" ملکیت "
اس کے چاروں طرف آندھیاں چل رہی تھیں۔ کالک کا احساس اتنا گہرا تھا جیسے گھپ اندھیرا دھواں بن کر دھیرے دھیرے اس کی روح سیاہ کرتا ہو۔ آنکھوں سے بہتے سیال کی گرمی اسکے وجود کو چھلنی کر رہی تھی۔
ہر قطرہ ۔ ۔ ٹپ سے گرتا اور روح پر ایک گھاؤ ۔ ایک نشان۔ ۔ ایک اذیت چھوڑ جاتا۔ مشکل تو یہ تھی کہ وہ اس اذیت کا پرچار بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کسی سے غم بانٹ کر آدھا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
دلہن کو منہ دکھائی میں کیا ملا؟ سرگوشیوں میں کیا بیان ہوا؟
محبتوں میں گندھے وفا کے عہد و پیمان۔ ۔
بند دروازوں کے پیچھے نرم گداز رازوں کا لین دین ۔ ۔
سکھیاں صبح ہوتے ہی افشاء ہونے کا انتظار کیا کرتی ہیں اور پور پور نشےمیں ڈوبی سہاگن کبھی غرور سے۔ ۔ کبھی نخرے بھری ادا سے اور کبھی مان سے۔ ۔ کچھ کہتے کہتے لب روک لیتی ہے۔ اس کی دھیمی مسکان۔ ۔ پلکوں پر گرتی حیا کی چلمن سے کچھ کچھ ان کہے راز کہہ دیتی ہے۔ اور دلہن اپنے آپ میں سمٹ کر لال ہو جاتی ہے۔
مگر وہ کیا بتائے گی سکھیوں کو صبح؟ کہ اسے منہ دکھائی میں گالی ملی ہے؟
۔ ۔ ۔
قسمت نے دوسری بار عروسی جوڑا پہننے کا موقع دیا تھا۔ کئی کنواری لڑکیاں اسکی کلائی پھر سے کھنکتی چوڑیوں سے بھر جانے پر حسد اور رشک میں مبتلا تھیں۔ مگر حجلہ عروسی میں اس پر کسی غیر مرد کے "زیر استعمال" رہنے کی وجہ سے اسے "استعمال شدہ" عورت ہونے کا طوق ملا تھا۔ ۔
۔ ۔
لیکن وہ غیر مرد تو اسکا شوہر تھا ۔ پہلا شوہر۔ ۔ سب کی مرضی اور خوشی سے اس کی زندگی میں شامل ہونے والا شخص۔ ۔ اس کی سانسوں تک پر مالکانہ حقوق رکھنے والا وہ شخص غیر تو نہیں تھا۔ پھر اس کے نام کا ٹیکا آج گالی بنا کر کیوں اس کے ماتھے پر سجایا گیا؟
اور وہ "غیر" شخص جب کفن میں اسکے سامنے لایا گیا تب بھی سفید جوڑا زیب تن کرنے اور سونی کلائیوں میں سناٹے بھرنے میں اسکی مرضی شامل نہیں تھی۔ ہرگز نہیں تھی۔ وہ تو پورے من سے اسکی تھی۔ ایک ایک سانس اسکے نام کر چکی تھی۔
مگر سب نوچ کر پھینک دینا پڑا۔ اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟۔ اس کے بس میں نہیں تھا ساری عمر ایک ہی نام کی مالا جپنے کا حق رکھنا۔ ۔ ۔کہ ابھی تو بھری جوانی تھی اور عمر بیتنے میں عرصہ پڑا تھا ۔ ۔
نیا عروسی جوڑا بدن پر سجانے سے پہلے اس نے پوری ایمانداری سے پہلی یاد بھی دل کے کسی کونے میں پھینک چھوڑی۔ بھُلا دینا تو اس کے بس میں نہ تھا لیکن چھپا لینے پر اسکا پورا اختیار تھا۔ دل کے ایک گوشے میں اس نے ایک حصہ ان یادوں کے نام مخصوص کرنے کے بعد انہیں وہیں بند کر کے قفل لگا دیا تاکہ ماضی کی پر چھائیاں کہیں اسے حال اور مستقبل سے غافل نہ کر دیں۔
نئے سپنوں کے جگنو ایمانداری سے آنکھوں میں ٹانک کر وہ ایک بار پھر پیا سنگ چل پڑی۔ مگر یہ راہ تو ہمسفر کے ساتھ ہونے کے باوجود بھی دشوار تھی۔ اتنی خاردار منہ دکھائی نے اسکی روح تک نوچ ڈالی تھی۔ ۔
اسے اچھی طرح جتا دیا گیا کہ اب اسے جیسے چاہے روندا جا سکتا ہے کیونکہ وہ پہلے سے کسی اور کے ساتھ ملن کی راہوں کی مسافر رہی ہے۔
اب اسے کوئی نازک کلی کی طرح سینت سینت کر نہیں رکھے گا۔
وہ پھر سے کسی کے دل کے سنگھاسن پر براجمان نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اب وہ دوسری سہاگن تھی۔ ۔دوسری عورت کی طرح بےکار سمجھی جانے والی۔ ۔
اسے احساس ہوا اسکا تخت و تاج بھی اس غیر مرد کے ساتھ منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا ہے۔
مگر نئی سلطنت کی ملکیت بھی تو اس کی تھی ۔ ۔ پھر کیوں؟
اس کا انگ انگ چیخ رہا تھا ۔ کیوں؟ کیوں۔ ۔؟ آخر کیوں؟
صبح سکھی نے کندھے پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے گردن پر گہرے نشان نظر انداز کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے مسکرا پوچھا "دلہا میاں کیسے لگے؟"
تو لبوں کو جوڑ کر "بہت اچھے" کہتے ہوئے۔ ۔ ۔
پہلی محبت۔ ۔ پہلی چاہت ۔ ۔ پہلے اظہار اور پہلے پیار کے ساتھ ساتھ "پہلی عورت" ہونا بھی کتنا ضروری تھا اس کا اندازہ اسکی جھکی آنکھوں کے لال ڈوروں میں دیکھ کر لگانا مشکل تھا