ڈاکٹر عبدالسلام کا جرم بھی یہی تھا‘ وہ بھی ٹیلنٹڈ تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی عقل‘ فہم اور علم سے نوازا تھا۔
وہ ساہیوال کے گاؤں سنتوک داس میں پیدا ہوئے‘ ٹاٹ اسکول میں پڑھے‘ وظیفے لے کر گورنمنٹ کالج جھنگ اور گورنمنٹ کالج لاہورتک پہنچے‘ امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کی‘ حکومت نے اسکالر شپ دیا اور وہ کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گئے‘ کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی اور فزکس میں ایم ایس سی کی‘ نظری طبیعات میں پی ایچ ڈی کی‘ کیمبرج یونیورسٹی نے دوران تعلیم یونیورسٹی کا سب سے بڑا عزاز ’’اسمتھ پرائز‘‘ دیا اور یہ طالب علم کی حیثیت ہی میں سینٹ کالج‘ کیمبرج یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی کے فیلو منتخب ہو گئے‘ پوری دنیا ان کے لیے کھلی تھی لیکن وہ پاکستان کی محبت میں گرفتار تھے‘ وہ سمجھتے تھے نوزائیدہ ملک کو ان کی ضرورت ہے ۔
چنانچہ وہ 1951ء میں لاہور واپس آ گئے‘ گورنمنٹ کالج میں استاد بھرتی ہو گئے‘ اگلے سال پنجاب یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہو گئے‘ وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے‘ گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ سے درخواست کی‘ کالج کے پاس فنڈز موجود ہیں‘ آپ مجھے چھوٹی سی لیبارٹری بنا دیں ‘میں اور میرے طالب علم کمال کردیں گے‘ انتظامیہ کو یہ مطالبہ توہین محسوس ہوا چنانچہ انھیں شروع میں ہاسٹل کا وارڈن بنا دیا گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ درخواست کی تو انھیں فٹ بال ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا‘ کالج اور یونیورسٹی میں ان کے خیالات کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا‘ یہ تنگ آ گئے چنانچہ یہ 1954ء میں لندن چلے گئے‘ امپیریل کالج لندن نے انھیں ریاضی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا‘ یہ 1957ء میں فزکس کے پروفیسر بھی بنا دیے گئے‘ یہ جدید دنیا میں اعلیٰ ترین علمی عہدہ ہوتا ہے لیکن ان کا دل پاکستان میں اٹکا رہا‘ یہ ہر حکومت سے رابطہ کرتے اور اسے سائنس کی تعلیم اورسائنسی ادارے قائم کرنے پر ابھارتے‘ یہ پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کے رکن بھی رہے۔
صدر ایوب کے دور میں تعلیمی کمیشن اور سائنس کمیشن کے رکن بھی بنے‘ یہ 1961ء سے 1974ء تک صدر کے سائنسی مشیر بھی رہے‘ اسپارکو کی بنیاد بھی انھوں نے رکھی اور یہ نیشنل سائنس کونسل اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر بھی رہے‘ یہ ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر ان کا ٹیلنٹ اور ان کا عقیدہ ہر بار رکاوٹ بن جاتا تھا‘ یہ بونوں کا ملک ہے اور بلند قامتی بونوں کے معاشروں میں جرم ہوتی ہے‘ڈاکٹر عبدالسلام کو اللہ تعالیٰ نے بلند قامت بنایا تھا‘ وہ برین آف پاکستان تھے چنانچہ ملک میں ان کی گنجائش نہیں تھی‘ ڈاکٹر صاحب نے 1964ء میں حکومت کو پاکستان میں نظری طبیعات کا انٹرنیشنل سینٹر بنانے کی تجویز دی‘ ایوب خان ان دنوں محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرانے جیسے تعمیری کام میں مصروف تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی تجویز ایوان صدر کے اسٹور روم میں پھینک دی گئی‘ اٹلی کو اس تجویز کی بھنک پڑ گئی‘ اطالوی حکومت نے ڈاکٹر عبدالسلام سے رابطہ کیا اور اربوں ڈالر خرچ کر کے ٹرائیسٹ شہر میں ’’انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس‘‘ قائم کر دیا‘ یہ سینٹر آج بھی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب ہے‘یہ اب تک ہزاروں سائنس دان پیدا کر چکا ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے 1974ء میں لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ’’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘‘ کی تجویز پیش کی‘ یہ تجویز پسند کی گئی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا‘ ڈاکٹر صاحب کو 1979ء میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا‘ یہ پاکستان کا پہلا نوبل انعام تھا‘ ہمارے لیے اعزار کی بات تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ اس اعزاز کے راستے میں بھی رکاوٹ بن گیا‘ ملک میں اس نوبل انعام کو اسلام کے خلاف یہودی‘ امریکی اور روسی سازش قرار دے دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب اس سلوک پر کس قدر دل گرفتہ تھے‘ آپ اس سلسلے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ فرزند اقبال ڈاکٹر صاحب سے ملنے ٹرائیسٹ گئے‘ سیکریٹری نے جوں ہی ڈاکٹر صاحب کو بتایا ’’آپ سے کوئی صاحب پاکستان سے ملنے آئے ہیں‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام دیوانہ وار باہر نکلے‘ شاعر مشرق کے صاحبزادے کو گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے‘ وہ بار بار کہتے تھے ’’ مجھ سے پوری دنیا ملنے آتی ہے لیکن پاکستان سے کوئی نہیں آتا‘ میرا جرم کیا ہے؟ میری غلطی کیا ہے؟‘‘ یہ سن کر جاوید اقبال کے آنسو بھی نکل آئے‘ ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام ملا تو جنوبی کوریا نے اپنے سائنس دانوں اور پروفیسروں کا ایک وفد بھجوا دیا‘ یہ وفد ڈاکٹر صاحب سے صرف اتنا معلوم کرنا چاہتا تھا ’’ہم نوبل انعام کیسے حاصل کر سکتے ہیں‘‘ جب کہ ہمارا نوبل انعام یافتہ سائنس دان اپنے ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
قائداعظم یونیورسٹی نے 1979ء میں انھیں اعزاز ڈگری سے نوازا‘ آپ المیہ دیکھیے‘ صدر جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب کو یہ ڈگری یونیورسٹی ہال کے بجائے نیشنل اسمبلی ہال میں دی‘ کیوں؟ کیونکہ طالب علموں کی ایک جماعت نے حکومت کو دھمکی دے دی تھی ’’ یہ مرتد یونیورسٹی آیا تو یہ زندہ واپس نہیں جا سکے گا‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کو 23 ممالک کی 32 یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزاز ڈگریاں دی تھیں‘ دنیا کے 22 ممالک نے انھیں اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا اور یہ 23 ممالک کی اعلیٰ ترین سائنس اکیڈمیوں کے فیلو اور رکن رہے اور انھیں یہ تمام اعزازات یونیورسٹیوں کے ہالوں میں ہزاروں طالب علموں کی گونجتی تالیوں میں دیے گئے تھے لیکن اپنے ملک میں انھیں یہ اعزاز نیشنل اسمبلی ہال میں ’’عوام‘‘ سے بچا کر دیا گیا اور اخبارات نے عوامی خوف کی وجہ سے ان کی تصویر تک شایع نہیں کی‘ ڈاکٹر عبدالسلام پوری زندگی پاکستان کو ترستے رہے‘ یہ 1996ء میں فوت ہوئے‘ ان کی نعش پاکستان آئی تو حکومت کو جنازے اور قبر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کرنے پڑگئے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو فوت ہوئے آج 18 سال ہو چکے ہیں‘ یہ آج بھی اس معاشرے سے اپنا جرم پوچھ رہے ہیں‘ میں 10 اکتوبر تک سمجھتا تھا ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی سزا ملی‘ ہم مسلمان ہیں اور ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ ان کا جرم بھی بن گیا اور یہ ان کی خوبیوں اور کمالات کو بھی نگل گیا لیکن جوں ہی ملالہ یوسف زئی کے لیے نوبل انعام کا اعلان ہوا اور ملک بھر میں ملالہ کے خلاف نفرت کا سیلاب بہنے لگا تو مجھے اس وقت معلوم ہوا ڈاکٹر عبدالسلام کا جرم قادیانی ہونا نہیں تھا ان کا اصلی جرم ٹیلنٹڈ ہونا‘ کامیاب ہونا اور دنیا سے اپنے آپ کو منوا لینا تھا‘ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے‘ اس جرم میں ان سے پاکستانیت کا حق بھی چھین لیا لیکن ملالہ تو مسلمان ہے‘ اس کے خلاف کیوں ہیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے‘ ہم حاسد قوم ہیں‘ہم سے دوسروں کی عزت‘ شہرت اور کامیابی ہضم نہیں ہوتی‘ ہماری نظر میں ہر کامیاب شخص بے ایمان‘ کرپٹ اور یہودی ایجنٹ ہے۔
آپ پاکستانی شہریوں سے پاکستان کے کسی ریکارڈ ہولڈر کے بارے میں رائے لے لیں‘ آپ اگر ان کے منہ سے اس کے بارے میں کوئی اچھا لفظ نکال لیں تو میں آپ کو سیلوٹ پیش کروں گا‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ اس عبدالستار ایدھی کو بھی بے ایمان سمجھتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی انسانی فلاح پر خرچ کر دی‘ ہم نے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھی مجرم بنا کر ٹی وی پر پیش کر دیا تھا اور ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہروا دیا ‘ ہماری نظر میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی دونوں یہودیوں کے ایجنٹ ہیں لیکن بچیوں پر کتے چھوڑنے‘ ونی کرنے‘ ان کی شادیاں قرآن مجید سے کرنے‘ ان کے منہ پر تیزاب پھینکنے‘ ان کی اجتماعی آبروریزی کرنے اور انصاف کے نام پر ان کی شادیاں اسی اسی سال کے بوڑھوں سے کرنے والے سچے مومن ہیں۔
ملالہ یوسف زئی اور ڈاکٹر عبدالسلام اہل اسلام کے خلاف مغربی سازش ہیں مگر دودھ میں کیمیکل ملانے‘ مرچوں میں لکڑی کا برادہ مکس کرنے‘ جعلی دوائیں بنانے‘ غلط آپریشن کرنے‘ مریضوں کے گردے چوری کرنے‘ بے بس لوگوں کو سڑک پر کچلنے‘ زہریلی شراب کے ذریعے پچاس پچاس لوگوں کو قتل کرنے‘ مسجدوں‘ درگاہوں‘ یتیم خانوں اور قبرستانوں کے فنڈ کھانے‘ رشوت لینے‘ ملکی خزانہ لوٹنے‘ حاجیوں کا زاد راہ چرانے‘ خود کش حملوں کے ذریعے نمازیوں کو مارنے‘ شناختی کارڈ اور نام پڑھ کر گولی مارنے‘ بھتہ لینے‘ ٹارگٹ کلرز اور زمینوں کے قابضین عین مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
ہم طالبان سے مذاکرات کرتے ہیں لیکن ملالہ یوسف زئی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں‘ ملالہ غدار ہے اور اسلام کے نام پر قتل کرنے والے محب وطن‘ مجھے یقین ہے اگر ڈاکٹر عبدالسلام عام لیکچرر بن کر زندگی گزارنا چاہتے‘ یہ سائیکل اسٹینڈ کے چوکیدار بن جاتے یا فٹ بال ٹیم کے کوچ‘ ہاسٹل وارڈن اور کالج کی پرچیزنگ کمیٹی کے کرپٹ سربراہ ہوتے تو ہمیں ان کے قادیانی ہونے کے باوجود ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور یہ پیسے لے کر خواہ نالائق طالب علموں کو جعلی ڈگریاں دیتے رہتے یا پھر ملک کے کروڑوں اربوں روپے کھا جاتے ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور اگر ملالہ یوسف زئی بھی سوات کی دوسری بچیوں کی طرح گائے اور بھیڑ بکریاں چراتی رہتی اور اگر 15 سال کی عمر میں دوسری بچیوں کی طرح اس کی شادی بھی کر دی جاتی تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر یہ کیونکہ ہمارے بچوں سے کئی گنا ٹیلنٹڈ نکلی اور اللہ تعالیٰ نے اسے عالمگیر عزت سے نوازدیا چنانچہ یہ اب یہودی ایجنٹ بھی ہے اور مغرب کی ہم جیسے عظیم لوگوں کے خلاف سازش بھی لہٰذا یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
ہم بونے ہیں اور بونے ہر قدآور شخص سے حسد کرتے ہیں‘ یہ اس کے خلاف ہوتے ہیں‘ ہم نے کل ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان میں نہیں گھسنے دیا تھا اور ہم اب نوبل انعام پانے کے بعد ملالہ کو بھی پاکستان نہیں آنے دیںگے‘ یہ بیچاری بھی اب پاکستان نہیں آ سکے گی‘ یہ ملک کو ترستے ترستے مر جائے گی۔