مریض کو داخل کرانے کے تین چاردن بعد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ہسپتال کا معاملہ گڑبڑ ہے۔
ہسپتال کیا تھا، افراتفری کی منڈی تھا۔ بدانتظامی کا بدترین نمونہ! کوئی ڈاکٹر وقت پر نہیں آتا تھا۔ نرسیں آرام سے بیٹھی سویٹریں بنتی رہتیں۔ دوائیںجن دکانداروں سے خریدی جاتیں انہی کو آدھی قیمت پر واپس بیچ دی جاتیں۔ آپریشن تھیٹر ذبح خانوں کی طرح تھے، جہاںمریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چیرا پھاڑا جاتا۔ وارڈ اتنے گندے کے ابکائی آتی!
اس بدانتظامی میں مریض کیا خاک ٹھیک ہوتا۔ ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ہم اپنے مریض کو یہاں سے اٹھائیں اور کسی ڈھنگ کے شفاخانے میں لے جائیں، خواہ وہ مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔
مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا۔ مریض کے لواحقین دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ چاہتا تھا کہ مریض کو کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔ دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ مریض یہیں رہے مگر ہسپتال کا نظام بہتر کیا جائے۔ سسٹم کی خرابیاں دور کی جائیں۔ ڈاکٹروں کو نظم و ضبط کا پابند کیا جائے۔ ادویات کی خورد برد کو کنٹرول کیا جائے۔ بدمزاج، نکمی نرسوں کو برطرف کرکے نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔ آپریشن تھیٹر نئے بنائے جائیں۔ جب ہسپتال کی حالت بدلے گی تو ہمارے مریض کا علاج بھی بہتر ہونے لگے گا!
آپ کا کیا خیال ہے، مریض کے حق میں کیا بہتر تھا؟ پہلے گروہ کا موقف کہ مریض کو یہاں سے کہیں اور لے جایا جائے یا دوسرے گروہ کا نقطۂ نظر کہ پہلے سسٹم کو ٹھیک کرو! ظاہر ہے سسٹم کے ٹھیک ہوتے ہوتے مریض نے جان دے دینی تھی۔ تاتریاق ازعراق آوردہ شود ۔ مارگزیدہ مردہ شود۔ عراق سے تریاق کے آتے آتے سانپ کا ڈسا ہوا اللہ کو پیارا ہو جائے گا!
یہی تو ہم چیخ رہے ہیں کہ اللہ کے بندو! پی آئی اے مریض ہے۔ ایسا مریض جو جاں بلب ہے۔ ہچکی لگی ہے۔ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسے سرکاری شعبے کی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نکال کر نجی شعبے میں لے جائو، ورنہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ملازمین اس مریض کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں گے اور یونین کے سفاک خود غرض عہدیدار اپنے شکم کے تنوروں کی خاطر اس مریض کو زمین کے اندر دفنا کردم لیں گے۔ مگر دوسرا گروہ مصر ہے کہ نہیں! پی آئی اے کو سرکاری شعبے ہی میں رکھا جائے۔ ہاں، سرکاری سیکٹر میں جو خرابیاں ہیں وہ دور کی جائیں! یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ جو سرکاری سیکٹر میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، تو اس کے ٹھیک ہونے کا تو کوئی امکان ہی دور دور تک نہیں نظر آتا۔ تو کیا رشوت، بدانتظامی، نااہلی، اقربا پروری، دوست نوازی، یونین بازی، بددیانتی، خیانت… دور ہونے تک پی آئی اے اسی طرح گلتی سڑتی رہے؟ یہاں تک کہ گلے سڑے جسم میں کیڑے پڑ جائیں اور لاش ویرانے میں پھینک دی جائے؟
دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ آخر یہی سرکاری سیکٹر تھا جس میں پی آئی اے، ساٹھ ستر کے عشرے میں لاجواب کارکردگی دکھا رہی تھی اور دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی! بجا فرمایا! مگر وہ تو ماضی کا قصہ ہے! اس وقت پاکستان کی حکومتوں میں بدعنوانی، رشوت اور اقربا پروری برائے نام تھی۔ قانون کی بالادستی تھی۔ اس وقت تو ریلوے بھی درست چل رہی تھی۔ واپڈا بھی صحیح کام کر رہا تھا۔ لوڈشیڈنگ کے نام سے بھی کوئی نہیں واقف تھا۔ ڈاکخانے کا محکمہ برق رفتار تھا۔ کراچی سے خط دوسرے دن لاہور پہنچ جاتا تھا۔ آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں؟ وہ زمانے ہوا ہو چکے۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اس وقت پاکستان کا حکومتی شعبہ گیلانیوں، راجہ اشرفوں، ڈاکٹر عاصموں، سیف الرحمانوں، گلو بٹوں اور ایان علی جیسی ماڈلوں کی چراگاہ نہیں ہوا تھا۔ آپ کا حکومتی شعبہ تیز دھار دانتوں اور مضبوط جبڑوں کے درمیان پھنس چکا ہے۔ اب تو حاجیوں کے احرام بک گئے۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمینیں غائب ہوگئیں۔ ڈاکخانے کا یہ عالم ہے کہ یو ایم ایس(ارجنٹ میل سروس) جس نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ملنا ہوتا ہے، پانچویں دن ملتا ہے۔ نافرمان بیٹے کو ماں نے بددعا دینی ہو تو کہتی ہے جا تجھے واپڈا اور سوئی گیس کے محکموں سے پالا پڑے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے دل میں حکومتی سیکٹر کے لئے نرم گوشہ موجود ہے تو جائے اور جا کر ایک دن کچہری میں گزارے، ایک دن تھانے میں بیٹھ کر دیکھ لے یا پانچ مرلے کا پلاٹ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں جا کر بیٹے کے نام منتقل کرکے مزا چکھ لے!
دوست گرامی جناب ارشاد عارف کا یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کی نج کاری کے بعد راتوں رات فی بوری قیمت میں ایک سو روپے کا اضافہ ہوا! غلط ہوا۔ مگر حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، دوسروں کے کاروبار پر نظر رکھنا ہے۔ ایک طریقہ قیمتیں کم کرنے کا آزادانہ مسابقت ہے۔ امریکہ اور پورے یورپ میں نجی ایئرلائنوں کا جال بچھا ہے، مقابلہ اتنا ہے کہ سفر کرنے سے ایک ماہ پہلے کوڑیوں کے بھائو ٹکٹ ملتے ہیں۔ میلبورن سے سڈنی تک تیس تیس ڈالر میں ٹکٹ ملتے دیکھے ہیں!
کوفہ آباد ہوا تو اس کی تعمیر و توسیع میں سرکاری سیکٹر کا کوئی عمل دخل نہ تھا مگر حکومت عوام کے مفاد کے لئے چوکنا تھی۔ حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ کوئی عمارت اتنی منزلوں سے زیادہ کی نہ ہو۔ پھر جب گھوڑوں کا ایک تاجر مدینہ میں بہت سے گھوڑے لے آیا تو آپ نے اس پر واضح فرمایا کہ اپنے گھوڑوں کا چارہ باہر سے منگوائو کیونکہ مدینہ کا سارا چارہ تمہارے گھوڑے کھاگئے تو دوسروں کا کیا بنے گا! یہ ہیں حکومت کے فرائض! یوں بھی حکومت خود کاروبار کرنے لگے تو دوسروں کے کاروبار کو غیر جانبدارانہ طور پر کس طرح کنٹرول کرسکے گی؟ اس کا کام تو یہ ہے کہ کاروبار کی دنیا کو شفاف رکھے، خیانت کرنے والوں کو کڑی سزا دے۔ ناجائز منافع خوری کو روکے اور ٹیکس جمع کرکے عوام کو سکیورٹی فراہم کرے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہر دوسرے گھر میں ڈاکہ پڑ رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان کا جرم انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے۔ بھتہ خوری عام ہے اور حکومت ایئر لائنیں چلا رہی ہے! واہ! کیا بات ہے حکومتی ترجیحات کی!!
ہاں! یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ نج کاری شفاف انداز میں ہونی چاہئے۔ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے کسی منظور نظر فرد یا افراد کو قومی اثاثے اونے پونے داموں فروخت کریں اور یوں دال جوتیوں ہی میں بٹ جائے۔
ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پی آئی اے کی نج کاری کے لئے حکومت ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائے جس میں اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔ نج کاری کا سارا عمل ایسی کمیٹی کی نگرانی میں مکمل کیا جائے۔ اس میں اسد عمر، نوید قمر، کائرہ صاحب اور دوسرے اصحاب شامل ہوں اور اگر اپوزیشن جماعتیں تعاون نہ کریں تو نجی شعبے سے اچھی شہرت رکھنے والے ٹیکنوکریٹ اس کمیٹی کے رکن بنائے جائیں۔ سب کچھ میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ہو اور نجکاری پوری شفافیت اور حق و انصاف سے کی جائے!
رہا یہ مطالبہ کہ پی آئی اے حکومتی شعبہ ہی میں رہے مگر حکومتی شعبہ اپنے لچھن ٹھیک توکرے۔ یہ مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے یہ فرمائش کی جائے کہ زرداری صاحب عبدالستار ایدھی بن جائیں ، میاں محمد نواز شریف مہاتیر بن جائیں اور سید قائم علی شاہ سنگاپور کے لی بن جائیں۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر یہ خبر بھی درست ہو گی کہ ؎
سکھر کا پُل، جہلم دریا دونوں ہو گئے چوری
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“