بزرگ فیض شناس اشفاق سلیم مرزا کا خیال تھا کہ فیض ساری زندگی کی رجائیت پسندی کے بعد عمر کے آخری حصے میں یاس کا شکار ہو گئے تھے۔ اس پر یہ فقیر بات کرنا چاہتا تھا لیکن خورشید ندیم نے اعلان کیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پروگرام کرنیوالے کو ایک ایک لحظے کا حساب دینا پڑتا ہے۔
فیض صاحب اگر زندگی بھر رجائیت پسند رہے تو یہ ان کا اپنا قصور تھا۔ لیکن اصل مسئلہ فیض صاحب کا نہیں ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کب پرامید تھے اور کب مایوسی انہیں آنکھ مارتی تھی اصل مسئلہ اور ہے …؎
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے
سوال یہ ہے کہ کیا برصغیر میں انقلاب کی روایت موجود ہے؟ جب یہاں ایسی کوئی روایت ہی موجود نہیں تو رجائیت پسندی کی کیا بنیاد ہے؟ کچھ نہیں! کچھ بھی نہیں! مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ برما کے ساحلوں سے لے کر خراسان کے سلسلہ ہائے کوہ تک۔ بادشاہ اپنے پسندیدہ کفش برداروں کو سونے چاندی میں تولتے تھے۔ اس وقت پوری مغل سلطنت کی دولت کا ایک چوتھائی حصہ چھ سو افراد کی ملکیت میں تھا! چھ سو سے بھی کم! اکثریت لنگوٹی میں ملبوس تھی اور جھونپڑوں میں رہائش پذیر۔ کون سا انقلاب برپا ہوا؟ اس سے بھی پیچھے چلے جائیے۔ ابن بطوطہ نے تغلقوں کے عہد میں ملتان سے دلی جاتے ہوئے زندہ انسانوں کی بادشاہ کے حکم سے کھالیں کھنچتی دیکھیں! انقلاب کا دور دور تک نشان نہیں تھا!
خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں جو ’’توحید پرست‘‘ نجومیوں پر پیشگوئیوں اور ایمان رکھتے ہیں ان کا علاج حکیم جالینوس کے مطب میں بھی نہیں اور نہ ہی یہ قنوطیت ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ سے سبق سیکھنا قنوطیت نہیں کہلاتا۔
آخر آپ مستقبل کی
Projection
کیسے کریں گے؟ ستارے دیکھ کر؟ زائچے نکال کر؟ یا ہاتھ کی لکیروں سے؟ نہیں! بلکہ سائنس کا بنیادی اصول ہے۔ آپ ماضی کے حقائق کو نمونہ
(Sample)
کے طور پر لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اندازہ لگاتے ہیں۔
معروف امریکی تاریخ دان باربرا ٹک مین تو عقل مندی (وِزڈم) کی تعریف ہی یہی کرتی ہے کہ تین چیزوں کی مدد سے فیصلہ کرنا۔ اول معلوم اعداد و شمار۔ دوم ماضی اور حال کو نمونہ سمجھ کر آنیوالے دنوں کا اندازہ اور سوم کامن سنس! آپ ہمارے قبائلی علاقوں کی مثال لے لیجئے۔ اس کالم نگار نے باربار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہے کہ باسٹھ سالوں میں پولیٹیکل ایجنٹوں نے جن ملکوں اور خانوں کو حکومت کی طرف سے دولت کے انبار دئیے ہیں قوم کو ان کا حساب دیا جائے! عام قبائلی کو کیا ملا؟ بندوق! اور اس کے بچوں کو غلیل! تف ہے ان پر جو ہمارے قبائلی بچوں کو بندوق اور غلیل کے ساتھ ثقافت، کے نام پر دکھا رہے ہیں۔ آخر ان کے ہاتھ میں کتاب اور لیپ ٹاپ کیوں نہیں دیا گیا؟
اخبارات میں شہ سرخیوں کیساتھ ان ’’عمائدین‘‘ کے نام شائع ہو رہے ہیں جنہوں نے پندرہ پندرہ کروڑ روپے میں سینٹ کی نشستیں خریدیں اور ماضی میں پجارو کے بدلے ووٹ فروخت کئے۔ انقلاب آنا ہوتا تو ان لوگوں کو اب تک پھانسی دی جا چکی ہوتی جو قبائلی علاقوں میں ایک یونیورسٹی بھی نہ بنا سکے! آخر کالج اور یونیورسٹیاں لاہور کراچی اور پشاور ہی کیوں بنتی رہیں؟
کیا وزیروں، محسودوں، آفریدیوں، شنواریوں اور مہمندوں کے بیٹے اور بیٹیاں سوتیلی تھیں جن کیلئے آج تک … ہاں … آج تک کوئی یونیورسٹی نہ بنائی گئی؟ کیا ملک انہیں تحفے میں بیت اللہ محسود، فضل اللہ اور مسلم خان کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا تھا؟
آٹھ برس.- چھیانوے مہینے -تقریباً تین ہزار دن۔ یہ عرصہ تھوڑا نہیں۔ پرویز مشرف نے ملک کی خود مختاری فروخت کر ڈالی اور دس حسنی مبارکوں سے زیادہ آمر بنا رہا۔ کون سا انقلاب آیا؟ درست ہے کہ چیف جسٹس ڈٹ گیا اور وکیل اکٹھے ہوئے لیکن انقلاب وہ ہوتا ہے جہاں نظام بدلے اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ یہاں تو کالے کوٹوں والے خود ہی اینٹیں مار مار کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں اور عدالتوں میں ان پڑھوں کی طرح مرنے مارنے کے ہنگامے کر رہے ہیں صرف اس لئے کہ مجرم وکیل ہے اسے کوئی سزا نہ دی جائے! انقلاب ادھر کا رخ نہیں کرتے جہاں عورتیں صحرائوں میں زندہ دفن کر دی جائیں اور پنچایتیں قتل کی سزائیں دیتی پھریں۔
خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے والے عوام کیا انقلاب لائیں گے۔ یہ عوام تو جمشید دستیوں کو ووٹ دے کر ہار پہناتے ہیں۔ عدلیہ نے پنجاب کے دوبارہ ملازمتوں پر فائز ہونے والے آٹھ افسر نکالے تو عوام ڈھول بجا رہے ہیں انہیں یہی نہیں معلوم کہ پنجاب پبلک سروس کمشن ایک سیاسی خانوادے کی ذاتی جاگیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر وہ افسر جس نے تیس سالہ ملازمت میں خانوادے کی نوکری کی وہاں بٹھا دیا گیا ہے۔
سیاسی خانوادے تو ایک طرف مذہبی خانوادوں کی گرفت اور بھی زیادہ مضبوط ہے۔ لوگ انسانوں کو قسمتوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد روحانیت کا لبادہ اوڑھ کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ کروڑوں عورتیں ہر روز مزاروں کی مٹی پھانکتی ہیں اور ملنگوں سے اولاد کے تحفے لیتی ہیں۔ جو منع کرے اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ غضب خدا کا۔ مسجدیں وراثت میں مل رہی ہیں۔ اللہ کے گھر خاندانوں کے قبضے میں ہیں۔ باپ مرتا ہے تو بیٹا مسجد کا مالک بن جاتا ہے۔ پھر اس کا بیٹا اور پھر اس کا بیٹا۔ نمازیوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کن کی اقتدا میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک مولانا سے ایف آئی اے نے پوچھا کہ ان کے اکائونٹ میں دولت کہاں سے آئی جواب ملا مدرسہ چلا رہے ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون۔
انقلاب آ سکتا ہے۔ انقلاب نے قسم نہیں اٹھا رکھی کہ وہ کبھی نہیں آئے گا۔ لیکن اس کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ کم از کم چار پانچ کام۔ حضور! زرعی اصلاحات لائیے وہی جو بھارت نے تقسیم کے چار سال بعد ہی نافذ کر دی تھیں۔ وہاں آج سرداری ہے نہ جاگیرداری۔ ریاستوں کے نواب تاریخ کی دھول میں تحلیل ہو گئے۔
ہمارے ایک ضلع جتنا بھارتی پنجاب پورے بھارت کو گندم اور چاول دے رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کرائیے تاکہ متوسط طبقہ پالیسی سازی کی سطح پر آ سکے اور ان قائدین سے نجات ملے جو جمع کرنے اور گننے کے کوڑھ میں مبتلا ہیں۔ آخر ایسی جمہوریتیں بھی تو موجود ہیں جہاں لوگ شخصیتوں کو نہیں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں صرف اس بنیاد پر کہ کون سی پارٹی کا منشور سب سے اچھا ہے۔ پھر الیکشن کمشن پارٹی کو بتاتا ہے کہ تمہاری اتنی نشستیں ہیں۔ نمائندے بھیجو، اس کے بعد پارٹی کے اندر مقابلہ ہوتا ہے اور جیتنے والے سیاستدان اسمبلی میں جا پہنچتے ہیں۔ کوئی قتل نہیں ہوتا کوئی ہارنے والا دھاندلی کا شور نہیں مچاتا نہ ہی نئی جماعت بنانے کا اعلان کرتا ہے۔ آپ سیاسی برداشت کی تازہ ترین مثال دیکھئے۔ ہیلری کلنٹن اوباما کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھی۔ ہار گئی۔ جب اوبامہ نے اسے وزارت خارجہ کے قلم دان کی پیشکش کی تو قبول کرتے ہوئے اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آیا۔ اس برداشت اور وسیع القلبی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پارٹیاں خاندانوں کی ملکیت نہیں۔
احتساب کیجئے، ان کا بھی جو مقدس گائے کا درجہ رکھتے ہیں اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس نہ دینے والے سے ایک ایک پائی وصول کیجئے۔ چینی اور آٹے کی قلت پیدا کرنے والے معززین کو جلتے ہوئے تنوروں میں پھینکئے یہ سب کچھ کیجئے اور پھر دیکھئے انقلاب آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے یا نہیں۔
لیکن یہ سب کام کون کرے گا؟ یہ کام ایسے لیڈر کرتے ہیں جن کی نظر میں مال و متاع کی وقعت نہیں ہوتی۔ جن کی زندگی کا مقصد اپنی جاگیروں کو وسعت دینا اور محلات میں اضافہ کرنا ہو۔ وہ ایسے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ تم کس دنیا پر فخر کرتے ہو؟ جس کا بہترین مشروب مکھی کی تھوک (شہد) ہے اور جس کا بہترین لباس کیڑے کا تھوک (ریشم) ہے! جس کے حلال میں حساب ہے اور جس کے حرام میں عذاب ہے! وہ کیا انقلاب لائیں گے جو مکھی اور کیڑے کی تھوک پر مکھیوں اور کیڑوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2011_02_01_archive.html
“