کسی قسم کے شور کی آواز ہی تھی جس سے سعدیہ کی آنکھ کھل گئی ،کمرے میں اندھیرا تھا ۔ اس نے ھاتھ بڑھا کر میز پر پڑا لیمپ آن کیا اورساتھ پڑی گھڑی میں وقت دیکھا ۔ چار بج رھے تھے ۔ وہ یوں اچانک آنکھ کھل جانے پر حیران تھی کیونکہ کافی گہری نیند سوتی تھی ۔ عام طور پر رات کی سوئی صبح سے پہلے نہ اٹھتی تھی ۔ " شاید کسی ڈراؤنے خواب نے اٹھا دیا ھے " اس نے سوچا ، کچھ دیر خالی الذھنی کی کیفیت میں بیٹھی رھی پھر دوبارہ سونے کا ارادہ کرتے ھوئے روشنی بجھانے کے لیئے ھاتھ بڑھایا ہی تھا کہ فائر کی تیز آواز نے رات کے سکون کو تہ و بالا کر دیا ۔ وہ خوفزدہ ھو کر اٹھ بیٹھی ۔ آواز کافی قریب سے آئی تھی ، شاید قریبی سڑک سے ۔ چند منٹ کے وقفے سے دوسرا فائر ھوا ، پھر تیسرا ، چوتھا ۔ ۔ ۔۔ اور یہ سلسلہ چل نکلا ۔ باقاعدہ فائرنگ ھونے لگی ۔ یوں لگتا تھا جیسے دو متحارب گروہ آپس میں الجھ پڑے ھوں ، سعدیہ سہم کر دیوار سے جا لگی ، وہ بہت ڈر گئی تھی ۔ اس نے کل شام کو ہی ٹی وی کی خبروں میں سنا تھا کہ " چند خطرناک دھشت گرد حوالات سے فرار ھو گئے ہیں ۔ پولیس نے شہر نے شہر سے باہر جانے والے راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ھے اور سرگرمی سے ان مجرموں کو تلاش کر رہی ہے ۔ عوام سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ گھروں کے دروازے ، کھڑکیاں اچھی طرح بند کر لیں اور کسی قسم کی غیر معمولی صورتحال پیش آنے پر پولیس کو فون کریں ۔ سعدیہ نے خبریں سنتے ہی کھڑکیاں اور دروازے اچھی طرح بند کر لیئے تھے اور رات سونے سے پہلے ایک دفعہ پھر انہیں اچھی طرح چیک کیا تھا ۔ اس وقت اس نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ دھشت گرد اس طرف آ نکلیں گے کیونکہ ایک تو پولیس اسٹیشن یہاں سے کافی دور تھا دوسرے سعدیہ کا گھر کافی گنجان آباد علاقے میں تھا ۔ اور اس کے خیال میں مجرم فرار کے لیئے عموما" ویران راستوں کو ترجیح دیا کرتے ہیں مگر فائرنگ کی آوازیں اس کے اس خیال کی نفی کر رہی تھیں ۔ وہ کافی دیر تک ڈری سہمی بیٹھی رہی ، فائرنگ کی شدت میں اب کمی آ گئی تھی وقفے وقفے سے ایک ادھ فائر کی آواز سنائی دیتی اور پھر سناٹا چھا جاتا ۔ ان وقفوں کے دوران دوڑتے قدموں کی آوازیں اور کئی قسم کا ملا جلا شور بھی سنائی دیتا رہا ۔ پھر آہستہ آہستہ خاموشی چھا گئی ۔ سعدیہ کافی دیر تک انتظار کرتی رہی کہ شاید پھر کوئی فائر ہو مگر ماحول پر اک پرھول سا سناٹا چھا گیا ۔ اسطرح سکوت ھو گیا تھا جیسے کچھ ھوا ہی نہ ھو ۔
وہ کچھ دیر مزید خالی الزھنی کی کیفیت میں بیٹھی رہی ، پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ھو رھا تھا جبکہ دل زور زور سے دھڑک رھا تھا ۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک ہی سانس میں نصف بوتل خالی کر دی کچھ اوسان بحال ھوئے تو قریبی کرسی پر بیٹھ گئی اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگی ۔ پانی پینے کے بعد واش بیسن کے قریب آئی اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی ۔ منہ دھونے کے بعد کچھ اوسان بحال ھوئے تھے ۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرے پر بکھرے بالوں کو سمیٹا اور ھیئر کلپ سے باندھنے لگی ۔ ایسا کرتے وقت اچانک اس کی نگاہ کھڑکی کی طرف اٹھ گئی ۔ ایک سایہ سا کھڑکی کے آگے سے گزر گیا تھا ۔ وہ ایکدم ساکت ھو گئی ۔ اسی وقت کچن کی بیرونی دیوار کی طرف کھٹکا سا سنائی دیا ۔ اس نے کچن کے بیرونی دروازے کے ھینڈل کو گھومتے دیکھا ۔ مگر چونکہ دروازہ اندر سے بند تھا اس لیئے باھر سے کھولا نہ جا سکتا تھا ۔ تو گویا بالکونی میں کوئی موجود تھا ۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ چند لمحوں کے بعد سیاہ ھیولا پھر کھڑکی میں نطر آیا ۔ وہ شاید اب کھڑکی پر زور آزمائی کرنا چاہتا تھا مگر غنیمت یہ تھی کہ کھڑکی میں لوہے کی مضبوط گرل کے علاوہ ایسا موٹا شیشہ لگا ہوا تھا جس کے آر پار نہ دیکھا جا سکتا تھا ۔ مگر یہ بات ہی کافی دھشت ذدہ کر دینے والی تھی کہ بالکونی میں کوئی موجود تھا جو گھر کے اندر گھس آنا چاھتا تھا جبکہ زرا ہی دیر پہلے باہر سے ھولناک قسم کی فائرنگ کی آوازیں بھی آتی رہی تھیں ۔ سعدیہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ اگر وہ شخص کسی طرح اندر آنے میں کامیاب ہو گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔ اس نے دوپٹے سے چہرے پر آئے پسینے کو پونچھا اور تیزی سے اندرونی کمرے کی طرف بڑھی ۔ تاکہ فون پر پولیس کو اطلاع دے سکے ۔ ابھی وہ راھداری میں ھی تھی کہ اسے کچن کا بیرونی دروازہ دھڑدھڑائے جانے کی آواز آئی ۔ آوازیں کافی اونچی اور مسلسل تھیں یوں لگتا تھا جیسے کوئی دروازے کو باھر سے کھولنے کے لیئے زور آزمائی کر رھا ھو ۔ وہ واپس کچن میں پلٹ آئی ۔
دروازے پر باھر سے ضربیں لگائی جا رھی تھیں ۔ سعدیہ نے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگائی کہ ضربیں اگر اسی شدت سے جاری رہیں تو دروازہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ھے ۔ کچن کی طرف والی بالکونی بالکل ویران رہتی تھی ۔ یہ عمارت کا پچھواڑا تھا ۔ یوں بھی کچھ دیر پہلے ھوئی فائرنگ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اگر کوئی یہ آوازیں سنتا بھی تو شاید ھی انکی طرف توجہ دیتا ۔ اور مدد کے لیئے اتا ۔ اسلیئے اپنی حفاظت کے لیئے جو کرنا تھا سعدیہ کو خود ہی کرنا تھا ۔ اس نے جلدی جلدی کھانے کی میز گھسیٹی اور کسی نہ کسی طرح دروازے کے آگے سرکا لائی ۔ میز کو دروازے کے اگے رکھنے کے بعد وہ برتنوں کی الماری کی طرف بڑہی ۔ الماری کے نیچے پہیئے لگے ھوئے تھے اس لیئے سعدیہ آسانی سے اسے بیرونی دروازے کے سامنے ٹکی میز کے آگے اس طرح لے آئی کہ اب اگر دروازہ ٹوٹ بھی جاتا تو میز اور الماری کے دباؤ کی وجہ سے اندر کو نہیں کھل سکتا تھا ۔ مزید احتیاط کے طور پر اس نے ایک چھوٹی میز الماری اور اندرونی دیوار کے درمیان پھنسا دی ۔ اب گویا اپنی دانست میں اس نے اندر آنے والے کی راہ میں مضبوط رکاوٹیں قائم کر دی تھیں دوسری طرف دروازے پر پڑنے والی ٹھوکروں اور ضربوں کی شدت میں اضافہ ھو گیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں دروازہ ٹوٹ جائے گا ۔ اور یہی ھوا چند لمحوں بعد دروازہ اکھڑ گیا تھا ۔
سعدیہ گھبرا اٹھی اور تیزی سے اندرونی راھداری کی طرف بھاگی اور کچن کے اندرونی دروازے کو بند کر کے چٹخنی چڑھا دی ۔ اسی وقت کچن سے کچھ گرنے کی آواز آئی ساتھ ہی برتنوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا شور بھی ، گویا برتنوں کی الماری اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی تھی ۔ سعدیہ دروازے کے ساتھ لگی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا ۔ پھر اس دروازے کا ھینڈل گھومتا محسوس ھوا جس کے ساتھ وہ لگی کھڑی تھی ۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں سرایت کر گئی ۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رھا تھا کہ اب کیا کرے ۔ لاشعوری طور پر وہ اس انتظار میں تھی کہ شاید اس دروازے پر بھی ضربیں پڑنی شروع ھوں مگر جب کچھ دیر گزر گئی اور کوئی آواز سنائی نہ دی تو اسے تعجب ھوا مگر اگلے ھی لمحے یہ تعجب دھشت میں بدل گیا ۔ شاید وہ شخص سٹور کی طرف بڑھ گیا ھو ۔ اگر ایسا ھوا ھے تو راھداری تک پہنچنا اس کے لیئے بالکل آسان ھو جائے گا ۔ سعدیہ کا دل بیٹھ گیا ۔ اس نے سہمے ھوئے انداز میں راھداری کے اس سرے کی طرف دیکھا جہاں سٹور تھا اور پھر ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔
وہ راھداری میں قدم رکھ رھا تھا ۔ سرتا پا سیاہ لباس میں ملبوس ۔ اس کے دائیں ھاتھ میں پستول دبا ھوا تھا ۔ وہ نپے تلے انداز میں قدم بڑھاتا سعدیہ کی طرف بڑھنے لگا ۔ جبکہ سعدیہ دیوار سے لگی اندرونی کمرے کی طرف کھسکنے لگی اس کے سارے جسم پر کپکپی طاری تھی ۔ بال ایکدفعہ پھر کھل کر چہرے پر بکھر گئے تھے جبکہ سینہ لوھار کی دھونکنی کی طرح چل رھا تھا ۔ جونہی وہ اندرونی کمرے کے دروازے پر پہنچی سیاہ پوش کی گرجدار آواز گونجی ۔
ٹھرو ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
سعدیہ اپنی جگہ پر ساکت ھو گئی ۔ وہ ذرا ھی دیر میں سعدیہ کے سر پر آ پہنچا ۔ اس کے پستول کا رخ سعدیہ کے سینے کی طرف تھا ۔ سعدیہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ۔
" شاید تم گھر میں اکیلی ھو۔"
اس بار سیاہ پوش کا لہجہ نسبتا" دھیما تھا ۔ سعدیہ کا سر اثبات میں ہل گیا ۔ پھر اچانک کسی خیال کے آتے ھی نفی میں سر ھلاتے ھوئے پھنسی پھنسی آواز میں بولی ۔
" اوپر میرے بچے سو رہے ھیں ۔ شور کی اواز سن کر شاید وہ جاگ اٹھے ھوں ۔ مجھے اوپر اپنے بچوں کے پاس جانے دو ۔ وہ ڈر رہے ھونگے ۔ " سعدیہ کے لہجے میں دنیا جہاں کا درد سمٹ آیا
" نہیں ، سیاہ پوش نے پستول کو جنبش دے کر کہا ۔ تم کہیں نہیں جاؤ گی ، اگر بچے اٹھے ھوتے تو ان میں سے کوئی نیچے ضرور آتا ۔ وہ اتنے چھوٹے بھی نہ ھونگے کہ سیڑھیوں سے نیچے نہ اتر سکیں ، کیوں ؟ "
ہاں ، سعدیہ کا سر اثبات میں ہل گیا ۔ یوں بھی میرے بچے کافی گہری نیند سوتے ھیں ۔"
" تمھارا خاوند کہاں ہے ۔ "
رات کی دیوٹی پر ۔وہ ڈاکٹر ہیں
سیاہ پوش کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی ۔ " پھر تو گھر میں فرسٹ ایڈ کا سامان بھی ھو گا ۔"
ہاں ھے ۔ گھر میں ضروری استعمال کی تمام دوائیں ہر وقت موجود رہتی ھیں ۔ "
چلو ، فرسٹ ایڈ بکس لے کر آؤ ۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک گولی میری ٹانگ کو چھو کر گزر گئی ھے ۔ معمولی زخم ھے مگر خون تھم نہیں رھا ۔
سعدیہ نے بے اختیار اس کی ٹانگوں کی طرف دیکھا ۔ دائیں ٹانگ پر گھٹنے سے ذرا نیچے خون رس رھا تھا ۔ سعدیہ کمرے میں داخل ھوئی اور الماری کی طرف بڑھی ۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا تھا ۔ سعدیہ نے الماری کا پٹ کھولنے کے لیئے ھاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سیاہ پوش بولا
ذرا ٹھرو ،
سعدیہ کا اٹھا ھوا ھاتھ رک گیا ۔ لیکن اس نے پلٹ کر نہ دیکھا تھا ۔
کیا فرسٹ ایڈ بکس الماری میں ھے ؟ سیاہ پوش اس کے برابر پہنچتا ھوا بولا
سعدیہ نے اثبات میں سر ھلایا
تم ٹھرو ، میں الماری سے بکس نکالتا ھوں ۔
سعدیہ ایک طویل سانس لے کر رہ گئی ، سیاہ پوش نے ایک جھٹکے سے الماری کھول دی
سامنے الماری کے اوپری خانے میں ایک ننھا سا پستول چمک رھا تھا ۔
سیاہ پوش نے معنی خیز نظروں سے سعدیہ کی طرف دیکھا اس کی سرخ آنکھوں میں سختی آ گئی تھی ۔ سعدیہ نظریں چرا کر دوسری سمت دیکھنے لگی
" تم بہت خطرناک لڑکی ھو ، اور دلیر بھی ۔ مگر میرے ساتھ کسی قسم کی چالاکی تمھارے لیئے سخت نقصان دہ ثابت ھو گی ۔
سعدیہ خاموشی سے ھونٹ کاٹتی رہی
دیکھو لڑکی ، تمھیں میرے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے ، اسی میں تمھاری بھلائی ھے ،
سعدیہ نے اسکی طرف دیکھا ۔ وہ کہتا رھا ۔ اگر تم تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ھو تو تمھاری موت پر مجھے ذرا بھی افسوس نہ ھو گا ۔اس کے لہجے میں سفاکی در آئی
" تم کیا چاہتے ھو ۔" سعدیہ نے تھکے تھکے لہجے میں کہا
سب سے پہلے اپنے زخم کی ڈریسنگ ، اور اس وقت تک تمھارے گھر میں قیام جب تک پولیس اس علاقے سے چلی نہیں جاتی ۔
" تمھارے زخم کی ڈریسنگ تو میں کر دونگی ۔ مگر ذیادہ یہاں ٹھرنا خود تمھارے لیئے نقصان دہ ثابت ھو سکتا ھے ۔ میرے شوھر علی الصبح ڈیوٹی سے واپس آ جاتے ھیں ۔
فی الحال میرے زخم کی ڈریسنگ ھونی چاہیئے ، بعد کا بعد میں دیکھا جائیگا ۔
اچھا ۔ ۔ ۔ ۔۔ الماری کے نچلے خانے میں فرسٹ ایڈ بکس پڑا ھے ۔ وہ نکالو ۔ سیاہ پوش نے بکس نکلا اورالماری میں پڑے پستول کو بھی اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا ۔ جبکہ اپنے پستول کا رخ سعدیہ کی طرف کرتے ھوئے قریبی کرسی پر بیٹھ گیا
تم پستول جیب میں رکھ لو ۔ مجھے اس سے خوف محسوس ھوتا ھے ۔ اسکی موجودگی میں اچھی طرح زخم کی دیکھ بھال نہ کر سکونگی ۔
میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتا ۔
دیکھو ۔ میں ایک نرس رہ چکی ھوں اور یہ بات میری تربیت میں شامل ھے کہ مریض کا علاج پوری دیانتداری سے کرنا ھے ۔
سیاہ پوش چند لمحے خاموشی سے سعدیہ کی طرف دیکھتا رہا جیسے اس کے لہجے کی صداقت کو پرکھنے کی کوشش کر رھا ھو ۔ پھر اس نے پستول جیب میں رکھتے ھوئے کہا
تم یہ نہ سمجھنا کہ پستول جیب میں رکھنے کے بعد تم کسی قسم کی کوئی حرکت کر سکو گی ۔ میں خالی ھاتھ سے بھی پلک جھپکنے میں تمھیں دبوچ سکتا ھوں ۔
سعدیہ خاموش رہی ۔ اس نے فرسٹ ایڈ بکس کھولا اور سیاہ پوش کا زخم دیکھنے لگی ۔
کچھ وقت زخم صاف کرنے اور مرھم پٹی میں گزر گیا ۔ جب سعدیہ اس کام سے فارغ ھوئی تو سیاہ پوش کے منہ سے بے اختیار نکلا
تم نے تو انتہائی ماھرانہ انداز میں ڈریسنگ کی ھے ۔
میں نے کہا نا کہ میں ایک نرس ھوں ۔ وہ تو بچوں کی پیدائش کے بعد جاب چھوڑ دی ۔ کہ بچوں کی دیکھ بھال ھی ایک کل وقتی جاب ھے ۔
تمھارے کتنے بچے ھیں ؟
دو، 4 سالہ جویریہ اور 6 سالہ احمد ۔ جسے میں پیار سے ساشا کہتی ھوں ۔
ساشا ، یہ تو رشین لفظ ھے شاید ؟ سیاہ پوش بولا ۔ میں تھوڑی بہت رشین جانتا ھوں ۔
ھاں ، ان دنوں میں ایک رشین سٹیٹ میں جاب کرتی تھی جب احمد پیدا ھوا تھا ۔وھاں بعض مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو اسی طرح کے ناموں سے پکارتی ہیں ۔ سعدیہ کے لہجے میں پیار سمٹ آیا
تم اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ھو ؟
بہت ذیادہ ۔ ھر عورت کی طرح میرا خاوند اور بچے ھی میری کل زندگی کا سرمایہ ھیں ۔ مگر ھر عورت کی طرح نہیں کہنا چاہیئے میں نے کچھ عورتوں کو اپنے خاوند سے بے وفائی کرتے اور بچے چھوڑ کر کیریئر کے پیچھے بھاگتے دیکھا ھے ۔
مگر تم ان عورتوں میں سے نہیں ھو ۔ اپنے گھر کی حفاطت اور بچوں سے محبت کے اس جذبے سے میں بہت متاثر ھوا ھوں ۔ سیاہ پوش کا لہجہ بے حد نرم تھا
اسی وقت اطلاعی گھنٹی کی آواز سنائی دی
سیاہ پوش اچھل کر کھڑا ھو گیا ۔ اس نے دونوں پستول نکال کر ھاتھوں میں لے لیئے تھے
" کون ھو سکتا ھے ، تمھارا خاوند ۔۔؟" اس کی آواز میں غراھٹ تھی ذرا دیر پہلے والی نرمی کا لہجے میں شائبہ تک نہ تھا
سعدیہ نے نفی میں سر ھلایا ۔ " صہیب عموما" ساڑھے چھ سے پہلے نہیں آتے ، ابھی تو شاید 5 بجے ھونگے
" پھر ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ کون آ گیا ۔ ۔ ۔ پولیس ۔ ۔۔ ۔ ۔ سیاہ پوش کے لہجے میں گھبراھٹ تھی
اطلاعی گھنٹی پھر بجی
سعدیہ بولی ۔ " دیکھو ۔۔۔ تم جس طرف سے آئے ھو اسی طرف سے نکل جاؤ ۔ اگر یہاں رھے تو کسی چوھے کی طرح پکڑے جاؤ گے "
تم ٹھیک کہتی ھو ۔ سیاہ پوش نے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گیا جبکہ سعدیہ تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ، گھنٹی اب مسلسل بج رھی تھی
" اے تم کہاں چلیں ۔ " سیاہ پوش کی درشت آواز نے اس کے قدم روک لیئے ۔ جلدی سے مرے آگے کچن کی طرف چلو ۔ اس نے دائیں ھاتھ میں دبے پستول سے اشارہ کیا ۔ سعدیہ خاموش کھڑی رہی
چلو ، وہ غرایا اور وہ کچن کی طرف چلدی ۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے پیچھے آیا تھا ۔ اطلاعی گھنٹی کی آواز اب نہیں آ رہی تھی ۔ کچن کے فرش پر برتنوں کی الماری گری پڑی تھی اور برتن فرش پر بکھرے ھوئے تھے ۔ سعدیہ نے رک کر سیاہ پوش کو دیکھا ۔ وہ اسے پستول سے کور کرتا ھوا اکھڑے ھوئے دروازے کی جانب بڑھا اور سر نکال کر باھر جھانکا ۔ پھر سعدیہ کی طرف دیکھ کر پر تشویش لہجے میں بولا
" پچھلی گلی میں بھی پولیس موجود ھے ۔ چلو ، واپس کمرے میں " اس بار اس نے سختی سے سعدیہ کا بازو پکڑا اور اندر کمرے میں دھکیل لایا ۔ پستول کی نالی اس نے سعدیہ کی کنپٹی سے لگا دی تھی ۔
سعدیہ تھر تھر کانپنے لگی ۔ " تم کیا کرنے جا رہے ھو ۔ " اس نے لرزتی ھوئی آواز میں کہا
اب بیرونی دروازے کو کئی ھاتھوں سے پیٹا جا رھا تھا
یقینا" باھر پولیس ھے ۔ وہ شاید کچن کا اکھڑا ھوا دروازہ دیکھ کر اسطرف آئے ھیں ۔ اب میرے بچاؤ کی صرف ایک ھی صورت ھے کہ تمھیں یر غمال بنا لوں " سیاہ پوش سفاک لہجے میں بولا
سعدیہ کے بازو پر اسکی گرفت مزید سخت ھو گئی تھی
سعدیہ خوفزدہ سی اسے دیکھتی رہ گئی اس کے چہرے پر انتہائی کرختگی اور آنکھوں میں وحشت تھی ۔ سعدیہ نے ایک جھر جھری لی اس کا سارا جسم کانپ رھا تھا ۔ دوسری طرف دروازہ مسلسل دھڑ دھڑایا جا رھا تھا ۔ بلکہ اب دروازے پر ضربیں بھی لگنی شروع ھو گئی تھیں ۔
سیاہ پوش کہہ رھا تھا ۔ " دروازہ ٹوٹنے کی صورت میں پولیس سیدھی یہیں آئیگی ۔ شاید وہ لوگ کچن کی بالکونی سے بھی اوپر چڑھنے کی کوشش کر رھے ھونگے ۔ میں دونوں طرف سے گھر کر نہ رہ جاؤں ۔ چلو اوپر ۔" اس نے سعدیہ کو سیڑھیوں کی طرف دھکیلا
نہیں ، ۔ اوپر میرے بچے ھیں ۔ وہ تمھیں دیکھ کر ڈر جائیں گے ۔ میں تمھیں اوپر نہیں جانے دونگی ۔ " سعدیہ نے سخت لہجے میں کہا ۔ نہ جانے اس میں اتنی جرات کہاں سے آ گئی ۔ بیرونی دروازے پر پڑنے والی ضربیں شدید ھو گئی تھیں
" تم بہت ضدی ھو ۔ اور کسی بھی وقت میرے لیئے خطرناک ثابت ھو سکتی ھو ۔ لہذا اب میں تمھیں چھوڑ کر تمھارے بچوں کو ھی یرغمال بناونگا ۔
سیاہ پوش نے یہ کہہ کر سعدیہ کو صوفے پر دھکیلا اور تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا
سعدیہ صوفے پر گرتے ھی اٹھ کھڑی ھوئی ۔ اور دھاڑتی ھوئی بولی
" رک جاو ۔۔۔ اوپر مت جاؤ ۔ ۔۔ ۔ وھاں مرے بچے ھیں ۔ "
سیاہ پوش سنی ان سنی کیئے سیڑھیاں چڑھنے لگا
" رک جاو ، ورنہ میں تمھیں جان سے مار دونگی ۔ " سعدیہ نے چیختی ھوئی آواز میں کہا
پھر جیسے اس کے جسم میں بجلی بھر گئی ۔ اس نے چھوٹی میز پر پڑی پھل کاٹنے والی چھری اٹھائی اور بے تحاشا سیاہ پوش کی طرف لپکتے ھوئے اس کے سر پر جا پہنچی ، سیاہ پوش اسکی موجودگی محسوس کر کے پلٹا ۔ عین اسی وقت سعدیہ نے ھاتھ میں پکڑی چھری پوری قوت سے سیاہ پوش کے عین دل کے مقام میں پیوست کر دی ۔ اور پے در پے وار کرتی چلی گئی ۔ سیاہ پوش لڑکھڑایا اور تیورا کر گرا ۔ پھر سیڑھیوں پر نیچے کی طرف لڑھکتا چلا گیا ۔
عین اسی وقت کمرے میں پولیس گھس آئی ۔ سعدیہ نے دیکھا ساتھ اس کا شوھر بھی تھا ۔ وہ بھاگتا ھوا سیڑھیاں چڑھتا سعدیہ کے پاس پہنچا اور اسے سہارا دے کر نیچے اتار لایا ۔ سعدیہ نے کپکپاتی ھوئی آواز میں کہا۔
یہ شخص میرے بچوں کو نقصان پہنچانا چاھتا تھا صہیب ۔ پولیس کو بتاؤ میں قاتلہ نہیں ھوں ۔ میں نے اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیئے اسے مارا ھے ۔ پھر وہ انسپکٹر کی طرف دیکھ کر بولی
" اوپر میرے بچے سو رھے ھیں ، میری جویریہ اور ساشا ۔۔اس کے حواس جواب دے رھے تھے اگلے ھی لمحے وہ اپنے خاوند کے بازوؤں میں جھول گئی ، صہیب نے آھستگی سے اسے صوفے پر لٹا دیا ۔
پولیس انسپکٹر سیاہ پوش کے قریب بیٹھ کر اسکی نبض دیکھ رھا تھا ۔
" یہ مر چکا ہے ۔ " انسپکٹر نے کہا اور اٹھ کر صہیب کے قریب آیا یہ بہت خطرناک دھشت گرد تھا ۔ اور اسکی گرفتاری پر انعام بھی مقرر تھا ۔ آپکی بیوی نے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ھے ۔" وہ کچھ دیر رکا ، ایک نظر دھشت گرد کی لاش پر ڈالی اور پھر بولا
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ بقول آپکی بیوی کے اوپر آپکے بچے سو رھے ھیں جن کو بچانے کے لیئے انہوں نے مجرم پر وار کیا مگر حیرت کی بات ھے کہ اس شور شرابے اور ھنگامے نے بھی بچوں کی نیند میں خلل نہیں ڈالا ۔ "
صہیب نے آہ بھر کر کہا
" انسپکٹر ، کچھ عرصہ قبل میرے دونوں بچے سکول سے واپس آتے ہوئے بم دھماکے میں جاں بحق ھو گئے تھے ۔"
اختتام
https://web.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1727369027529797/