جاپانی افسانچہ ( فلیش فکشن )
مکڑی کا تار ( Kumo no Ito … 1918 )
راینشُک آکوتاگاوا
تحریرِ مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ایک دن مہاتاما گوتم بدھ جنت میں کنولوں والے تالاب کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا ۔ تالاب میں ، موتیوں کی طرح سفید ، کنول کے پھول کھِلے ہوئے تھے ۔ پانی میں ڈوبے ان کے ڈنڈھلوں سے ، ایک ناقابل بیان ، بھینی بھینی خوشبو فضا کومسلسل معطر کر رہی تھی ۔ جنت میں یہ ، شاید ، صبح کا اولین وقت تھا ۔
تب مہاتاما رُکا اور اس نے کنولوں کے بیچ پانی کے ایک صاف حصے پر نظر ڈالی جس سے تالاب بھرا ہوا تھا ۔ اس نے اس میں جھانکا ۔ جنت میں کنولوں کے اس تالاب کے پاتال میں دوزخ تھی ۔ اس شفاف پانی ویسے ہی دیکھا جا سکتا تھا جیسے بندہ آنکھ لگا کر کسی سوراخ سے دور تک دیکھ سکتا ہے ؛ وہاں موت کے دریا اور سوئیوں کے پہاڑ جیسے مناظر نظر آ رہے تھے ۔
اس کے فوراً بعد ہی مہاتاما کا دھیان ’ کینداتا ‘ نامی ایک بندے کی طرف گیا جو دوسرے گناہ گاروں کے درمیان تڑپ رہا تھا ۔ کینداتا نامی یہ بندہ اپنے وقت کا ایک بہت بڑا اور نامی گرامی چور تھا جس نے دنیا میں بہت سے برے کام کئے تھے ۔ اس نے کئی لوگوں کا قتل کیا تھا اور کئیوں کے گھر جلا ڈالے تھے ۔ ہاں البتہ اس نے ایک بار ایک اچھا کام بھی کیا تھا ۔ وہ ، ایک دفعہ ، ایک گھنے جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک ننھی مکڑی کو اپنے راستے پر رینگتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے اسے کچل دینے کے لئے اپنا پاﺅں اٹھایا ہی تھا کہ یک دم اس نے اپنا یہ ارداہ ترک کر دیا ۔
” نہیں ‘‘، اس نے خود سے کہا ، ’’ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ اس جیسی چھوٹی سی چھوٹی مخلوق بھی جان رکھتی ہے اور بِنا کسی وجہ کے اسے مارنا بہت بڑی زیادتی ہو گی “ ، یہ سوچ کر اس نے مکڑی کو نہ مارا اور آگے چل دیا ۔
مہاتاما نے جب دوزخ کا منظر دیکھا تو اسے کینداتا کی اس مہربانی کا خیال آیا جو اس نے مکڑی کو نہ مار کر کی تھی اور اس نے سوچا کہ اسے کینداتا کو اس کے اس ایک اچھے عمل کے بدلے میں بچانا چاہیے ۔ یہ ایک اچھا اتفاق تھا کہ مہاتاما کے پاس ہی کنول کے ایک پودے کے گہرے سبز پتے پر ایک جنتی مکڑی اپنا چاندی رنگا جال بُن رہی تھی ۔ مہاتاما نے اسے آرام اور احتیاط سے اٹھایا اور اسے موتیوں جیسے پھولوں کے درمیان نیچے عین دوزخ کے وسط میں اتارنا شروع کر دیا ۔
اس دوران کینداتا دوسرے گناہ گاروں کے ساتھ خون بھری جھیل، جو دوزخ کی اتھاہ گہرائیوں میں تھی ، میں سطح خون پر رہنے کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔ وہاں گہرا اندھیرا تھا ، بس کبھی کبھار ڈراﺅنے سوئیوں والے پہاڑ سے ایک بھوتیلا لشکارا چمکتا اور غائب ہو جاتا ۔ وہاں قبرستان جیسی خاموشی تھی اور اگر کوئی آواز آ بھی رہی تھی تو وہ ان گناہ گاروں کی آہ و زاری کی ایک مدہم آواز تھی ۔ شاید ایسا تھا کہ وہ جو دوزخ کے اس دور والے حصے میں موجود تھے اس وقت تک اتنے عذابوں سے گزر چکے تھے کہ اب ان میں ہمت ہی نہ رہی تھی کہ خود پر ترس کھاتے ہوئے ، اونچی آواز میں چِلا سکیں ۔ اور ۔ ۔ ۔ اوراس خونی جھیل میں بڑا چور کینداتا بھی ایک مرتے ہوئے مینڈک کی طرح تڑپ رہا تھا اوراس کا سانس اتھل پتھل ہو رہا تھا ۔
تب ایسا ہوا کہ کینداتا نے اپنی اس بری اور لاچارحالت میں، اپنا سر اٹھایا اور جھیل کے اوپر آسمان کی طرف دیکھا ۔ اس نے ایک چمکیلی لکیر کو سیدھا نیچے آتے ہوئے دیکھا ، گو اسے مکڑی کے اس چاندی جیسے چمکیلے تار کو دیکھ کر ویسے ہی خوفزدہ ہوجانا چاہیے تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ کہیں دور ، بہت دور ، اوپر سے خاموش اندھیارے میں سے نیچے اترے چلی آ رہی ہو ۔ لیکن کینداتا خوفزدہ نہ ہوا اور اس نے خوشی سے تالی بجائی ۔ اس نے یقیناً یہ سوچا تھا کہ اگر اس نے ایک بار اس تار جیسے مہین دھاگے کو تھام لیا تو وہ اس کے سہارے اتنا اوپر جا سکتا ہے کہ بالآخر دوزخ سے باہر نکل سکے ۔ اور اگر قسمت نے ساتھ دیا تو وہ جنت میں بھی پہنچ سکتا ہے ۔ یوں سوئیوں کا پہاڑ اس کی پیچھا نہیں کر پائے گا اور نہ ہی کوئی اسے خون بھری جھیل میں ڈبوئے رکھے گا ۔
وہ ، دل میں سے آس لگائے ، مکڑی کی تار کا منتظر رہا کہ وہ اس تک آ پہنچے ۔ جیسے ہی وہ اس کے نزدیک پہنچی اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے مضبوطی سے تھام لیا اورپوری قوت کے ساتھ اس کے سہارے اوپر چڑھنا شروع کر دیا ۔ وہ کسی زمانے میں ایک چور تھا اور چڑھنے اور پھلانگنے میں ماہر تھا ۔
لیکن یہ چڑھائی اتنی آسان نہ تھی کیونکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کے فاصلے نے دوزخ کو جنت سے الگ کر رکھا تھا ۔ کچھ دیر بعد کینداتا تھکنے لگا یہاں تک کہ اس کے لئے مزید اوپر چڑھنا ممکن نہ رہا ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ آرام کی خاطر رکا لیکن اس نے مکڑی کی تار کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور سر جھکا کر نیچے گہرائی میں دیکھا ۔
وہ یقیناً کافی اوپر آ چکا تھا کیونکہ خونی جھیل اسے نظر نہیں آ رہی تھی اور سوئیوں کے پہاڑ کا لشکارا بھی اس سے کہیں نیچے بہت مدہم نظر آ رہا تھا ۔ اس نے سوچا کہ اس رفتار سے اوپر چڑھنے کے کارن اس کے لئے دوزخ سے نکلنا چنداں مشکل نہ ہو گا ۔ وہ کئی برسوں سے بولا ہی نہ تھا ، اس کے منہ سے آواز نما شے نکلی ؛” اچھا ہے ، بہت اچھا ہے“ ، یہ الفاظ چیخ کی شکل میں ہی اس کے منہ سے نکل پائے اور وہ ہنسنے لگا ۔ تب اچانک اس نے پھر سے نیچے دیکھا ؛ ان گنت گناہگار چیونٹیوں کی طرح مکڑی کی تار کے ساتھ لپٹے اس کے پیچھے پیچھے اوپر چڑھ رہے تھے ۔ کچھ دیر کے لئے تو کینداتا گم سُم ہو کر رہ گیا ۔ اس سارے منظر کو دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور اس نے سوچا کہ مکڑی کی یہ تار، یہ مہین دھاگہ جو اتنا نازک ہے کہ ایک بندے کا بوجھ نہ سہار سکے ، کیسے اتنے زیادہ لوگوں کا وزن اٹھائے ہوئے ہے ۔ اور اگر یہ تار ٹوٹ گئی تو وہ واپس جہنم میں جا گرے گا ۔ جیسے ہی اس طرح کے خوف پیدا کرنے والے خیالات اس کے دماغ میں آئے اور اسے لگا کہ ہزاروں ، نہیں اس سے بھی کہیں زیادہ گناہ گار اندھیرے میں خون کی جھیل سے رینگتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں اور مکڑی کے تار پر چڑھ رہے ہیں ۔ تب اس نے انہیں روکا کہ اسے یقین تھا کہ یہ تار، یہ دھاگہ درمیان سے ٹوٹ جائے گا اور وہ سب واپس نیچے گر جائیں گے ۔
کینداتا نے ، چنانچہ ، اپنے جہنمی ساتھیوں پر چلانا شروع کر دیا ؛ ” اے گناہ گارو! میری بات دھیان سے سنو ۔ مکڑی کا یہ تار ، یہ دھاگہ میرا ہے ! تمہیں کس نے کہا کہ اس پر چڑھو ؟ نیچے اترو ! نیچے اترو! “
جیسے ہی اس نے یہ کہا تو مکڑی کا دھاگہ ، جس کے ، اس وقت تک ، ٹوٹنے کے کوئی آثار نہ تھے ، اس جگہ سے ذرا اوپر سے ٹوٹ گیا ، جہاں کینداتا نے اسے اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا ۔ کینداتا کا جسم لٹو کی طرح گھومتا ہوا، نیچے جاتے ہوئے ، اندھیارے میں غرق ہو گیا ۔
اور وہاں ، جہاں آسمان میں کوئی تارہ ، کوئی چاند نہ تھا جنتی مکڑی کا بُنا مہین دھاگہ اندھیارے میں نرماہٹ سے چمک رہا تھا ۔ کنولوں والے تالاب کے پاس کھڑے مہاتاما نے نیچے ہوتی یہ سب کارروائی دیکھی اور جب کینداتا کا جسم خون کی جھیل کی تہہ میں ایک پتھر کی مانند ڈوب گیا تو اس نے اپنی چہل قدمی پھر سے شروع کر دی ۔ وہ اداس تھا ۔
شاید مہاتاما کے دل میں کینداتا کے لئے بہت رحم تھا ، اس کینداتا کے لئے جسے اس کی سنگ دِلی کے کارن دوبارہ داخل جہنم کر دیا گیا تھا ۔
لیکن کنولوں والے تالاب میں موتیوں جیسے سفید پھول ، چالاکی ، خود غرضی یا اداسی کی پرواہ کئے بغیر مہاتاما گوتم بدھ کے قدموں کے پاس لہلہا رہے تھے اور ان کے پانی میں ڈوبے سنہرے ڈنڈھلوں سے، ایک ناقابل بیان ، بھینی بھینی خوشبو فضا کو ، ہمیشہ کی طرح ،مسلسل معطر کئے جا رہی تھی ۔ اس وقت ، شاید ، جنت میں دوپہر کا وقت تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔