(Last Updated On: )
2009ء میں نیویارک میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے اندر دنیا کے سب سے قیمتی اور نایاب ریشم کو نمائش کے لئے پیش کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں موجود خالص سلک کا یہ سب سے بڑا کپڑے کا ٹکڑا ہے ۔ یہ یقینا اپنی طرز کا ایک منفرد کپڑا ہے اور اس کی تخلیق بھی دلچسپ اور معلوماتی ہے ۔
ریشم کا یہ کپڑا برطانوی ٹیکسٹائل آرٹسٹ سائمن پیئرز اور اسکے امریکی بزنس پارٹنر نکولس گوڈلے کا تیار کردہ ہے اور اسکی تکمیل میں پانچ سال کا وقت اور تین لاکھ پاونڈز کی خطیر رقم خرچ کی گئی اور تین اعشاریہ چار میٹر بائی ایک اعشاریہ دو میٹر خالص ریشمی کپڑے کا ٹکڑا تیار ہوا ۔
یہ ریشم کا کپڑا ایک شال کی شکل میں تیار کیا گیا ہے اور اس کے لئے انسپائریشن انیسویں صدی کی فرانسیسی کمپنی سے لی گئی ہے جو کہ مکڑے کا ریشم بنانے کا کام کرتے تھے اگرچہ ماضی میں مکڑے سے حاصل کردہ ریشم سے کپڑے بنانے کی کئی کوششیں کی گئی اور اس مقصد میں کامیاب ہونے والے آرٹسٹ کا نام فادر کامبوائے تھا اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں مکڑی کے جالوں کو دوسرے کئی کاموں میں استعمال کرنے کے لئے بھی اکٹھا کیا جاتا تھا ۔ قدیم یونانی اس کو زخموں کے علاج میں استعمال کیا کرتے تھے ۔ فادر کامبوائے میڈگاسکر میں ایک چرچ کا مالک تھا اس نے جزیرے پر پائے جانے والے خاص قسم کی مکڑیوں کو ریشم بنانے کے لئے استعمال کیا ۔
اپنے کاروباری دوست کے ساتھ مل کر اس نے وہاں ایک کمپنی شروع کی جس کے بنے ہوئے مکڑی کے ریشم کا تیار کردہ بستر کی چادروں کا مکمل سیٹ 1898ء میں منعقد ہونے والے پیرس ایکسپو میں بھی پیش کیا گیا تھا ۔ اب ان کی بنائی ہوئی مصنوعات اگرچہ موجود نہیں ہیں لیکن پورے سو سال بعد کہیں جا کر پیئرز اور گوڈلے نے ان سے متاثر ہو کر اس انڈسٹری میں اپنا کام شروع کیا ۔
ایک اور غیر معمولی کام اس مشین کی تیاری تھی جو کہ انھوں نے خود بنائی ۔ یہ مشین ہاتھ سے چلتی تھی اور کوئی نقصان پہنچائے بغیر ایک وقت میں چوبیس مکڑیوں سے ریشم اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ پیئرز نے انیسویں صدی میں استعمال ہونے والی مشین کی طرز پر ہی ایک نئی مشین بنائی تاکہ مکڑی کا ریشم تیار کرنے کا کام شروع ہو سکے لیکن اس سے پہلے ایک اس سے بھی مشکل مرحلہ مکڑیوں کو پکڑنے کا درپیش تھا ۔ اس مقصد کے لئے جو مکڑیاں استعمال کی گئی وہ شمالی اور جنوبی افریقہ کے علاوہ کچھ جزیروں جن میں میڈاگاسکر بھی شامل ہے ، میں پائی جانے والی تھیں اور ان کی ٹانگیں سرخ اور جال سنہری ریشم کا تھا لیکن انکی صرف مادہ ہی سے ریشم کا حصول ممکن تھا وہ بھی انکے بنے ہوئے جالوں کی صورت میں تھا یہ جالے سورج کی روشنی میں اتنے چمکدار ہوتے ہیں کہ شکار انکی چمک کی وجہ سے ہی ان میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔
پیئرز اور گوڈلے کو اپنی شال بنانے کے لئے یہ سرخ ٹانگوں والی سنہری جالوں والی کئی لاکھوں مادہ مکڑیوں کی ضرورت تھی ۔ یہ مکڑیاں جزیرے پر وافر مقدار میں موجود تھیں اور جب ریشم کی کمی ہوتی تو وہ ویرانوں میں چلی جایا کرتی تھیں اور کچھ ہفتوں کے وقفے سے وہ ریشم دوبارہ بنا لیا کرتی تھی چونکہ یہ ریشم صرف برسات کے موسم میں بناتی ہیں تو ان کو پکڑنے کی ضرورت اکتوبر سے لے کر جون تک رہتی تھی ۔
آخر کار ، چار سالوں بعد سنہری رنگ کی ایک شال تیار ہو پائی جو کہ امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری نیو یارک میں پہلے نمائش کے لئے پیش کی گئی اور بعد میں وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں رکھی گئی جو کہ اس لئے شائقین کی توجہ کھینچ رہی تھی کہ مکڑی کا جالا بھی پہننے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے ۔
لیکن اس کپڑے کی زیادہ تیاری ممکن نہیں کیونکہ اگر انکو زیادہ بڑے پیمانے پر پالنے کا کام شروع کیا جائے تو یہ خود کو ہی کھانا شروع کر دیتی ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ مکڑی کے جالوں کا ریشم نرم اور ڈھیلا ہونے کے باوجود مضبوط بھی ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لئے یہ کام ایک چیلنج بن گیا ہے اور وہ اسکو تیار کرنے کے لئے مختلف طریقوں کی تلاش میں ہیں جن میں سے ایک مکڑی کی جینز کو دوسرے جانوروں میں داخل کر کے جالا تیار کرنے کی ہے مثلا بھیڑ بکریوں پر سائنسدان یہ تجربہ کر چکے ہیں جو کہ ناکام ہو گیا اور اگر آپ کے دل میں بھی یہ خواہش جاگی ہے اور آپ بھی یہ نادر و نایاب انتہائی خوبصورت سنہری ریشم پہننا چاہیں تو یقینا مکڑیوں کو ہی بڑی تعداد میں اکٹھا کرنا ہو گا جو کہ اتنا آسان نہیں ہے ۔۔
غالب نے کیا ہی خوب کہا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے