مکاں کیوں ہورہے ہیں گھر ہمارے۔۔1
ـــٓــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ موضوع ایک کتاب جتنی وسعت رکھتا ہے ؎ سفینہ ہاہےؑ اس بحر بیکراں کیلےؑ۔میں کوشش کروں گا کہ بات کو اپنی پوسٹ میں آسان اور مختصر پیرایہ میں بیان کر دوں۔۔ اب آپ کسی شہری بچے سے سوال کریں تووہ کہے گا کہ" خاندان؟ میں امی۔ ڈیڈی اور ہم سب بھایؑ بہن ایک خاندان پیں"۔۔۔۔ لیکن خاندان کا مطلب پچھلے وقتوں میں خون کے رشتوں کی وسعت کو بیان کرتا تھا جس میں ایک۔ مرد کے بیٹے،،ان کے بیٹے،اور بیٹوں کے بیٹے سب آجاتے تھے،پوتوں یا پڑپوتوں تک ایک ہی شخص ۔ باپ سے دادا یا پردادا ہوجاتا تھا اورعملا:"خاندان کا سربراہ رہتا تھا جو تمام فیصلے کرتا تھا اوروہ نافذ بھی ہوتے تھے۔ کسی کے نافرمان یا ناخلف ہونے کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے
۔ اس سوشل سیٹ اپ کی اخلاقی مضبوطی کے پیچھے بھی دراصل زمین کی معاشی طاقت تھی جو تقسیم نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ گھر سے جانے والی لڑکی کو اس میں حصہ نہیں ملتا تھا۔اولاد نرینہ اسی لےؑ اہم تھی کہ جب ایک مرد بوڑھا ہوکے ہل چلانے اور کاشت کے قابل نہ رہے تو اس کی جگہ لینےو الے ہوں۔بوڑھے کا فیصلہ کن کردار اس بنیاد پر تھا کہ وہ نافرمان کو عاق کر سکتا تھا ۔۔جس کی قانونی یا شرعی حیثیت آج
بھی صفر ہے
مگراس وقت شہری معاشرہ آج جیسی قوت نہیں رکھتا تھا،ایک خالص زراعتی معیشت والے ملک میں ایک کے بعد دوسری نسل کی زندگی کا معمول بدلتا نہیں تھا۔جب انگریز کے دور میں سرکاری ملازمت کا تصور پیدا ہوا جولگی بندھی اور مستقل آمدنی کی ضامن تھی تو نوجوان "پر دیس" سدھارنے لگے۔۔ان گنت گانے اس تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔۔" پر دیس جانے والے وعدہ نہ بھول جانا" (ثریا)۔۔ ۔۔" مرے ہیا گےؑ رنگون وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون" (شمشاد)۔۔ پردیسی بالما ساون آیا(اوما)۔۔ لے جا مری دعاییؑ او پر دیس جانے والے۔۔ (لتا)۔۔ آبایؑ گھر چھوڑ کے کمایؑ کیلےؑ جانے والے ایک بیٹے نے اپنا پیشہ بھی بدلا اور بالاخراپنے بیوی بچوں کو بھی بلالیا، یوں ایک خاندان ٹوٹا۔۔اس کی معیشت الگ ہوگیؑ۔۔فیصلون میں خود مختاری آیؑ اور رہن سہن کے ساتھ سوچ بدلی تو خود غرضانہ رویوں کو فروغ ہوا ۔اگر وہ شہر سے کمایؑ کرکے بھیجتا تھا تو دوسرے بیٹوں سے زیادہ قابل قدر ہوجاتا تھا۔۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل سے بڑی سچایؑ کو رشتوں کے معاملے میں اج بھی کویؑ جھٹلا نہیں سکتا۔ شہری بیٹے کیلےؑ رفتہ رفتہ جذباتی رشتون سے دوری اہم نہیں رہتی تھی۔پھر رہی سھی کسر سسرال کی ذلت سے نکل کے اپنے گھر کی خود مختاری اور شوہر پر صرف اپنا تسلط چاہنے والی عورت رہی سہی کسر پوری کرتی تھی۔ وہ سمجھنے لگتا تھا کہ اس کے لےؑ واقعی اپنے بیوی بچوں سے زیادہ اہم کویؑ نہیں۔۔ باقی رشتے ثانوی ہیں، پھر اس کا گھر جانا کم ہوجاتا تھا یا رقم بھیجنے میں با جابطگی نہیں رہتی تھی۔ وہ کبھی بہن کی شادی پر کچھ دے دیتا تھا تو کبھی ماں باپ کی بیماری پر،، باقی یہ کہ جو وہاں ہیں وہ ذمے دار ہیں،،پھر ،ماں باپ یا بھایؑ بہن کی ضروریات بلکہ ان کی ضرورت ہی غیر اہم ہوجاتی تھ
صنعتی ترقی نے شہری کلچر کو تیزی سے فروغ دیا اور شہر پھیلے۔۔ شہری سہولیات نے دیھات سے نقل مکانی کی رفتار تیز کا عمل کہا جاتا ہے اور یہی URBANISATION ہوتی گیؑ۔ اس اخلاقی تنزل کا سبب بنا کہ صرف اپنے لےؑ جینے کا اخلاقی جواز پیدا ہوگیا۔ شہر کے اطوار اور تھے یہاں دو بھای بھی معاشی حریف تھے۔کویؑ کسی کی کفالت کا پابند نہیں تھا۔ایک محل میں اور دوسرا جھونپڑی میں رہے تو اپنی قسمت۔۔ ترقی صرف مزید خوشحالی تھیکہ کس کا گھر اور گاڑی زیادہ شاندار ہیں۔کس کے بیوی بچے اچھا پہنتے ہیں تعلیم اورفیشن میں اگے ہیں۔ بھایؑ بہن کی اپنی زندگی کے بھی یہی اصول،،تعلق رکھیں۔ کم رکھیں یا نہ رکھیں
یہ مغربی معاشرہ کے اثرات بھی تھے جن سے بچ کے رہنا ناممکن ہوتا گیا،وہاں خاندان ایک غیر جزباتی حقیقت تھی۔ایک مرد عورت نے باہمی ضرورت پوری کرنے کیلےؑ گھر بسایا۔۔بچے ہونے ناگزیر تھے۔قانوں نے ان کی پرورش کے اصول بنادےؑ جن کے تحت میاں بیوی اپنے تعلق سے ہونے والے بچوں کو بالغ یعنی 18 سال کی عمر کو پہنچنے تک تحفظ۔ خوراک اور تعلیم فراہم کرنے کے پابند تھے۔ اس کے بعد تعلق کی بھی کویؑ پابندی نہیں۔۔سب کی اپنی اپنی زندگی جیسے چاہیں جییؑں چنانچہ یہ عام بات ہے کہ نہ ماں باپ کو علم ہوتا ہے کہ بچے کہاں ہیں کس حال میں ہیں اور زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
۔دو سال قبل نیو یارک ٹایمز میں امریکہ کے تین بڑے شہروں نیو یارک۔لاس اینجلز اور ہوسٹن پر ایک رپورٹ دیکھی تھی کہ ہر شہر میں اوسطا" 50 ہزار بے گھر نوجوان شب بسری کیلےؑ کسی رفاہی ادارے یا چرچ کی قرعہ اندازی میں جاتے ہیں، مشکل سے 500 کو اجازت ملتی ہے باقی لڑکے لڑکیاں کہیں بھی رات گزارنے کیلۓ بستر بچھا لیتے ہیں،سڑک کے کنارے پارک میں پل یا دیوار کے ساےؑ میں جہاں ممنوع نہ ہو۔وہ بہت خوش قسمت نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو ماں باپ کیا بہن بھایؑ کے گیراج یں بھی جگہ مل جاےؑ حقیقی زندگی کا ایک تجربہ ہے کہ میری تقسیم سے پہلے برطانیہ کی شریت لینے والے ۔( ایسے لاکھوں نہیں تو ہزاروں ضرور ہیں ) پاکستانی کے بیٹے سے ملاقات ہویؑ۔ اس نے اعتراف کیا کہ اماں ابا کے دس سال قبل عید پر فون کرنے سے زندہ ہونے کا پتا چلا تھا ۔ایک بھایؑ کا بتایا کہ 25 سال بعد میں اس کے شہر میں تھا توسوچا مل لوں۔فلیٹ پر پہنچا تو اس نے اندر سے چلا کے کہا کہ دس منٹ ٹھرو میں واش روم سے نکل آوں۔ میں نے کہا کہ بھایؑ میرے پاس بھی دس منٹ ہی تھے۔ پھر ملیں گے
ابھی یہاں ایسا عام نہیں ہے۔۔لیکن انفرادی واقعات میرے علم میں بہت ہیں
(باقی کل)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔