ملوہا " ملوہی سے سرائیکی تک
رام کی سوتیلی ماں جھنگ اور ملتان کی رانی رہی ۔۔ انکا نام سومترا تھا ۔ رامائن۔کے مطابق راجہ رام کو سومترا کی وجہ سے ہی بنواس ملا ۔۔
یہاں یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ انکے ادوار کو ککئی راج یا پراکرت زبانوں کی تہزیب یا ادوار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جنہیں خوامخواہ ہی سنسکرت سے جوڑا دیا جاتا ہے ۔۔ مگر یہ غلط روایات ہیں ۔ اسی بناء پہ اکثر مؤرخین مغالظے میں رہے ۔۔ جبکہ ایسا حقیقتا نہیں ہے ۔۔
سومترا سابقہ ملوہی موجودہ سرائیکی زبان بولا کرتی تھیں ۔
یہاں تک کہ ہندو دھرم میں دیوی مانے جانے والی سرسوتی کی زبان عام زبان بھی سرائیکی رہی ۔۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ملتان قلعہ کے پاس ایک دریاء بہتا تھا جس کے کنارے سرسوتی پوجا کیا کرتی تھی ۔ پھر وہی دریاء سرسوتی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔۔ جو کہ آج سے تقریبا دو ہزار برس قبل سوکھ چکا ۔۔ بعض مؤرخین نے اسے دریائے ہاکڑہ بھی کہا بھی ہے ۔ بعض نے سرسوتی کو الگ دریاء کہا ۔۔
جہاں تک میری تحقیق ہے ۔ سرسوتی الگ دریاء تھا کیونکہ کسی وقتوں میں سندھ سات پانیوں والی زمین کہا جاتا تھا ۔ جو کہ پنجند میں گرتے تھے جبکہ ہاکڑہ تہزیب بہاولپور راجھستان کے چند علاقوں کا گہورا رہی ۔۔ ایسے میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کہ ہاکڑہ بہہ کر ملتان آئے اور پھر پلٹ کر پنجند ۔۔ جبکہ ہاکڑہ کے پلٹنے کے اثارات نہیں ملتے ۔۔
شکندر اعظم کی تاریخ میں بھی یہ الفاظ صریح موجود ہیں کے اسے سندھ پہ قبضہ جمانا تھا جو کہ دریاؤں کی زمین ہے جہاں کی مٹی زرخیز ہے ۔ فصلیں اناج عام ہے ۔ لوگ خوشحال ہیں ۔
خیر قصہ مختصر براہمنیت کی خود ساختہ تہزیب نے زبانوں تہزیبوں اور ثقافتوں میں بہت زیادہ ابہام پیدا کر دیئے ۔ پراکرت ککئی راج جیسی اساطیری داستانوں کو دیکھتا ہوں ہوں تو مؤرخین اساطیری قصہ جات سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کرتے نظر آئے ۔۔
بحرحال ایک بات تو ضرور ثابت ہے کہ یہاں سنسکرت پراکرت کا دور کبھی نہیں رہا ۔ جو تھا وہ ملوہا تھا اور ملوہی زبان ۔۔ مطلب موجودہ سرائیکی زبان ۔ دلیل کے لیے ایک بات اور قابل غور ہے کہ ہندؤں کی ایک اور معتبر کتاب مہابھارت میں واضخ طور پر سرائیکی قوم اور زبان کے اشارے ملتے ہیں ۔۔ مہابھارت وہ مشہور جتگ ہے جس میں ارجن پانڈؤں کے ساتھ لڑے ۔۔۔ دوسری دلیل میرے مطابق یہ ہے کہ موہنجوداڑو تہزیب کی زبان بھی سرائبکی ہی تھی کیونکہ ہڑپا کا دور اور موہنجوداڑو کا آخری دور ایک ہی وقت میں رہا ۔ ہڑپا کا فاصلہ ملوہا سے زیادہ نہیں ۔ پھر ہڑپا اور موہنجوداڑو کی تہزیب کلچر رہن سہن نقریبا ایک جیسا تھا ۔۔ ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں تہزیبوں کی ایک زبان تھی کیونکہ دونوں میں تجارتی تعلقات بہت اہمبت کے حامل رہے ۔ پھر موہنجوداڑو لاڑکانہ کے قریب ہے ۔ لاڑکانہ میں ژج بھی سندھی زبان کم سرائیکی زبادہ بوای جاتی ہے ۔ مطلب سرائیکی زبان کے قدیم الفاظوں کی آمیزش بہت زیادہ ہے ۔۔ پھر اتنا عرصہ گزر جانے بعد بھی لاڑکانہ کی کی وہی زبان کبسے ۔ ہو سکتا ہے ۔ موہنجوداڑو کی باقیات آس پاس چھپ گئیں اور اپنی زبان نہیں بھولیں ۔ جو کہ آج بھی نسل در نسل سلسلہ جاری ہے ۔ بلکل ویسے ہی جیسے ملوہا ۔ مول استھان ۔ مولتھان ۔ مولتان اور اب ملتان ۔۔
مگر زبان وہی قدیم ملوہی جدید سرائیکی ۔
حوالا جات ۔
تاریخ ہندوستان ۔ شنکر ترپاٹھی ۔
پٹک ۔ گوتم بدھ ۔
ارتھ آف سیون ریورز ۔
تاریخ فریڈ گوٹی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“