر تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف ۳ ہزار افراد تھے ، لیکن فتح کا سہرا مسلمانوں کے سر رہا اور حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں کامیابی جو ملی،وہ حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت کا نتیجہ ہے ۔جب عمرو بن عبدود خندق پھاند کر آتا ہے ،جو عرب میں ہزار مرد کے برابر سمجھا جاتا تھا اور اِسے لوگ فارس یَلیَل کہتے تھے ۔جب اس کمبخت نے نعرہ بلند کیا ہے کہ کون ہے تم میں جو میرے مقابل آئے۔ سارے لشکر والے ڈر گئے۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا ہے میرے لشکر میں ہے کوئی جو اس کتّے کے مقابل جائے ۔ اس وقت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کھڑے ہوئے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمسے اجازت لیکر روانہ ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : برز الاسلام ُ کُلّہ الیٰ الشرک کُلّہ ۔ کل شرک کے مقابلے میں کل اسلام جا رہا ہے ۔
۴۔ خیبر : یہ جنگ سات ہجری کو یہودیوں سے ہوئی اور چالیس دن تک لشکرِ اسلام میں سے ایک ایک نفر جاتا رہا لیکن فتح حاصل نہیں ہوئی تو انتالیسویں روز نبی اکرم نے فرمایا : (لاعطین الرایۃ غداً رجلاً کراراً غیر فرار )کل میں اُسے علم دوں گا جو مرد اور کرار ، غیر فرار ہوگا اس جنگ میں بھی فتح علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوئی ۔
۵۔ حُنین :یہ جنگ فتح ِ مکہ کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال بین نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمو قبیلہ ھوازن و ثقیف واقع ہوئی اور اس جنگ میں بھی کامیابی مسلمانوں کو حاصل ہوئی اور حضرت علی علیہ السلام نے اکیلے کفر کے ریلے کو فرار ہونے پر مجبور کردیا اور دشمنوں کے پرچمدار کو بھی قتل کردیا۔اور اس کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں ملتا ہے (سورہ توبہ آیت ۲۵ )
فخرا دب نے صرف پانچ جنگوں کا تذکرہ کیا ہے اور یہ وہ جنگیں ہیں جو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی حیات طیبہ میں واقع ہوئی ہیں اور ان تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و کامرانی حضرت علی علیہ السلام کی وجہ سے ملی ہے۔ پس یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کو بقاء علی علیہ السلام کے دم سے ہے ، اور فخر ادب نے کمال فطانت و ذہانت سے یہاں پر کام لیا ہے ۔صرف ان جنگوں کا تذکرہ کیا، جو رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے زمانے میں واقع ہوئی ہیں۔ ان جنگوں کا تذکرہ نہیں کیا ،جو رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے بعد واقع ہوئی ہیں،جیسے جنگ نہروان ، جنگ جمل ، جنگ صفین و غیرہ۔۔۔۔ شاید مسلمانوں کو دعو ت ِ غور و فکر دینا چاہتے ہوں کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں علی کےفضائل و مناقب کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر کسی کو علی کی ولایت پر شک نہیں ہو گا ۔
بعض واقعات کی طرف اشارہ :
السید و الساقی ، المھدی والھادی القاری و الداعی،ہمراز ِنبی مولا
ایلی وعلی عالی ،مولود ِحرم والی در حال ِرکوع بخشش،بصوم سخی مولا
معراج ِ نبی برحق ، معراج ِ علی برحق ہے کعبۂ مولا میں بر دوش ِنبی مولا
۱۔ ہمراز ِ نبی :یوں تو حضرت علی علیہ السلام ہر مقام پر رسول ِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راز دار تھے ، یہاں پر تمام مقامات کا ذکر تو نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ان میں سے ایک مقام کا ذکر مناسب ہوگا اور وہ ہے آیہ نجویٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (ترجمہ : اے صاحبان ایمان جب بھی تم اپنے نبی کے ساتھ محرمانہ گفتگو کروتو گفتگو کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو۔ یہ کام تمھارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے اور اگر تمھارے پاس کوئی چیز صدقہ دینے کے لئے نہ ہوتو ایسی صورت میں خداوندِ عالم بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ )در حقیقت لوگ ہمیشہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جمع ہوجاتے تھے او ر غریبوں کو ملنے کا موقع نہیں ملتا تھا اور خود نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی آرام کا موقع نہیں ملتا تھا تو ایسی صورت میں یہ آیت نازل ہوئی کہ آج سےجو بھی میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمسے بات کرنا چاہتا ہے ،پہلے وہ صدقہ دے ،پھر ملاقات کرے تو دس روز تک کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے پاس نہ آیا ۔جب کہ صدقہ کی مقدار ایک خرما یا اس کا آدھا تھا ۔صرف حضرت علی علیہ السلام نے اس آیت پر عمل کیا اور خود مقام ِفخر میں بیان بھی کیا ہے ۔
۲۔ در حالِ رکوع بخشش : حضرت علی علیہ السلام کا حالت ِ رکوع میں زکات دینا مشہور ہے اور اس کا تذکرہ قرآن مجید میں آیہ ء ولایت سے معروف ہے ۔ (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ۔ اللہ صرف تمھارا ولی ہے اور اس کا رسول ، اور وہ لوگ کہ جو ایمان لےآئے اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالت ِ رکوع میں زکات دیتے ہیں )تمام علمائے اہلِ تشیع اور بعض علمائے اہلِ تسنن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مولا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ، جب مولا علی علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے تو نماز کی حالت میں سائل نے سوال کیا ۔کسی نے جواب نہیں دیا تو مولا نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا سائل انگوٹھی کو لیکر قصیدہ ءعلی پڑھتا ہوا چلا گیا اور آیت بھی مدح ِعلی میں نازل ہوگئی ۔
۳۔ معراج ِ نبی و معراج ِ علی :نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی معراج کے سلسلہ میں کسی بھی مسلمان کو شک نہیں ہے۔ ہاں لیکن اختلاف ضرور ہے کہ کیسی معراج ہوئی؟ روحانی یا جسمانی ؟مجھے یہاں پر اسے ثابت نہیں کرنا ہے کہ کونسی معراج ہوئی مگر اہل ِتشیع معراج ِجسمانی کے قائل ہیں ۔ معراج ِنبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں ملتا ہے ۔( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ۔ مختصر یہ کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکی معراج ثابت ہے تو اسی طرح سے یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمساحت قدسی سے قریب ہوئے تو مجھ سے پوچھا گیا کہ تم کسے دوست رکھتے ہوتو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا ،علی کو۔ اس وقت مجھ سے کہا گیا کہ نگاہ کرو تو جو میں نے بائیں جانب نگاہ کوکیا تو علی کو دیکھا ۔ اور اس کے علاوہ بھی روایتیں ملتی ہیں کہ علی کے لب و لہجہ میں گفتگو کی اور علی کی صورت میں فرشتوں کو دیکھا ۔ بہر حال فخرادب یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح معراج ِنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمبرحق ہے ا،ُسی طرح معراج ِ علی بھی برحق ہے اور شاید یہ بھی منظور ہو کہ علی کا ہر کام خدا و ررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکو پسند و محبوب ہے ۔گو یا علی علیہ السلام اپنے ہر کمال میں معراج پر پہنچے ہوئے ہیں ۔
۴۔ علی بر دوش ِنبی :فتحِ مکہ کے دن جب رسول ِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لشکر سمیت داخل ِ خانہ کعبہ ہوئے تو سب سے پہلے ہبل اور اساف و نائلہ نام کے بتوں کو توڑ دیا اور اس آیت کی تلاوت کی : جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۔ حق آیا اور باطل نابود ہوا اور باطل ہمیشہ نابود ہوتا رہے گا ۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنےبام ِ کعبہ پر ایک بت کو دیکھا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے دوش پر سوار ہونے کے لئے کہا ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوش پر سوار ہوئے اور بتوں کا صفایا کیا ۔
باب ِ چہارم
۴۔ جناب فخر ادب سید فخر الدین بلے صاحب کا ولایت ِ خدا ، ولایت ِ رسول ِخدا اور ولایت ِ علی مرتضیٰ پر اپنے عقیدہ کا اظہار :
اقرار کنم بلّے ، من بندہ ءمولائی اللہ و نبی مولا ، واللہ علی مولا
آخر میں فخر ادب اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہیں کہ میں بندہء مولائی ہوں اور یہ تسلیم کرتا ہوں کہ صرف اللہ مولا ہے اور اس کے نبی مولا ہیں اور قسم کھا کر کہتے ہیں کہ علی بھی میرے مولا ہیں ۔ واللہ علی مولا میں جو لفظ واللہ ہے، اس واللہ میں واو ، واوقسمیہ ہے ۔اس مصرعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فخر ادب کو عربی زبان کے علاوہ فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی لئے اپنے عقیدہ کا اظہار فارسی میں کیا ہے ۔ اقرار کنم بلّے ( یعنی من اقرار می کنم کہ بندہ مولائی ہستم )
دوسرے بیت میں یوں فرماتے ہیں ۔
ہر سالک و عارف کا بلّے یہی مسلک ہے اللہ و نبی مولا واللہ علی مولا
فخرِ ادب نے اپنے عقیدہ کا اظہار کرنے کے بعد عقلاء کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو میرا عقیدہ ہے ،وہی سارے سالکین و عارفین کا بھی عقیدہ ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ میرا عقیدہ سالکین و عارفین سے جدا ہے ۔ اگر کوئی میرے عقیدہ کو تسلیم نہ بھی کرے تو سالکین و عارفین کے دفتر ِولایت میں میرا نام بندہ ءمولائی کے عنوان سے ضرور لکھا ہوا ملے گا کہ فخرالدین بلے کا اللہ مولا ہے اور نبی و علی مولا ہیں ۔
فخر الدین بلے کی ذات گرامی اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے تمام اشعار میں صرف قو ل ترانہ کافی ہے ، اس لئے کہ یہ قول ترانہ صرف اشعار یا قافیہ پیمائی نہیں بلکہ اس ترانہ میں ایک پوری تاریخ مجملاً مخفی ہے جس کی اہل ِعلم و قلم ہی قدر کرسکتے ہیں ۔اور حوالہ جات اس لئے درج کئے گئے ہیں کہ قول ترانہ کو کوئی ضعیف نہ سمجھے بلکہ اس میں ہر ہر لفظ اپنے اپنے مقام پر ایک سند لئے ہوئے ہے ۔اور یہ بھی ذکر کرنا مناسب رہے گا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ علی علیہ السلام کی پوری زندگی کی معلومات حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ اس قول ترانہ کو پڑھ لے ۔ میری تو خواہش یہ ہے کہ اسی قول ترانہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کتاب مولا علی علیہ السلام کی سیرت پر درست کر دینی چاہئے تاکہ عام و خاص ہر ایک کے لئے مفید ثابت ہو سکے اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے علی علیہ السلام کی محبت کو عقیدہ کا تعویذ بنا کر پہن لیں ،جو روز ِمحشر بخشش کا وسیلہ بن سکے ۔
من کُنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ۔ سیّد فخرالدین بَلّے کا نیا قول ترانہ . امیر خسروکے سات سو سال بعد ایک تاریخ ساز کارنامہ . تحریر و تحقیق: مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی ، قم شریف
==========================================================
اب اختتام پر قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے امیرالمومنین و امام المتقیان حضرت علی علیہ السلام کی سیرت و شخصیت پر جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی تحقیقی کتاب ولایت پناہ ، حضرت علی علیہ السلام کے ابتدائیہ سے ایک اقتباس —— “ اخئ رسول علی ابن ابی طالب کی شرافت و نجابت ، مولود ِ کعبہ کی طہارت و معصومیت ، ہم نفسِ خیر البشر کی بشریت و عبودیت، سابق العرب کی سبقت و اولیت ، امام المتقین کی عبادت و ریاضت ، راکب ِ دوش ِ رسولِ مقبول کی مرتبت و مقبولیت، ، داعئ ذوالعشیر کی دعوت و اطاعت ، وصئ رسول کی وصایت و نیابت ، خلیفۂ نبی کی خلافت و جلالت ، جاں نثار ِ پیمبر کی حضریت و اقامت ، فدائے حق کی ہجرت و مراجعت ، معمار مسجد کی افضلیت و منزلت ، زوجِ بتولؑ کی شوکت و وجاہت ، شریکِ مباہلہ کی ہمت و مباہلت ، اقضاکمِ علیؑ کی نقادت و معادلت ، کرارِ غیر فرار کی جرات و استقامت ، خیبر شکن کی شجاعت و صلابت ، رافع ِکعبہ کی عظمت و رفعت ، مشکل کشا کی شفقت و اعانت ، معطئ زکوة کی فراست و بصیرت ، گنجینۂ فقر کی صمدیت و قناعت ، ہمرازِ رسول کی ذہانت و متانت ، مشیرِ نبی کی فراست و بصیرت ، امین آیات کی دیانت و امانت ، مبلغ اسلام کی حجت و صداقت ، نقیب حق کی روایت و صراحت ، ترجمان ِ پیغمبر کی خطابت و کتابت ، مفسرِ قرآن کی فصاحت و بلاغت ، باب العلم کی قیادت و سیادت ، مولائے کائنات کی امارت و ولایت ، یہاں تک کہ علی مرتضیٰ ؑ کی ولادت و شہادت کی ندرت و فضیلت اس درجہ ہمہ گیر ہے کہ احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔،”
==============================================
من کنت مولا فھذا علی مولا ، ثانئ علامہ ابن ابی الحدید ۔ سید فخرالدین بلے
تحقیق و تحریر : علامہ ڈاکٹر سید عباس نقوی علیگ (دہلی) بھارت