عظیم گیت کار مجروح سلطان پوری کی کہانی
دنیا میں کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں ،جنکی زندگی کی کہانی اپنی اپنی سی لگتی ہے ،مجروح صاحب کی کہانی میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہیں ،ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی کہانی لکھ رہاہوں ۔یہ بات میں نظریاتی حوالے سے لکھ رہاہوں ۔مجروح صاحب سلطان پور کے ایک پولیس والے کے گھر انیس سو انیس میں پیدا ہوئے ،جی ہاں ،وہ پولیس والا ایک ہیڈ کانسٹیبل تھا ۔مجروح کو بچپن سے ایک کھیل بہت پسند تھا ،اس کھیل کا نام تھا فٹبال۔اس پر ان پر فتوی لگ گیا کہ وہ کافروں والا کھیل کھیلتے ہیں ۔اس لئے ماں باپ نے مجروح صاحب کو کھیلنے سے منع کردیا ۔سلطان پور میں انہیں ایک معروف حکیم کی دکان پر بٹھادیا گیا ،اب وہ حکیم صاحب کے ساتھ بیٹھتے تھے ،اس طرح انہوں نے تعلیم بھی جاری رکھی اور حکیمی بھی سیکھتے رہے۔معروف شاعروں اور فلسفیوں کی کتابیں بھی پڑھتے رہے۔کچھ عرصے میں ایک مکمل حکیم بن گئے ۔اب حکیمی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرنے لگے ۔اسی دوران موصوف کو تحصیل دار کی بیٹی سے عشق ہوگیا ۔اس عشق کی وجہ سے تحصیل دار اور گھر والوں کی طرف سے انہیں بھرپور انداز میں مجروح کیا گیا ۔کیسے ایک شاعر تحصیل دار کی بیٹی سے عشق کرنے کی جراٗت کرسکتا تھا ۔اب یہ ہوا کہ عشق کو خیر باد کہنا پڑا ۔عشق کا چھوٹنا تھا کہ شاعری میں ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے ،آہستہ آہستہ ان کی شاعری سلطان پور کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے بہت سے شہروں میں مقبول ہو گئی ،اب مکمل طور پر شاعر ہو گئے ،اور حکیمی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ۔اب مجروح صاحب کا ایک ہی کام تھا کہ رات کو شاعری لکھتے تھے اور صبح کو وہ شاعری کسی مشاعرے میں سناتے تھے ۔اس زمانے میں مشاعروں میں شاعروں کو تھوڑے بہت پیسے مل ہی جایا کرتے تھے ۔کچھ عرصے بعد اس زمانے کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے شاگرد بن گئے ۔جگر صاحب انہیں سلطان پور سے ممبئی لے آئے ۔ممبئی میں ایک مشاعرہ تھا ۔اسی مشاعرے کے سلسلے میں مجروح اور جگر کا آنا ہوا ۔مشاعرہ پڑھا ۔اسی مشاعرے میں ایک فلم میکر بھی موجود تھے ،جن کا نام اے آر کاردار تھا۔وہ جگر مراد آبادی کے بہت بڑے مداح تھے ۔کاردار صاحب مشاعرے کے ختم ہونے کے بعد جگر مرادآبادی کے پاس آئے ،کہا ،جگر صاحب،ایک فلم بنارہوں ،خواہش ہے کہ اس فلم کے نغمے آپ لکھیں ۔جگر صاحب نے کہا بھائی ان کا اس طرف رحجان نہیں ہے ،ایک اور اچھا شاعر ہے،جو میرا شاگرد بھی ہے ،جس کا نام مجروح ہے،اس سے گانے لکھوالو۔اےآر کاردار اس وقت ایک فلم شاہجہاں بنارہے تھے ۔مجروح صاحب جگر کی بات سن کر تھوڑے پریشان ہوئے،استاد محترم سے مودبانہ انداز میں کہا،وہ کیسے گانے لکھ سکتے ہیں ،ان کا بھی اس طرف رحجان نہیں ہے ،مجروح نے کہا جگر صاحب ،نغمے لکھنا شروع کردیئے تو شاعری کا تو بیڑہ غرق ہو جائے گا ۔جگر نے کہا دیکھو حکیمی تمہاری چل نہیں رہی ،شاعری سے تم اچھی زندگی گزار نہیں سکتے ۔اوپر سے شاعری سے کیا ملنے والا ہے ۔کچھ تو تمہیں کرنا ہوگا ،بہتر ہے فلموں میں نغمے لکھنا شروع کردو ،زندگی میں بہتری آجائے گی ۔اب استاد کا حکم ٹالا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔جب پہلی فلم کے لئے مجروح نے گانے لکھے تو کمال کردیا ۔پہلا ہی گیت چھا گیا ،وہ گیت تھا ،جب دل ہی ٹوٹ گیا ،ہم جی کر کیا کریں گے ۔کے ایل سہگل جو اس زمانے کے معروف میوزک ڈائریکٹر تھے ،انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ یہ گیت ان کے مرنے پر بجایا جائے ۔اس کے بعد انیس سو انچاس میں دو فلمیں بنی تھی ،انداز اور آرزو ،ان دونوں فلموں کے گیتوں کو بھی ہندوستان بھر میں بھرپور پزیرائی ملی تھی ۔ایک گیت تھا جس کے بول تھے ،توں کہے اگر میں جیون بھر گیت بناتا جاوں،اسی طرح ایک اور نغمہ تھا ،ائے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو ۔اس کے بعد مجروح صاحب کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے ۔مجروح صاحب کی ایک نظریاتی زہنیت بھی تھی ،وہ لیفٹسٹ تھے اور کمیونزم سے وابستہ تھے ۔وہ خود کہتے تھے کہ وہ ایک کٹر قسم کے کمیونسٹ ہیں ۔اس زمانے میں انہوں نے سرکار کے خلاف کچھ نظمیں لکھی ،جس کی وجہ سے گرفتار کر لئے گئے اور جیل چلے گئے ۔حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ مجروح اگر معافی مانگ لے تو انہیں رہا کردیا جائے گا ،لیکن وہ بھی مجروح تھے ،کیسے معافی مانگتے ۔معافی نہیں مانگی اور دو برس جیل میں رہے ۔اب ان دو برسوں میں فلمی دنیا بدل گئی تھی ،فلم انڈسٹری میں ان کی جگہ اب شکیل بدایونی نے لے لی تھی ۔اوپر سے فلم میکرز کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں دوبارہ یہ حکومت کے خلاف کچھ لکھ نہ دیں ،پھر جیل نہ چلے جائیں ،اس لئے فلم میکرز بھی ان سے دور ہو گئے تھے ۔ایسا گیت کار جس نے یہ نغمہ لکھا تھا ،شام غم کی قسم آج غمگین ہیں ہم ،اب واقعی غمزدہ اور اداس تھا ،لیکن وہ بھی مجروح تھے ،آخر کار انہوں نے اپنی جگہ پھر بنالی ۔پھر ایک فلم کے لئے گانا لکھا ،جس کے بول تھے ،ائے دل توں کہیں لے چل ،اس گانے کو بہت پسند کیا گیا ۔اس کے بعد تو چل سو چل والا سلسلہ چل نکلا ۔ایک نغمہ ایسا ہے جو ہم سب نے سن رکھا ہے ،وہ گانا ہے پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا ،بیٹا ہمارا بڑا کام کرے گا ،یہ بھی مجروح سلطان پوری کا نغمہ تھا ۔ایک گانا تھا ،غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے دل ،چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے ،پھر بھی آواز نہ دوں گا ۔ابھی جا ابھی جا میرے صنم ،یہ سب گانے جو ہم نے زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور سنے ہوں گے ،یہ سب مجروح کے قلم سے نکلے تھے ۔ایک طرف مجروح سلطان پوری کا اردو شاعری اور لیفٹ کی تحریک سے مکمل رشتہ رہا ،دوسری طرف وہ مقبول گانے لکھتے چلے گئے ۔ایک نغمہ تھا جس کے بول تھے ،ہم ہیں متاع وکوچا او بازار کی طرح ،اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح ،اس کو بھی اس زمانے میں خوب پزیرائی ملی ۔مجروح کے نغموں میں نایاب ورائٹی ہے ۔کہتے ہیں وہ بالی وڈ کے واحد گیت کار تھے جن کے لفظ سر اور تال کے ساتھ چپک جاتے تھے ۔پہلا نشہ پہلا خمار نیا پیار ہے نیا انتظار ،اس گانے کے تخلیق کار بھی مجروح ہیں ۔نئے میوزک ڈائرکٹرز آئے ،زمانہ بدل گیا ،نئی موسیقی آگئی ،لیکن مجروح کا فن ہمیشہ جوان رہا ۔لیکن اب وہ بوڑھے ہو گئے تھے ۔ان کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی تھا ،وہ یہ کہ کمال کے منہ پھٹ اور صاف گو انسان تھے ۔لیفٹسٹ اور کمیونسٹ ہو اوربہادر نہ ہو،ایسا ممکن نہیں ،اس صاف گوئی کی قمیت بھی ادا کرتے رہے ۔ایک نغمہ تو ہم سب نے ضرور سنا ہوگا ،او میرا سونا او سونا ،یہ بھی مجروح کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار نغمہ ہے ۔یہ گانا آج بھی کہیں بج رہا ہو ،تو جسم و روح پر عجیب سی تازگی چھا جاتی ہے ۔مجروح کی وجہ سے لکشمی کانت پیارے لال ،آر ڈی برمن اور راجیش روشن کو شہرت ملی ۔مجروح سلطان پوری کی آخری عمر میں زندگی بہت کسمپرسی میں گزری ،آخری عمر میں وہ کہا کرتے تھے کہ اب وہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ۔وہ انسان جس نے پیسٹھ سالوں تک ہزاروں نایاب اور منفرد گیت لکھے ،اب مشکل میں تھا ۔صنم ،بندہ پرور ،محترمہ ،جانم یہ وہ الفاظ ہیں جو پہلی مرتبہ گیتوں میں مجروح نے متعارف کرائے تھے ،مجروح سے پہلے کسی نغمہ نگار نے ان لفظوں کو گیتوں میں استعمال نہیں کیا تھا ۔پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا ،بڑی بھول ہوئی اڑے ہم نے یہ کیا سمجھا ،یہ کیا جانا ۔لیکن آخر میں ہزاروں گیتوں کے اس عظیم خالق کو اپنا گھر اور گاڑیاں بیچنی پڑیں ۔اب وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے اور بسوں میں سفر کرتے تھے ۔اب ایک عظیم تخلیق کار اندھوں کے شہر میں آیئنے بیچ رہا تھا ۔لیکن اندھوں کو کیا سمجھ کہ آئینہ کیا ہوتا ہے ۔اب وہ لوگ نہیں رہے تھے ،جو شاعری کی گہرائی کو سمجھتے،اب خوبصورت گیتوں کو سمجھنے والے مر گئے تھے ،اسی وجہ سے مجروح کسمپرسی کی کیفیت میں تھا ۔اسی حالت میں یہ عظیم اور منفرد شاعر ،گیت کار اور کٹر قسم کا لیفٹسٹ اور کمیونسٹ مر گیا ۔چوبیس مئی سن دو ہزار کو ان کا انتقال ہو گیا ۔وہ تو چلے گئے ،لیکن ان کے لکھے گئے گیت آج بھی انسانیت کے کانوں میں رس گھول رہے ہیں ۔کبھی موقع ملے تو مجروح سلطان پوری کے گیت ضرور سنیں اور سوچیں کیسے کیسے عظیم تخلیق کار اس دھرتی پر آئے اور چلے گئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔