آپ نے اپنے دوست کو ایک دستاویز پرنٹ کرنے کے لئے بھیجی۔ یہ دستاویز معلومات ہے۔ اس دوران اس نے کئی شکلیں بدلیں۔ آپ کی ہارڈ ڈسک میں مقناطیسی حالت سے کمپیوٹر کی ورکنگ میموری میں برقی چارج کی صورت میں۔ وائرلیس نیٹورک میں ریڈیو ویوز کی صورت میں، راوٗٹر میں وولٹیج کی شکل میں، آپٹیکل فائبر میں لیزر پلس میں اور سب سے آخر میں کاغذ پر مالیکیولز کی شکل میں یہ دستاویز پہنچ گئی۔ اس معلومات کی اپنی ایک شناخت تھی، اس کے نیچے جو بھی ہو۔ ہماری دلچسپی اس معلومات کو اٹھانے والی چیزوں میں نہیں تھی، بلکہ اس معلومات میں تھی جو ان میں موجود تھی۔ اگر آپ کا دوست آپ کو فون کر کے اس بارے میں بات کر رہا ہے تو وہ بات اس دستاویز کے بارے میں کر رہا ہے، نہ کہ وولٹیج اور مالیکیولز کے بارے میں۔
معلومات کے اپنی کیرئیر سے الگ ہونے کو سبسٹریٹ انڈی پنڈنس کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انجینیر ہمارے کمپیوٹر میں بہتر میموری کے آلات لگا دیتے ہیں اور سوفٹ وئیر کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ اس کی وجہ سے پچھلی چھ دہائیوں میں کمپیوٹر میموری کے قیمت ہر دو سال کے بعد آدھی رہ گئی ہے۔ ہارڈ ڈسک کی قیمت دس کروڑ گنا کم ہو گئی ہے اور ریم کی قیمت ایک سو کھرب گنا۔ (اگر دوسری چیزوں کی قیمت اس قدر تیزی سے کم کرنے کا طریقہ ہوتا تو دنیا بھر کا سونا سو روپے میں مل جاتا اور پورے کراچی کی جائیداد دس روپے میں)۔ فلپ فلوپ، بگ ڈرائیو، فلوپی ڈرائیو، ہارڈ ڈسک، سِم، ڈِم، سولڈ سٹیٹ ڈسک کی سٹوریج کا طریقہ فرق ہے لیکن کمپیوٹر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کی فزکس میں مثال دیکھنے کے لئے لہروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لہر کی اپنی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ رفتار، ویولینتھ، فریکوئنسی وغیرہ۔ ان خاصیتوں کی اپنی مساواتیں۔ ان سب کو جاننے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ لہریں خود ہیں کس میں۔ اگر آپ آواز سن رہے ہیں تو ہم آواز کی لہریں ڈیٹکٹ کر رہے ہیں۔ یہ گیسوں کے ایک مکسچر (ہوا) کے مالیکیول کی ایک دوسرے سے ٹکرا کر بننے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہم ان لہروں کے بارے میں بہت دلچسپ چیزیں کیلکولیٹ کر لیتے ہیں جیسا کہ فاصلے کے ساتھ یہ کس طرح کم ہو جاتی ہے۔ اس میں بازگشت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ کھلے دروازے سے کیسے مڑتی ہے، دیوار سے کیسے ٹکراتی ہے۔ اس سب کو جاننے کے لئے ہمیں آکسیجن، نائیٹروجن یا کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ جو جاننے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں۔ اس تمام سبسٹریٹ کی صرف ایک خاصیت ویو کی مشہور مساوات میں ایک عدد کے طور پر آتی ہے جو لہر کی رفتار ہے اور اس کو بھی آسانی سے ناپا جا سکتا ہے اور اس کے لئے بھی سبسٹریٹ کی خاصیت جاننے کی ضرورت نہیں۔ (ہوا کے لئے یہ تین سو میٹر فی سیکنڈ ہے)۔ آواز کی ان خاصیتوں اور ان کی مساوات کو ہم اس وقت بھی معلوم کر چکے تھے جب ابھی اس پر اتفاق نہیں تھا کہ ایٹم اور مالیکیول واقعی اصل میں ہوتے بھی ہیں۔
لہروں کی اس مثال سے ہمیں تین اہم چیزوں کا پتہ لگتا ہے۔ پہلا یہ کہ سبسٹریٹ سے آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ سبسٹریٹ غیرضروری ہے لیکن یہ کہ اس سبسٹریٹ کی زیادہ تر تفصیل سے فرق نہیں پڑتا۔ بغیر گیس کے آواز نہیں ہو گی لیکن کوئی بھی گیس ہو سکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ سبسٹریٹ کے اوپر رہنے والا فینومینا خود اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔ ایک لہر ایک جھیل کو پار کر لیتی ہے حالانکہ جس پانی کے اوپر یہ بنی ہے اس کا کوئی بھی مالیکیول ایسا نہیں کرتا۔ وہ تو بس اوپر اور نیچے ہو رہا ہے۔ سٹیڈیم میں شائقین جب میکیسکن ویو بناتے ہیں تو وہ تو بس اٹھ بیٹھ رہے ہیں لیکن ان کی لہر کسی رفتار سے سٹیڈیم میں سفر کر رہی ہے۔ تیسرا یہ کہ ہماری دلچسپی اس شے میں ہے جو سبسٹریٹ سے آزاد ہے۔ ایک سرفر ایک دلچپی لہر کی پوزیشن اور اونچائی میں ہے، نہ کہ پانی کی حالتوں اور مالیکیولر کمپوزیشن میں۔ مادے سے ذہانت جیسی غیرمادی، ایبسٹرکٹ اور ایتھیرئیل چیز بھی ایسے ہی نکلتی ہے۔
یہ نہ صرف معلومات کے لئے ہے بلکہ کمپیوٹیشن کے لئے بھی۔ اگر دو پروگرامر ایک پروگرام میں غلطی تلاش کر رہے ہیں تو وہ غالبا ٹرانسسٹرز کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہوں گے۔ کمپیوٹیشن سپیس اور وقت میں پارٹیکلز کی ترتیب کا پیٹرن ہے۔ پارٹیکل اہم نہیں۔ پیٹرن اہم ہے۔ مادہ ہارڈ وئیر ہے اور پیٹرن سافٹ وئیر۔ اپنے سبسٹریٹ سے آزادی کی وجہ سے چالاک انجئنیر ہماری کمپیوٹیشن میں بھی بغیر سافٹ وئیر بدلے اسی طرح تبدیلیاں لے آئے ہیں جس طرح کی سٹوریج میں۔ کپیوٹیشن کی قیمت بھی ہر دس سال بعد نصف رہ جاتی ہے اور یہ پچھلے سو سال سے جاری ہے۔ الیکٹرومیکینیکل، ریلے، ویکیوم ٹیوب، انٹیگریٹڈ سرکٹ کا سفر بھی ویسا ہی ہے۔ میرے دادا کے بچپن سے کمپیوٹیشن کی پاور کی قیمت دس کروڑ کھرب گنا سستی ہو چکی ہے اور اس کی وجہ سے یہ ایسی جگہوں پر نظر آ رہی ہے جس کا کچھ عرصہ پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفتار بھی بڑھتی ہے اور پھر ٹیکنالوجی بھی بدل جاتی ہے۔ اس وقت ہم اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی پانچویں جنریشن پر ہیں۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے طریقے کی آخری حد آنے کے بعد نئے راستے کئی طرح کے ممکن ہیں۔ ہمیں یہ تو علم نہیں کہ اگلا سبسٹریٹ کیا ہو گا لیکن ہر شے کی آخری حد فزکس ہے۔ کمپیوٹیشن کی طاقت کے حوالے سے ہم ابھی فزکس کی حد کے کتنا قریب پہنچے ہیں؟ یہ کیلکولیشن سیٹھ لائیڈ نے کی تھی جو ایم آئی ٹی کے پروفیسر ہیں۔ ابھی ہم اس کے عشرِ عشیر تک بھی نہیں پہنچے۔ موجودہ رفتار سے یہ ۳۳ آرڈر کم ہے۔ یعنی ایک کے آگے تیتیس صفر لگا دیں۔ موجودہ رفتار کو اس سے ضرب دی جائے تو وہ کمپیوٹیشن کے طاقت کی آخری حد ہے۔ اگر کپیوٹیشن میں ترقی کی موجودہ حیرت انگیز شرح برقرار رہتی ہے تو اس حد تک پہنچے دو سو سال لگیں گے۔