آج – ٢٥؍ اگست ١٩٦٩
اہم ترقی پسند شاعر، ان کی کچھ غزلیں ’ بازار‘ اور ’ گمن‘ جیسی فلموں کے سبب مقبول اور معروف شاعر” مخدومؔ محی الدین صاحب “ کا یومِ وفات…
مخدومؔ محی الدین نام ابو سعید محمد مخدوم محی الدین حذری۔ ۴؍فروری ۱۹۰۸ء کو سنگاریڈی ، تعلقہ اندول ،ضلع میدک حیدرآباد ، دکن میں پیدا ہوئے۔ مخدومؔ نے قرآن شریف ختم کرنے کے بعد دینیات کی تعلیم پائی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ۱۹۳۴ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ۱۹۳۶ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۳۶ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں چند وجوہ کی بنا پر مستعفی ہوگئے۔ ۱۹۴۰ء میں مخدوم کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری منتخب ہوئے۔اس طرح ان کی سیاسی مصروفیتیں بہت بڑھ گئیں۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدومؔ کی رہنمائی میں ہوئی۔ ۱۹۵۶ء میں عام انتخابات کے موقع پر وہ آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی وفات تک وہ اس کے رکن رہے۔ انھوں نے پابند اور آزاد نظمیں بھی لکھیں۔ قطعات، رباعی اور غزلوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ زندگی کے آخری ایام میں مخدوم کو سینے اور حلق کی تکلیف تھی۔ وہ ۲۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو دہلی میں انتقال کرگئے ۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’ سرخ سویرا ‘، ’ گلِ تر ‘، ’ بساطِ رقص‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:405
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ترقی پسند شاعر مخدومؔ محی الدین کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا
ایک افسانہ تھا افسانے سے افسانہ بنا
—
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
—
تمام عمر چلی ہے تمام عمر چلے
الٰہی ختم نہ ہو یار غمِ گسار کی بات
—
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر
( فلم گمن)
—
کمان ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل
تمام رات غزل گائیں دیدِ یار کریں
—
ماضی کی یادگار سہی یادِ دل تو ہے
طرزِ نشاط نوحہ گراں دیکھتے چلیں
—
وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں
ان کو لا لا کے بٹھایا گیا دیوانوں میں
—
ساز آہستہ ذرا گردشِ جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
—
اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے
ایک آنسو جو سرِ چشمِ وفا ہوتا ہے
—
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
—
تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے
دار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے
—
اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو
کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے
—
تمہارے جسم کا سورج جہاں جہاں ٹوٹا
وہیں وہیں مری زنجیر جاں بھی ٹوٹی ہے
—
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
—
سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں
کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب
—
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
—
شکست و ریخت زمانے کی خوب ہے مخدومؔ
خودی تو ٹوٹی تھی خوئے بتاں بھی ٹوٹی ہے
مخدومؔ محی الدین
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ