ایاز صادق مکڑی کے گھر میں رہ رہے تھے۔ بیت العنکبوت میں! مکڑی کا گھر کب تک سہارتا! انّ اوہن البیوت لبیت العنکبوت! سب گھروں میں بودا‘ کمزور ترین گھر‘ مکڑی کا ہوتا ہے! یہ سب مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ یہ سارے گھر ٹوٹیں گے۔ قدرت کی تعمیر میں نظم ہے تو تخریب اور پھر تعمیرِ نو میں بھی ترتیب ہے۔ اقلیم سات ہیں تو آسمان بھی سات ہیں! ہفت اقلیم پر ہفت آسمان ترتیب سے گریں گے۔ دیکھتے جایئے ؎
یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہارؔ
ذرا اک صبر! عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں
لاکھوں شہیدوں کا خون اس مٹی میں اس لیے نہیں سمایا تھا کہ زرداری‘ شریف‘ چودھری‘ سردار اور ان کے گماشتے ازمنۂ وسطیٰ کے بادشاہوں کے انداز میں اپنی زندگیوں کو عشرت گاہوں میں بدل لیں۔ کبھی فہمیدہ ذوالفقار آ کر کروڑوں کے قرضوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیں اور کبھی ایاز صادق اور ان کے فرزند ارجمند اعلان کریں کہ ٹربیونل کا فیصلہ درست ہے مگر دھاندلی تو نہیں ہوئی نا! کیا دلیل ہے! کیا یہ دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ یہ مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پیروں تلے سے ساحل کی لہریں ریت سرکاتی ہیں تو یہ زمین کو الزام دیتے ہیں! ریت کو نہیں!
مکڑی کے سارے گھر گریں گے۔ موسم بدلے گا۔ رُت گدرائے گی۔ دیوسائی کے فلک بوس میدان میں آسمانی رنگوں والے ہزاروں پھول کھلیں گے۔ شمالی علاقوں میں پہاڑوں کی ترائیوں پر لگے درختوں کی شاخیں سرخ سیبوں کے بوجھ سے جھک جائیں گی۔ راکاپوشی کی چوٹی پر چمکنے والی برف اپنی سفیدی کو میدانوں میں سفیر بنا کر بھیجے گی تاکہ بخت کی سیاہی چھٹ جائے۔
کوئٹہ میں شگفتِ گلِ بادام کی رُت آئے گی۔ سندھ کے ریگستانوں میں ریت سے چمکتا ہوا سونا نکلے گا! قبائلی علاقوں کے سر سے سیاہ رات ہٹے گی! خانوں اور ملکوں اور ان میں قوم کی خون پسینے کی کمائی بانٹنے اور آدھی جیبوں میں ڈالنے والے کرپٹ پولیٹیکل ایجنٹوں کا یومِ حساب آئے گا۔ وزیرستان میں اور پہاڑوں اور پتھروں سے بھری ہوئی ویران ایجنسیوں میں کالج اور یونیورسٹیاں بنیں گی‘ سب کچھ ہوگا! ضرور ہوگا! یہ مضمون آرائی ہے نہ شاعری! خوش فہمی ہے نہ رنگین عینک کا دھوکا! اس لیے کہ دعویٰ یہ نہیں ہے کہ بادلوں سے روپے گریں گے اور درختوں پر سونے کے پھل لگیں گے! تبدیلی ایک طویل عمل ہے۔ ایک
Process
ہے۔ اس طویل عمل کا آغاز ہو چکا ہے! یہ
Process
شروع ہو چکا ہے! اسے روکا نہیں جا سکتا! اسے کہیں بھی روکا نہیں گیا! اسے سنگاپور میں نہیں روکا جا سکا۔ اسے جنوبی کوریا میں‘ تائیوان میں‘ یو اے ای میں‘ کہیں بھی نہیں روکا جا سکا! آج کے چین کا تیس سال پہلے کے چین سے موازنہ کر لیجیے!
نہیں! یہ طویل عمل ہماری زندگیوں میں مکمل نہیں ہوگا! مگر ہوگا ضرور ؎
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈوبنے کے بعد ابھریں گے نئے تارے
جبینِ دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
اس لیے کہ تبدیلی کا یہ محض آغاز ہے اور نااہلی‘ بددیانتی اور کرپشن پورے ملک پر ایک وسیع و عریض سائبان کی طرح تنی ہوئی ہے۔ یہ جو الیکشن ٹربیونل نے لکھا ہے کہ این اے 122 میں اور پی پی 147 میں الیکشن قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ عملے کی کارکردگی ناقص تھی۔ ترانوے ہزار سے زیادہ فائلوں کی تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ انگوٹھے لگانے والی مقناطیسی سیاہی ناقص تھی۔ چھ ہزار سے زیادہ کائونٹر فائلوں پر درج شناختی کارڈ نمبر نادرا کے جاری کردہ ہی نہیں تھے۔ اڑھائی ہزار ووٹوں کی کائونٹر فائلوں پر عملے کے کسی کارکن کے دستخط ہی نہیں پائے گئے۔ ساڑھے سات سو ووٹوں پر پریذائیڈنگ افسر کی مُہر ہی ندارد تھی! تو یہ اور بہت کچھ کیا ثابت کرتا ہے؟ نااہلی! جہاں نااہلی کا دور دورہ ہو‘ دھاندلی وہیں ہوتی ہے اس لیے کہ چیک اور بیلنس‘ جانچ اور پڑتال‘ کچھ بھی نہیں ہوتا!
کیا آپ کو یاد ہے بھوجا ایئرلائن کا جہاز کچھ سال پہلے چک لالہ ایئرپورٹ کے پاس گر کر تباہ ہوا۔ کیوں؟ اس لیے کہ جس ٹیکنیکل عملے نے جہاز کو فِٹ قرار دیا تھا‘ وہ نااہل تھا! جہاز فِٹ نہیں تھا! عملے اور پائلٹ کو بھرتی کرنے والے نااہل تھے! کل کے پریس میں رونا رویا گیا ہے کہ لاہور پنڈی موٹروے کی تازہ مرمت اور رینوویشن معیار سے کہیں نیچے ہے۔ کیوں؟ نااہلی! لاکھوں غیر ملکی ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ کیوں؟ متعلقہ محکموں کی نااہلی! لاکھوں شناختی کارڈوں اور پاسپورٹوں کا اجرا! وجہ؟ نااہلی! یہ درست ہے کہ یہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ثبوت لے کر جاری کیے گئے مگر رشوت لے کر جاری کرنے والوں کے اوپر جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ نااہل ہیں! انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ نیچے کیا ہو رہا ہے۔
نااہلی کا سبب کیا ہے؟ کام چوری‘ نگرانی کی کمی! ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے! پاکستان سول سروس کا ایک سینئر افسر‘ محکمے سے چھپ چھپا کر‘ کسی بہانے سے طویل رخصت منظور کروا کر‘ کینیڈا ہجرت کر گیا۔ وہاں وہ کاریں بنانے والی ایک کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے طلب کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اخبار بینی ذاتی کام ہے دفتری اوقات میں اس کی اجازت نہیں! اس نے کہا کہ اُس وقت وہ فارغ تھا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ دوسرا جرم ہے۔ فراغت کیا معنی؟ کام تو پیدا
(Create)
کرنا ہوگا! نیوزی لینڈ میں ملازمت کرنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ دفتری اوقات میں چند منٹ کے لیے انہوں نے یوٹیوب پر کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھی۔ دوسرے دن انہیں نکال دیا گیا! اس کے مقابلے میں ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو نااہلی کی وجوہ صاف معلوم ہو جاتی ہیں‘ حکومت میں کیا افسر اور کیا سٹاف! اکثریت دس بجے کے بعد آتی ہے۔ کیفے ٹیریا اور کینٹینیں اوقاتِ کار کے اندر ’’گاہکوں‘‘ سے چھلک رہی ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ہسپتالوں میں‘ پرائیویٹ اور سرکاری دونوں اقسام کے ہسپتالوں میں‘ بڑے ڈاکٹر صبح سات بجے آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لوگ اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ پھر کبھی چائے کے لیے اور کبھی ’’میٹنگ‘‘ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں‘ آپ کسی ادارے کو دیکھ لیں‘ ان کے صحن‘ برآمدے‘ لان‘ کیفے ٹیریا‘ سارا دن اُن ملازمین سے بھرے رہتے ہیں جنہیں اپنی نشستوں پر ہونا چاہیے۔ گھنٹوں کھڑے ہو کر دھوپ سینکی جاتی ہے۔ تمباکو نوشی ہوتی ہے اور سیاست پر بحث مباحثے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! ریلوے‘ واپڈا‘ پی ڈبلیو ڈی‘ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے‘ پی ٹی سی ایل‘ سوئی گیس‘ شفاخانے‘ کچہریاں‘ تھانے‘ ایجوکیشن کے دفاتر‘ کہیں چلے جایئے‘ متعلقہ شخص شاید ہی میسر ہو! نمازوں پر زور! دوسروں کی برائیاں! غیر مسلموں سے نفرت اور حقارت‘ بشارتوں‘ خوابوں‘ نشانیوں‘ کرامتوں کا ہجوم! اور تنخواہیں حرام کی!
یہ سب کچھ بدلنا ہوگا! یہ سب کچھ بدلے گا! یہ ایک راحیل شریف اور ایک عمران خان کے بس کی بات نہیں! ہمیں پے در پے ایسی لیڈر شپ درکار ہوگی! ہمیں بھارت کی طرح پے در پے کئی حکمران ایسے چاہیے ہوں گے جن کے بینک بیلنس‘ محلات اور کارخانے ملک سے باہر نہ ہوں! یہ ناممکن نہیں! ہرگز نہیں! اگر بلاول ہائوس کے اردگرد پھیری گئی دیوار‘ جس نے شاہراہ کو مسدود کر رکھا تھا‘ گر سکتی ہے! اگر سندھ کے محکمے بتا سکتے ہیں کہ ’’رقوم‘‘ کہاں پہنچائی جاتی ہیں‘ اگر گیلانی اور امین فہیم کے مقدمے ازسرنو زندہ ہو سکتے ہیں اگر ایسے سپیکر کا خیمہ اکھڑ سکتا ہے جس کی پشت پر پوری وفاقی حکومت اور پوری پنجاب حکومت کھڑی ہو تو اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ہوگا! یہ ملک کرپٹ سیاستدانوں کا ترنوالہ ہے نہ مذہب کے نام پر لوگوں کو الجھانے والے چرب زبانوں کی جاگیر! عوام اُن سیاست دانوں کو پہچان چکے ہیں جن کا اول آخر اقتدار اور صرف اقتدار ہے۔ لوگ اُن گدی نشینوں سے اکتا چکے ہیں جو کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور اُن مبلغین پر ہنستے ہیں جو تشہیر کے بھوکے ہیں! عام آدمی اگر پہلے نہیں تھا تو اب سیانا ہوچکا ہے! سیانا ہونے کو کافی سمجھا جائے۔ اُسے جارحیت پر مجبور نہ کیا جائے ؎
اپنا حق شہزاد ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں
رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔