مکاں کیوں ہو رہے ہیں گھر ہمارے۔۔2۔
—————————-یہ دوسرا اور آخری حصۃ آپکی راے کا طلبگار ہے
۔نچلے طبقے سے زیادہ یہ اپر کلاس کا مسؑلہ ہے ۔ میں نے کراچی کے گشن معمار میں درجنون کیس دیکھے،،ماں باپ نے اعلیٰ تعلیم دلایؑ اور بچے ایسے باہر گےؑ کہ لوٹ کے نہ آےؑ۔وہ پیسہ بھیج دیتے ہیں ورنہ ماں باپ کو ضرورت ہی نہیں۔ان کے پاس پر آسایش گھر ہے کار ہے نوکر چاکر ہیں لیکن وہ اکیلے ہیں،ان سے بات کرنے والا کویؑ نہیں۔اس جگہ سے زیادہ دولتمند سوسایٹی ڈیفنس جیسے علاقوں کی ہر شہر میں ہے وہان ایسے کیس عام ہیں،بیٹے پوتے عید پر فون کرلیں تو غنیمت، گزشتہ نسل جزباتی طور پر جتنی بچوں سے بندھی ہویؑ ہے اس سے زیادہ اپنی زمین کی قیدی ہے جو بالاخر دو گز رہ جاتی ہے۔کچھ لوگ گےؑ تو اس سیٹ اپ میں رہ نہ سکے۔۔معاشرتی ماحول مختلف تھا،بچوں کےجزباتی رویے بدلے ہوےؑ تھے۔موسم کی سختی، ،،کسی ہمزبان کا نہ ملنا۔۔وہ واپس بھاگ آےؑ، بلا مبالغہ میں ایسے درجنوں واقعات کا عینی گواہ ہوں لیکن عام زندگی سے ہٹ کر مجھے صرف ایک شہر راولپنڈی کےاولڈ ہومز میں تین سال کام کرنے کا اتفاق ہوا تو جوسورت حال عیاں ہویؑ اسے میں کیا کہوں۔۔انسانیت سوز،،شرمناک۔۔ لیکن اس سے ہمارے مہذب شہری معاشرے کا گھناونا چہرہ سامنے نہیں اتا ۔ افسوس ہوتا ہے اپنے دوغلے پن کی انتہا پر۔۔ جہان ایک طرف انسانی اقدار پر نہ جانے کتنی "این جی اوز" کا سوشل ڈراما چل رہا ہے تو دوسری طرف مذہب کی اخلاقی تعلیمات کا شور ہے وہاں عمر رسیدہ افراد کے حالات ایسے ہیں کہ ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر۔۔ویسے بھی ان کی سینکڑوں کہانیان ہیں۔ایک سے بڑھ کردکھی کرنے والی۔۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا قابل نفرت چہرہ
میں لاوارث لوگوں کی بات نہیں کرتا۔وہاں ملنے وہاں نظر انے والوں کے خاندان ہیں۔۔اولاد ہے جس نے ان کا سب کچھ چھین کے انہیں بے گھر کر دیا ہے اور بھول گےؑ ہیں۔وہ صرف مرنے کے لےؑ زندہ ہیں۔ہاتھ پھیلانے کی عادت اور ہمت نہیں ان کو سر چھپانے کی جگہ اور دو روٹیاں دینے والے اس سے زیادہ کر ہی نہیں سکتے اور حکومت کے بس میں نہیں ۔۔ انہیں کہیں لے جاکے گولی ماردی جاےؑ اور زمین میں دبا دیا جاےؑ تو ؑعزاب ختم ہو۔ جب تک توانایؑ تھی میں کچھ نہ کچھ کرتا رہا جو آٹے میں نمک جتنا بھی نہیں تھا کیونک یہ مسلؑہ پورے پاکستان کے ہر شہر کا ہے۔ ایک بار زمرد خان چییؑرمین بیتالمال نے میرے ساتھ صادق آباد میں پنجاب سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے اولڈ ہوم کا دورہ کیا اور جب میں نے تمام حالات بتاےؑ تو اس نے کہا کہ میں 100 افراد کیلےؑ اسلام آباد اور 100 کیلےؑ راولپنڈی میں اولڈ ہوم کے منصوبے کیلۓ کام کروں ۔ عمارت بنانے سے آباد کرنے تک۔۔ میں نے ہاتھ جوڑ کے معزرت کر لی کہ آپ کے پاس تو سینکڑوں افراد کا ادارہ ہے۔ میرے پاس نہ توانایؑ ہے نہ فرصت عمر۔۔بات ختم ہوگیؑ۔۔لیکن مسؑلہ تو کیؑ گنا سنگین ہوچکا ہے،،اتنا بڑا کہ اس کام میں کویؑ ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرتا۔۔بہتر ہے اس کینسرکو نہ چھیڑا جاےؑ،۔۔ اس سےنظر چرانا منہ پھیرے رکھنا اس کی بات نہ کرنا ہی بہتر ہے
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد بوڑھے اپنے گھروں میں " قیدی" ہیں جن کے رہنے کی جگہ ہےاور کھانا بھی مل جاتا ہے لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ شرم کی وجہ سے اور بد نامی کے ڈرسے نہ وہ کہیں جا سکتے ہیں نہ اولاد کی بد سلوکی کی بات کر سکتے ہیں۔۔بے شک بوڑھے کو خوش رکھنا آسان نہیں ہوتا،وہ عموما" ہر بات کی شکایت کرتے ہی نظر اتے ہیں ۔عمر کے ساتھ بے کاری ۔۔بیماری۔اور بیزاری کا مسیؑلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جاتا ہے۔ بہت کچھ بوڑھوں کو بھی سیکھنے اور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ناخوش ہیں تو اولاد سے زیادہ ان کا اپنا قصور ہے کہ وہ بدلے ہوےؑ وقت اور حالات سے مفاہمت نہیں کرتے ۔۔ 50 سال کا تقریبا" ہرشخص خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اپنی زندگی کے تجربے کے سامنے علم کو اہمیت نہیں دیتا۔ نصف صدی میں دنیا بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنے وقت سے باہر نہیں اتا اور کسی تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔۔ ۔دوسری طرف اولاد کا وقت ان کے وسایؑل اور توانایؑ اپنی فیملی اور اپنے کام کیلےؑ پوری طرح وقف ہونا ضروری ہیں ۔ بوڑھے ہوتے ماں باپ زیادہ توجہ مانگتے ہیں لیکن دونو فریق بدلے ہوےؑ حقایق سے سمجھوتہ نہیں کرپاتے۔
۔یہاں سے جنریشن گیپ کا مسؑلؑہ سنگین ہوجاتا ہے جس کو ابھی تک ہم نے تسلیم کرنا ہی نہیں سیکھا باپ اور بیٹا بیٹھ کے کسی الجھن ۔ پریشانی یا مسؑلے پر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ ایک سطح پر بات کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔باپ اپنی بڑایؑ کے زعم میں اپنی راےؑ نافذ کرنا چاہتا ہے اور بیتا ان کی "ذہنی معزوری" کو برداشت نہیں کر پاتا جو در آسل عمر کی مجبوری ہے جو سب کو زود یا بدیر لاحق ہوتی ہے۔س صورت حال میں ماں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔وہ جذباتی طور پر بیٹے کے زیدہ قریب ہوتی ہیں لیکن شریک حیات کی حیثیت سے عورت کبھی شوہر کیلےؑ اتنی اہم نہیں رہی کہ اسے سمجھا سکے۔ اس عمر میں شوہروں کے مقابلے میں وہ جوان بیٹے کی زیادہ طرفدار بن جاتی ہیں ۔یہ بھی ایک الگ نفسیاتی مسلؑہ ہے کیونکہ بیتیاں عموما: باپ کو "آیؑیڈ یا لایؑز" کرتی ہیںاس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتے ہیں۔
ہر مشکل صورت حال میں ایک دادا یا تایا سمجھدار ہو تو ٹھنڈے دماغ سے ثالث بن کے دونو طرف کی سن سکتا ہے اوردونو کو سمجھا سکتا ہے لیکن وہ تو باپ کا بھی "بڑا" ہوتا ہے۔۔اور خودبھی اپنے گھر میں انہی مسایل سے دوچار۔۔ چنانچہ ایک معاملہ فہم غیر جانبدار ثالث یقینا" آسانیاں پیدا کر سکتا ہے اورکوشش کر سکتا ہے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں اس ضرورت کو بہت پہلے تسلیم کرلیا گیا لیکن اس میں مشرق مغرب کی تخصیص کیا۔۔ فیملی پرابلم کو "فیملی کونسلر" ہی سمجھ اور سمجھا سکتا ہے۔ اس کا ماہر نفسیات ہونا لازمی نہیں قابل اعتماد ہونا ضروری ہے۔۔ یہاں فورا" سوال کھڑا ہو جاتاہے کہ گھر کی بات باہر لے جاییؑں؟ غیر پر کیسے بھروسہ کرلیں؟کسی کو پتا چلا تو۔۔۔۔
لیکن نہ اس معاشرتی مسؑلے کے وجود سے انکار ممکن ہے نہ اس کا اور کویؑ حل ہے۔ مجھے ایک عملی تجربہ ہوا جب حلقہؑ شناسایؑ میں چارچھ مرتبہ مجھے بہت سنگیں فیملی مسایؑل میں ' 'مدد' کیلۓ کہا گیا اور میں نے مکمل رازداری کے وعدے پر فریقین سے الگ الگ بات کی۔مجھے حیرت ہے کہ جوبات وہ ایک دوسرے سے کرہی نہیں سکتے تھے وہ انہوں نے تیسرے فریق یعنی مجھ سے کی تو مسؑلہ کتنی اسانی سے حل ہو گیا،،اس وقت ہمارے گھروں میں یہی دوریاں ہیں جو رشتوں کوپاوں کی زنجیر بنا رہی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ۔۔۔ہمارے گھر مکاں ہونے لگے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔