ملالہ یوسف زئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملالہ یوسف زئی کی حمایت اور مخالفت دونوں میں بہت سے کالم، تجزیے اور ٹی وی پروگرام آتے رہے ہیں۔ان میں شدت اور جذباتیت زیادہ رہی ۔ ملالہ کے بارے میں توازن سے کم ہی لکھا گیا۔ میرے خیال میں ملالہ یوسف زئی پر ایک فقرے میں کوئی سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینا مناسب نہیں۔ ملالہ کی زندگی کے دو تین حصے ہیں، ان پر الگ الگ رائے دینی چاہیے کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔
ملالہ یوسف زئی سے ہمارا پہلا تعارف سوات کی ایک ساتویں جماعت کی طالبہ” گل مکئی“ کے ذریعے ہوا، جس کی ڈائری بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں چھپنا شروع ہوئی۔ ان دنوں سوات میں ملا فضل اللہ نے بچیوں کے سکول جانے پرپابندی عائد کر دی۔ گل مکئی کی ڈائری میں ہمیں ایک معصوم بچی نظر آتی ہے،جسے پڑھنے کا شوق ہے اور جو سکول جانے کی بندش سے پریشان ہے۔ انداز تحریردلچسپ ،ر واں اور معصومانہ تھا۔ سوات میں جب صورتحال پرامن ہوگئی تو گل مکئی کی ڈائری لکھنے والی گیارہ سالہ بچی کا حقیقی نام سامنے آیا۔ بتایا گیا کہ سوات میں ایک نجی سکول چلانے والے ضیاءالدین یوسف زئی کی بچی ملالہ یوسف زئی نے وہ ڈائری لکھی تھی۔بی بی سی کے ایک رپورٹردرمیانی واسطہ بنے تھے۔” آئی ایم ملالہ “میں ملالہ یوسف زئی نے انہی صاحب کو اپنا گرو یا مینٹورMentorقرار دیا۔ اردو لغت کے مطابق اس کا ترجمہ اتالیق یا معلم بھی کیا جا سکتا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گل مکئی کی ڈائری کے پیچھے بھی ملالہ کے مینٹور کی تخلیقی قوت کارفرما ہے۔ تاہم اس کا ایک تو ثبوت کوئی نہیں اور دوسرا اس سٹائل کی ڈائری ملالہ جیسی ذہین بچی کا لکھنا بعید ازقیاس نہیں، اس کی نوک پلک البتہ سنواری گئی ہوگی۔
ملالہ کی زندگی کا دوسرا فیزشروع ہوگیاتھا۔ سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے معصوم چہرے اور چمکتی ذہین آنکھوں والی ملالہ ہر صاحب دل کو اپنی بچیوں جیسی لگی۔بہت سی زبانوں سے ماشا ءاللہ کے الفاظ ہی نکلے ہوں گے۔ سوات کے ایک مڈل کلاس گھرانے کی گمنام بچی یکا یک قومی ہیرو کا درجہ اختیار کر گئی ۔ طالبان مخالف حلقوں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ا سے قومی سطح کے بعض ایوارڈز اور کیش انعامات دئیے گئے ۔وقت گزرتا گیا۔ سوات پر فورسز کی گرفت مضبوط رہی ۔ملالہ اس دوران دوبارہ سے پڑھائی میں گم ہوگئی۔ دھیرے دھیرے وہ لوپروفائل میں جانے لگی۔2012ءمیں ملا فضل اللہ گروپ دوبارہ سے سوات میں منظم ہونے لگا۔ پھر اکتوبر 2012کی ایک دوپہرسکول سے واپس آتے ہوئے اسی گروپ نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کیا، ملالہ سر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئی۔اس خبر نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا۔ بلا مبالغہ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اس کی زندگی کے لئے دعا مانگی۔ ملٹری ہسپتال پشاور میں اس کا ہنگامی آپریشن کیا گیا، پھر اسے برمنگم ،انگلینڈ لے جا یا گیا، جہاں چند ہفتے زیر علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہوگئی۔ ملالہ کو پاکستانی طالبان نے جس طرح نشانہ بنایااور جس دیدہ دلیری سے اس کی ذمہ داری قبول کی، وہ افسوسناک اور قابل مذمت تھا۔ ان کا یہ کام اور بیانات صریحاً ظلم اور سفاکی کے زمرے میں آتے تھے، اس کی غیر مشروط مذمت اور مخالفت ہونی چاہیے تھی۔ ایسا نہیں ہوا،بلکہ ہمارے ہاں رائے عامہ منقسم ہوگئی۔مذہبی جماعتوں نے اس پر شک کا اظہا رکیا۔ سوشل میڈیا پر طوفانی مہم شروع ہوئی، اس حملے کو فیک کہا گیا، دعویٰ کیاگیا کہ یہ حملہ دانستہ ہوا۔ حالانکہ جب طالبان ترجمان خود مان رہا تھا تو پھر شک وشبہے کی بات ہی نہیں رہتی ۔ منفی مہم کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو ہماری لبرل سیکولر لابی نے غیرمعمولی مبالغے کے ساتھ ملالہ کی امیج سازی کی ، این جی اوز سیکٹر اس میں پیش پیش تھا۔ اس کے ردعمل میں روایتی رائیٹ ونگ نے اس واقعے کے وجود ہی پر سوال اٹھائے۔ ان دنوں شمالی وزیرستان پر حملے کی افواہ گرم تھی، ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے یہ تاثر ملا کہ ملالہ پر حملے کو جواز بنا کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کر دیا جائے گا۔ اس لئے بھی بعض حلقے طالبان کی مذمت اور ملالہ کی حمایت کرنے میں متامل رہے۔ بیرون ملک ملالہ کی پزیرائی البتہ غیرمعمولی رہی۔ دنیا بھر سے اس کی سپورٹ کے لئے آوازیں بلند ہوئیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے اعلیٰ حکومتی حلقے بڑے جوش وخروش سے آگے بڑھے ۔ اگلے چند ماہ ماہ کے دوران ملالہ کو وہ سب کچھ ملا ،جس کا اس نے شائد خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا۔اس کی (نوزائیدہ)این جی او کے لئے ملین ڈالرز کے عطیات،بے شمار تقریبات پزیرائی، جنرل اسمبلی میں خطاب، یورپی یونین کا سخاروف ایوارڈ…. وائٹ ہاﺅس میں صدر اوباما اور بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ کااسے مدعو کر کے خاص پروٹو کول دینا اس پر مستزاد تھا۔ بعد میں اگلے سال اسے نوبیل انعام بھی مل گیا۔
یہ سب کچھ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ معنی خیز اور عجیب بھی رہا۔ یہ درست کہ ملالہ کے ساتھ ظلم ہوا، طالبان نے سفاکی برتی ،جوقابل مذمت تھی۔ ملالہ کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تھی، بجا طو ر پر کی گئی ،مگر یہ سب ایسے انداز میں کیا گیا جو فطری اور منطقی نہیں لگتا۔ ملالہ کا کہنا ہے کہ اس نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کا عزم اپنی جگہ ،مگر سخاروف ایوارڈ اور نوبیل انعام جیسے اعزازات صرف اچھی نیت یا مظلومیت پر نہیں بلکہ عمر بھر کی جدوجہد اور سرگرم رہنے پر ملا کرتے ہیں۔ ملالہ کا تمام تر کریڈٹ اس کی گل مکئی کی ڈائری ہے۔ یہ درست ہے کہ اس نے سوات کے پر خطر ماحول میں رہ کر طالبان کے خلاف آواز بلند کی اور بچیوں کی تعلیم کی وکالت کی۔ یہ جرات مندی قابل ستائش تھی۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ ملالہ وہاں کوئی تعلیمی تحریک برپا نہیں کر رہی تھی۔ وہ اپنی معمول کی تعلیم میں مگن تھی۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اسے سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے پر نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے سکول اور سوات کے دیگر سکولوں کی ہزاروں بچیوں میں سے کسی اور کو بھی نشانہ بنایا جاتا۔ ملالہ سے پہلے اور بعد میں سکول جانے والی کسی بچی پر حملہ نہیں کیا گیا۔ ملالہ پر حملہ ٹارگٹ کلنگ کی کوشش تھی، وجہ صرف یہ تھی کہ طالبان اسے نقصان پہنچا کر ایک تو فورسز اور اینٹی طالبان قوتوں کے بنائے گئے ایک آئیکون، سمبل یا علامت کونقصان پہنچانا چاہتے تھے ، دوسرا انہیں معلوم تھا کہ ملالہ پر حملہ اگلے روز کے اخبارات کی لیڈ ہوگی۔ انہیں اس کی ضرورت تھی تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ فورسز سوات میں امن قائم رکھنے میں ناکام رہیں اور طالبان دوبارہ قوت پکڑ چکے ہیں۔
دنیا بھر میں ملالہ کا امیج البتہ ایسے بن گیا یا بنایا گیا کہ اس بچی کو تعلیم حاصل کرنے پر طالبان نے گولی ماری ہے۔ فطری طور پر اسے وسیع ہمدردی حاصل ہوئی۔امریکی اور برطانوی حکومت کو بھی ایسا سافٹ کردار چاہیے تھا، جس کی سرپرستی کر کے وہ یہ ثابت کریں کہ ان کا کام صرف ڈورن حملے کر کے بے گناہ بندے مارنا نہیں بلکہ وہ ملالہ جیسے مظلوم کرداروں کی بھی پزیرائی کر سکتے ہیں۔امریکی ،یورپی حکومتوں اور وہاںکے اداروں کے ضرورت سے زیادہ جوش وخروش سے ہمارے ہاں کئی حلقے ایک بار پھر ہوشیار ہوگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی خاص پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے اور ملالہ کی امیج میکنگ کے پیچھے ایک خاص امریکی ایجنڈا کارفرما ہے ،جس پر مستقبل میں عمل کیا جاسکتا ہے ۔ملالہ کے حوالے سے غیر متوازن یا شدت پسند آرا آنے کی وجہ یہی تقسیم ہے۔ طالبان مخالف حلقے ملالہ کو ”دیومالائی کردار“بنانے پر مصر تو امریکہ مخالف ملالہ کو اس کا جائز کریڈٹ دینے پر بھی تیار نہیں۔ملالہ یوسف زئی کی کتاب بھی تقسیم کا نشانہ بن گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملالہ یوسف زئی کی کتاب شائع ہونے پر دو کالم لکھے تھے، اٹھائیس اکتوبر دو ہزار تیرہ اور اکتیس اکتوبر دو ہزار تیرہ ۔ اوپر دی گئی تحریر اٹھائیس اکتوبر کو شائع ہوئی تھی، اس میں معمولی تبدیلی کے ساتھ بعض دوستوں کی فرمائش پر اسے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ پانچ سال گزر گئے، ملالہ کے حوالے سے میری سوچ متعصبانہ نہیں ہے۔ اس کالم میں کوشش کی کہ اس ایشو کو غیر جذباتی انداز میں دیکھا جائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔