اس کی پنڈلیوں کے بال چاول کے دانے سے ذرا بڑے، سخت اور سیاہ رنگ کے تھے۔ صفی چور نظروں سے دیکھا کیا۔ وہ دونوں فرش پہ بیٹھے، دیوار سے ٹیک لگائے، آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ صفی نے محسوس کیا، کہ وہ اس کی دُزدیدہ نگاہی کو بھانپ گئی ہے، تبھی اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کو کرید رہی ہے۔ وہ دو بچوں کی ماں تھی، لیکن اُس کے حسن میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ کچھ لڑکیاں شادی کے بعد نکھرتی ہیں، اور ماں بننے کے بعد اور بھی دل کش ہو جاتی ہیں۔
عام لڑکیوں کی نسبت اُس کا قد نکلتا ہوا تھا۔ گندمی سپیدی مائل رنگت؛ سیاہ گھنے بال، لمبی ٹانگیں، مضبوط لیکن متناسب کمر، بھرے ہوئے سینے کی وجہ سے اُسے پتلی کمر بھی کہا جائے تو کوئی معترض نہ ہو۔ صفی سے اس کا کوئی تو ناتا تھا، لیکن اسے کوئی نام دینا مشکل تھا؛ کہنے کو وہ اُس کے دوست کی بیوی تھی۔
”آپ ہمارے ان داتا ہیں؛ آپ نہ ہوتے تو حفیظ آج اس مقام پہ نہ ہوتے۔ میں اور حفیظ آپ کا بہت ذکر کرتے ہیں‘‘۔
کچھ دیر پہلے صفی اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، یہ بات سن کے وہ کسمسانے لگا۔ صفی کو اس کا ایسے تعریف کرنا پسند نہ تھا۔ اُسے لگتا تھا، اسے احترام کے پنجرے میں قید کردیا گیا ہے۔ وہ عاجز بنا سر جھکائے، تصور ہی تصور میں اس کی چاندی سے ڈھلی پنڈلیوں کو لایا، جو شلوار کا پائنچہ اوپر ہونے کی وجہ سے دکھائی دے رہی تھیں۔ صفی اپنے آپ کو مجتمع کرنے لگا، کہ دوبارہ اس کی نرم جلد کو اپنی آنکھوں میں جذب کر سکے۔ ایسے میں اس کے ذہن میں یہ سوال تھا، کہ ان گداز پنڈلیوں پر بال نہ ہوتے تو کیسا ہوتا! اسے لگا ایسی جلد پہ بال نہ ہوتے تو اسے اُس کی ٹانگوں میں ویسی کشش نہ محسوس ہوتی، جیسی بالوںکے ہوتے ہے۔
”کیا آپ کی مسز آپ کی ایسے ہی قدر کرتی ہیں؟ “
صفی نے حیرت سے اُسے دیکھا، کہ کہیں اسے سب خبر تو نہیں ہو گئی؛ لیکن کیسے ہو سکتی ہے، جب کہ یہ بات اُس نے کسی سے نہیں کہی تھی، کہ اُس کی شادی کا تجربہ اذیت ناک ہے۔ اُس کی اپنی بیوی منیرہ سے کبھی نہ بن سکی تھی۔ حال آں کہ دس برسوں میں منیرہ سے اُس نے تین بچے بھی پیدا کر لیے۔ اِن دنوں منیرہ رُوٹھ کے اپنے میکے گئی ہوئی تھی۔
’قدر؟ قدر کیا ہوتی ہے؟ چھوڑو! کوئی اور بات نہ کریں‘‘؟
”’کریں ناں! مجھے آپ کو سننا اچھا لگتا ہے‘‘۔
صفی استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے، تم کسی اور کی رائے سے، مجھے کیوں جاننا چاہتی ہو“؟
”واہ! مجھے آپ کی یہی باتیں اچھی لگتی ہیں؛ پتا ہے میں حفیظ سے کہتی ہوں، آپ بالکل الگ سا سوچتے ہیں؛ عام طور پہ لوگ ایسے نہیں سوچتے‘‘۔
”عام طور پہ لوگ کیسے سوچتے ہیں‘‘؟
پہلے تو اُس نے حیرت سے دیکھا؛ جب صفی کا سوال سمجھ آیا تو اُس کے ہونٹ یوں کھلے جیسے تتلی پرواز کے لیے پروں کو پھیلائے اور ارادہ ملتوی کرتے سمیٹ لے، اور پھر وہ پر مسکرائیں۔ مسکرانے کا یہ انداز بھی صفی کی حالت غیر کرنے کے لیے بہت تھا۔ اُس کا جی چاہا، آگے بڑھ کے یہ ہونٹ چوم لے؛ لیکن احترام کے کئی حجاب بیچ میں حائل تھے۔ کوئی کسی کو معزز جان کے آؤ بھگت کرے، تو گویا محترم کو رسیوں میں جکڑ دیتا ہے۔
”کب تک آ جائے گا، حفیظ‘‘؟
”کیوں؟ آپ بور ہو رہے ہیں‘‘؟
دوسرے کمرے سے بچی کے رونے کی آواز آئی تو وہ فورا اُٹھ کے چلی گئی۔
”ایک منٹ، میں آئی‘‘۔
صفی بیٹھا سوچ رہا تھا، کہ یہ مکمل عورت ہے۔ یہ مجھے پہلے کیوں نہ ملی۔ ملی تو اب کیوں ملی، جب یہ شادی شدہ ہے۔ صفی کی حفیظ سے دو تین سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ حفیظ پشاور میں نوکری کے لیے آیا تھا، لیکن جلد ہی اُس کی نوکری جاتی رہی۔ پڑھا لکھا تھا، لیکن دیہی ماحول میں پرورش پانے کے باعث، اُس کے اطوار شہری تہذیب کے سے نہ تھے۔ عام طور پہ ایسے لوگوں کو دیکھ کے ’پینڈو‘ کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔ وہ صحت مند تھا، بھولا بھالا تھا، پر خلوص تھا، خوش اخلاقی اس کا سب سے بڑا وصف تھا۔ اسے ڈھنگ سے پہننا سکھایا جاتا تو کسی فلمی ہیرو سے کم نہ لگتا؛ لیکن اس کی اپنے آپ پہ توجہ نہ تھی۔
صفی نے ایسے میں اُس کے رہنے کا بند و بست کیا، جب اُس کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اسے اپنے جاننے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس ملازمت دلوائی۔ حفیظ دفتر کی صفائی سے لےکر کے کلائنٹ کو مکان دکھانے تک ہر کام خوش اسلوبی سے کرتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ ساری اونچ نیچ سمجھتا چلا گیا، اور سال بھر ہی میں اس نے کرائے کی دُکان لے کر میز کرسی رکھی، ایک طرف سوفا، اور اپنا پراپرٹی ایجنٹ کا ایک دفتر بنا لیا۔ قسمت کا پہیا متحرک ہو، تو کام یابی کی منزل خود ہی چل کے قریب آتی چلی جاتی ہے۔
حفیظ جب صفی سے ملا تھا، تو شادی شدہ تھا؛ اُس کا ایک بیٹا تھا، لیکن اس کی بیوی جہلم میں اُس کے والدین کے پاس رہتی تھی۔ اس دوران اس کا جہلم آنا جانا لگا رہا، اور اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ چھہ مہینے پہلے وہ انھیں پشاور لے آیا تھا۔ تبھی اُس نے فخر سے صفی کو اپنی بیوی نصرت سے ملوایا؛ صفی اُسے دیکھ کے حیران ہوا، کہ دونوں کی شخصیت میں کتنا تضاد ہے۔ نصرت کا پہناوا شہری لڑکیوں کا سا تھا۔ معلوم ہوا کہ نصرت لاہور کے قریب شاہدرہ سے ہے، اور اُس نے پنجاب یونے ورسٹی سے ایم اے اردو کیا ہے۔
”تمھاری اور حفیظ کی شادی کیسے ہوئی‘‘؟
جب اُس نے نصرت سے یہ پوچھا تھا، تو حفیظ بھی وہیں موجود تھا۔ وہ بظاہر لا تعلق بنا، سوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر کے مسکرا رہا تھا؛ جیسے اس خوش کن لمحے کو یاد کر رہا ہو۔
”ہائے! قسمت‘‘!
نصرت نے مسکراتے ہوئے اُس لہجے میں جواب دیا، جو عموما ہر شادی شدہ جوڑا شادی کے تین چار سال بعد، ایک دوسرے کو چھیڑنے کے لیے اپناتا ہے۔ اس میں سچائی کم اور دل لگی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔
”یہ میرے بھائی جان کے ساتھ دُبئی میں کام کیا کرتے تھے۔ وہیں یہ دونوں دوست بن گئے‘‘۔
”ارے؟ تم دُبئی میں بھی رہے ہو‘؟ صفی نے حفیظ کو متوجہ کیا۔
”پشاور آنے سے پہلے دو سال لگائے ہیں۔ ایک مسئلہ ہو گیا تھا، واپس آ گیا‘‘۔
”یہ بھائی جان سے ملنے شاہدرہ، ہمارے گھر آئے، تو مجھے پتا نہیں تھا، ڈرائنگ رُوم میں ہیں۔ ایسے ہی اندر چلی گئی، اور بس۔ انھوں نے مجھے دیکھ لیا‘‘۔
”تم گھبرا کے لوٹ گئی ہو گی‘‘؟ صفی اِس صورت احوال کا سوچ کے لطف اندوز ہوا۔
”نہیں! گھبرائی تو میں تھی لیکن ایک دم سے نہیں پلٹی‘‘۔
”پھر‘‘؟
حفیظ اُٹھا۔ ”میں سونے جا رہا ہوں‘‘۔
حفیظ جلد سونے کا عادی تھا۔ کئی بار یوں ہوتا کہ وہ تینوں بیٹھے بات کر رہے ہوتے، تو حفیظ وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتا۔
”یار بیٹھو تو سہی، ہم باتیں کر رہے ہیں‘‘۔
صفی نے اُسے رُکنے کو کہا، لیکن اُس کا دل یہی چاہ رہا تھا، کہ حفیظ جا کے سو جائے۔
”نصرت سے باتیں کریں، آپ۔ سارا دِن کا تھکا ہوا ہوں‘‘۔
حفیظ ہمیشہ صفی کو احترام سے بلاتا تھا۔ کبھی تم کر کے نہیں پکارا۔ نصرت بھی صفی کا نام نہ لیتی تھی، لیکن بھائی یا کسی اور رشتے سے پکارنا پسند نہیں تھا۔ وہ برملا کہتی تھی کہ مجھے آپ کو کسی رشتے سے پکارنا پسند نہیں ہے۔ انسان کا کسی سے تعلق ہو، تو ضروری نہیں وہ بھائی، بیٹا، ماموں، چچا، انکل کے صیغے سے پکارا جائے۔ صفی کے لیے حیران کن تھا، کہ بظاہر اُس کا شوہر پینڈو سا ہے، لیکن اُس نے اس بات پہ کبھی کوئی رائے نہ دی تھی، نہ اصرار کیا تھا، کہ اُس کی بیوی غیر سے پردہ کرے، یا صفی کو کسی رشتے سے پکارے۔ اور تو اور اُسے صفی کا نصرت سے ہر موضوع پہ گفت گو کرنا بھی کبھی برا نہ لگا تھا۔ نہ تنہائی میں بیٹھ کے بات کرنے پہ اُس نے کبھی شک کا اظہار کیا۔
ملاقاتوں میں تسلسل آیا تو ان کے بیچ میں جھجک کم ہوتی چلی گئی۔ دونوں کی وٹس ایپ اپلیکیشن کی ذریعے بھی بات ہونے لگی۔ کبھی نصرت کوئی دل چسپ لطیفہ بھیج دیتی، کبھی صفی کوئی دل لگی کی بات کرتا؛ لیکن ایسے کِہ جیسے دو دوست ہوں۔ صفی کبھی ذو معنی ’کوٹیشن‘ بھی بھیج دیتا۔ گزشتہ ملاقات میں پہنے لباس، یا نصرت کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف وٹس ایپ پیغام کے ذریعے دیتا، لیکن نصرت نے کبھی ایسا رد عمل نہ دیا تھا، کِہ کہا جا سکے اسے اعتراض ہے؛ بل کِہ صفی کا خیال تھا، وہ حوصلہ افزائی ہی کرتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی، کِہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر، ایسے گفت گو بھی کرلیتے تھے، جو عام حالات میں مرد عورت کے بیچ میں نہیں ہوتی۔
منیرہ کے میکے جانے سے صفی کا خالی مکان میں جی نہ لگتا تھا، تو وہ اپنا زیادہ وقت ان کے یہاں بِتانے لگا۔ وہ چلتی پھرتی تو صفی اس کے انگ انگ کا مطالعہ کرتا۔ کبھی اس کے گریبان میں جھانکتا، تو کبھی اس کے کولھوں کے دائرے گنتا۔ صفی چاہتا تھا، کچھ ایسا ہو جائے کہ وہ پگھل کے اس میں سما جائے؛ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ صفی کو احترام کے سنگھاسن پر بٹھاتی تھی۔
”تمھاری فینٹسی کیا ہے؟ “
”فینٹسی؟ “ اس کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔
صفی مناسب لفظ تلاش کرنے رُکا۔
”تُم کچھ ایسا سوچتی ہوگی۔ کچھ بھی۔ کچھ ایسا۔ جو کسی سے بھی کہنے سے جھجکتی ہو؟ حتا کہ اپنے آپ سے“؟
”میں سمجھی نہیں!“
صفی کو سِرا مل گیا، ”کیا کبھی ایسا خیال آیا، کِہ ٹرین میں کوئی اجنبی ملے، اور۔ “
”اور؟ “
”اَور۔ اور یہ کہ اسے تم سے محبت ہوجائے؟ یا تمھیں اُس سے محبت ہو جائے؟ “
صفی ’محبت‘ کے بہ جائے کچھ اور کہنا چاہتا تھا، لیکن ڈر تھا، کچھ ایسا ویسا کَہ دیا تو کہیں بنا بنایا امیج نہ برباد ہوجائے۔
”نہیں! میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔ “
”تم نے کبھی ایسا سوچا ہو، کِہ‘‘۔
صفی ایک بار پھر یہ سوال کرتے ہچکچایا، پوچھنا یہ چاہتا تھا، کِہ تمھارا کسی اجنبی سے سیکس کرنے کو جی چاہا، لیکن پوچھنے کی جرات نہ کر پایا۔
کیا تمھیں کسی سے محبت ہوئی ہے؟ “
”ہاں! شادی سے پہلے ہوئی تھی“۔
”شادی کے بعد؟ “
”سچ بتا دوں؟ ہاں!“
صفی کے دِل میں رقابت کے جذبے نے سر اُٹھایا۔ ”کون ہے، وہ؟ تم نے اپنے حفیظ کو بتایا؟ “
”بتایا نہیں۔ انھیں دل چسپی ہی نہیں۔ جب سے شادی ہوئی ہے، وہ کام ہی میں بزی رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان ایسی باتیں نہیں ہوتیں“۔
”تمھیں حفیظ کیسا لگتا ہے؟ کیا تمھیں حفیظ سے محبت ہے‘‘؟
وہ تھوڑی دیر چپ سی رہی؛ صفی خاموشی سے دیکھتا رہا، اِس ڈر سے نہ بولا، کِہ نصرت کہنے کے لیے جو الفاظ منتخب کر رہی ہے، کہیں اُس کے بولنے سے وہ لفظ نہ گم جائیں۔
”یہ ویسے نہیں ہیں، جیسا میں نے سوچا تھا۔ آپ نے دیکھا نہیں، نہ انھیں پہننے کا سلیقہ ہے، نہ کھانے پینے کا‘‘۔
”وہ سلیقہ تم میں ہے، تم اس کے لیے لباس چنا کرو، ویسا پہناؤ جیسا دیکھنا چاہتی ہو‘‘۔
”کئی بار کوشش کی، لیکن انھیں دل چسپی نہیں ہے‘‘۔
”کیا وہ تم سے پیار نہیں کرتا؟ کوئی کمی ہے، اُس میں‘‘؟
”میں ایکسپلین (وضاحت) نہیں کر سکتی‘‘۔
”کیا ایسا ہے، کہ اس کے ساتھ کہیں آتے جاتے تمھیں شرمندگی ہوتی ہے۔ تمھیں لگتا ہے، کہ تم پرفیکٹ کپل نہیں ہو‘‘۔
”یہی تو خوبی ہے، آپ کی۔ ایسا ہی ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کر پاتی، جیسے آپ کر جاتے ہیں۔ آپ نے صحیح کہا ہے‘‘۔
”تم کیا سمجھتی ہو، تمھیں اس سے الگ ہو جانا چاہیے‘‘؟
صفی نے لوہا گرم دیکھ کے سوال داغ ہی دیا۔
”میں آوارہ نہیں کہلانا چاہتی‘‘۔
وہ ایک پل میں تہہ تک پہنچ گیا تھا، کِہ وہ ایسا چاہتی ہے، لیکن سماج کا ڈر ہے۔ اگر یہ حفیظ سے طلاق لے کے مجھ سے شادی کر لے۔ صفی ایسا کچھ سوچ رہا تھا۔
”آوارہ والی کیا بات ہے، اِس میں؟ مذہبی طور پہ بھی تمھیں اجازت ہے‘‘۔
”تو ادھر مذہب کی کون سنتا ہے۔ ایسی کوئی بات کروں، تو سب سے پہلے میرے ماں باپ ہی میرے دشمن ہو جائیں گے‘‘۔
”ہوں! یہ تو ہے‘‘۔ صفی نے تائید کی۔ بات کسی ایسے ہی موڑ پہ اٹک جایا کرتی۔
جب بھی موقع ہوتا، اُن کے بیچ میں ایسے ہی کوئی نہ کوئی بات چھِڑ جاتی، اور ہمیشہ موضوع گفت گو ایک ہی نکتے پہ آ ٹھیرتا۔ منیرہ کو ناراض ہو کے گئے تین مہینے ہو چکے تھے، لیکن صفی نے یہ خبر ان سے کمال ہشیاری سے چھپا رکھی تھی۔ حفیظ اپنے کمرے میں سویا ہوتا؛ دوسرے کمرے میں صفی اور نصرت فرش پہ بیٹھے، دیوار سے ٹیک لگائے، دیر دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ کبھی صفی وہیں اُن کے یہاں سو جاتا، کبھی گھر چلا جاتا۔
”حفیظ بتا رہے تھے، آپ کو ہاتھ دیکھنا بھی آتا ہے؟ میرا ہاتھ دیکھیں‘‘۔ ایک رات نصرت نے یہ فرمائش کر دی۔
”تمھارے ہاتھ بہت حِسین ہیں؛ نازُک سے‘‘۔ صفی نے بے سوچے سمجھے کَہ دیا۔ نصرت زیرِ لب مسکرائی۔
”رات کے وقت لکیریں مدھم پڑ جاتی ہیں؛ کبھی دِن میں دکھانا۔ ویسے بھی اس وقت میں سر میں درد ہے‘‘۔
”اوہ! حفیظ کو جگاؤں، وہ دوا لے آئیں‘‘؟
”نہیں! ضرورت نہیں ہے؛ اُسے سونے دو‘‘۔
”اچھا میں تیل لے کے آتی ہوں، آپ کے سر کی مالش کر دیتی ہوں۔ اُس سے آرام آ جائے گا‘‘۔
نصرت اٹھی کہ دوسری کمرے سے تیل لائے۔
”رہنے دو؛ اچھا نہیں لگتا۔ پھر حفیظ اُٹھ گیا تو کیا کہے گا‘‘۔
صفی دل سے چاہتا تھا، کہ وہ اُس کے سر کی مالش کرے؛ لیکن وہی ازلی بز دِلی کِہ بہانے تراشتی رہتی۔
”ایسے نہیں ہیں، حفیظ؛ میں اُن کے سامنے بھی آپ کے سر کا مساج کر سکتی ہوں؛ وہ کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔
صفی فرش پہ آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، اور نصرت اُس کے پیچھے بیٹھی اُس کے سر کی مالش کرنے لگی۔
”آپ کو پتا ہے؛ حفیظ میں یہ خرابی ہے کِہ وہ کبھی تعریف نہیں کرتے‘‘۔
”یہ تو اُس کی کم ظرفی ہوئی‘‘۔
تھوڑی دیر میں صفی کے سر میں نشہ سا سرایت کر گیا۔ صفی نے دانستہ پیچھے کو ہوتے، اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اُسے اپنی پشت پہ نصرت کے سینے کا گرم گداز محسوس ہوا۔ اُس کا نشہ دو آتشہ ہو گیا۔ پھر اِس خیال نے اُسے باز رکھا، کِہ ایسے اُس کی عزت خاک میں مل جائے گا۔ اپنے آپ میں رہا جائے۔ وہ سنبھل کے بیٹھ گیا۔ صفی نے سوچا، یہ سب کچھ اتنے سے وقفے میں ہوا ہے، کہ نصرت اپنے سے چھو جانے کو اتفاق ہی سمجھی ہو گی۔ سنبھل کے بیٹھنے سے اُس کی پارسائی کا بھرم ہی قائم ہوا ہو گا۔
”تمھارے مساج کرنے سے تو سکون آ رہا ہے۔ نیند آنے لگی ہے، مجھے‘‘۔
”سو جائیں‘‘۔
”نہیں سونا نہیں ہے، مجھے۔ یہ بتاو، حفیظ کے سر کے مالش بھی کرتی ہو‘‘؟
”ہاں! بالکل کر دیتی ہوں۔ جس دِن وہ بہت تھکے ہوں، تو اُن کے سارے بدن کی مالش کرتی ہوں۔ وہ اس دوران سو جاتے ہیں‘‘۔
نصرت نے روانی میں کَہ دِیا؛ صفی نے اِس سے اگلا منظر تصور ہی تصور میں دیکھ لیا تھا۔
”اور کبھی۔ اُس نے بھی کبھی‘‘؟
”نہیں! مجھے اچھا نہیں لگتا، کِہ مرد ایسا کرے‘‘۔ نصرت نے ہاتھ روکے بہ غیر جواب دیا۔
”کیوں؟ مرد اور عورت والی کیا بات ہے، اِس میں؟ میں تو اپنی بیوی کو پاوں اس شرط پہ دبانے دیتا ہوں، کہ جب وہ تھکی ہوئی ہو، ، میں اُس کے پاوں دبا سکوں‘‘۔
”تو دباتے ہیں، آپ؛ اُن کے پاوں‘‘؟ لمحہ بھر کو اُس کے چلتے ہاتھ ٹھیرے۔
”ہاں دباتا ہوں‘‘۔ صفی جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔
”انھوں نے کبھی منع نہیں کیا‘‘؟
”شروع شروع میں کیا تھا۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ اس میں کوئی بری بات نہیں ہے‘‘۔
”آپ کے بیچ میں بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے‘‘؟
”اچھا بس کرو؛ تھک گئی ہو گی۔ لاؤ میں تمھارے سر کا مساج کر دوں‘‘۔ صفی نے بات پلٹ دی۔
”نہیں! مجھے ضرورت نہیں‘‘۔ نصرت جیسے گھبرا سی گئی ہو۔
اُس لمحے صفی نے دیکھا، کِہ نصرت کی آنکھوں میں لال لال ڈورے تیر رہے ہیں۔
”ضرورت کی کیا بات ہے، میں تمھارا اُدھار نہیں رکھنا چاہتا‘‘۔
”بالوں میں تیل لگ گیا، تو مجھے صبح اُٹھ کے نہانا پڑے گا، اور میں نہانا نہیں چاہتی؛ رہنے دیں‘‘۔
یک دم نصرت دروازے کی طرف بڑھی۔
”میں بچوں کو دیکھ کے آتی ہوں۔ اُن کی فِیڈ کا ٹائم ہو گیا ہے‘‘۔
اُس رات صفی کو وہیں ٹھیرنا تھا۔
”آپ بھی سو جائیں، اب‘‘۔
نصرت جاتے جاتے مشورہ دے گئی۔ نیند صفی کی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ وہ بستر پہ لیٹا کروٹیں بدلتا رہا۔ اُس کی پشت پہ نرم گرم احساس چپکا ہوا تھا۔ کوئی گھنٹا ڈیڑھ بھر بعد اُس کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ حفیظ مسکراتا ہوا داخل ہوا؛ اُس کے بال بے ترتیب تھے۔ نیند سے جو اُٹھ کے آیا تھا۔
”ہاں بھئی! نیند پوری ہو گئی، تمھاری‘‘؟ صفی نے شکر ادا کیا، کِہ کوئی تو اُس کی تنہائی بٹانے آیا۔
”گرمی سے آنکھ کھل گئی۔ آج گرمی کچھ زیادہ نہیں ہے‘‘؟ حفیظ نے پوچھا۔
”موسم تو ٹھیک ہے؛ ایسی گرمی بھی نہیں‘‘۔
موسم معتدل تھا، لیکن کچھ لوگوں کو گرمی زیادہ لگتی ہے۔ حفیظ وہیں بیٹھ گیا، جہاں پہلے نصرت دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔
”میں سوچ رہا ہوں، اے سی لے لوں۔ سارا دِن آفس میں اے سی میں رہ رہ کے، عادت سی ہو گئی ہے۔ گھر میں بھی لگوا لوں‘‘۔
حفیظ کی بات ختم بھی نہ ہوئی تھی، کِہ نصرت وہیں چلی آئی۔ صفی نے دیکھا کہ اُس کی بغلیں پسینے سے بھیگی ہوئی ہیں۔ بال کچھ بے ترتیب ہیں۔ آتے ہی حفیظ سے مخاطب ہوئی۔
”آپ نے سونا نہیں ہے‘‘؟
نصرت کی قمیص کے چاک سے اُس کے جسم کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ پسینے کی بوندوں سے تر چکنی جلد، اور بغلوں سے رِستا پسینا صفی کو وحشی بنانے کے لیے کافی تھا۔ یوں تو صفی نفاست پسند تھا، لیکن نصرت کی بھیگی بغلیں اُس کے دِل میں نا مناسب تحریک پیدا کر رہی تھیں۔ ان دونوں کے سوا وہاں کوئی اور نہ ہوتا، تو اُس لمحے صفی سے خطا ہو کے ہی رہتی۔ حفیظ، صفی سے مخاطب ہوتے اُٹھ کھڑا ہوا۔
چلیں آپ بھی سوئیں، میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا‘‘۔
صفی کو میاں بیوی کی حالت سے اندازہ ہو گیا، حفیظ کے جاگنے کا سبب کیا ہو سکتا ہے، اور کیوں نصرت پہلے سے ہلکی پھلکی دکھائی دے رہی ہے۔ آنکھوں کے لال لال نشئی ڈورے کہاں گئے، اُس کا چہرہ کیوں کر مہ تاب ہوا ہے۔ وہ کروٹیں بدلتے سویا تو صبح کا اُجالا پھیل رہا تھا۔
صفی دن دیر تک سوتا رہا۔ حفیظ کام پہ جا چکا تھا۔ نصرت نے اسے دُپہر کا کھانا بنا کے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد صفی کو کسل مندی سی محسوس ہوئی، اس کے لیے بیٹھنا دُشوار ہوا، تو جا کے کمرے میں لیٹ گیا۔ وہ غنودگی کی حالت میں تھا، جب نصرت نے چائے کا کپ لا کے رکھا۔ آنکھ کھلی تو سرہانے چائے کا ٹھنڈا کپ دھرا دکھائی دیا، جس پہ پھٹی ہوئی ملائی جمی تھی۔ صفی کو احساس زیاں ہوا۔ وقت دیکھا، تو شام کے چار سے اوپر کا تھا۔ وہ سیدھا غسل خانے میں گیا اور شاور لیا۔ جب کنگھی پٹی کر کے کمرے سے باہر آیا تو نصرت سوفے پہ بیٹھی، اپنے سیل فون میں محو دکھائی دی۔
”آج تو آپ بہت سوئے۔ میں نے ایک دو بار آواز بھی دی، لیکن آپ بے ہوش پڑے تھے۔ اس وقت بڑے فریش لگ رہے ہیں‘‘۔
نصرت نے بڑی لگاوٹ سے خوش آمدید کہا۔ صفی نے اپنی نگہ اُس کے گریبان سے ہٹائی۔ وہ دُپٹے سے بے نیاز تھی، اور ماہ و خورشید طلوع ہو رہے تھے۔
”بچے کہاں ہیں‘‘؟
”پڑوسن لے گئی ہے؛ ابھی تھوڑی دیر پہلے‘‘۔
پڑوسن کے اولاد نہیں تھی۔ صفی جانتا تھا، کِہ پڑوسن نصرت کے بچوں سے بہت پیار کرتی ہے، اور کبھی کبھی انھیں اپنے گھر لے جا کے نہلاتی دھلاتی، کھلاتی ہے۔ بچے بھی پڑوسن کے ساتھ بہت اٹیچڈ تھے۔
”کیا ایک کپ چائے بنا دو گی‘‘؟
”ہاں کیوں نہیں‘‘!
نصرت نے سوفے کی پشت سے اپنا دُپٹا اُٹھایا، اور کچن میں داخل ہو گئی۔ صفی نے وہیں دوسرے سوفے پر بیٹھ کے اپنے آپ کو کوسا، کہ یہ میں کس طرف جا رہا ہوں۔ حفیظ اُس پہ اتنا اعتبار کرتا ہے، بھائیوں کی طرح خیال رکھتا ہے، اسے اپنے گھر ٹھیراتا ہے، اس کی غیر موجودی میں گھر آنے جانے پہ اعتراض نہیں کرتا؛ اپنی بیوی کے ساتھ رات دیر دیر تک بیٹھ کے باتیں کرنا معیوب نہیں لگتا، تو ایسے بھولے بھالے شخص کو دھوکا دینا، کہاں کی شرافت ہے! صفی نے وہیں بیٹھے بیٹھے فیصلہ کر لیا، کہ اُسے اِن سے دُور ہو جانا چاہیے۔ یہ تعلق اُسے ذِلت کے گڑھے میں لے جا پھینکے گا۔
نصرت چائے کا کپ تھما کے وہیں سامنے بیٹھ گئی۔
”طبیعت ٹھیک ہے، ناں؛ آپ کی‘‘؟
صفی ہنس دیا۔ ”بالکل ٹھیک ہے۔ تمھارا شکریہ‘‘!
”کس بات کا شکریہ‘‘؟ نصرت نے حیرت سے پوچھا۔
”یہی! جو تم نے خیال رکھا‘‘۔
”میں نے کیا خیال رکھا؟ کچھ بھی تو نہیں‘‘!
نصرت کی آواز میں کچھ تھا، کِہ صفی تھوڑی دیر پہلے جو فیصلہ کر بیٹھا تھا، اُسے لگا اس فیصلے پر عمل کرنا آسان نہ ہو گا۔ رات جس شےکا نشہ دماغ میں خناس بھر رہا تھا، وہ نشہ تازہ ہونے لگا۔
”میں چائ