(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)
قوم کو ایک اور دھرنے کا سامنا ہے۔ایک سوال ہر زبان پر ہے۔ دھرنے کے پیچھے کون ہے؟اصل ہاتھ کس کا ہے؟ یہ سوال باشعور لوگ اٹھاتے ہیں یا خبطی… اس بحث میں پڑے بغیر خالص سیاسی حرکیات کی روشنی میں دھرنے کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس سوال نے بھی بہت سے ذہنوں کو کشمکش میں ڈال رکھا ہے کہ مولانا کے ساتھ لبرل اور سیکولر قسم کے لوگ کیوں آ کھڑے ہوئے ہیں؟ سطور زیریں میں انھی سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے آنے والے منظر کی دھندلی عکاسی کی کوشش ہو گی۔
یہ معلوم ہے کہ ملک خدا داد کے قیام کے ابتدائی چند سالوں کے بعد مفاد پرستوں کا ایک گروپ بین الاقوامی آقاؤں کی آشیرباد سے اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تھا۔اس گروپ کی نمائندگی عدلیہ،پارلیمان،سول سوسائٹی اور مقتدر حلقوں میں تھی۔جنھیں اندرون خانہ ایک نومولود مذہبی عصبیت مربوط رکھتی تھی۔پالیسیاں یہی مخصوص حلقہ بناتا ،لیکن لیبل کبھی فوج پر لگتا،کبھی سیاستدانوں پر اور اکثر مولویوں پر۔پھر اس نفرت کو کبھی “پنجابی ظلم” کی طرف بھی موڑنے میں کامیابی مل جاتی رہی۔جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی نے جنم لیا۔اقدام ایک خاص گروہ کا ہوتا اور گالی پنجاب کو پڑتی۔یہی صورتحال افقی تقسیم میں نظر آتی جب لبرل حضرات کی نظر میں تمام خرابی کی جڑ مولوی قرار پاتا اور مولوی کی نظر میں ساری خرابی ان بے دینوں کی پیدا کردہ ہوتی جو اپنے آپ کو لبرل،سیکولر یا قوم پرست کہتے۔فوجیوں کی نظر میں سیاستدان کرپٹ اور سیاستدانوں کی نظر میں فوج ترقی کے رستے کی رکاوٹ سمجھی جاتی۔اصل کھلاڑیوں نے پچاس سال قوم کو اس طرح آپس میں ہی الجھائے رکھا اور اپنا کھیل انٹرنیشنل ایجنڈے کے مطابق کامیابی سے جاری رکھا۔عام طور جن اقدامات کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالا جاتا وہ فیصلے درحقیقت اسی گروپ کے منصوبہ سازوں کے ہوتے البتہ یہ گروپ بڑی کامیابی سے ان فیصلوں کو کبھی فوج،کبھی سیاستدانوں اور کبھی بیوروکریسی پر ڈال کر اپنے آپ کو مخفی رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔
اکیسویں صدی سے قبل اگر سائنسی انکشافات کا دور تھا تو یہ صدی سیاسی رازوں کے افشاء کی صدی ثابت ہو رہی ہے۔امریکہ نے جن حیلوں بہانوں سے اپنا ایجنڈہ آگے بڑھایا اور دیگر مغربی ممالک نے جس طرح اسکی تقلید کی اس عمل نے مغربی جمہوریت کے بظاہر روشن چہرے کا اندرون جو چنگیز سے تاریک تر ہے پوری طرح آشکارا کر دیا۔استعمار کی جو نئی شکل بنی تھی اس کے میک اپ کے اترتے ہی اسکے پاکستانی بازو کا ستر بھی کھلنا شروع ہو گیا۔ جب اس مفاد پرست،نیم مذہبی،نئے عالمی استعمار اور عالمی صیہونی منصوبہ سازوں کے ممد و معاون گروپ کا پردہ فاش ہونے لگا تو وہ کھلی فسطائیت پر اتر آیا۔اسکا پہلا نشانہ پرویز مشرف بنا۔جو اسکا ایک انتہائی اہم مہرہ رہ چکا تھا مگر اب اگلے مرحلے کےلئے بےکار ہی نہیں ہو چکا تھا بلکہ ایک درجے میں رکاوٹ بھی تھا۔اسکے بعد کے دس سال اندرون خانہ فسطائیت کے اجراء کے ہیں۔اس عمل میں نواز شریف کو رکاوٹ سمجھا گیا۔نواز شریف نے حالات کو دیکھتے ہوئے نبھا کرنے کی بہتیری کوششیں کی مگر ہر بار کہیں سے کچھ ایسا ہو جاتا رہا کہ طرفین میں تصادم کی کیفیت بڑھتی ہی چلی گئی۔اس تصادم نے نواز شریف کو موت کی دہلیز تک تو پہنچا دیا مگر اس کو جھکا نہ سکا۔اسکی پارٹی کی لیڈر شپ نے پنجاب کے جاگیرداروں والا روایتی مفاہمانہ انداز اپنایا مگر وہ،اسکی بیٹی کچھ پارٹی لیڈر اور بڑی تعداد میں پارٹی ورکر اسکے مزاحمتی بیانئے کے ہمنوا ہوتے چلے گئے۔ادھر مختلف اداروں میں موجود حقیقی محب وطن عناصر کی بھی آنکھیں کھلنے لگیں اور سوالات اٹھنے شروع ہوئے تو انگلیوں نے بھی مخصوص جگہوں کی طرف اٹھنا شروع کر دیا۔اس صورتحال نے درپردہ کارفرما گروہ میں گھبراہٹ پیدا کر دی۔ہنگامی صورتحال میں دس آدمیوں کے کپتان کو قوم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہوا۔اس میں شک نہیں کہ اس میں پوٹینشل تھا مگر تجربہ کرکٹ ٹیم ہی کو لیڈ کرنے کا تھا۔اسکی نہ سیاسی تربیت ہو سکی،نہ کوئی سیاسی استاد مل سکا اور نہ کسی سیاسی عمل سے گزرا۔اس کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کےلئے اور پھر اس پر برقرار رکھنے کےلئے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کیئے گئے۔چنانچہ میڈیا کے لوگ ہوں،سیاستدان ہوں یا سول و فوجی بیوروکریسی کے مخلص لوگ اصل صورتحال ان پر عیاں ہوتی گئی۔اس عمل نے جہاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو مذہبی،سیکولر اور لبرل کے ساتھ ساتھ پنجابی سندھی پٹھان آور بلوچی حلقوں میں قبولیت دی وہاں نقصان یہ ہوا کہ ان حلقوں کے نشانے پر فوج آ گئی۔اس بیانیے کو فوج مخالف یا ملک دشمنی پر معمول کیا جانے لگا۔جس سے ایک نئی خطرناک تقسیم وجود میں آ چکی ہے۔
ادھر مولانا فضل الرحمان جس مذہبی دھارے کے نمائندہ ہیں وہ مضبوط سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔دیو بند مکتب فکر کے جس حصے نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اس نے طویل عرصے تک کارزار سیاست میں مسلمانان ہند کی راہنمائی کا فریضہ بڑی دلسوزی اور بے جگری سے سر انجام دیا تھا۔وہ سیاست کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے۔مگر تقسیم کے وقت مسلم عوام کے جذبات کا صحیح ادراک نہ کر سکنے کی وجہ سے قیادت انکے ہاتھوں سے پھسل کر قائد اعظم کے پاس آ گئی۔دیو بند کا تھانوی حصہ مسلم لیگ کا ہم رکاب ہوا اور جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پاکستان بننے کے بعد مدنی گروپ کا پاکستانی حصہ جمعیت علماء اسلام کہلایا۔چونکہ اب اس گروپ کی سیاست اصلا اس ضرورت کےلئے تھی جو کاروباری طبقات کو سیاست میں دھکیلنے پر مجبور کرتی ہے یعنی مدارس جو خدمت دینی کے مراکز ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ حضرات کےلئے “زمینی ضرورتیں”پوری کرنے کا باعث بھی ہیں۔یہی ضرورت مدنی گروپ کی بھی تھی۔ضرورت کے اس اشتراک نے دونوں دھڑوں کو جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم پر جمع رکھا۔اس جماعت کا اصل کام ایک طرح کی ٹریڈ یونین جیسا نظر آتاہے۔ مگر ایک شاندار ماضی رکھنے کی وجہ سے اس جماعت کو سیاسی میدان کی مہارت رکھنےوالی چند جماعتوں میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس جماعت نے زیادہ تر اپنے آپ کو مدارس کے تحفظ تک ہی محدود رکھا۔ یہ جماعت پاکستان کی سیاست میں کوئی قابل ذکر ایجنڈہ رکھے بغیر بھی سٹیٹس کو کی قوتوں کو کھٹکتی رہی۔لھذا علماء کے اندر سے بھی اسکی سیاسی مخالفت کی بنیاد پر جماعتیں بنتی رہیں۔جنھیں میڈیا میں انکے سیاسی قد سے کہیں بڑھ کر کوریج ملتی۔جب مولانا فضل الرحمان صاحب نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی انھوں نے اکثر مقتدرہ کی مخالف قوتوں سے اتحاد کیا۔وہ ایم آر ڈی کا حصہ رہے۔انھوں نے نواز شریف سے بھی دوری رکھی۔مگر پرویز مشرف انھیں زیر دام لانے میں کامیاب رہے۔پھر جب نواز شریف مقتدرہ کےلئے ناقابل برداشت ہو گئے تو مولانا کو نواز شریف کا سیاسی حمائتی بننے میں ذرا دیر نہ لگی۔
2018ء کے مقتدرہ کے منصوبے میں مذہبی طبقے کےلئے کوئی حصہ نہیں رکھا گیا تھا۔عالمی حالات صاف چغلی کھا رہے تھے کہ نہ صرف مذہبی طبقے کو کارنر کیا جانا ہے بلکہ مدارس کا ناطقہ بند کرنا ، توہین رسالت اور ختم نبوت والی دفعات بھی غیر موثر کرنا پیش نظر ہے۔مولانا کو اپنی سیاسی بصیرت سے اس حقیقت کا ادراک کرتے دیر نہ لگی۔ان کے پاس طاقت کے اظہار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ادھر مسلط کردہ فسطائیت کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوئے۔عوام میں مایوسی،صحافیوں میں خوف اور بے زاری اور سیاسی حلقوں میں تشویش نے جنم لینا شروع کیا۔ جس طرح تقسیم ملک کے وقت علماء عوام کے جذبات نہیں سمجھ سکے تھے اسی طرح مسلم لیگ کی سیکنڈ لائن کی لیڈرشپ موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں ناکام رہی۔مولانا کی دور رس نگاہ نے موقع تاڑ لیا۔ان کے پاس مضبوط تنظیم پہلے سے موجود تھی۔سیاسی بصیرت بھی وافر ہے اور تحریکی شعور کی بھی کمی نہیں ہے۔انھوں نے کوشش کی کہ دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ لیکر چلیں ،مگر سب کے پاؤں من من کے ہو گئے۔پھر انکی سیاسی ضرورت اور بصیرت نے انھیں اپنی ہی تنظیم پر آسرا کرتے ہوئے اکیلے ہی تحریک کی ٹھان لینے پر آمادہ کر لیا۔انکے سیاسی شعور نے انھیں صحیح راہنمائی دی کہ انھوں نے ان مسائل پر بات کی ہے جو سب کے مشترکہ مسائل ہیں۔یہی وجہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے اور ہر جماعت کے کارکنوں کی ہمدردیاں انھیں حاصل ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک اور ہلچل کا سامنا ہے۔تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہوں یا ناکام رہیں یہ معاشرے کے زندہ ہونے کی گواہی دے جاتی ہیں۔
وکلاء کی تحریک اصل اغراض ومقاصد کیا تھے اور اس کی آڑ میں کس نے اپنا ایجنڈہ کیسے آگے بڑھایا،اس سے قطع نظر اس گھٹن زدہ آمرانہ ماحول میں یہ تحریک تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح محسوس ہوئی تھی۔امیری اور درویشی کی عیاری اپنی جگہ، مگر عوام کی بے تابانہ شرکت قومی زندگی اور ولولے کی علامت ضرور ثابت ہوتی ہے۔اس حوالے سے موجودہ فسطائیت زدہ ماحول میں مولانا کی یہ کاوش تاجروں،صنعتکاروں،صحافیوں اور غریبوں کے ساتھ ساتھ مفادات سے بلند دانشوروں،حقوق انسانی کی تنظیموں اور اپنے حقوق کےلئے سرگرداں مختلف گروہوں کےلئے امید کی کرن بن کر سامنے آئی اور اسی وجہ سے زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ لوگوں کی نظریں اس پر لگی ہیں۔
جب بھی کوئی تحریک چلتی ہے تومحرک کی شخصیت بھی زیر بحث آتی ہے۔ اس پر کیچڑ بھی اچھالا جاتا ہے۔ کردارکشی اورمخالفانہ پراپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔ اسے کسی کا ایجنٹ بھی ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی اصلاح کیلئے اٹھا ہےتواسے نشانے پر ضرورلیا گیا ہے۔ اگر کسی جرنیل نے اصلاح چاہی تو جرنیلوں کی کرپشن اورنالائقی کے قصے چلائے گئے۔ اگرنواز شریف نے شریعت بل لانے کی کوشش کی تو کہا گیا امیرالمومنین بننے کی خواہش ہے۔ ایسی مہمات کو بیانیہ دینے والا وہی پوشیدہ مگر طاقت کے ہرمرکزمیں موجود گروہ ہوتا ہے۔ البتہ اس جام کو گردش دینے والے مظلوم خود ہی ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہوتا ہے جو کسی تحریک کے پس پردہ محرکات کو ظاہر کرتا ہے۔ مولانا کی موجودہ تحریک کس مقصد کے تحت اٹھائی گئی ہے، اسکی اصل حقیقت تومستقبل ہی آشکارا کرے گا۔ مگراس تحریک کے کیا ممکنہ مقاصد ہوسکتے ہیں؟ یہ جائزہ ابھی بھی لیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے لیئے پاکستان کے اندرونی اور گردوپیش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا ہوگا۔
اس پر تو کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان داخلی مسائل کے حل میں ناکام ہو چکے ہیں۔ انکے سلیکٹرزنہ صرف مایوس ہوئے ہیں بلکہ انکے بعض بلنڈرزپربھنائے ہوئے بھی ہیں۔ سعودی فرمانرواؤں کی ناراضگی کے چرچے بھی ہیں۔ بیرونی مسائل میں افغانستان کی بدلتی صورتحال کوپہلےدیکھ لیتے ہیں۔ وہاں سے امریکہ آبروکا بھرم رکھتے ہوئے نکلنا چاہتا ہے۔ بلکہ اب تو کہا جارہا ہے کہ بنا معاہدے کے ہی چل دیا ہے۔ ظاہر ہےامریکہ کے جانے کےبعد نہ صرف منظر نامہ بدلے گا، بلکہ اسکے کچھ تقاضے بھی ابھر کر سامنے آئیں گے، جن سے نبرد آزما ہونا ہو گا۔ اسی طرح عالم عرب میں وقوع پذیرواقعات بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن سب سے خطرناک صورتحال ہمارے مشرق میں پروان چڑھ رہی ہے۔ فی الحال کشمیرایشونظرآتا ہے، مگر یہ ایک انتہائی خطرناک عظیم منصوبے کا آغاز ہے۔ خدانخواستہ یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان کا نشان باقی نہیں بچے گا۔ اس منصوبے کا مختصر ذکر کرتا چلوں۔ پہلے مرحلے میں دونوں طرف کے کشمیر کوملا کر خود مختارکشمیربنے، اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان اورمشرقی پنجاب میں آزادی کی تحریکیں چلنا اورایک آدھ سال بعد دونوں جگہوں کا آزاد ہو کرخود مختارکشمیر کا حصہ بن جانا۔ اس دوران ہمارے والے پنجاب میں بعض دانشوروں کے ذریعے رنجیت سنگھ کو پنجاب کا ہیرواور افغانیوں کو ڈاکو ثابت کرنے کی مہم چلانا۔ کرتار پورہ بارڈرکی آمدورفت کے ذریعے سکھوں کے مقدسات کو انکے حوالے کرنے کی مہم چلانا۔ یہ بتانا کہ ہری پورتوتھا ہی مہاراجہ ہری سنگھ کا اورمان سنگھ کا سہرہ مانسہرہ ہے۔ یہ اس منصوبے کے خط و خال ہیں۔ عالمی صیہونیت اس منصوبے کو قادیانیت کے ذریعے آگے بڑھا رہی ہے۔ دونوں پنجاب،دونوں کشمیراورگلگت بلتستان پرمشتمل توحید پسند مگرصوفی مزاج مسلمان،توحید پسند گرونانک کےماننے والے سکھ اوردجالِ مشرق کے ماننے والے قادیانیوں کی مشترکہ ریاست وجود میں لائی جائے۔ یہ ریاست وحدت اَدیان کے منشورپراستوارکی جائے تاکہ بنیاد پرستی کا توڑ ہوسکےاورساتھ ساتھ صیہونی مقاصد کی تکمیل میں مدد گارہو، تاکہ مشرق سے عربوں کو مدد نہ مل سکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھرپاکستان کہاں ہوگا۔ ایٹمی اسلحہ “محفوظ” سے “محفوظ ترین”ہاتھوں میں چلا جائیگا۔ بنیاد پرست اورراسخ العقیدہ مسلمانوں کا سپین والا حشر کیا جائیگا۔ اوربالآخرزندہ رہنے کےلئے قادیانی دجال کو سچا ماننا پڑے گا۔ در حقیقت یہی وہ گروہ ہےجو پاکستان کے مسائل کی وجہ ہے۔ جو کہیں لبرل بن کر،کہیں قوم پرست بن کر،کہیں محب وطن بن کر اور کہیں مولوی بن کر اپنا منصوبہ آگے بڑھاتا رہا ہے۔اس پورے منظرکوسامنے رکھ کرمولانا کی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تحریک کیا رخ اختیارکرسکتی ہے؟ یہ ان منصوبوں میں سے کس میں فٹ ہو سکتی ہے؟ کس کا توڑ کر سکتی ہے؟ کیا پاکستان کے استحکام میں کوئی کردارادا کرسکتی ہے؟ یا افغانستان، پاکستان، کشمیراوردونوں پنجابوں پر مشتمل عظیم ترپاکستان کی راہ ہموارکرسکتی ہے؟
ایک امکان یہ سامنے آ رہا ہے کہ مقتدر قوتیں عمران خان کی جگہ مولانا کولانا چاہتی ہیں۔ اس صورت میں چہرہ بدلنے کے علاؤہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اگر یہی محرک ہوا تودھرنا بہت جلد اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نہ کوئی بڑا ٹکراؤہوگا اورنہ میلہ سجے گا۔ وکلاء تحریک کاہی ری پلے ہو گا اورقوم کودستار بردارکپتان مل جائے گا۔ مگریہ مولانا اورملک کےلئے بڑے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ پاکستان کا مذکورہ بالا گروہ انڈیا اورعالمی طاقتوں سےملکر پراپیگنڈا کرے گا کہ پاکستان اورافغانستان میں طالبان آگئے ہیں۔ مالیاتی ادارے شکنجہ کسیں گے۔ ایف اے ٹی ایف والا حربہ علیحدہ آزمایا جائے گا۔ نتیجۃ معیشت میں مزید ابتری آئے گی۔مولانا، عمران خان سے بھی کم وقت میں ناکامی سے دوچار ہوجائینگے۔ دین الگ سے بدنام ہو گا۔ دینداروں کےلئے مشکلات بڑھیں گی۔ قادیانیت کواپنا ایجنڈہ آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ مولانا کا اپنی سیاسی زندگی کا سب سے کمزور فیصلہ ہو گا جوان کی سیاست کےاختتام کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اسی طرح اگر یہ تحریک بغیر کسی کامیابی کے ناکام بنا دی جاتی ہے تو بھی درج بالا نتائج کامترتب ہونا یقینی ہو گا۔
ایک امکان یہ ہے کہ عالمی مقتدرہ نے پاکستانی مقتدرہ میں بنیادی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہو۔ یعنی پچھلے بیس سالوں کواگر پرویز مشرف کے مکتب فکر کا دور سمجھا جائے تو آئندہ دوبارا ضیاء الحق کے مکتب فکر کو آگےلایا جائے۔ اگر ایسا ہوا تونظام تو جوں کا توں رہے گا۔ بس اتنا فرق پڑے گا کہ سیکولر لبرل کی جگہ سیکولرمولوی (داڑھی والا یا بغیر داڑھی) آ جائیگا۔ یہ تبدیلی افغان طالبان کوبھی فریب میں مبتلا کر سکے گی۔ پاکستانی اسلام پسندوں کےذریعےانھیں “انتہا پسندی”سے روکے رکھنا ممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں وقتی طورپر معاشی حالات سنبھلنے کے بھی امکانات ہونگے۔ یہ کھیر مولانا پکائیں گے ضرورمگر نوش نہیں کر سکیں گے۔ اس صورت میں یا توراجہ ظفر الحق جیسا کوئی اسلام پسند آئے گا یا پھر تھانوی گروپ سے کوئی بے ضرر بندہ لایا جائیگا۔ لیکن دوررس نتائج اسکے بھی وہی ہوں گے جواوپر مذکور امکان کے تھے۔ اس دورمیں اندرونی طور پر فوج اوردینداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جائیگا اوربیرونی طور پراسلامی انتہا پسندی کا واویلا پہلے دھیمے سروں میں ہوگا۔ رفتہ رفتہ اسکی لے بلند ہوتی جائے گی اوربالآخر پوری شدت سےدھشت گردی کا راگ الاپا جائے گا۔
اب سب سے موہوم اورتقریباً ناممکن امکان کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ مولانا کسی کےاشارے کی بجائے اپنےاحساس فرض،تلافی مافات اورامت مسلمہ پر عائد ذمہ داری کی ادائیگی کےلئے متحرک ہوئے ہوں۔ یہ ذہن میں رہے کہ جمعیت علماء اسلام، تھانوی گروپ کی طرح محض روایت پرستوں کی اجتماعیت نہیں ہے بلکہ شاہ ولی اللہ کی فکرکی وراثت کی دعویداربھی ہے۔ اس کے جھنڈے پرشاہ ولی اللہ رح کا مشہورقول “فک کل نظام”بھی لکھا ہے۔
یعنی باطل کا ہرنظام توڑ پھوڑ دو۔یہ عبیداللہ سندھی کے نظریات کی بھی امین سمجھی جاتی ہے۔ وہی مولانا سندھی جن سےاکثر تھانوی حلقےمتوحش رہتے ہیں۔ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہی تھے جنھوں نے مولانا سندھی کےلئے نرم گوشے کا اظہار کیا تھا۔ مولانا سندھی کے معاشی نظریات میں انقلابی رنگ بہت گہراہے۔ اسی وجہ سے جب دائیں اور بائیں بازوکی تقسیم وجود رکھتی تھی، تب جمعیت علمائے اسلام کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت کے طورپرجانا جاتا تھا۔اسی وجہ سے مقتدرہ کواس سے کھٹکا رہتا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالات کے جبر نے مولانا کو بھولی ہوئی منزل یاد کرا دی ہو۔ قدرت مسلمانان ہند پرمہربان ھو چکی ہو۔ اس لیئےمولانا کا دل راتوں رات بدل کر انھیں نئی منزل کا راہی بنا دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ملک خدا داد کو دنیا کےلئے مینارہ نور بنانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ اس کام کےلئے جمعیت کوہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کےلئے منتخب کر لیا گیا ہو۔ آخر مقتدرہ کے اوپر کوئی مقتدرمطلق بھی تو ہے۔ اشارہ طاقتورحلقے ہی نہیں دیتے قادرمطلق کا اشارہ بھی تحریک دیتا ہے۔ وہ ہم پر مہرباں ہوچکا ہو۔اس نے ہمیں ایٹمی ٹیکنالوجی دے رکھی ہے، میزائل ٹیکنالوجی سے نوازا ہوا ہے۔ بہترین فوج ذہین ترین باصلاحیت قوم اورسب سے بڑھ کرعشقِ مصطفی ﷺکی قوت ہمیں عطا کر رکھی ہے۔ ہماری یہ صلاحتیں آخرکب بروئے کارآئیں گی۔ اب آسمان سے تو کسی نے نہیں اترنا۔ جس کی انگلیوں کےدرمیان میں تمام انسانوں کے دل ہیں اسی نے کسی کے دل کی دنیا میں تبدیلی لانی ہے، پھرادارے بدلیں گے، پھر قوم بدلے گی اور پھریہ قوم سارا جہاں بدل دے گی۔
ہمیں مولانا کی اس تحریک سے اصل دلچسپی اسی حوالے سے ہے۔
درج بالا سطور کھلی آنکھوں خواب دیکھنا محسوس ہو رہا ہو گا۔پہلے اسکی وجہ جان لیتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ مولانا نے ساری زندگی بہت محتاط کھیلا ہے۔انھوں نے خطرہہ مول لینے سے ہمیشہ اجتناب ہی برتا ہے۔اب انھوں نے اچانک اپنے لیئے تخت یا تختہ کی صورتحال پیدا کر لی ہے۔ہو سکتا ہے کہ عام تاثر کے عین مطابق انھیں شہ دی گئی ہو۔اس کا بھی امکان ہے کہ انھیں اپنے سیاسی دوستوں نے آگے لگایا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی حلقہ اثر کے دباؤ میں نکلنے پر مجبور ہوئے ہوں۔وجہ کوئی بھی ہو اس تحریک کی ناکامی نہ صرف مولانا کی سیاست کاخاتمہ کر دے گی بلکہ انکے مکتب فکر کےلئے بھی شدید مضر ثابت ہو گی۔اس صورت میں اہل مذہب کو نماز روزے اور کفنانے دفنانے تک محدود کر دینے کی کوشش بھی ہو گی۔اگر یہ تحریک سیاسی مقاصد کے حصول کی حد تک کامیابی حاصل کر بھی لیتی ہے ۔جس کا نتیجہ سول سپریمیسی کی صورت میں سامنے آیا تب بھی مولانا کی محنت کا پھل بڑی پارٹیوں کی جھولی میں گرے گا۔مولانا کے حصے میں چھوٹی موٹی وزارت ہی آ سکے گی۔پھر تھوڑے ہی عرصے بعد مولانا بھی عوام میں غیر مقبول ہوتے چلیں جائینگے۔ جماعت اسلامی پہلے ہی اس عمل سے گزر کر غیر موثر ہو چکی ہے۔چنانچہ دینداروں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔دستور کی اسلامی دفعات کو غیر موثر کیا جائے گا،ختم نبوت کی دفعہ حذف کی جائے گی، توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائے گا اور قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی حثیت کو بھی ختم کر دیا جائیگا۔مدارس سرکاری تحویل میں لیئے جائیں گے۔ مساجد پر بھی سرکاری کنٹرول ہو گا۔ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا خطبہ ہی پڑھنے کی اجازت ہو گی۔فوج کا کردار بالکل محدود رہ جائیگا۔اقامت دین کا تصور پیش کرنا بغاوت کہلائے گا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ “قرآنی تبلیغی جماعت” بن کر بچاؤ ہو جائیگا تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔اسکا صاف مطلب یہ ہے کہ مولانا کی تحریک کے نتیجے میں ایک سیکولر جمہوری نظام مستحکم ہو گا۔ اس نظام کے تحت جو حکومت قائم ہو گی اس نے بھی موجودہ ایجنڈے ہی کو آگے بڑھانا ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو ہمارا ملک بھی زیادہ عرصہ اپنی سالمیت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔امریکی منصوبے کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔اس سے مسلمانان ہند کی ڈیڑہ صدی کی جدوجہد ناکامی سے دوچار ہو جائے گی۔یہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی سے بھی بڑی ناکامی ہو گی۔اس کے اثرات بھی نہایت تباہ کن نکلیں گے۔جب اتنا ہولناک منظر سامنے آتا ہے تو امید قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دائیں بائیں نظریں اٹھتی ہیں تو ہر شاخ پہ الو ہی بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ڈوبتے کو تنکا بھی سہارا نظر آتا ہے۔جبکہ مولانا اگر اپنی منزل سچ مچ اسلام کو بنا لیں تو وہ ملت اسلامیہ ہند کےلئے لنگر ثابت ہو سکتے ہیں۔انھیں حدود و قوانین کی بجائے نظام عدل اجتماعی پر زور دینا ہو گا۔ اس سے عوامی جذبات کا رخ مولانا کی طرف مڑتا چلا جائے گا ۔وہ لوگوں کے دل کی آواز بن جائیں گے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کےلئے اپنے اتحادیوں میں سے پیپلز پارٹی،نون لیگ اور اے این پی کی قیادت کو اعتماد میں لیکر معاشی عدل کی اہمیت اجاگر کرنی ہو گی۔پھر چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرح معاشی اصلاحات کرنے کا میثاق بھی تسلیم کروانا ہو گا۔یہ محض نعرہ نہ ہو بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دل و جان سے کام کیا جائے تو اس تحریک کا پھل بھی کسی اور کی بجائے مولانا ہی کی جھولی کی رونق بڑھائے گا۔اس صورت میں عوام کا مرکز نگاہ کوئی اور راہنما نہیں ہو گا بلکہ مولانا ہی کے نعرے “وجن”گے۔ وہ اس قوم کےلئے ماؤزے تنگ کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ بھٹو جیسی مقبولیت انکی منتظر ہو گی۔ کوئی دوسرا راہنما انکے آگے دم نہیں مار سکے گا۔علماء کے ہاتھ سے جو امامت نکل گئی تھی دوبارہ انکے پاس آ جائے گی۔اس لیئے یہ کہنا بجا ہے کہ مولانا اسلام آباد نہیں آئے ہیں بلکہ ایک ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے ایک راستہ تخت تک لے جاتا ہے تو دوسرا تختے پر پہنچاتا ہے۔ستم یہ ہے کہ یہ صرف انکی تقدیر ہی نہیں ہے بلکہ جو انکی تقدیر ہو گی وہی اب ہم سب کی بھی ہو گی۔
یہ وہ صورتحال ہے جو جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔جو لوگ اس تحریک کو اس انداز میں نہیں دیکھ پاتے وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے اطمینان سے ہیں۔وہ اس تحریک کو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔لیکن وہ سخت غلطی پر ہیں۔آج کے تماشائی کل تماشا بننے والے ہیں۔ ابھی اگر اس کا احساس نہیں ہو رہا تو بہت جلد کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
مولانا سے امید باندھنا نرا خواب دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ اسباب بھی ہیں۔مولانا پاکستان کی سب سے بڑی اور موثر سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔انکے کارکن جان دینے کی لگن سے سرشار ہیں۔وہ سیاسی حرکیات،زبان و بیان کی باریکییوں،مذاکرات کی نزاکتوں اور اقتدار کی راہداریوں کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنے والے وقت موجود کے واحد مذہبی راہنما ہیں۔انھیں سیاسی جماعت کے علاوہ انصار الاسلام کی صورت میں ایک مضبوط تنظیم کی خدمات بھی حاصلِ ہیں۔یہ ساری خصوصیات مل کر انھیں وہ اسباب مہیا کرتی ہیں جو کسی تحریک کی کامیابی کےلئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔بس مولانا کے دل میں وہ سودا سما جانے کی دیر ہے۔حالات سازگار ہیں،اسباب وافر ہیں اور مٹی بھی زرخیز ہے۔
یہ آشکارا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے خواہ سول سپریمیسی کی منزل حاصل کی جائے یا اسلامی نظام عدل برپا ہو۔دونوں ہی صورت میں تصادم کا اندیشہ ہو گا۔کوئی اپنی سپریمیسی چھوڑنے کےلئے تیار نہیں ہوتا۔کوئی ظالم ٹھنڈے پیٹوں عدل قائم نہیں ہونے دیتا۔ ہمارا دشمن جس نے چاروں طرف سے ہمارا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ وہ نہ صرف اس وقت کا عرصے سے منتظر ہے۔ بلکہ پہلے بھی کوشاں رہا ہے کہ تصادم کی کوئی صورت بن جائے۔ وہ لازماً ٹکراؤ کرانے کی کوشش کرے گا۔یہ غنیمت ہے کہ مولانا کے پاس ہجوم کو کنٹرول میں رکھنے والی تنظیم انصار الاسلام موجود ہے۔جس نے تاحال مجمعے کو عمدگی سے ڈسپلن میں رکھا ہوا ہے۔البتہ اس معاملے میں حکومت کو بھی پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تصادم سے ہر ممکن گریز کی کوشش کی ہے۔تاہم جانبین کا اصل امتحان تب ہو گا جب کوئی ایک تشدد کا حربہ آزمانے کی کوشش کرے گا۔
یہ مقتدر حلقوں کی بصیرت کا بھی امتحان ہو گا۔ملک جن خطرات میں گھرا ہوا ہے،معاشی بد حالی کی جو کیفیات ہیں اور خطے کے بدلتے حالات جو منظر پیش کر رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ گفت وشنید سے معاملات حل کر لیئے جائیں۔محب وطن حلقوں کےلئے مولانا وہ موزوں ترین شخصیت ہو سکتے ہیں جن کے سر پر سول سپریمیسی کا تاج رکھا جائے تو ان خطرات کا اندیشہ نہیں ہو گا ۔جن کا خطرہ کسی اور سے ہو سکتا ہے۔پھر اگر مولانا کی قیادت میں معاشی عدل کی طرف سفر کا آغاز ہوتا ہے تو ہر ادارے کی ساکھ بھی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔قومی سیاسی قیادتوں کو بھی عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوچنا چاہیئے کہ مقتدر حلقوں کو ان سے جو تحفظات ہیں ان کی موجودگی میں مولانا سب کےلئے بہتر چوائس ثابت ہو سکتے ہیں۔لہذا تمام سٹیک ہولڈرز تصادم سے گریز کو اولین ترجیح دیتے ہوئے نئے قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کر لیں گے۔تو کسی دشمن کو حالات سے ناجائز فایدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔
الغرض مولانا کےلئے جہاں تختے والی صورتحال ہے وہاں تحت کا بھی امکان ہے۔مگر اس کےلئے انھیں اپنی سیاسی کینچلی اتارنی ہو گی۔قدرت نے اس سے پہلے بھی انھیں مواقع دیئے جن سے انھوں نے محض سیاسی فائدے اٹھانے ہی پر اکتفاء کیا۔یہ انکےلئے آخری موقع ہے۔وہ چاہیں تو حسین احمد مدنی رح کی سیاسی غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ان کے پاس عبیداللہ سندھی کے معاشی نظریات کی ترویج کا موقع ہے۔وہ اس ملک کے امام خمینی بن سکتے ہیں۔لیکن اگر وہ اپنی سیاسی ضرورتوں ہی کے قیدی رہے تو انھیں اس کا موقع نہیں ملے گا کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم پاکستان بنانے کی غلطی میں شریک نہیں تھے۔ان پر قدرت کا بہت بڑا قرض ہے۔انھوں نےپرویز مشرف کے افغان طالبان سے یو ٹرن لینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کو کنٹرول کرنے میں حکومتی حکمت عملی پر چل کر اسے دباؤ سے نکالنے میں تعاون کیا۔حالانکہ اس موقع کو نفاذ اسلام کےلئے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔بلکہ اس صورتحال کا سیاسی فائدے اٹھاتے ہوئے کے پی کے میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔انھوں نے کتاب کے نام پر ووٹ لیکر حقوق نسواں بل پاس کرایا تھا۔پرویز مشرف کو وردی میں منتخب ہونے کا موقع دیا ۔سانحہ لال مسجد میں غفلت برتنے کا ارتکاب کیا۔بہت سی ناگفتنیاں ہیں جو کہنے کا فائدہ نہیں۔حاصل یہ ہے کہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قدرت کی طرف سے یہ آخری موقع ہے۔حالات بھی تخت یا تختہ کی نشاندھی کر رہے ہیں اور اتمام حجت کا خدائی قانون بھی اسی طرف نشاندھی کر رہا ہے۔آپ ویسے بھی زندگی کی اننگز کھیل چکے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں قدرت کا یہ موقع عنایت کرنا قدرت کی خاص عنایت ہے۔ جو آپ کے بزرگوں کی خدمات کی وجہ سے آپ کو میسر آیا ہے۔آپ چاہیں تو اسے اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں اور اسے ضائع کر دینے کی صورت میں اپنے اسلاف کےلئے اللہ کے ہاں شرمندگی کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم۔