حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ”نبی کریم ﷺ نے قبر کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی“۔ (الترمذی -۶۵۰۱)ایک دوسری روایت آتی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ”میں نے تم کو قبر کی زیارت کرنے سے روکا تھا، پس اب تم کو اجازت ہے، کیونکہ قبر کی زیارت کرنے سے موت کی یاد تازہ ہوتی ہے“۔(صحیح مسلم-۷۷۹)
گویا قبر پر جانا چاہیے لیکن نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے لیے، قبر پر جانا چاہیے تاکہ اس دنیاوی زندگی کی بے وقعتی اور کم مائیگی کا احساس ہو، قبر پر جانا چاہیے کہ اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی قبروں پر رونے دھونے جانے یا نوحہ کرنے جائے تو اس کے لیے قبر کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی کمزور دل کا ہو اور خود پر قابو نہ رکھ سکتا ہو تو اسے قبرستان جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ تاریخ کا بھی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ مطلوب ہے اس سے سبق حاصل کرنے کے لیے، تاریخ کا مطالعہ بالکل کیا جانا چاہیے تاکہ اس سے عبرت بھی حاصل ہو، حوصلہ بھی ملے۔ اسلاف سے جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں ان سے عبرت لینا اور ان کے کارناموں سے حوصلہ جگانا مقصود ہو تو تاریخ کا مطالعہ خود میں ایک عبادت ہے۔کسی نے کہا ہے کہ”جو تاریخ کی ناکامیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے، تاریخ ان کے لیے ناکامیوں کو بار بار دہراتی ہے، کہ وہ اس سے سبق حاصل کر لیں“۔کارل مارکس کہتا ہے کہ ”تاریخ خود کو دہراتی ہے، پہلے ناکامی کے طور پر،پھر بھی نہ سمجھے تو تباہی کے طور پر“۔
لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ آپ کو حال اور مستقبل سے بے نیاز کر دے، آپ تاریخ میں ہی جینے لگیں،اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں، خوش کن واقعات پر خوش ہوتے رہیں، حادثات سوچ سوچ کر غمگین رہنے لگیں بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کے سالانہ غم کی محفلیں منعقد کرنے لگیں تو خدا ہی آپ کا بھلا کرے،آپ کے حال اور حالت حال دونوں کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ایک دوست نے کچھ دنوں پہلے ’ٹیپو سلطان شہید ؒ‘ پر مبنی ایک ڈاکومینٹری دیکھی اور ہفتوں اس غم میں مارا مارا پھرتا رہا کہ اگر میر صادق غداری نہیں کرتا تو شاید آج ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ ایک صاحب اورہیں جن کی زندگی کی سوئی’جہانگیر‘ پر اٹکی ہوئی ہے۔ ان کو جب سے معلوم ہوا ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت ’جہانگیر‘ نے ہی دی تھی وہ ’جہانگیر‘ سے سخت نالاں ہیں اور سیکڑوں لوگوں سے اس کی برائی بھی کر چکے ہیں۔
تاریخ پڑھنے یا پڑھانے سے پہلے اگر یہ واضح ہو جائے کہ آخر تاریخ کے مطالعہ کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ تو شاید لوگوں کے رویہ میں کچھ سدھار آجائے۔ ایک شیعہ دوست جو ہمارے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اکیلے نماز پڑھتا ہے،اس کو کریدنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ وہ ابھی تک ’باغ فدک‘ کی وراثت کو لے کر ناراض ہے۔ میں نے الگ الگ راستوں سے اس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ’باغ فدک‘ کا مسئلہ حل ہونے تک وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔
یہ اس بے چارے کی غلطی نہیں ہے۔ اس کو تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی گئیں ہیں، جو اسباق اس کو رٹائے گئے ہیں وہی اس کے ذہن و دماغ میں رچ بس گئے ہیں۔’باغ فدک‘ کی تاریخ کا مسئلہ اتنی بار ممبر سے اس کے کانوں میں ڈالی گی کہ اس کو لگتا ہے یہی موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔تاریخ کی جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے کم ہی ایسی ہیں جو تاریخ نگاری کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئیں ہوں۔ واقعات کو عمودی ترتیب سے جائے واقعہ اور افراد کے ناموں کے ساتھ لکھ مارنے کو تاریخ نگاری نہیں کہتے۔
تاریخ پر مبنی مضامین یا کتابیں لکھتے وقت ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ وہ تاریخ کے نام پر واقعات کا پٹارہ بن کر نہ رہ جائے۔ تذکرہ نگار حضرات کسی علمی یا تحریکی شخصیت کے بارے میں لکھتے وقت بھی عموما اس اہم نکتے کو بھول جاتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے چار شخصیتوں پر چار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ ’المامون‘، ’الغزالی‘، النعمان‘ اور الفاروق‘ یہ تما م کتابیں یکاتائے روزگار کتابیں ہیں۔ ان اشخاص اور ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ان کے کارناموں اور ان کے لیے ان کارناموں کو انجام دینا کس طرح ممکن ہوا اس پر گفتگو کی ہے۔ تذکرہ نگاری یا افراد کے بارے میں گفتگو کا یہی طریقہ بہترین اور سب سے کار آمد ہے جہاں ہم اس فرد کے ذاتی احوال و کوائف اور کرامتوں میں ہی سمٹ کر نہیں رہ جاتے۔پڑھنے والے بھی احوال و کوائف اور فضائل میں الجھنے کے بجائے افکار کو سمجھنے میں وقت صرف کریں تو کہیں زیادہ سود مند ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ کہ تاریخ لکھتے وقت بھی، پڑھتے وقت بھی اور کلاسوں میں پڑھاتے وقت بھی مقصدیت ضرور پیش نظر ہے۔ اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ تاریخ کا مطالعہ محض برکت کے حصول کا باعث بن کر نہ رہ جائے۔ ایک سبق ہو، ایک حوصلہ ہو جو پڑھنے والے کے دل میں سرایت کر جائے۔ تاریخ بے جا خوشی جو تکبر کی طرف لے جاتی ہو یا مایوسی جو کم ہمتی کا سبب بنتی ہو اس کا باعث نہ بن جائے۔ ع
معمار تھے جو مستقبل کے روتے ہیں گزشتہ عظمت کو
بے باک تھی جن کی بت شکنی، ہنستے ہیں انہیں پتھر کے صنم
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...