{چند معروضات اور نکات}
مکتبی یا نصابی تنقید کی مختصر تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ ” تنقید جو کسی مکتبۂ تنقید یا تنقید کے کسی خاص نظریہ پر مبنی ہو”
اس مکتبی تنقید کی تعریف سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے کیونکہ مکتبی تنقید میں نہ روح ہوتی ہے نہ اس میں کوئی نظریہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ” نظریہ ضرورت” کء تحت لکھی جاتی ہےاور اس میں نصابیات کا جبر پوشیدہ ہوتا ہے۔
اردو تنقید میں سب سے زیادہ مشکوک وہ تنقیدی مضامین یا مقالات ہیں جس کو بے پیندے کے لوٹے والی تنقید کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نہ اس میں روح ہوتی ہے نہ انتقادات کی فطانت کا ملکہ ہوتا ہے۔ جی وہ کلاس روم کے نوٹس ہوتے ہیں جو اساتذہ نے ادھر ادھر سے جمع کرکے طلبا کے زہنوں میں انڈیل دئیے جاتے ہیں ۔ یہ استاذہ کی پیشہ ورانہ مجبوری ہوتی ہے۔ کیونکہ طلبا کو امتحانات مین پاس کروانا ان اساتذہ کی مجبوری ہوتی ہے۔ بہت اسے زہین اساتذہ اپنے شاگروں سے مختلف موضوعات پر مضامین لکھواتے ہین اور اس مین ردوبدل کرکے اپنے نام سے شائع کروادیتے ہیں۔ یہ بہت غیر معیاری مضمون ہوتے ہیں۔ جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی ہے جیسے ” تنقیدی زمرے” میں رکھا جاسکے۔ یہ دوسروں کے چبائے ہوئی نوالے لگتے ہیں۔ نہ یہ ان اساتذہ کی زبان ہوتی ہے اور اس میں نہ ان کا اپنا فکری اور تنقیدی مخاطبہ ہوتا ہے۔ اس میں وہی باتیں ہوتی ہیں جو نئی نہیں ہوتی۔ اور بعض دفعہ اساتذہ اپنے ان تنقیدی مضامین کو ” تخلیقی تنقید ” کہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور قاری کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتے ہیں۔ اردو میں زیادہ تر ادبی تنقیدی مضامین استاذہ اورمذہبی درسگاہوں کےمولوی صاحباں نے لکھے ہیں ۔ان کی اپنی تحدیدات اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اس میں ایک خوف زدگی، اعصابی تناو دکھائی دیتا ہے جووہ نہ آزادنہ طور پر سوچ سکتا ہے نہ کوئی بات قاری کو سمجھا پاتا ہے۔ وہ نا اہل استاد تو ہوتے ہیں مگر انھی کے زیر سایہ وہ ڈفر اور بے ادب شاگردان کا لشکر فرتوت سامنے آتا ہے۔ یہ سب ادب کے نام پر شرمندگی کا استعارہ ہوتے ہیں۔
وزیر آغا نے “مکتبی تنقید” ۔۔۔۔۔ کے بارے میں لکھا ہے “دریافت کی بہ نسبت تشریح و توضیح کے فرائض زیادہ سرانجام دیتی ہے “۔ (۱۹۸۲ ، ، ایک مطالعہ }
یہ افسوس ناک حقیقت ہے مکتبی ادبی تنقید کسی ادبی متن کی واجبی سی تفھیم اور تشریح کرنے میں بھی ناکام رہتی ہے۔ صرف مکھی پر مکھی بیٹھا دی جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مکتبی ادبی تنقید کے علمی میدان اور مزاج کو دریافت کیا جائے جو ادب کا مطالعہ، تشخیص اورتفھیم اور تشریح ہے۔ مکتبی ادبی تنقید عام طور پر عالموں اور ناقدین لکھتے ہیں۔ [ جیسے اردو میں وقار عظیم، احسن فاروقی،عبادت بریلوی سلامت علی خان، ابولخیر کشفی، سلیم اختر وغیرہ} اور اکثر علمی جرائد یا کتابوں میں شائع ہوتی ہے۔ یہ مضامین عام طور پر ایک عنوان پر توجہ مرکوز کرتے ہیں (مثال کے طور پر، ناول انکل ٹامز کیبن یا ولیم شیکسپیئر کا ایک ڈرامہ) یا موضوع (مثال کے طور پر، جنگ کے وقت کے ادب میں خواتین کی تصویر کشی)۔ تاہم، ادبی تنقید کسی خاص صنف، کسی ایک مصنف کے کام، یا ایک مخصوص مدت کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔
ادبی تنقید کتابی جائزہ نہیں ہوتے ۔ تنقید ادب کو ایک علمی نقطہ نظر سے جانچتی ہے جس کی بنیاد متن کے قریب سے پڑھی جاتی ہے۔ دوسری طرف، کتابی جائزے بنیادی طور پر اس کے پلاٹ اور کرداروں کی بنیاد پر کتاب کا جائزہ لیتے ہیں (حالانکہ تفصیلی کتابی جائزے بعض اوقات ادبی تنقید کے طور پر کام کرتے ہیں)۔ اس کے علاوہ کتابوں کے جائزے عام طور پر رسائل اور اخبارات میں ملتے ہیں۔ مجلسی تنقید میں مکتبی ادبی نقد سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے اور کامیاب سمجھی جاتی ہے۔ جو تشھیر کا طاقت ور اور بہترین پیمانہ بھی ہے۔
ادبی تنقید اکثر ادبی نظریہ {تھیوری} کو کسی خاص عدسے سے دیکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک اسکالر ایلس کی ایڈونچرز ان ونڈر لینڈ کا جائزہ لے سکتا ہے تاکہ تانثیی نظریہ {فیمنسٹ تھیوری} کا استعمال کرتے ہوئے یہ دریافت کیا جا سکے کہ ایلس پورے ناول میں کیسے تیار ہوتی ہے۔ دیگر ادبی نظریات میں نفسیاتی نظریہ، مابعد نوآبادیاتی نظریہ، صنفی/کوئیر تھیوری، تنقیدی نسل کا نظریہ، اور تنقیدی معذوری کا نظریہ شامل ہیں۔
” عصر ِ حاضر میں تحقیق اور تنقید کے نام پر مدارس میں جو گل کھلائے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق اپنے جذبات حزیں کا اظہار کن الفاظ میں لکھا جائے ۔اپنے ایک مضمون ’’روح کی اڑان ‘‘ میں وارث علوی نے اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور روح فرسا ہے۔المیہ کے تضادات ،ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی اور خلوص سے لکھا ہے :
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیٔ ہند سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در و دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر ’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہتا۔مدرس ان عجوبۂ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں چاول پر قل ہو اﷲ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ‘‘اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدرس جب مکتبی تنقید کی صورت میں پنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھانے کے لیے تحقیق و تنقید کی وادی میں داخل ہوتا ہے تو ز ندگی کے تمام حقائق اس ابلہ کے ابلق کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔تاریخ ،نفسیات ،ادبیات،علم بشریات اور عمرانیات کے بارے میں مدرس کا علم بے حد محدود ہوتا ہے ۔اپنی نام نہاد تحقیق میں وہ جو نتائج پیش کرتا ہے وہ اس قدر گم را ہ کن ہوتے ہیں کہ قاری اس مجرمانہ اسلوب اور پشتارہ ٔاغلاط کو دیکھ کر سر پیٹ کر رہ جاتا ہے ۔ فرانسیسی ادبی تھیورسٹ ،فلسفی اور نقادرولاں بارتھ (Roland Barthes : 1915-1980) بھی مکتبی تنقید کے مسموم اثرات سے آگا ہ تھا ۔ اُس کے خیالات اور وارث علوی کے خیالات میں گہری مما ثلت پائی جاتی ہے ۔مکتبی تنقید پر گرفت کرتے ہوئے رولاں بارتھ نے لکھا ہے :
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے ۔متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے ہیں اور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں ۔مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں،اس لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرناضروری ہے “{ تنقیدی نظریات از ۔ڈاکٹر غلام شبیررانا }
” محمد حسن عسکری اور کلیم الدین احمد کو اس لحاظ سے اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے پہلی بار اردو کی مکتبی تنقید اور اس کی فارمولا بندی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا، لیکن مکتبی تنقید کی یکسانیت سے بیزاری کا پہلا باقاعدہ احساس شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ محمد حسن عسکری کی شخصیت اس اعتبار سے بھی قابلِ رشک ہے کہ انھوں نے ادب کے غالبا تمام موضوعات پر ایک نئے انداز سے سوچا اور لکھا۔ یوں تو کلیم الدین احمد کی تنقید میں بھی ایک انفرادی شان موجود ہے لیکن بعض مقامات پر ان کی تنقیدی انتہا پسندی اس طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ ان کی دلیلیں بھی خود ان کے خلاف کھڑی ہونے لگتی ہیں۔
سوال یہ ہے کیا مدرسی یا مکتبی ادبی تنقید کا ادب عالیہ میں کوئی مقام ہے؟ اس کے لیے ہمارے نظام نصابیات میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے اورنصابیات میں حاکمیت { اسٹبلشمنٹ} اور دفتر شاہی کے جبر سےآزاد کروانا ضروری ہے۔ اور تنویریت ،روشن خیالی کے رجحانات کو متعارف کروایا جائے۔
“غزل کے نیم وحشی پن کا معاملہ ہو یا پھر فنِ داستان گوئی کا ،کہیں نہ کہیں ایک خلا کا احساس ہوتاہے۔غزل کے نیم وحشی پن والے معاملے میں تو پھر بھی ایک استدلالی نقطہ موجود ہے اور جو انھیں عظمت اللہ خاں کی گردن زنی والے بے سرو پا بیان سے بالکل الگ کرتا ہے لیکن فنِ داستان گوئی میں ان کی وہ قوت نظر نہیں آتی جو اردو شاعری کی تنقید میں صاف صاف نظر آتی ہے۔ {اردو کی مکتبی تنقید کا المیہ
از معراج رانا۔ گیارہ اگست 2017 ” ایک روزن }
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...