ہم سالہا سال کوکنگ کرتے کرتے اچھے خاصے ماہر ہو چکے ہیں ایک ہی سبزی کو دس طریقوں سے بنانے کا محاورہ رکھتے ہیں ۔ ہر دال پانچ طریقوں سے تو پکا ہی سکتے ہیں ۔ بریانی قورمہ کی کئی اقسام اور آملیٹ ، آلو تو سو طرح سے بنا اور پکا سکتے ہیں لیکن کل صاحب نے کہا کہ جیسی ماش کی دال بچپن میں والدہ کے ہاتھ کی کھاتے تھے وہ رنگ شکل اور ذائقہ والدہ کے بعد نہیں ملا ۔۔
انہوں نے سچ کہا ماں کے ہاتھ جیسا کھانا بیوی چھوڑ بڑے سے بڑا شیف بھی نہیں بنا سکتا چاہے وہ کتنی بڑی کیٹرنگ ، بوفے کا تجربہ رکھتا ہو تقریبات سنبھالتا ہو کئی طرح کی پیشکش ، لوازمات اور اختراعات کا موجد ہو اس میں مامتا کا خلوص اور خالص پن کا مصالحہ گوندھنا ناممکن ہے ۔ پروفیشنل کوکنگ میں گھریلو محبت کا تڑکا ممکن ہی نہیں ۔ ہمارے ہم عصر اور اسکے پہلے زمانے والے لوگ اکثر ہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ماں جیسا کھانا ماں کے بعد نہیں ملا چاہے سادہ سی چٹنی روٹی ہو یا چُوری یا شاہی قورمہ ۔ خود ہمیں اپنی ماں جیسا کھانا آج تک پکانا نہیں آیا دستر خوان کو کئی طرح کے سلاد ، اچار اور چٹنی ، برتنوں اور سلیقے سے بہلانے کی کوشش کی رنگ تو بھر جاتا ہے لیکن ماں کے ہاتھ کے ذائقے کو پکڑنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ آج بھی انکے ہاتھوں کے کئی کھانے یاد کرکے منہ میں چٹخارہ گھل جاتا ہے کہ واہ کیا بات ہے مامتا کی حالانکہ اس وقت نسبتاً سادہ وقت تھا پورے گھر کے لئے ایک ہی ہنڈیا بنتی تھی ۔
ہم نے گھر داری شروع کی تو قورمہ ، کری ، کڑاہی ، کڑھی ، زردہ ، پلاؤ ، بریانی ، کباب کسی بھی چیز میں وہ ذائقہ نہیں تھا جو ماں کے ہاتھ کا تھا بہت کوشش کی کئی طرح سے پکا کے دیکھا آئل بدلے دیسی گھی ڈالے لیکن وہ ذائقہ ندارد ۔۔۔ کئی برسوں میں یہ عقدہ حل کر پائے کہ ہمارے کھانے میں ماں کا ہاتھ نہیں لگا ہے ہنڈیا میں ماں کی بسم اللہ نہیں گُھلی ۔ گرد وپیش میں ماں کا ماحول نہیں ہے دستر خوان پہ ساتھ ساتھ بیٹھے چوں چوں کرتے بہن بھائی نہیں ہیں دسترخوان میں انکی چہچہاہٹ کا تڑکا ، چونچ لڑانے کی ترشی ، کسی بڑے کی ڈانٹ کا گرم گرم مصالحہ اور بہلاوے کی چٹنی دستیاب نہیں ہے تبھی ہنڈیا میں اس خالص پن کی کمی ہے ۔ ہم نے بہت سوچا کیا ہر کسی کی ماں اتنا ہی شاندار کھانا بناتی تھیں کہ اسے بھلانا مشکل ہو جبکہ کئی گھروں میں ایسے کچے پکے کھانے پکتے ہیں کہ بس اللہ معاف ہی کرے ۔ یہ گِرہ بھی ایک دن اچانک ہی کھلی کہ جو کچے یا پکے کھانے ہم کھا کے بڑے ہوتے ہیں وہی ذائقے ہمارے ساتھ پروان چڑھتے ہیں ہماری رگوں میں دوڑتے ہیں ہماری زبان ان سے آشنا ہوتی ہے حتی کہ ہماری روح میں گھل جاتے ہیں ۔ اس لئے ماں کے کھانے کسی کو نہیں بھولتے ۔۔ یہ دراصل رشتے کا ذائقہ ہے ۔
سوچتے ہیں مہینے میں ایک آدھ بار کی بات پہ رعایت ہے لیکن جن گھروں میں کک رکھنے کا رواج ہے یا بچے پارٹیز اور فن کے نام پہ روز ہی آرڈر کر دیتے ہیں بیٹھے بٹھائے گھروالوں کا پروگرام بن گیا پھجے کے پاۓ کھانے ہیں فلاں فوڈ سٹریٹ کا فلاں کھانا فلاں جگہ کے برگر ۔ شہباز تکہ کے چڑے ۔۔ متوسط طبقے کے اکثر گھروں میں مائیں کھانا نہیں پکاتیں بازار سے لانا سستا پڑتا ہے اور پکانے کے جھنجھٹ سے جان چھٹتی ہے تو ہماری آج کی برگر نسل کو ماں کے ہاتھ کے کھانے کیا یاد آئیں گے ہر جگہ کا نت نیا ذائقہ ہر کک کا اپنا ہاتھ ۔۔۔ کون ماں کے کھانوں کو یاد کرے گا یعنی ہم نے اس زمانے میں خلوص اور محبت اور روایات کا ایک کنگرا اور گرا دیا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...