ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا میں نہیں ہوا۔ اس ملک کی زمین پر ہوا ہے۔ حملہ کرنے والے اچانک غیب سے نمودار نہیں ہوئے، ان کی موجودگی اور ان کے خیالات سے ہر شخص آگاہ ہے۔ یہ واقعہ افسوسناک تو ہے ہی، اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے عبرت ناک بھی ہے۔ مذمت کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف بہہ نکلا ہے لیکن اس واقعہ کے اسباب کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کررہا۔ اکثر مذمتی بیانات‘ سیاسی اور نمائشی ہیں۔
یہ واقعہ تین حقیقتوں کی طرف نشاندہی کررہا ہے۔ تین برہنہ اور تلخ حقیقتیں!! افسوس! کچھ حضرات کو ان حقیقتوں کا بخوبی ادراک ہے لیکن وہ …. بوجوہ منقار زیر پر ہیں۔
اول۔ اس ملک میں نہ صرف یہ کہ دو مختلف نظام ہائے تعلیم چل رہے ہیں بلکہ ان کے نتیجہ کے طور پر دو مختلف ثقافتیں، دو مختلف طرز ہائے زندگی اور مذہب کے حوالے سے دو یکسر مختلف گروہ ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔ ان دو گروہوں کا لباس، رہنے سہنے کا طریقہ، انداز گفتگو، زیر مطالعہ اخبارات سب کچھ مختلف ہے۔ یہ بعُد المشرقین ہے‘ جس کے دور ہونے کی کوئی صورت ہے نہ امکان۔ آپ اس بچے کو ذہن میں رکھیے جو پانچ یا سات سال کی عمر میں ایک مدرسہ میں داخل ہوتاہے۔ یہ مدرسہ اقامتی
(Residential)
ہے یعنی یہاں وہ رات دن رہے گا۔ یہ مدرسہ ایک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے ملحقہ مسجد بھی، قدرتی طور پر، اسی مکتب فکر کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بچے اگلے آٹھ نو سال تک اس مکتب فکر کے نمائندوں کے علاوہ اور کسی سے درس لے گا نہ اس کا ملنا جلنا دوسرے لوگوں سے ہوگا۔ آٹھ نو سال کا عرصہ کم عرصہ نہیں۔ یہ تقریباً ایک سو مہینے کا عرصہ ہے اور اس کے تین ہزار دن بنتے ہیں اس کا کھانا پینا سونا جاگنا سب اور تفریح جو کچھ بھی ہے‘ اسی مکتب فکر ہی کے حوالے سے ہے۔
یہاں سے فارغ ہو کر وہ باہر کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اسے دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا سامنا ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اس کے مکتب فکر سے نہیں بلکہ کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسے آٹھ سال کے دوران یہ مسلسل بتایا جاتا رہا ہے کہ صرف اس کا مکتب فکر حق پر ہے اور باقی مکاتب باطل ہیں۔ پھر عملی زندگی میں اب اس کی مڈبھیڑ ایسے لوگوں سے بھی ہونے لگتی ہے جو بظاہر مذہبی لگتے ہی نہیں۔ وہ باریش نہیں، پتلون پہنتے ہیں، انگریزی لکھتے اور بولتے ہیں اور ان کے نزدیک سماجی میل جول میں کسی دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھنا کوئی عیب نہیں۔ مدرسہ سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں داخل ہونے والا شخص ان ”اجنبی“ گروہوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتا نہ ہی وہ کرسکتا ہے۔ آٹھ سالہ طویل تعلیم و تربیت نے ان گروہوں کو برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں کی۔
دوم: ان مدارس میں سے ایک مخصوص مکتب فکر کے مدارس کو جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں افغان جہاد کے حوالے سے عسکری تربیت دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ روسی چلے گئے پھرکشمیر کے جہاد کا سلسلہ چل نکلا۔ یوں میدان کار زار اور حرب و ضرب کا ذائقہ ان جہادیوں کے رگ و پے میں داخل ہوگیا۔ برسر پیکار رہنا ان کی سرشت کا حصہ بن گیا۔ بظاہر غیرمذہبی لوگ اور دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد ذہنی طور پر ناقابل قبول تو تھے ہی، اسلحہ نے اس نفرت کو نیا رنگ دے دیا۔ حربی پس منظر کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا کہ مخالف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کو گولی مار دی جائے اور وہ جو بظاہر غیر مذہبی لگتے ہیں، پتلون پہنتے ہیں اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی پیداوار ہیں انہیں بھی اسلحہ کے زور پر ختم کردیا جائے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں مزاروں پر حملے ہوئے، مخالف مکتب فکر کے مذہبی رہنما کی لاش قبر سے نکال کر لٹکا دی گئی، کوئٹہ اور چلاس میں دوسرے مکتب فکر کے پیروکاروں کو قتل کیا جانے لگا۔ پشاور میں وارننگ جاری کی گئی کہ کوئی شخص پتلون میں ملبوس نہ نظر آئے۔
اس دوسرے نکتے میں ایک نیا ضمنی نکتہ در آتا ہے اور وہ یہ کہ جارح مکتب فکر کے علم برداروں میں ایک لسانی اکائی نظر آتی ہے۔ مولانا صوفی محمد نے سوات میں ہزاروں کے مجمع سے حلف لیا کہ وہ آئندہ صرف سیاہ رنگ کی پگڑی پہنیں گے۔ ٹوپی والے برقع (شٹل کاک) کو خالص اسلامی پردے کا نام دیا گیا۔ مخصوص مکتب فکر اور مخصوص لسانی ثقافت…. یوں معاملات پیچیدہ تر ہوگئے!
تیسری حقیقت جس کی طرف یہ قاتلانہ حملہ اشارہ کرتا ہے، بہت خوفناک ہے۔ اس مخصوص مکتب فکر کے سر خیل علماءکرام اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوات‘ وزیرستان اور ملک کے باقی حصوں میں واقع ہونے والی عسکری سرگرمیاں ایک مخصوص مکتب فکر کے دعویداروں کی طرف سے تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مکتب فکر کے سےنئر علماءکرام، ان سرگرمیوں سے اعلان برا¿ت کرتے لیکن وہ خاموش رہے۔ یوں سوات کے مولانا فضل ا للہ اور وزیرستان کے بیت اللہ محسود اس مکتب فکر کے نمائندہ قرار پائے۔ یہ عسکری کمانڈر عالم نہ تھے۔اگر علماءکرام ان کی رہنمائی کرتے تو عین ممکن تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں، تعمیری نہ بھی ہوتیں تو اس درجہ ہلاکت خیز نہ ہوتیں۔ لیکن اس مکتب فکر کے علما نے حیرت انگیز خاموشی اپنے اوپر طاری کرلی۔ سارے پاکستان نے سنا کہ جب ٹیلیویژن پر مولانا تقی عثمانی صاحب سے دہشت گردی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا دور ہے اور اس میں خاموشی بہتر ہے؛ تاہم اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کراچی کے جوڑیا بازار میں دہشت گردی ہوئی تویہ خاموشی ٹوٹ گئی اور برملا مذمت کی گئی۔ ملک کے باقی حصوں میں برپا ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر بھی یہی ردعمل اختیار کیا جاتا تو شاید حالات اس نہج پر نہ پہنچتے۔
اس مکتب فکر کی مسلح جارحیت کا ایک اور ردعمل یہ ہوا کہ دوسرا مکتب فکر بھی، جو روایتی طور پر غیر مسلح اور غیر جہادی رہا ہے، منظم اور مسلح ہونے لگا ہے۔ اب عقیدے کا اختلاف سیاست میں بھی در آنے لگا ہے۔ آپ اس صورت حال کا تصور کیجے‘ جب انتخابات میں ایک امیدوار سنی تحریک کا ہوگا، دوسرا سپاہ صحابہ کا، تیسرا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا اور چوتھا تحریک طالبان کا!
ملالہ یوسف زئی پر حملہ ایک علامت ہے اس خلیج کا جو پاکستان کے دو گروہوں کے درمیان پائی جاتی ہے اور جو دن بدن وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ ایک گروہ پتلون اور انگریزی کو دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کوبرداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسرا گروہ پگڑی، داڑھی اور برقعہ کو اجنبی نظروں سے دیکھتا ہے اور اب ایک گروہ دوسرے گروہ کو اسلحہ کے زور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔
کاش! آج اہل پاکستان کو‘ خاموش رہنے والے علماءکے بجائے سید سلمان ندویؒ جیسے علما ملتے۔ سید صاحب نے 1925
ء
میں جنوبی ہند کی ”اسلامی تعلیمی انجمن“ کی فرمائش پر مدراس میں آٹھ خطبے دیئے۔ یہ خطبے خطبات مدراس کے نام سے چھپے (ایک اینکر پرسن اسے بہ تکرار خطبات مدارس کہہ رہے تھے!) دیباچے میں سید سلمان ندوی لکھتے ہیں…. ”علماءپر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہوگیا ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے جب ہمارے علما خدا کا پیغام خدا کی بنائی ہوئی ہر زبان میں دنیا کو پہنچا سکیں۔“
اس تلقین کو ستاسی سال گزر گئے۔ آج ہمارے کتنے علما انگریزی زبان میں خطاب کرسکتے ہیں؟ شاید ایک فی صد بھی نہیں! تاہم جو مسلمان بچیاں اور بچے دوسری زبانیں پڑھنا چاہتے ہیں انہیں ختم کیا جانے لگا ہے!