ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تُو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
جون 2022ء کا مہینہ غم و اندوہ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رہے گا جس میں پاک فوج کے ایک تابندہ ستارے، دکھی انسانیت کے بے لوث خادم اور ایک ہردلعزیز مسیحا ہمارے پیارے بھائی جان میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کی دائمی مفارقت سے آنکھوں سے جُوئے خوں رواں ہو گئی۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس شمع فروزاں کو بجھا دیا جو گزشتہ پانچ عشروں سے سرِ راہ گزارِ زیست سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے نشانِ منزل دے رہی تھی۔ عجز و انکسار ،خلوص و مروّت ،بے لوث محبت ،ایثار اور وفا کا پیکر ہماری بزم وفا سے اُٹھ کر راہِ رفتگاں پر گامزن ہوگیا۔ ایک انتہائی ذہین و فطین ، قابل اور نیک دل انسان ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گیا ۔
برادر مکرم میجر ڈاکٹر محمد اسلم نے چودہ اور پندرہ جون 2022ء کی درمیانی شب عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ انسانی خدمت کا وہ آفتاب جو 11/ اگست 1954ء کو ضلع فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 87 گ ب (بابے دی بیر) سے طلوع ہوا چودہ جون 2022ء کی رات وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔ خدمت انسانی کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ۔ عسکری کالونی نمبر 10 لاہور کے شہر خموشاں کی زمین نے شعبہ آرمی میڈیکل کور کے اِس خورشید جہاں تاب کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اِس شہر خموشاں کی زمین نے پاک آرمی کے اُس آسمان کو نِگل لیا جو گزشتہ پانچ عشروں سے شعبہ میڈیکل سے وابستہ افراد کے سر پر سایہ فِگن تھا۔اُسی کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں ۔وہ پاک فوج کے ایک درخشاں عہد کی نشانی تھے ۔ان کی وفات سے پاک آرمی کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسی نابغہء روزگار ہستیاں اور یگانہء روزگار فاضل ڈاکٹر خال خال پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی خدمت انسانی اور لوگوں کے علاج معالجے کے لیے وقف کردی۔انہی کے بارے میں پروین شاکر نے کہا تھا ۔
رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا تھا
وہ شخص دھوپ میں بھی چھاؤں جیسا تھا
ہمارے برادر محترم میجر (ر) ڈاکٹر محمّد اسلم ۔۔فرزند ارجمند حضرت نور محمّد نور کپور تھلوی۔۔ کیپٹن محمّد اکرم خاں کے چھوٹے اور ارشد گروپ آف انڈسٹریز کے سابق جنرل مینجر رانا افتخار احمد کے بڑے بھائی اور ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کے تایا زاد بھائی ۔۔۔۔جو ہارٹ کی شدید تکلیف کے باعث سی ایم ایچ ہسپتال لاہور میں وینٹی لیٹر پر تھے ۔۔ رات 14 جون 2022ء کو ساڑھے تین بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ ان کا نماز جنازہ ان کی رہائش گاہ 366-A عسکری 10۔ لاہور میں کل 16 جون 2022ء بروز جمعرات دوپہر ایک بجے پڑھایا گیا ۔. نماز جنازہ میں پاک فوج کے حاضر اور ریٹائرڈ افسران کے علاوہ سماجی ، سیاسی اور عسکری 10 کے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔۔بعد ازاں عسکری 10 کے شہر خاموشاں کی زمین کی گود میں پاک فوج کے اس نامور فرزند کو لٹا دیا گیا ۔۔۔
ڈاکٹر موصوف ایک درویش منش انسان ہونے کے ساتھ ایک ہمدرد اور منکسر المزاج مسیحا تھے۔ اپنی ساری زندگی پاک آرمی میں ہوتے ہوۓ وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں اور چھاؤنیوں میں پاک فوج کے ملازمین کے علاج معالجے میں صرف کر دی اور بعد از ریٹائرمنٹ بھی بیماروں اور لاچاروں کی خدمت کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری تھا۔۔ ڈاکٹر میجر محمّد اسلم فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 87 گ ب (بابے دی بیری) براہ ڈجکوٹ میں چودھری نور محمّد نور کپور تھلوی کے گھر 11/ اگست 1954ء کو پیدا ہوۓ ۔۔ان کے والد گرامی پنجاب ٹرانسپورٹ کے پولیس ونگ میں موٹر وہیکل ایگزامینر تھے۔اس طرح انہیں اپنے والد صاحب کی پوسٹنگ کے ساتھ مختلف شہروں میں پڑھنے کا موقع ملا ، جن میں ملتان خاص طور پر قابل ذکر ہے۔میٹرک کرنے کے بعد آپ نے ایف ایس سی کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج سمن آباد فیصل آباد سے اعزازی نمبروں سے پاس کیا۔ ایف ایس سی کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کرنے کے بعد میڈیکل کی تعلیم کے لیے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ لیا اور قائد اعظم میڈیکل کالج بہاول پور سے (1972-78) کے بیج میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1978ء میں پاک آرمی کو بطور کیپٹن ڈاکٹر جائن کیا اور میجر کے رینک تک پہنچ کر 2004ء کو ریٹائرڈ ہوۓ اور مجموعی طور پر 26 سال پاک آرمی کی خدمت میں گزارے۔ دوران سروس آپ کو پاکستان کے بیشتر شہروں کی چھاؤنیوں کے “سی ایم ایچ” میں اپنی خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا جن میں رسال پور ،ایبٹ آباد کینٹ ، اسلام آباد کینٹ ، اوکاڑہ کینٹ ، راولپنڈی سی ایم ایچ ” گوجرانوالہ کینٹ و دیگر ۔۔۔۔علاوہ ازیں آپ کو کچھ عرصہ کے لئے پاکستان آرمی کی طرف سے نائیجیریا میں بھی ڈیپوٹیشن پر بھیجا گیا وہاں پر بھی آپ نے اپنی پیشہ ورانہ خدمات محنت اور اخلاص سے سر انجام دیں۔آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ اپنے گاؤں میں واحد ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنے جنہوں نے پاک فوج میں بھی اپنا خوبصورت نام پیدا کیا۔ دوران سروس انہوں نے انستھیزیا میں “ایف۔ سی۔ پی۔ ایس” کی ڈگری حاصل کی۔۔آپ کا شمار اپنے شعبہ انستھیزیا کے مایہ ناز انستھیسٹ میں ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں 70سے 80 فیصد ذمہ داری شعبہ انستھزیا پر عائد ہوتی ہے کسی بھی ہسپتال کو شعبہ انستھیزیا کے بغیر چلانا مشکل ہے اور اس شعبہ کا تعلق آپریشن تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ آئی سی یو، ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ ، پین کلینک بھی شعبہ انستھیزیا کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے لاہور میڈیکل ڈینٹل کالج/ گھرکی ٹیچنگ ٹرسٹ ہسپتال لاہور میں اپنی خدمات سر انجام دینا شروع کیں اور یہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔۔ایک زیرک ، محنتی ، ہمدرد ، خدا ترس اور قناعت پسند ڈاکٹر کے طور پر آپ نے ہر جگہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا۔جس طرح میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کا ظاہر بالکل اُجلا اور شفاف رہا، اُسی طرح اُس کا باطن بھی صاف رہا۔ میری پسندیدہ شخصیات میں وہ ہمیشہ سر فہرست رہے ہیں۔ میرے حلقہ احباب کو فیس بک پر اپنے دوستوں کو ان کی سالگرہ وش کرنے میں سب سے پہل وہی کرتے تھے ۔مجھے اعلی الصبح جس شخصیت کا سب سے پہلے دعائیہ اور اسلامی واٹس ایپ میسج آتا ہے، اس سلسلے میں بھائی جان سب سے سبقت لے جاتے تھے ۔ان کے اصلاحی اقدامات اور پاک فوج کی خدمات کے اعتراف پر ہر پاکستانی ان کا ممنون و مقروض رہے گا۔انسانی کردار اور عظمت کا پیکر یہ شریف ،مخلص ،درد آشنا اور وضع دار انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ایسے نایاب اور وضع دار لوگ مُلکوں مُلکو ں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے۔
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے ڈاکٹر میجر اسلم صاحب نے مقدور بھر جدوجہد کی’ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حیات اور کائنات کے تما م درد وہ اپنے دل پر محسوس کرتے تھے ۔ان کی خواہش ہوتی تھی کہ سفاک ظلمتیں کافور ہوں اور قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دیا جائے اور اس عالم آب و گل کے چپے چپے پر اسم خاتم النبیں سے اجالا کر دیا جائے ۔ہر برباد کو آباد کرنے والا اور غم زدہ کو مسرور اور دلشاد کرنے والا یہی مبارک نام ہے ۔وہ توحید ،رسالت ،قرآن حکیم ،حدیث پاک اور بزرگان دین کی تعلیمات کو مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے نا گزیر خیال کرتے تھے ۔وہ ایک کثیر المطالعہ ڈاکٹر تھے ۔
موجودہ زمانے میں قحط الرجال نے ایک گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔خود غرضی ،غیبت ،مفاد پرستی اور ایذا پسندی کی قبیح روش کے باعث معاشرتی زندگی کو نا قابل اندمال صدمات کا سامنا ہے ۔ان ہولناک حالات میں بھی وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو ایک شان استغنا ،خودداری اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ میجر ڈاکٹر محمّد اسلم ایسے ہی انسان تھے ۔وہ ہمیشہ تعمیر پر توجہ دیتے ۔کسی کی تخریب ،عیب جوئی یا غیبت سے انھوں نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا ۔غربت و افلاس ،مجبوری و محرومی اور بے سروسامانی کے پاٹوں میں پسنے والی انسانیت کے تکلیف دہ مسائل کو وہ خوب سمجھتے تھے ۔دنیا کے دیئے گئے تجربات و حوادث سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ۔اہل درد سے انھوں نے جو پیمان وفا باندھا تمام عمر اسے استوار رکھا اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس پر کاربند رہے ۔
آج کے دور کو وہ ایک دور بیگانگی سے تعبیر کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ انسان کی عدم شناخت اور فرد کی بے چہرگی کا مسئلہ روز بہ روز شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔انسان کی اس بوالعجبی کا احساس مفقود ہے ۔انسان شناسی میں جو مہارت میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کو حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔انسانی ہمدردی ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی ۔ان کی کتاب زیست کے متعدد اوراق ابھی ناخواندہ ہیں ۔وہ ایک صاحب باطن ولی تھے ۔انھوں نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں کے خلاف انتھک جدوجہد کی۔ان کا کہنا تھا کہ زندگی سر آدم بھی ہے اور ضمیر کن فکاں بھی۔زندگانی کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کا منظر نگاہوں میں رہے ۔ان کا استدلال یہ تھا کہ محنت پیہم کے بغیر کوئی جوہر کبھی نہیں کھلتا ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عقیق سو بار کٹتا ہے تب نگیں بنتا ہے اور خانہ ء فرہاد میں اگر امید کی کرن دکھائی دی تو وہ شرر تیشہ کی مرہون منت ہے ۔وہ زندگی میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کے متمنی تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ زندگی کی حسین مرقع نگاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے ۔۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ استحصالی عناصر ہمیشہ مکر کی چالوں سے سادہ لوح عوام کو جل دے جاتے ہیں اور غریب کثر مات کھا جاتے ہیں ۔وہ سلطانیء جمہور کے زبردست حامی تھے ۔وطن اور اہل وطن سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف تھا ۔ارض وطن کے ذرے ذرے سے ان کو پیار تھا ۔وہ یہ بات ببانگ دہل کہتے کہ حب وطن ملک سلیماں سے بہتر ہے اور وطن کا خار سنبل و ریحان سے حسیں ہے ۔وطن کو وہ مادر وطن کہتے تھے اور اسی لیے کہ یہاں سے تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز راحت ،مسرت ،خوشحالی ،ترقی اور وقار کے سوتے پھوٹتے ہیں جن سے نہاں خانہء دل میں امیدوں کی فصل سیراب ہوتی ہے ۔مادر وطن کے خلاف الزام تراشی کرنے والوں سے وہ بیزار تھے۔
ہر ملنے والے کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور رویہ اختیار کرنا میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کا معمول تھا ۔عجز و انکسار ،صبر و تحمل اور شفقت ان کی طبیعت کا اہم پہلو سامنے لاتے تھے ۔ان سے مل کر واقعی زندگی سے والہانہ محبت ہو جاتی تھی۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتے ۔ان کی زندگی میں بھی متعدد نشیب و فراز آئے ،کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا جو ارفع معیار قائم کیا وہ نہ صرف لائق صد رشک و تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں جب کہ اہل جور نے دروغ گوئی ،غیبت طرازی اور ایذا رسانی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے ایسے افراد کا وجود پروردگار عالم کا بہت بڑا انعام ہے جو دکھی انسانیت کے لیے سراپا فیض ہیں۔ میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کی زندگی شمع کی صورت تھی جو انسانی خدمت پر نثار ہونے کے لیے بے قرار رہا اور کسی خوف کی پروا کیے بغیر سب کچھ اپنے ابنائے وطن پر نچھاور کر دیا ۔اگرچہ کم گوئی اور سنجیدگی ان کا شعار تھا اس کے باوجود کبھی کبھی بے تکلف ہو کر وہ خوب مسکراتے اور قہقہے بھی لگاتے تھے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کی سعی کر رہے ہیں۔ لیکن کسی دشمن کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہ تھا۔میرا خیال ہے ان کا کوئی مخالف کبھی موجود نہیں رہا ۔ان کی شرافت ،پاکیزگی ،زہد و تقویٰ کی وجہ سے سفہا اور اجلاف و ارزال کو ان کے قریب آنے کی ہمت نہ ہوتی ۔سارے بے کمال اس صاحب کمال کی ضیاپاشیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مانند شپر غائب ہو جاتے ۔وہ بے لوث محبت کے اعجاز سے اپنی محفلوں کو پر رونق بنا دیتے ۔احباب ان کی طرف کھنچے چلے آتے ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور حریت فکر کے ارفع جذبات نے ان کی شخصیت کو باغ و بہار کا روپ عطا کر دیا تھا ۔ان کی محبت کئی مدارو ں میں بہ یک وقت سر گرم عمل رہتی۔ ان میں توحید ،رسالت ،قرآن حکیم،مشاہیر اسلام ،وطن اور اہل وطن کے علاوہ اولاد ؎حتیٰ کہ پور ی انسانیت کے دھنک رنگ مناظر قلب و نظر کو مسخر کر رہے ہیں ۔یہ ایسی محبت تھی جو انھیں حصار ذات سے باہر نکال کر ایک وسیع معنویت سے آشنا کرتی اور ایک ایسے حیاتیاتی رشتے کی نمود ہوتی جو تخلیق کائنات کا مظہر ہے ۔وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے ۔ان کی محفل میں ہر شخص کو اتنی عزت و تکریم ملتی کہ سب ان کے گرویدہ ہو جاتے ۔۔ان کے بڑے بھائی محترم کیپٹن محمّد اکرم کا کہنا ہے “کہ میرے بھائی محمّد اسلم نے مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی کی دل شکنی کی ہو ، اس کے دامن میں ہمیشہ محبّتوں کے پھول ہی ہوتے تھے ۔اگرچہ وہ مجھ سے صرف دو سال چھوٹا تھا لیکن کبھی بھی بچپن ،لڑکپن یا جوانی میں کسی بھی مقام پر اس نے کبھی کوئی ایسا ناخوش گوار کام نہیں کیا ، کسی کا دل دکھایا ہو۔وہ واقعی باکمال انسان تھا۔”
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
ورق ورق نہ سہی عمر رائیگاں میری
ہوا کے ساتھ مگر تم نہ عمر بھر رہنا
میجر ڈاکٹر محمّد اسلم آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے افکار ،تجربات اور پیشہ ورانہ خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور سراپا خیر تھے ۔انھوں نے نہایت نیک نیتی سے میڈیکل کے پیشے میں رہتے ہوۓ لوگوں کی ایک ایمان دار مسیحا کی طرح خدمت کی ۔ان کی نیت طیبہ ان کی دیانت داری اور تقویٰ کا ثمر تھا ۔ان کا وجود کسی بڑی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ اس کا احساس ان کی وفات کے بعد شدت سے ہونے لگا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی وفات کے اثرات میڈیکل تعلیم ، سرجری اور اصلاح معاشرہ کے تمام شعبوں پرنمایاں ہوں گے۔اپنے پیشے کا احترام کرنے والے اس محنتی اور باوقار ڈاکٹر نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی طرز ادا قرار پائے گی ۔ میڈیکل سرجری کا یہ آفتاب جہاں تاب عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ہے مگر اس کی تابانیوں سے وطن کا گوشہ گوشہ منور ہے ۔آج ان کی یاد میں ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے وہ اس قدر ہر دلعزیز تھے کہ ان کی وفات کی خبر سن کر ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔اللہ کریم ہمارے پیارے بھائی میجر (ر) ڈاکٹر محمّد اسلم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کے والد گرامی حضرت نور محمّد نور کپور تھلوی’ اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے ۔۔
ان کے والد گرامی حضرت نور محمد نور کپور تھلوی ایک باکردار ، وضع دار اور ایک بلند پایہ انسان تھے۔ وہ اسلامی سوچ اور فکر کے علمبردار تھے ۔ ان کی عظمت کا راز ان کی دردمندی ، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فراواں جذبات میں پوشیدہ تھا۔ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت کے قائل تھے۔ ان کی محبت لین دین کی کوئی صورت ہر گز نہ تھی بلکہ وہ اپنے احباب پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان کی شخصیت انھیں ایک اچھے شہری ، عظیم محبِ وطن ، بے لوث تخلیق کار اور عظیم انسان کے روپ میں سامنے لاتی ہے۔ انھوں نے ملت اور معاشرے سے ہمیشہ اپنا قلبی تعلق استوار رکھا۔ متذکرہ بالا یہ ساری خوبیاں میجر ڈاکٹر محمّد اسلم کو موروثی طور پر ودیت ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کے والد گرامی کی پنجابی کی ایک مشھور نظم ” موت ” ہے ۔جس میں انہوں نے ” موت ” کے اس فلسفے کو بہت درد ناک انداز میں نظمایا ہے ۔۔۔۔یہ نظم ڈاکٹر میجر اسلم صاحب کی موت پر دکھی دل کے ساتھ شامل کر رہا ہوں ۔۔ چند بند لاحظہ ہوں ۔۔
چن جیہاں صورتاں نوں مٹی نے لکا لیا
جت دی اے موت جہنے ساریاں نوں ڈھا لیا
جگ وچ جیوندیاں نوں پیندیاں ضرورتاں
آؤندیاں نیں یاد اودوں اونہاں دیاں صورتاں
دل والے شیشے وچوں لہندیاں نہیں مورتاں
پیار دا پواڑا جیہڑا اسیں گل پا لیا
چن جیہاں صورتاں نوں مٹی نے لکا لیا
جگ توں الوپ ہویاں شکلاں پیاریاں
کم سارے چھڈ اونہاں کیتیاں تیاریاں
ٹکیا نہ پچھے اونہاں واجاں اساں ماریاں
کیہڑا سی اوہ بیلی جہنے اونہاں نوں بلا لیا
چن جیہاں صورتاں نوں مٹی نے لکا لیا
کہنے ایس جگ وچ سدا بیٹھ رہنا اے
ات نہ سہیڑ بھائیا ! میرا ایہو کہنا اے
نور تیرے کول بس عملاں دا گہنا اے
رسا ہویا رب جے توں ایہدے ناں منا لیا
چن جیہاں صورتاں نوں مٹی نے لکا لیا