مقبرے کے نیچے موجود تہہ خانے میں موجود اصلی قبر میں نورجہاں کی باقیات موجود نہیں!!!
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تعصب اور نفرت کا شکار نورجہاں کی ہڈیوں کو کتوں اور بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا گیا تھا!!!
لاہور کے شاھدرہ باغ میں موجود شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں کے مقبرے کی تزئین و آرائش کا کام آجکل زور شور سے جاری ہے۔
امید ہے کہ جلد یہ مزار سج سنور کر لاہور کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرے گا۔
ملکہ نور جہاں کو نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد اور مستقل نام اور شہرت حاصل ہےایک افسانوی کردار جیسی۔ وہ ملکہ کو ذوق و شوق میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ جس نے فیشن، سجاوٹ، مختلف طعام، خوشبویات، سجنے سنورنے اور دیگر فنون لطیفہ میں بے شمار اختراعات و ایجادات کیں۔ عطر گلاب بھی اسی سے منسوب ہے۔ ہر وقت نشے میں دھت شہنشاہ کے درپردہ یہی نورجہاں تھی کہ جس نے کار سلطنت کو سنبھالا ہوا تھا۔اس نور جہاں کے نام کے سکے ہمیں آج بھی عجائب گھروں کی زینت نظر آتے ہیں۔ لاہور میں آج بھی نور جہاں کا مقبرہ موجود ہے لیکن عام افراد کو صرف اس کے سنگ مر مر سے بنے تعویز تک ہی رسائ ہے۔ اصل قبر اس سنگ مر مر کے خوبصورت تعویز کے نیچے موجود تہہ خانے نما سرنگ میں موجود ہے۔ جس شہر کو نور جہاں جنت نظیر کہتی تھی اور جس نے اپنی زندگی کے آخری ایام لاہور میں گزارنے پسند کئے اسی جنت نظیر شہر میں اس کے ساتھ انتہائ ناروا سلوک کیا گیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں اس کے مقبرے کو کھود ڈالا گیا۔ اگر آپ کو اس سنگ مر مر کے بنے تعویز کے نیچے سرنگ میں جانے کا موقع ملے تو آپ دیکھیں گے کہ نیچے ےتاریک کمرے میں چھت سے دو آہنی حلقے لٹکے ہوئے ہیں۔ جن کے نیچے سپاٹ کچی مستطیل نما دو قبروں کے محض نشانات باقی ہیں جن کو زنجئروں کے احاطے سے واضح کیا گیا ہے۔ دوسری قبر کہا جاتا ہے کہ جور جہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم کی ہے جس کا حشر بھی نور جہاں کی قبر جیسا ہی کیا گیا۔ بد بخت راجہ رنجیت سنگھ کا مسلمانوں اور مغلوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے نور جہاں کی شہرت سے مرعوب ہو کر جلن و حسد میں آکر نورجہاں کی قبر کھدوا کر اس کے تابوت میں موجود ڈھانچے کو باہر نکلوا کر اس کا معائنہ کیا۔ وہ متجسس تھا کہ ایسی نابغہ روزگار ملکہ کا ڈھانچہ کیسا ہوگا؟ یہ نامعقول شخص جانے کیا توقع کر رہا تھا کہ اسے نورجہاں کی قبر سے کیا ملے گا!! لیکن محض بوسیدہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر وہ سخت بد دل ہوا اور طیش میں آکر ان ہڈیوں کو کتوں کے آگے ڈالنے کا حکم دیا۔ یہ بدبخت اپنی نفرت میں اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ اس نے ایک میت کی حرمت تک کا خیال نہ کیا اور اسے دوبارہ تابوت میں رکھ کر دفنانے کے بجائے کتوں کے آگے پھنکوا دیا۔ تابوت کے کپڑے کو شاید اس نے لاہور کے بادشاہی قلعے کے توشک خانے میں رکھوادیا ہو جہاں ایسی ہی بے شمار اشیا اس کی موت کے بعد دستیاب ہوئ تھیں۔
بعد میں حکیم اجمل خان کی کوششوں سے مزار کا کتبہ تو دستیاب ہوگیا تھا جسے سن 1912 میں حکیم صاحب نے مقبرہ دوبارہ تعمیر کروا کر نصب کروادیا تھا۔ لیکن ہڈیاں بھلا کئسے دستیاب ہوتیں؟ سو اب بس نور جہاں کی قبر کا ایک نشان ہی باقی ہےجو یاد رفتگاں پر ماتم کرتا نظر آتا ہے۔
عدل جہانگیری کے لئے مشہور ہندوستان کا مغل بادشاہ جہانگیر 1627ء میں کشمیر سے واپسی پر راجوڑی کے مقام پر وفات پا گیا۔ اس کی بیوی ملکہ نورجہاں نے شاہی حکیم کو حکم دیا کہ شہنشاہ کو میں لاہور میں دفن کروں گی چنانچہ حکیم نے شہنشاہ کے بدن میں نشتر لگا کر اسے کھولا اور مردہ بدن کے وہ حصے نکال لئے جو دو چار دن میں گل سڑ جاتے ہیں۔ ان حصوں کو وہیں دفن کر دیا گیا اور وہاں آج بھی جہانگیر کے بدن کے کچھ حصے دفن ہیں اور ان پر ایک یادگار بنی ہے۔ جہانگیر کی میت لاہور لائی گئی اور یہاں اسے دفن کر دیا گیا۔ نورجہاں کو اپنے بھائی آصف جاہ سے بہت پیار تھا۔ یہ آصف جاہ تاج محل والی ممتاز محل کا باپ تھا۔ جب آصف جاہ فوت ہوا تو نورجہاں نے اسے بھی جہانگیر کے مقبرے سے متصل دفن کیا اور جب وہ خود بہتر سال کی عمر میں فوت ہوئی تو وصیت کے مطابق اپنے بھائی کے برابر میں دفن کی گئی۔ نورجہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم بھی اپنی ماں کی قبر کے برابر میں دفن ہوئی۔ چنانچہ یہ چاروں
1- جہانگیر ہندوستان کا بادشاہ
2- اس کا برادر نسبتی آصف جاہ
3- اس کی بیوی نورجہاں
4- نورجہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم (نورجہاں کے پہلے شوہر سے تھی)
شروع میں وفات کے بعد ایک ہی وسیع و عریض جگہ پر باغات میں گھرے مختلف احاطوں میں مدفون تھے۔ جب برصغیر میں ریل گاڑی کی پٹڑی بچھائی گئی تو انگریز نے مغل تاریخی ورثے کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ان مقبروں کے درمیان ریل کی پٹری بچھا دی یوں نورجہاں اپنے خاوند اور بھائی سے کٹ گئی۔ ان کے مقابر کے درمیان میں سے ریل گاڑیاں دھواں اڑاتی چھک چھک کرتی گزرنے لگیں۔ سکھوں کے ہاتھوں بربادی کے بعد سے ان مقابر کی حالت بہت بری تھی۔ ملکہ نورجہاں کا مقبرہ تو کھنڈر نما عمارت رہ گئی تھی جس میں چمگادڑوں کا بسیرا تھا اور دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں تھا اور لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اب محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ سے نورجہاں کا مقبرہ پھر سے اپنے اصلی شاندار مغل طرز تعمیر و منقش روپ میں واپس آ رہا ہے۔ مقبرے کے گرد باغ کو بھی نکھارا گیا ہے اور ایک چار دیواری اس کا احاطہ کر رہی ہے۔ مقبرے کے نیچے ایک تہہ خانے میں ملکہ نورجہاں اور اس کی بیٹی کی قبریں ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ نورجہاں اور لاڈلی بیگم کے صندوق نما تابوت دفن نہیں کئے گئے تھے بلکہ تہہ خانے میں زنجیروں سے معلق کر دیے گئے تھے۔ تہہ خانے کے کونے میں آہنی کنڈے نصب کبھی ہم نے دیکھے تھے جن سے وہ تابوت باندھے گئے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سینکڑوں مغل عمارات ‘ مقابر اور محلات کو خوب تباہ کیا۔ قیمتی پتھر اور آرائش غائب ہو گئیں نورجہاں کے مقبرے کا بھی یہی حشر کیا۔ امکان یہی ہے کہ معلق تابوتوں میں سے لاشیں یا ان کے باقیات نکال کر یہیں تہہ خانے میں دفن کر کے زمین برابر کر دی گئی اور تابوت چونکہ بیش قیمت اور نقش و نگار سے مرصع تھے انہیں سکھ حضرات لے گئے۔ اب قبروں کی جگہ کی۔نشان دہی ایک زنجیر سے کی گئی ہے۔ لیجئے کچھ تصاویر نورجہاں اور اس کی بیٹی کے مقبرے کی اور اس مقبرے کی بابت ایک شہرہ آفاق نظم؛
نور جہاں کا مزار
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم
اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی
تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر
اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر
ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے
حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا
نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا
یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے
جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے
محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے
تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں
آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاعر تلوک چند محروم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحقیق و تحریر شاہد محمود
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!!!