آج – 31/دسمبر 1938
ممتازجدید شاعر، رسالہ ’تحریک‘ سے وابستگی کے لیے معروف شاعر” مخمور سعیدی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سلطان محمد خاں اور تخلص مخمورؔ ہے۔ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کو ٹونک(راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔اسسٹنٹ سیکریٹری ، اردو اکادمی، نئی دہلی کے عہدے پر فائز رہے۔ بسملؔ سعیدی سے تلمذ حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’گفتنی‘‘، ’’سیہ برسفید‘‘، ’’آواز کا جسم‘‘، ’’سب رنگ‘‘، ’’واحد متکلم‘‘، ’’آتے جاتے لمحوں کی صدا‘‘، ’’بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا‘‘ (شعری مجموعے)، ’’تجدیدِ جنوں‘‘ (منظوم تراجم)، ’’ساحر لدھیانوی۔ایک مطالعہ‘‘ (مرتبہ)، ’’قصہ جدیدوقدیم‘‘ (ایک ادبی مباحثہ)، ’’عمر گذشتہ کا حساب ‘‘ (جلد اول ودوم)، ’’شیرازہ‘‘ (ہم عصر شاعری کا انتخاب)۔ ان کے مجموعی خدمات پر راجستھان اور دہلی اردو اکادمی نے انعامات دیے۔ مخمورؔ سعیدی کو ’ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘ ان کی کتاب ’’راستہ اور میں‘‘ پر بھی دیا گیا۔
مخمور سعیدی، 2 مارچ 2010ء کو جے پور میں ہوئی اور ٹونک میں سپرد خاک ہوئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:336
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
مشہور شاعر مخمورؔ سعیدی کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے
—
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں
ہزار بار جسے آزما لیا میں نے
—
کچھ یوں لگتا ہے ترے ساتھ ہی گزرا وہ بھی
ہم نے جو وقت ترے ساتھ گزارا ہی نہیں
—
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے
—
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں
—
یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں
پرائی آگ میں جلتے نہیں ہیں پروانے
—
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے
—
مصلحت کے ہزار پردے ہیں
میرے چہرے پہ کتنے چہرے ہیں
—
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے
—
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیاں
—
رختِ سفر جو پاس ہمارے نہ تھا تو کیا
شوقِ سفر کو ساتھ لیا اور چل پڑے
—
جانبِ کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے
—
اب آ گئے ہو تو ٹھہرو خرابۂ دل میں
یہ وہ جگہ ہے جہاں زندگی سنورتی ہے
—
بجھتی آنکھوں میں سلگتے ہوئے احساس کی لو
ایک شعلہ سا چمکتا پسِ شبنم دیکھا
—
راستے شہر کے سب بند ہوئے ہیں تم پر
گھر سے نکلو گے تو مخمورؔ کدھر جاؤ گے
—
بس یوں ہی ہم سری اہلِ جہاں ممکن ہے
دم بدم اپنی بلندی سے اترتا جاؤں
—
ان سے امیدِ ملاقات کے بعد اے مخمورؔ
مدتوں تک نہ خود اپنے سے ملاقات ہوئی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مخمورؔ سعیدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ