سوال: وہ کیا ہے جو فولاد سے مضبوط، انسانی بال سے باریک اور کپڑے سے زیادہ لچکدار ہے؟
جواب: مکڑی کے جالے کا تار
سوال: تو پھر ہم اس کی مدد سے اب تک سپائیڈرمین کی طرح عمارتوں سے جھولتے مشکلات میں پھنسے لوگوں کی مدد کیوں نہیں کر رہے؟
جواب: مکڑیوں کی تنہائی پسند طبیعت کی وجہ سے
آپ جہاں کہیں بھی ہیں، رینگتی مکڑی آپ سے دور نہیں، لیکن اس کا جالا حیران کن ہے۔ مکڑی ایک ایسی چیز تیار کرتی ہے جس کا مقابلہ کسی اور چیز سے نہیں۔۔ مکڑی کے جالے کا ایک تار بمشکل ہی نظر آتا ہے لیکن جب مضبوطی کا مقابلہ ہو تو کئی مکڑیوں کے جالے فولاد اور کیولار سے بھی بہتر ہیں۔ اگر ایک تار دو انچ قطر کے پائپ جتنا موٹا ہو تو ایک ہوائی جہاز اٹھا لے گا۔
اس تار کا میٹیریل خود ایک طرح کا نہیں۔ دنیا میں اس وقت مکڑی کی چھیالیس ہزار انواع ہیں اور زیادہ تر انواع چار سے آٹھ مختلف طرح کا میٹیریل تیار کر سکتی ہے اور ایک ہی جالے میں یہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سنہری مکڑے کے جالے میں سات الگ طرح کا میٹیریل ہے۔ ان کی تصویر ساتھ کی ڈایاگرام میں۔
ڈریگ لائن سلک: اس سے مکڑی لٹک کر آگے بڑھتی ہے جیسے کسی کوہ پیما کی رسی اور اسی سے جالے کے باؤنڈری بنتی ہے۔
مائینر ایمپولیٹ سلک: اس سے جالے کا سٹرکچر بنتا ہے۔
فلیگلیفارم سلک: جالے کی گولائی جہاں شکار پھنستا ہے، یہ لچکدار ہوتی ہے۔
ایگریگیٹ سلک: یہ گوند کی طرح ہے اور فلگلیفارم سلک کو جوڑ کر رکھتی ہے کہ کھیچنے پر یہ ٹوٹ نہ جائے۔
پائیریفارم سلک: یہ سیمنٹ کی طرح ہے اور جالے کو دیوار یا درخت سے جوڑ لگاتی ہے۔
ایکنیفارم سلک: اس سے شکار کو لپیٹتی ہے۔
ٹیوبلیفارم سلک: اس سے مکڑی انڈوں کو لپیٹ کر محفوظ کرتی ہے۔
ہر طرح کا ریشہ پروٹینز سے بنا ہے اور اس میں سب سے اہم وہ جو سپائیڈرائنز کہلاتی ہیں، جو صرف مکڑی سے خاص ہیں۔ مکڑی کے جسم میں ریشے کے غدود ہیں جہاں پر گاڑھی مائع پروٹینز موجود ہوتی ہیں، ویسا جیسے شہد ہو۔ ہر پروٹین کی زنجیر کے اجزاء بیس امینو ایسڈ ہیں۔ ہر ایک کو بنانے کی ترکیب اس کے جینز میں لکھی ہے۔ امینو ایسڈ کی اپنی زنجیروں میں کیا ترتیب ہو گی،یہ طے کرتی ہے کہ پروٹین کیسی ہو گی اور کیا کرے گی۔ مکڑی کے ریشے کی پروٹین بڑے خاص طریقے سے بنی ہیں۔ اس کو ایک لمبی ٹرین کے ڈبوں کی طرح سمجھ لیں۔ ہر ڈبہ امینو ایسڈ کی ترتیب ہے۔ یہ ڈبے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر لمبی ٹرین بنا دیتے ہیں۔ یہ ٹرین وہ پروٹین ہے اور اس سے یہ جالا بنتا ہے۔ ہر قسم کے ریشے میں ڈبے میں امینو ایسڈ کی ترتیب میں تھوڑا سا فرق ہے۔
مکڑیوں نے ان ریشوں کو استعمال کرنے کے اپنے اپنے خاص طریقے بھی نکال لئے ہیں۔ ٹریپ ڈور مکڑی اس جالے سے چھپنے کی جگہ بنا لیتی ہے۔ اوگر مکڑی اپنے جالے کو مچھیرے کے جال کی طرح پھینکتی ہے۔ لال کمر والی مکڑی اپنے جالے کو بند ہو جانے والے پھندے کی طرح بنتی ہے جو شکار کو جالے کی طرف کھینچ لیتا ہے۔ کچھ مکڑیاں زیریلا ریشہ پھینکتی ہیں۔ چھوٹی مکڑیاں اپنے جالے کو ہوا میں بادبان بنا کر اڑنے کے لے بھی استعمال کرتی ہیں اور کئی کلومیٹر کا سفر کر لیتی ہیں۔ ان کی اس حرکت کو بیلنوننگ کہتے ہیں۔
عنبر میں محفوظ مکڑیوں سے پتہ لگتا ہے کہ مکڑیاں یہ کام کروڑوں برس سے کر رہی ہیں۔
اس قدر زبردست میٹیریل ہم استعال کیوں نہیں کر رہے؟ اس کی وجہ مکڑی کی معاشرت ہے۔ ہم ریشم کے کیڑے کا ریشہ اس کی فارمنگ کر کے استعمال کر لیتے ہیں لیکن مکڑی کا فارم نہیں بنایا جا سکتا۔ مکڑی سوشل جانور نہیں اور مل جل کر نہیں رہتا۔ قریب رہنے والی ایک مکڑی دوسری کو کھا جاتی ہے۔ لیکن یہ اس قدر شاندار میٹیریل ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان کا طریقہ یہ کہ مکڑی کی جین کو کسی دوسرے جاندار میں ڈال کر یہ کام اس سے کروایا جائے۔ یہ دوسرا جاندار کوئی بیکٹیریا، پودا، ریشم کا کیڑا یا بکری ہو سکتا ہے۔ بکری میں یہ جین ڈال کر اس کے دودھ سے یہ ڈریگ لائن سلک کامیابی سے نکالا جا چکا ہے۔ ایک لیٹر دودھ سے ایک گرام تار نکلتا ہے۔ اسی طرح ای کولی بیکٹیریا اور ریشم کی کیڑے سے بھی اسے بنایا جا چکا ہے لیکن یہ طریقہ ابھی سستا نہیں کہ بڑے پیمانے پر اسے حاصل کیا جا سکے۔
مکڑی کا یہ تار ہمیں بتاتا ہے کہ کروڑ ہا کروڑ سال سے فطرت کے کئے تجربات کے نتیجے میں بننے والی حیرت انگیز چیزوں کا مقابلہ ابھی تک ہم نہیں کر سکتے لیکن ممکن ہے کہ ہم کسی چور دروازے سے نقب لگا کر ان سے بنتی چیزوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں۔
اس کا زیادہ مواد یہاں سے