شاہینہ تبسّم کی مُرتّب کردہ کتاب "ملکہ نسیم کی شعری کائنات ” ایک ایسی اہم شاعرہ کا اعتراف نامہ ہے جس کی شہرت شعری حلقوں میں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اکیسویں صدی کی دو دہائیوں سے زائد عرصے تک قائم و دائم ہے گویا ملکہ ایک طویل عرصے تک شعری دنیا کے سنگھاسن پر فائز ہیں – شعری ذوق رکھنے والوں کے دلوں پر حکومت کرنے والی شاعرہ اس کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتی – اس کی وجہ ملکہ کا دو سطح پر صالح کام ہے ایک تو یہ ادبی میدان میں رسائل و جرائد کے توسط سے اپنا نام اور مقام رکھتی ہیں اور دوسرے مشاعرے کی دنیا ہے – اس دنیا میں ملکہ نسیم کا نام مُشاعرے کی کامیابی کا ضامن ہے – عرصۂ دراز سے ان کی شاعری کی شہرت اپنی مثال آپ ہے – اور خدا نظرِ بد سے بچائے کہ یہ آج بھی فعّال ہیں – ایک ایسی بے مثال شاعرہ پر شاہینہ تبسّم نے ایک ضخیم کتاب ترتیب دے کر ایک اہم ادبی کام کیا ہے – یہ گویا ادبی اسناد کی ایک فائل ہے جو وقتِ ضرورت حال اور مستقبل کے محققین کے کام آئے گی –
” ملکہ نسیم کی شعری کائنات ” جب میرے ہاتھ لگی تو مَیں اس کائنات میں گُم ہو گیا مگر گمرہی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے مُجھے مخلص رہبر ( علی سردار جعفری ، مجروح سلطان پوری ، پروفیسر صادق، زبیر رضوی ، مخمور سعیدی ، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ، اختر سعید خاں ، ڈاکٹر خلیق انجم ، پروفیسر زماں آزردہ ، پروفیسر اختر الواسع ، عشرت قادری ، شمیم طارق ، پروفیسر شافع قدوائی ، محبوب راہی ، ڈاکٹر اسلم الہ آبادی ، انعام الحق ، ڈاکٹر ثروت خان ، کہکشاں تبسّم اور شاہد پٹھان) یہ سارے نام دنیائے ادب میں نہ صرف مشہور ہیں بلکہ اپنی شناخت بھی رکھتے ہیں – ناچیز نے ان کی تحریریں پڑھیں تو ذہن روشن ہُوا اور ملکہ نسیم کی شعری شخصیت سمجھ میں آئی – مجھ پر ان کی تحریروں کا رعب ایسا پڑا کہ مَیں یہ بھول بیٹھا کہ مُجھے بھی اس کتاب پر تاثرات لکھنے ہیں یہ فطری تھا سنبھالا لیا اور اپنے قلم سے مدد طلب کی –
ان مشاہیرِ ادب کی تحریروں سے اگر ایک ایک پیراگراف بھی اقتباس کی شکل میں نقل کروں تو مضمون کے طویل ہو جانے کا خدشہ ذہن کو کچوکے لگانے لگا – پھر سوچا اگر ایسا کر بھی لوں تو اس میں میرا اپنا کیا ہوگا – عجیب تذبذب کے عالم میں دو چار دن گذر گئے – مکرّر مطالعہ نے پھر اکسایا – مضامین کے درمیان جو اشعار کوٹ کیے گئے ہیں ان کا تاثر اور پھر کتاب کے آخر میں منتخبہ کلام کا معیار اس کے ساتھ قلم کا آگے بڑھنے سے انکار اُف اس کیفیت نے مُجھے الجھا کر رکھ دیا – کتاب کی تیسری قرآت نے میری حوصلہ افزائی کی –
ملکہ نسیم کی شاعری سے مَیں ہمیشہ متاثر رہا ہوں انہیں رسائل میں پڑھا بھی ہے، ٹی وی پر سنا بھی ہے،بھوپال کے ایک مشاعرے میں جہاں یہ مدعو تھیں مَیں بھی بحیثیت شاعر وہاں موجود تھا – اسٹیج پر مَیں نے انھیں مُشاعرہ لوٹتے ہوئے دیکھا – مُشاعرے کے بعد ان سے ملاقات بھی ہوئی اس ملاقات کو مَیں یادگار ملاقات کہوں تو نا مناسب نہیں یہ بھی بہت پہلے کی بات ہے – ایک طویل عرصے کے بعد ان دنوں ان سے ٹیلی فونک ملاقاتیں اور وٹس ایپ پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے – ملکہ نسیم کے کچھ مُنتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ یہ مُجھے بے حد پسند ہیں –
سائے سائے کبھی تپتا رہا احساس مرا
اور کبھی دھوپ میں ہوتی ہے گل افشانی بھی
یہ کون سی منزل ہے بھلا تشنہ لبی کی
آنکھوں میں کوئی ریت کا دریا بھی نہیں ہے
خواب یوں ٹوٹ کے بکھرے کہ الہی توبہ
کرچیاں چنتے ہوئے رات گذر جائے گی
سب زخم سلیقے سے ہوئے خشک بدن کے
جو نزدِ رگِ جاں تھا وہ نشتر ہے ابھی تک
اب کہاں وہ چاہتیں وہ راحتیں وہ خوشبوئیں
آکے ساحل پر رکی ہیں کشتیاں منجدھار کی
تشنگی جن کا مقدّر تھی بھلا کیا کرتے
کس طرح اپنے قریں لاتے وہ دریا کوئی
سائے تو مٹھیوں میں مری قید ہو گئے
سورج کی روشنی مرے کمرے میں بھر گئی
تراشنے ہیں کئی خواب اس کی آنکھوں کو
وہ اِس خیال کو تعبیر کر کے دیکھے گا
مری دعاؤں میں اتنا اثر تو اب بھی ہے
جو ہاتھ اُٹھاؤں خدائی کو شرمسار کروں
ملکہ نسیم کی مشاعروں میں کامیابی کے بارے میں کچھ مشاہیرِ ادب کی آراء ملاحظہ فرمائیں –
” مُشاعرے کسی زمانے میں شاعروں کے ذہن و ذوق کی تربیت میں معاون ہُوا کرتے تھے لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے، اب مُشاعرے کے سامعین، شاعر سے جو توقعات رکھنے لگے ہیں، انھیں پورا کرنا کسی سنجیدہ شاعر یا شاعرہ کے لیے خاصا مشکل ہے – ملکہ نسیم کی شاعرانہ سرگرمی کا آغاز مُشاعرے سے ہُوا اور وہ آج بھی مشاعروں کی پسندیدہ شاعرہ ہیں، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پسندیدگی کے لئے انھوں نے ایسا کوئی رویّہ اختیار نہیں کیا جو ان کے شاعرانہ مزاج یا ان کے نسوانی وقار کے منافی ہو ”
( ص 17 ، مخمور سعیدی ، کتاب ہذا )
” ملکہ نسیم کو ادبی حلقوں میں روشناس ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن ایوانِ شاعری میں ان کی آمد کا احساس کچھ اس طرح ہُوا جیسے وہ پہلے سے موجود ہوں – ان کا تعارف مشاعروں کے ذریعہ ہُوا لیکن ان کا اعتراف مشاعروں میں ان کی مقبولیت کی بنا پر ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے سبب سے کیا گیا ”
( ص 39 ، اختر سعید خان، کتاب ہذا )
” یوٹیوب کے بہت سے مشاعروں کو سننے اور دیکھنے کے بعد یہ احساس ہُوا کہ اپنے کلام کی بنیاد پر جن شاعرات نے اپنے آپ کو منوایا ہے، اس میں ملکہ نسیم کا نام نمایاں ہے – واضح رہے کلام کا مطلب صرف کلام ہے ، اس میں ترنّم شامل نہیں ہے – دبئی کے ایک مُشاعرہ میں جب وہ غزل پڑھتی ہیں تو مَیں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ ان میں کس قدر اعتماد تھا اور لوگوں نے جس طرح شعر کی پذیرائی کی ہے وہ قابلِ داد ہے ”
( ص 59 ، اختر الواسع، کتاب ہذا )
” ملکہ نسیم مشاعروں میں بھی شرکت کرتی ہیں لیکن مُشاعرہ باز شاعرات کی طرح موقع بہ موقع اپنے کمالِ فن پر تقریریں نہیں کرتیں – اسی لیے ان کا محدود اندازِ گفتگو کبھی کبھی ان کے علم و فن کا حجاب بن جاتا ہے – لیکن ان کی شاعری سے ان کے مطالعے کی پرتیں بھی کھلتی نظر آتی ہیں – مثلاً ان کا یہ شعر –
زمیں کا قرض اتارو تو اپنے کاندھوں سے
پھر اس کے بعد قدم مہر و ماہ پر رکھنا
( ص 117 ، ڈاکٹر خالد علوی، کتاب ہذا)
ملکہ نسیم کی غزلیہ شاعری کچھ مشاہیرانِ ادب کی نظر میں ملاحظہ فرمائیں
” پروفیسر عنوان چشتی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ –
غزل میں موضوع کا نہیں موضوع کے تاثر کا اظہار ہوتا ہے اور یہ کہ غزل میں بیان کا تجربہ نہیں ہوتا بلکہ تجربہ کا بیان ( اظہار) ہوتا ہے – ( 2)
ملکہ نسیم کی شاعری اسی تجزیہ کی عکاس ہے – زندگی کے نشیب و فراز نے ہماری حسّاس شاعرہ کو ایک نیا زاویئہ نگاہ دیا ہے :
خواب ٹھہرے تھے تو آنکھیں بھیگنے سے بچ گئیں
ورنہ چہرے پر تو غم کی بارشوں کا عکس ہے
( ص 143، ڈاکٹر شیمہ رضوی، کتاب ہذا)
” نسیم کی غزلوں میں گھر اور سفر کے تلازمے لائقِ توجہ ہیں – گھر کہ پناہ گاہ ہے، جائے سکون ہے ، رشتوں کا ادارہ ہے جس سے ہر انسان جذباتی طور پر وابستہ ہوتا ہے – عورت کے لیے گھر خواب بھی ہے اور اس کی جنّت بھی – سفر زندگی کے تحرک کا آئینہ ہے ، تجربوں کا سلسلہ ہے ، دوست اور دشمن کی پہچان اور پرکھ کا ذریعہ بھی ہے اور اپنی ذات کی آزمائش بھی – گھر سے متعلق شاعرہ کے احساسات کچھ اس طرح کے ہیں –
نظر میں یادوں کے منظر سمیٹ کر رکھنا
مَیں جیسا چھوڑ کے آئی ہوں ویسا گھر رکھنا
( ص 217 ، کہکشاں تبسّم، کتاب ہذا)
” اس میں دورائے نہیں کہ ملکہ نسیم کی غزلیہ شاعری کے بیشتر موضوعات و مسائل وہی ہیں جو ان کی نظموں میں بیان ہوئے ہیں، لیکن چونکہ غزل اپنی صنفی و نوعی لحاظ سے نظم کے اُسلوب و آہنگ سے قدرے مختلف ہے – نظم کی تفصیل و تسلسل اور بیانیہ آہنگ کی بہ نسبت غزل اختصار بیانی اور استعاراتی اظہار کا فن ہے – چنانچہ اس کے طریق کار میں رازداری و پردہ داری کی پاسداری لازمی ہے – جہاں تک ملکہ نسیم کی غزلیہ شاعری کا تعلق ہے، کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات اور خاص کر نسوانی احساسات کے اظہار میں غزل کے فنّی وسائل کا معقول استعمال کیا ہے – میر تقی میر نے کہا تھا ” مرے سلیقے سے میری نبھی مَحبّت میں” ملکہ نسیم کے جذبہ و احساس اور اس کے طرزِ اظہار میں بھی یک گو نہ سلیقہ مندی ہے – چنانچہ وہ کہتی ہیں –
دیکھنی تھی جن کو تہذیب الم
میرے شعروں کا سلیقہ دیکھتے
(ص 223 ، شاہد پٹھان، کتاب ہذا )
” ہندوستان کی شاعرات میں جنھیں مَیں جانتا ہوں، ان میں اس وقت میرا موضوعِ قلم ملکہ نسیم ہیں – غالب نے شاعرانہ کلام کے لیے نکتہ انگریزی کو اہم قرار دیا ہے – ظفیر دوسیم نکتہ انگیز تر”… اس بات میں ملکہ نسیم اپنی غزلوں میں جگہ جگہ نکتہ انگیزی و تازہ کاری سے ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے روایت کا احترام کرنا جانتی ہیں ”
(ص 13 ، مجروح سلطان پوری، کتاب ہذا)
” ہمارے ہاں بعض شاعرات واقعی نہایت عمدہ شعر کہتی ہیں جن کا مجموعی طور پر اُردو کے اچھّے شاعروں میں شمار ہوتا ہے ورنہ شاعرات کے ہاں ہلکی پھلکی رومانی شاعری ملتی ہے ، ہجر و وصال کے قصّے ، چاہنے اور چاہے جانے کا احوال ، محبوب کی بے رخی ، گھریلو معاملات ، محبوب کے تصوّر میں غرق کہ چولھے پر پکوان کی خبر نہیں کہ وہ جل جائے گا ، دودھ ہو تو اُبل جائے گا ، غرض یہ اور اسی نوع کی باتیں ہلکے پھلکے پیرایہ میں – اسی لیے ایسی شاعرات وقتی طور پر مقبول بھی ہوتی ہیں – ملکہ نسیم ان شاعرات میں ہیں جو کئی زاویوں سے امتیاز اور اعتبار رکھتی ہیں، ان کے کلام میں جذبات و محسوسات کا وفور ہی نہیں ، فکر کا عنصر بھی شامل ہے ”
(ص 31 ،سلیمان اطہر جاوید، کتاب ہذا)
” ملکہ نسیم کی غزلوں میں خیال کے بہاؤ کے باوجود ایک طرح کا ٹھہراؤ ملتا ہے – وہ کہتی ہیں چیختی ہیں ، ان کے آنسو نکلتے ہیں لیکن رونے کی آواز نہیں آتی ، وہ بے چین لگتی ہیں لیکن اس بے چینی میں سطح آب کا سکوت ہے – ملکہ نسیم کا اضطراب محسوس تو ہوتا ہے لیکن اس میں ہیجانی کیفیت نظر نہیں آتی – ملکہ نسیم کے یہاں اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ تلاطم پیدا نہیں ہوتا – غالباً ان کی ذاتی زندگی میں نظر آنے والا سکون اور اطمینان ان کی شاعری کو بھی چیخ و پکار سے دور رکھتا ہے – وہ بیان کرتی ہیں لیکن ان کے بیان میں احرار نہیں ، وہ داستاں سناتی ہیں لیکن ان کے یہاں تاکید نہیں ملتی – ان کے یہاں ایک طرح لااُبالی پن پایا جاتا ہے، کوئی تقاضہ نہیں – وہ نشان پر انگلی رکھ دیتی ہیں، اسے دباتی نہیں ”
(ص 55 ، پروفیسر زماں آزردہ، کتاب ہذا)
ملکہ نسیم کی نظم گوئی کچھ مشاہیرِ ادب کی نظر میں ملاحظہ فرمائیں –
” نظموں میں بھی ملکہ نسیم نے غمِ دوراں کی باتیں نہایت پُر تاثیر پیرایہ میں کی ہیں – خاص طور پر مختصر نظم میں کی ہیں – مختصر نظم نگاری غزل کی طرح بڑا نازک فن ہے – مختصر نظم کہنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے – لوگ باگ فیشن کے طور پر بھی اس صنف کو اختیار کرتے جا رہے ہیں – ظاہر ہے مختصر نظم تو ہو جاتی ہے، لطف اور معنویت سے محروم….. مختصر نظم زیادہ سے زیادہ آٹھ دس مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کا فن ہے – ساری بات آ جائے ، معنوی خلا محسوس نہ ہو – ملکہ نسیم نے مختصر نظمیں قابلِ لحاظ کہی ہیں – اُردو کی مختصر نظموں کے کڑے سے کڑے انتخاب میں ان کی نظمیں جگہ پائیں گی – فنّی، ادبی اور معنوی سارے پہلوؤں سے ان کی مختصر نظموں کی اہمیت ہے ”
(ص 34-35 ، سلیمان اطہر جاوید، کتاب ہذا)
” ملکہ نسیم کے گہرے سیاسی و سماجی شعور اور تکثیری معاشرہ سے ان کی وابستگی کا والہانہ اظہار ان کی نظموں
” سریوندی ” اور ” آج کا موسم ” میں بخوبی ہوتا ہے – انھوں نے فوری اور نہائی اعتبار ( Immediate and ultimate concerns of life) سے اپنی تخلیقی کائنات کو آب و تاب بخشی ہے ”
(ص 79 ،پروفیسر شافع قدوائی، کتاب ہذا)
” جو شاعرات غزلیں اور نظمیں تقریباً یکساں تناسب میں کہتی ہیں، عموماً ان کی نظموں میں غزلوں کے اور غزلوں میں نظموں کے شیڈس بہ آسانی نظر آ جاتے ہیں – ملکہ نسیم اس معاملے میں مختلف یوں ہیں کہ ان کی نظمیں ان کی غزلوں سے یکسر جداگانہ ہیں – ان کی نظموں اور غزلوں کے مجموعے بھی علاحدہ علاحدہ شائع ہوئے ہیں – غزلوں میں جہاں نرمی ، گھلاوٹ اور ایک رمزیت سی ہے، وہاں نظموں میں صراحت اور راست ترسیل کی مقدار زیادہ ہے ”
( ص 108 ، عبدالاحد ساز، کتاب ہذا)
” ملکہ نسیم ایک با شعور اور حسّاس فنکار ہیں – اسی لیے ان کی نظموں میں جہاں سیاسی و سماجی موضوعات پائے جاتے ہیں، وہیں ان کا نسائی لہجہ اور بحیثیت ایک خاتون ، نسائی موضوعات کی موجودگی بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے – اس کے علاوہ ان کی نسائی شاعری میں ٹوٹتے ہوئے انسانی رشتوں کا ادراک پایا جاتا ہے ”
(ص 130 ، ڈاکٹر خالد اشرف، کتاب ہذا)
” ملکہ نسیم کی نظموں میں جگہ جگہ کنواری لڑکیوں کے مسلے کچلے احساسات اور جذبات کی عکاسی ملتی ہے – ان کی بہت سی نظمیں نسائی دکھ درد سے مملو ہیں – مردانہ سماج آج بھی عورت کو کولہے کے بیل کی طرح کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتا ہے جو دن بھر کی تھکن کے بعد رات مرد کی تیمارداری میں گذارتی ہے اور صبح اُٹھ کر پھر کولہے کے بیل کی طرح گھر آنگن میں چکّر کاٹتی رہتی ہے – یہ ایک سماجی جرم ہے، مرد سماج کے بنائے ہوئے خود ساختہ قانون کی چغلی کھاتا ہے – مردانہ سماج عورت کو آج بھی جانور سمجھتا ہے – اس طرح کے عمل کے خلاف ملکہ نسیم نے نظم ” تجزیہ ” میں آواز بلند کی ہے ”
(ص 180 ، ڈاکٹر اسلم الہ آبادی، کتاب ہذا)
” موجودہ دور سائنسی عقل پرستی کا دور ہے اور مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کا فکری ماحول بھی اس کا ایک حصّہ بن چکا ہے اور مزید بنتا جا رہا ہے – ملکہ نسیم کا فکری ماحول سائنسی عقل پرستی سے متاثر اسی حد تک ہے کہ وہ اپنے اشعار میں بنیادی سائنسی اصولوں سے اکتساب کرتی رہتی ہیں اور یہ اکتساب غزل اور نظم کے اشعار میں شاعرانہ اور ادبی التزام کے ساتھ موجود ہے ”
(ص 189 ، انعام الحق، کتاب ہذا)
” اُردو شاعری کے چمن میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا آیا ہے ، اک نئی نسیمِ صبح بہار چلی ہے شاخِ گُل پر ایک اور بُلبُل محوِ ترنّم ہے – اس کی آواز اب تک سارے نغموں سے ہم آہنگ ہے، لیکن الگ پہچانی جا رہی ہے –
ملکہ نسیم کی شاعری میں نسوانی لطافت ہے اور انسانی مسائل کا وقار – اس کے احساس میں شدّت ہے اور بیان میں سادگی ہے – تشبیہات تروتازہ ہیں جن میں کلاسیکی رکھ رکھاؤ کے ساتھ روز مرّہ کی گھریلو زندگی کی آنچ ہے – پوری شاعری پر کچھ خوبصورت یادوں کی دھنک سایہ فگن ہے اور شام کی پرچھائیاں ایک رومانی کیفیت پیدا کر رہی ہیں – ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ نسیم کی زندگی کا ہر لمحہ کچھ سوچ رہا ہے – اس میں ہمارے عہد کا دکھ درد بھی ہے اور درما کی تلاش بھی – اسی وجہ سے ایک سنجیدہ فکری لہر بھی اس کے آہنگ میں ملی ہوئی ہے – یہ شاعری ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں ایک اچھّے اور خوبصورت مستقبل کی بشارت پوشیدہ ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ شعری سفر کے دوران زندگی کا تجرِبہ اور علم کا مطالعہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے – کلامِ میں جو سادگی، سلاست اور روانی ہے وہی کیفیت اس کی پیشکش میں ہے – ملکہ نسیم کے لفظوں کی موسیقی تحت الفظ میں ادا ہوئی ہے – انھیں گانے کی ضرورت نہیں ہے – اشعار کا جوہر ان کی سادہ اور دلکش آواز کے اتار چڑھاؤ سے ظاہر ہوتا ہے – محفلِ سُخن میں آنا مبارک ہو”
( فلیپ کی رائے علی سردار جعفری)
” ملکہ نسیم ہندوستانی اُردو شاعرات میں ایک درخشندہ نام ہے – ان کی شہرت و مقبولیت ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کے اُردو حلقوں میں بھی کم نہیں – خوش بختی سے انھیں دو لحاظ سے شہرت و مقبولیت حاصل ہے – ایک تو یہ کہ ان کی تخلیقات مختلف رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں جن کے قارئین کی تعداد بہت زیادہ نہیں، تاہم اطمینان بخش کہی جا سکتی ہے – دوسرے یہ کہ وہ بڑے بڑے مشاعروں میں شرکت کرتی رہتی ہیں جہاں ان کے سامعین کی تعداد بے اندازہ ہو جاتی ہے – اس طور سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خواص اور عوام دونوں طبقوں میں اپنی مخصوص شناخت رکھتی ہیں – ملکہ نسیم کے ساتھ ایک بہت اچھّی بات یہ ہے کہ وہ مشاعروں میں کلام خوانی کے دوران تخلیقات کے معیار اور اپنے ناموس اور وقار کا بطور خاص خیال رکھتی ہیں محض سامعین کو خوش کرنے کے لیے مشاعروں کے بد مزاق مطالبات کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں جس کے نتیجے میں ان کی شاعری اس لازمی ابتذال سے محفوظ رہتی ہے جو عموماً مشاعرہ باز خواتین کا مقدّر بن جاتا ہے – ملکہ نسیم نظمیں بھی کہتی ہیں – غزل ہو یا نظم دونوں اصناف میں ان کی بنیادی تخلیقی قوّت ایک ہی سہی لیکن اس قوّت کا تخلیقی اظہار صنفِ غزل میں زیادہ چابکدستی اور فنکاری سے ہوتا ہے جو بلاشبہ اس صنفِ سُخن سے ان کے خصوصی اُنس کا مظہر ہے ”
( فلیپ کی رائے، پروفیسر صادق )
یہ اقتباسات اسی کتاب کے مضامین سے اخذ کیے گئے ہیں – مضامین میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن جن اقتباسات کی سطروں کو مَیں نے نقل کیا ہے میری نظر میں ملکہ نسیم کی غزل / نظم اور مشاعروں میں کامیابی کے سلسلے میں مجموعی طور پر اس عہد کی اہم سنجیدہ اور قد آور شاعرہ کا پیکر قارئین کے سامنے آتا ہے –
304 صفحات کی اس کتاب میں ملکہ نسیم شناسی کا خصوصی طور پر اہتمام مشمولات کے حصول میں دشواریاں بھی ضرور پیش آئی ہوں گی جس کا اندازہ بہت پہلے لکھے ہوئے کچھ مضامین سے ہوتا ہے – ڈاکٹر شاہینہ تبسّم داد اور دعا کی مستحق قرار دی جا سکتی ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کو مُرتّب کر کے اُردو شاعری کے شائقین کو احساس بھی دلایا ہے اور چونکایا بھی ہے – آنے والا کل ملکہ نسیم کے ساتھ ڈاکٹر شاہینہ تبسّم کو بھی یاد رکھے گا – ڈاکٹر شاہینہ تبسّم نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں –
” اُردو میں آئے دن ایسے کئی شعری مجموعے شائع ہوتے رہتے ہیں جو چھپنے اور لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کے باوجود پہچان نہیں بنا پاتے اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد شاعر کا نام تک کسی کے ذہن میں محفوظ نہیں رہتا – ملکہ نسیم کا معاملہ ان سب سے بالکل جدا ہے وہ نہ صرف یہ کہ قارئین و سامعین کو اپنے اشعار و منظومات سے متاثر کرتی ہیں بلکہ ان کے ذہنوں پر اپنی تخلیقات کے گہرے نقوش بھی چھوڑتی ہیں ، وہ بین الاقوامی مشاعروں میں بھی شرکت کرتی ہیں اور اپنے سنجیدہ و معیاری اور فکر انگیز اشعار کی بنیاد پر بے حد پسند کی جاتی ہیں، اس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مشاعروں کے بد مذاق مطالبات سے ملکہ نسیم نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف اپنے اعلیٰ معیاری اشعار کی اساس پر ہی شہرت و مقبولیت حاصل کی ہے – ان کے کلام کی نشر و اشاعت میں الیکٹرانک میڈیا کا بھی بڑا حصّہ رہا ہے جس کے ذریعے ان کی تخلیقات دور دور تک پہنچتی رہتی ہیں اور ان کے سامعین کی تعداد میں اضافہ کرتی ہیں ”
( ص 7-8 ، ڈاکٹر شاہینہ تبسّم ، کتاب ہذا)
اس دیباچہ کا یہ اقتباس ملکہ نسیم کا اختصار میں بہترین تعارف ہے آج کے نئے قاری اور آنے والے زمانے کے قارئین اس تعارف سے ملکہ نسیم کے سُخن کی طرف ضرور متوجہ ہوں گے اور جب سُخن کو پا لیں گے تو مطمئن اور خوش بھی ہوں گے ایسا مَیں سمجھتا ہوں اور مانتا ہوں –
اس کتاب میں ملکہ نسیم کے شخصی تعارف کی کمی کو خود ملکہ نسیم کی تحریر دور کرتی ہے – یہ تحریر بھی تخلیقی وصف رکھتی ہے بلکہ غزلیہ فن کی طرح نیم اشاریہ نیم کنائیہ انداز لی ہوئی ہے – ٹھہر کر سوچ کر پڑھنے کا مطالعہ کرتی ہے اور جب قاری ایسا کرتا ہے تو شاعرہ کی زندگی کے تینوں موسموں کے راز اس پر کھلتے ہیں – یہ تحریر ملکہ نسیم کو معیاری نثر نگار بھی ثابت کرتی ہے – مَیں چاہوں گا کہ اس کتاب کا ہر قاری کتاب پڑھنے سے پہلے ذرا غور سے ” دام ہر موج میں ہے”…. پڑھ لے کیوں کہ اس میں ملکہ نسیم کے اندرون کی ایک ان کہی ان سنی ایک آواز ہے –
مری خاموشیوں پر تبصرہ ہے
مرے اندر بھی کوئی بولتا ہے
( ملکہ نسیم )