شام کے 5:45 بج رہے تھے۔ "گودام چورنگی" سے پہلے "سندھ پولیس" کی جانب سے ناکہ پر ڈبل سوار موٹرسائیکل کو روک لیا۔ اور قانونی کاروائی کرتے ہوئے 520 روپے کا چلان کر دیا۔ موٹرسائیکل پر موجود مسافر خاتون التجا کر رہی تھیں کہ ہم غریب ہیں اور مجبوری کے تحت باہر نکلے ہیں۔ مہربانی کریں۔ "پولیس اہلکار" کہہ رہا تھا کہ ہم قانونی حکم سے مجبور ہیں آج صبح ہی "حکومت سندھ" نے تمام قسم کی "ڈبل سواری" پر سخت پابندی لگا دی ہے۔
یہ تھا آنکھوں دیا حال جو میری آنکھوں نے دیکھا۔ گزشتہ ماہ سے شروع ہونا والا "لاک ڈان" شہر قائد کے کئی افراد کو مجبور کو پیدل چلنے پر مجبور کر رہا ہے۔ صبح 6 بجے آپ سڑک پر نکلیں تو کئی بزرگ اور نوجوانوں کو پیدل چلتا پائیں گے یہ کوئی آوارہ نہیں ہیں بلکہ سیکورٹی گارڈ، پولیس اہلکار، فیکٹری یا کمپنی میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ حکومت وقت نے ہر طرح کی ٹرانسپورٹ بند کر رکھی ہے۔ مزدور طبقے سمیت کئی لوگ گاڑیوں کو ہاتھ کا اشارہ کرکے لفٹ کی درخواست کرتے ہیں۔ بہت سے مہربان ڈرائیور اپنے ساتھ بیٹھا لیتے ہیں۔
"حکومت وقت" احتیاطی تدابير کے ساتھ عام لوگوں کی استعمال کی تمام چیزیں کھول دیں۔ کیونکہ یہ بات کھلی اور واضح ہے کہ "شہر کراچی" میں کئی بڑے اسٹورز کھلے ہیں جو "جنرل اسٹور اور میڈیکل اسٹور" کی آڑ میں دنیا کی تمام اشیا فروخت کر رہے ہیں یعنی امیر طبقے کی سہولت کے لیے تمام چیزیں بذریعہ "آن لائن" اور بڑے اسٹورز دستیاب ہیں۔
تمام کاروباری سرگرمیاں اور نقل و حرکت بند ہونے کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے وجہ یہ ہے کہ "صاحب استطاعت" کی آمدنی کے کئی ذرائع ہیں اور اسے آنے جانے میں بھی کوئی دقت نہیں کیونکہ وہ عام شخص کی نسبت کئی وسائل رکھتا ہے۔
ایک افسوس ناک بات سننے کو کئی بار ملی کہ ان مشکل حالات میں بہت سے لوگوں نے سبزی اور پھل بیچنا شروع کر دئیے۔ اس چھوٹے کاروبار میں بھی پریشان کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ کچھ کالی بھڑیں ان سے رشوت طلب کرتی ہیں۔ منع کرنے پر ان کو مسکینوں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عوام اور حکومت باشعور ہیں سب اپنی اپنی ذمہ داری بھی پوری کر رہے ہیں مگر مظلوم کی آہ سننے والا کوئی کیوں نہیں ہے اور تنقید کرنے والے کثیر تعداد میں کیوں ہیں؟
ان دنوں میں ظالموں میں ضافہ ہوا ہے یا ریاکاروں میں ؟ کیونکہ سڑک پر اور مسجد کے باہر آج بھی مانگنے والے موجود ہیں اگرچہ مساجد کی سرگرمیاں اور سڑکوں پر آمدرفت محدود ہوچکی ہے۔
آخر ہم بہتری کی طرف کیسے بڑھیں؟ یہ ہمارا امتحان ہے یا پھر ہم نے خود ظلم خود پر مسلط کر لیا ہے۔ سوچیے گا ضرور۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...