موجودہ سیاسی منظر نامہ پر چند تاثرات
…………………….
اب سے پہلے تک ہمیشہ میرا یقین رہا کہ نواز شریف نے بڑی کرپشن تو کی ہی ہوگی۔ چور چور کا اتنا شور ہے کچھ تو سچ ہوگا ہی۔ لیکن اتنے طویل عرصے تک کرپشن کا مقدمہ چلنے اور ہماری نمبر ون ایجنسیوں کی تمام تر ریاستی طاقت لگا دینے بعد بھی ثابت یہ ہوا کہ نواز شریف نے اپنی دولت کا ایک حصہ باہر ملک بھجوایا ہے جس سے کچھ پراپرٹی خریدی گئی۔ اس 'جرم 'پر کہا گیا کہ میاں صاحب نے 'ملک لوٹا ہے'، یہ 'سب سے بڑا چور' ہے۔ الزام اورثبوت جرم میں یہ تفاوت دیکھ کر مجھے پہلی بار میاں صاحب سے ہمدردی ہوئی کہ جسے آج تک اتنا بڑا چور سمجھا اس پر گلے، گالیوں اور ریاست کی ساری طاقت صرف کر کے بھی کوئی ثبوت نہ نکلا۔ محض اس بنا پر میاں صاحب کے خلاف پیدا کی گئی نفرت کس قدر بے بنیاد تھی۔ پھر قانون کے نفاذکے نام پر جو ناانصافی کی گئی اور جس بھونڈے طریقے سے کی گئی وہ کسی بھی غیر جانب دار شخص کے لیے بھی بہت ناگوار تھی خصوصا میاں صاحب کی بیٹی کو شامل سزا کرنا مضحکہ خیز حد تک غیر قانونی تھا۔ ملک کے باشعور طبقوں کی طرف سے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر اس کی مذمت آنی چاہیے تھی۔ مگر ہمارا سماج ابھی اس سطح کے شعور سےکافی دور ہے۔
میاں صاحب پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے انھوں نے ادارے تباہ کر دیے۔ ادھر حقیت ہے کہ وفاق اور پنجاب کے تمام ادارے پہلے سے بہت بہتر کام کر رہے تھے میگا پراجیکٹس مکمل ہوئے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے بڑے مسئلے کو حل کیا گیا جس سے صنعت کا پہیہ رواں ہوا جو مشرف کے آخری دور میں اس کی غفلت اور نااھلی کے نتیجہ میں بند ہو گیا تھا۔ ریلوے کے مردے گھوڑے میں نئی روح پھونکی گئی، تحصیل اور پٹواری کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہوا۔سرکاری ہسپتالوں کا نظام بہت بہتر ہوا کہ کے پی کے اور بلوچستان سے لوگ یہاں علاج کروانے آتے ہیں۔ اوریہ سب عمران کے خان کے جان لیوا دھرنوں کے باوجود ممکن ہوا۔
میں اپنے ملک کے اس تعلیم یافتہ طبقے کو کیا الزام دوں جسے تخیل پسندی اور رومانویت کے جام پلا کر پہلی بار سیات میں لایا گیا جو ایک بہت مفید سیاسی طاقت بن سکتے تھے مگر وہ اپنی ناتجربہ کاری اور بھولے پن کی بنا پر جمہوریت کی بجائے گروہی سیاست کے لیے استعمال کر لیے گے۔ سیاست کے ان نووردان کا جوش نو مسلموں کی طرح بڑا تازہ اور مثبت تھا۔مگر افسوس کہ اسے نفرت اور تعصب میں بدل کر گروہی سیاست اور غیر جمہوری قوتوں کےایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کر لیا گیا۔ان کے ذریعے سے جمہوری کلچر کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ن لیگ کے مزید تحمل اور پی پی پی کے اپنی بہتر جمہوری کلچر کی روایت کی پاسداری سے ہی بچ سکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے نوجوان سے مکمل مایوسی نہیں امید ہے ان میں سے ایک طبقہ اگلے انتخابات تک جمہوری روایات سیکھے گا اور خان صاحب کو بھی سکھائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔