کیا آپ نے کبھی رقص کیا ہے؟ یا، کیا کسی پسندیدہ موسیقی پر رقص کرنے کو دِل چاہا ہے؟ موسیقی کے علاوہ کونسے اسباب ہیں جو کسی کو رقص پر ابھار سکتے ہیں؟ محبوب چہرے کی روشنی ہے۔ ذاتی کیمیا سے تعلق رکھتے محبوب منظر پر پڑنے والی پہلی نظر ہے جو رقص پر ابھار سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ کیا ہے؟
جی… مخصوص رفتار سے حرکت بھی رقص پر ابھار سکتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی ٹرین، بحری جہاز، بلندیوں میں محوِ پرواز ہوائی جہاز اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن (ISS) ایسے ذرائع ہیں جن کی آغازی حرکت یا درمیانی حرکت (Cruising Velocity) ایسی رفتاریں ہیں جو انسان کو ایک موجِ وجد میں دھکیل سکتی ہیں۔
پاکستانی ٹرین پر آپ حیران ہوئے ہوں گے۔ اصل میں باقی ملکوں کی جدید ٹرینیں فوراً رفتار پکڑ کر سحر توڑ دیتی ہیں۔ ملکہء صبا کی چال مجھے پاکستانی ٹرینز میں محسوس ہوئی ہے.. یعنی جب وہ دھیرے دھیرے سرکنا شروع ہوتی ہیں۔
مَیں نے دو اسباب کے ذریعے وجد طاری کرنے کا سامان تخلیق کیا ہے۔ ویڈیو میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی 22 برس سے جاری وہ فطرتی حرکت ہے جو اکثر ویڈیومیکرز آپ کو بوریت سے بچانے کے لیے کئی گنا بڑھا دیتے ہیں مگر الٹا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ 450 کلومیٹر بلندی پر جب خلائی سٹیشن 28 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرتا ہے تو ایک خاص حرکت وجود میں آتی ہے۔ مَیں اِس حرکت کو کچھ دیر دیکھتے ہوئے رقص بھی کر سکتا ہوں اور رو بھی سکتا ہوں۔ اور اگر اِس حرکت میں پراسرار موسیقی شامل ہو جائے تو؟ غدر ہی غدر ہے.. مگر اِس کیفیت کو پانے کے لیے ذرا سا صبر چاہیے.. یعنی پوری ویڈیو دیکھنی پڑے گی۔
اگرچہ رفتار سست محسوس ہو رہی ہو گی مگر بین الاقوامی خلائی سٹیشن چند منٹ میں مغرب سے مشرق براعظم افریقا کو عبور کرتا ہے۔ یہ وہی افریقا ہے جہاں لاکھوں برس قبل نوعِ انسان نے شعور حاصل کر کے نامعلوم کی جانب سفر شروع کیا تھا۔
دیکھیے کہ.. نیلگوں آسماں سطح زمیں سے چپکا ہوا ہے.. جی ہاں ہم سب اِس وقت نیلے آسمان کے اندر موجود ہیں، ہاتھ ہلائیے۔ مزید دیکھیے کہ زمین کے کنارے کیسے خم کھا رہے ہیں۔ مزید دیکھیے کہ زمین پر دن ہے، باقی کائنات سیاہ لیلیٰ ہے۔ دورانِ تیرگی راستے میں صحرائے اعظم، مصر، بحیرہء احمر، دریائے نیل اور جزیرہ نما سِیناء بمع کوہِ طُور بھی نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد سرزمینِ سعودی عرب، فلسطین، سائپرس، لبنان، شام، اور ترکی نیچے گزرتے ہیں، بحرِ روم کے بعد بحیرہء اسود اور رُوس کی سرزمین، سب چند منٹ کے اندر اندر۔ اِس لیے میری سُست رفتار سے دھوکا نہ کھا جانا۔ تُم یہی سمجھو گے کہ مسافرشب زمانے کی دوڑ میں سُست رفتار ہے۔ آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ مَیں کِن آسمانوں میں محوِ پرواز ہوں۔
آئیے اِس کائناتی حرکت کو قرآن کریم میں بیان کردہ ملکہء صبا کی کائناتی چال سے منسلک کر دیں۔ خلائی سٹیشن کو ’’غزالِ شَب‘‘ سمجھ لیں یا ملکہء صبا سمجھ لیں، ایک ہی بات ہے…
آج نہ جانے راز یہ کیا ہے
ہجر کی رات اور اتنی روشن
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ، مَیں شرابی ہوں
کچھ بارشیں ہو چکی تھیں، کچھ ہو رہی تھیں، اور کچھ ہونے والی تھیں.. اُس روز حالیہ بارشیں پنج پیر کے جنگلوں کو کہرآلود، خوابناک اور مہک آور بنا چکی تھیں۔ یہ عالمِ ارواح کا ماحول تھا، گویا بخشش ہو چکی تھی..
وہ ایک زمانہ تھا جب نیلگوں غزالِ شَب، یُوں دھیرے دھیرے اِن جنگلوں میں بڑھتی چلی جا رہی تھی جیسے پیغمبرِ وقت سلیمان علیہ السلام کے جدید دربار میں، عین پیغمبری آنکھوں کے سامنے، یمن کی ملکہء صبا بِلقَیس بصحرا نہایت احتیاط و اطمینان سے، لباس ذرا سا اُٹھا کر، گویا جھیل میں چلنا شروع ہوئیں، اتنا مرمریں اور شفاف فرش تھا۔
چل اے دل! سُوئے شہرِ جانانہ چل
بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل
اور پھر اِس چال کو اہلِ فرش و عرش نے ملاحظہ کیا اور سب پر کائنات رنگ آ کر گزر گئے…. آسمانی صحائف میں اِس چال کا ذکر ہوا۔ یہ پوری کائنات میں جاری و ساری ذوق کی کہکشاؤں آکاش گنگاؤں کی ایک جھلک ہے..
یہ ملکہ کی جانب سے آغاز نہ تھا.. پیغمبرِ وقت کو ہُدہُد نے خبر دی تھی کہ ہے ایک ملکہ راکاپوشی۔ پیغام بھجوا دیا کہ ذرا آ جائیں ہمارے شہر میں۔
پوری داستان درج ہے کہ… ایک طاقت وَر جن نے کہا بھی تھا کہ اے حضرت ایک آدھ گھنٹے میں ملکہ کا تخت اِیدھر ہو گا..
مگر تخت کیوں چاہیے تھا؟… پتا نہیں۔ بس چاہیے تھا۔
“مجھے ذرا جلدی ہے… وہ تخت ابھی اور اسی وقت چاہیے۔” پوری کائنات کی طاقت مجتمع کر کے تخت کے میٹیریئل کو De-materialize کروایا، Energy میں بدل دیا اور دو ہزار کلومیٹر کا سفر 1/10 سیکنڈ میں کروا کے تخت دوبارہ Materialize کروا لیا گیا.. یہ E=mc’2 کی عمدہ مثال ہے.. اس تخت میں سے ملکہ کی مہک بدستور اٹھ رہی تھی۔ ملکہ کے آنے سے قبل ہوا سے بُوئے یار آنے لگی، یوں لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی۔
“اے خدا، ہم عام سے انسان کیا کریں؟… جذبہء عشق سب کو ایک جیسا دیا مگر ہم میں بہت لوگ طاقت میں نِیچ درجہ پر رہے۔ ہم کیا کریں؟”
خود جو چاہو تو سرِ عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
“ہم کیا کریں؟”…
“تُم وہی کرو جو زلیخا نے کیا..”
تو نے دیوانا بنایا تو میں دیوانا بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا
یوُسفِ مصر تمنا تیرے جلووں کے نثار
میری بیداریوں کو خوابِ زلیخا نہ بنا
زلیخا کوئی اتنی راسخ عورت تھی کہ پتا بھی ہے کہ وہ پیغمبر ہیں، پیغمبر سے عقیدت ہوتی ہے…… مگر نہیں جی…. دل پر قابو کہاں۔ عشق یہی ہے.. انتہائی وائلڈ.. نگاہِ کائنات رکھنے والا اندھا عشق۔ سوچو مت، کر گزرو۔
عشقِ زلیخا نے سمجھایا ہے مجھ کو
صنم حسِیں ہو تو نیت بدل جاتی ہے
تو، وہ ایک زمانہ تھا جب نیلگوں غزالِ شَب، یُوں دھیرے دھیرے پنج پیر کے جنگلوں میں بڑھتی چلی جا رہی تھی جیسے پیغمبرِ وقت سلیمان علیہ السلام کے جدید دربار میں، عین پیغمبری آنکھوں کے سامنے، یمن کی ملکہء صبا بِلقَیس بصحرا نہایت احتیاط و اطمینان سے، لباس ذرا سا اُٹھا کر، گویا جھیل میں چلنا شروع ہوئیں، اتنا مرمریں اور شفاف فرش تھا۔
اور پھر اِس چال کو اہلِ فرش و عرش نے ملاحظہ کیا اور سب پر کائنات رنگ آ کر گزر گئے…
نیلگوں غزالِ شَب.. ایسی ہی چال کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی تھی، دھندآلود جنگلوں میں.. اور اِسے کِس نے دیکھا… تھا کوئی مُسافرِشَب۔
غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب
غزل خوانیاں کر غزالانہ چل
بہت اجنبیت ہے اس شہر میں
چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل
بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل
بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھی عرصہ 22 برس سے اِسی کائناتی رفتار سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پوری ویڈیو ضرور دیکھیے گا، صبر سے۔ اِن اللہ مع الصابرین۔
https://web.facebook.com/isb.ahsan/videos/2912382148877003/
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...