پاکستان پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کی نااہلی، بیڈ گورننس اور فسطائیت سے پاکستان کے عوام کو نجات دلانے کے لئے جہاں پارلیمنٹ کے اندر قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے وہاں پارلیمنٹ سے باہر بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاجی ریلیاں منعقد کی ہیں، کسانوں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر کسان مارچ کا انعقاد کیا اور عوام کو مہنگائی اور بیڈ گورننس سے درپیش مسائل میں عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑی نظر آئی جبکہ پیپلزپارٹی کی ان احتجاجی ریلیوں میں عوام نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کرکے موجودہ حکومت کے خلاف اپنےجذبات کا اظہار کیا۔ احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے موجودہ نااہل حکومت کے خلاف فیصلہ کُن کردار ادا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی ستائیس فروری کو مزار قائد کراچی سے اسلام آباد کی جانب تاریخی لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی جیسے عدم اعتماد کے لئے یکسُو ہے اسی طرح لانگ مارچ کے لئے بھی پوری طرح متحرک ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی تیاریوں اور عوام کے موڈ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک بڑی سرگرمی ہو گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ تقریباً دس دنوں پر محیط ہے۔ مزار قائد کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ چونتیس شہروں سے گزرتا ہوا آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچے گا۔ اس دوران مختلف شہروں میں لانگ مارچ کے پڑاؤ کے دوران جلسے بھی منعقد کئے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے اس طویل لانگ مارچ سے جہاں عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی اور نااہل حکومت کے خلاف عوام کے جذبات کی ترجمانی ہو گی وہاں پیپلزپارٹی کو ایک بڑی عوامی رابطہ مہم کا بھی موقع ملے گا۔ پُرامن احتجاج اپوزیشن کاجمہوری حق ہوتا ہے اور پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور پُرامن جدوجہد پریقین رکھتے ہیں اس لئے ہم کبھی بھی ٹی وی اسٹیشن یا پارلیمنٹ بلڈنگ پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہم اس سلیکٹڈ حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کر رہے ہیں اور ہماری یہ تحریک پاکستانی عوام کے ساتھ ہو گی۔ وہ عوام جن کا وزیراعظم پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ہم اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس حکومت کو جمہوری انداز سے چیلنج کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ کون عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور کون عوام کے ساتھ نہیں کھڑا۔ انشااللہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہوں گے اور ضرور کامیاب ہوں گے۔ لانگ مارچ میں موجود لاکھوں شرکا کو کسی بھی جگہ پر روکنا یا کوئی رکاوٹ پیدا کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اگر حکومت کی طرف سے کسی بھی جگہ پر کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نقصان حکومت کو ہی ہو گا۔ اس لئے حکومت کو ایک پُرامن لانگ مارچ کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ پیدا کرنے سے باز رہنا چاہئیے۔
لانگ مارچ جوں جوں آگے بڑھتا جائے گا تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آتی جائے گی اور امید کی جا رہی ہے کہ لانگ مارچ کے دوران ہی تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی۔ اس مفروضے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ پی ڈی ایم نےبھی تئیس مارچ کو اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے لیکن ابھی تک پی ڈی ایم کی جانب سے اپنے لانگ مارچ کے لئے کوئی تیاری شروع نہیں کی گئی جس کا مطلب ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے دوران ہی پیش کر دی جائے گی اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے پہلے اس نااہل حکومت کو رُخصت کیا جا چکا ہو گا۔
جوں جوں لانگ مارچ کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے اور تحریک عدم اعتماد کے بارے بند دروازوں کے اندر کی جانے والی باتیں باہرآنے لگی ہیں، حکومت کی بوکھلاہٹ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور گھبرائی ہوئی حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جن سے حکومت مزید تنہائی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کے ایک پرانے ساتھی محسن بیگ کی بھونڈے انداز سےگرفتاری اور تشدد نے حکومت کی رہی سہی ساکھ کو بھی خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ محسن بیگ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہےجو عمران خان کے خالی غبارے میں ہوا بھرنے میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ محسن بیگ کا یہ بھی دعوی ہے کہ اس نے عمران خان کو دو ارب روپے کے عطیات اکٹھے کرکے دئیے۔ اس دعوے میں جتنی بھی سچائی ہو یہ بات بہرحال ہر کسی کو معلوم ہے کہ محسن بیگ کو طاقتور حلقوں کا نمائیندہ سمجھا جاتا ہے جو عمران خان کے بھی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے رہے ہیں لیکن عمران خان پر ذراسی تنقید نے محسن بیگ کو حوالات میں پہنچا دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں عمران حکومت کی جانب سے ایسے مزید فاشسٹ اقدامات کی توقع بھی کی جا سکتی ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی کم نظری کے باعث اپنی حکومت جاتے دیکھ کر کسی بڑے بلنڈر کی اُمید بھی کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے پیدا ہونے والے دباؤ کو کم کرنے کے لئے عمران خان نے بھی جلسوں کا اعلان کیا ہے لیکن اب تک فیصل آباد اور منڈی بہاؤالدین میں ہونے والے دو جلسوں میں عوام نے بہت حد تک عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اور سرکاری انتظامات کے باوجود دونوں ایونٹ حکومت کے لئے کوئی اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔
چند روز پہلے عمران خان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں اور خطرناک ہو جاوں گا۔ اس سےپہلے نواز شریف نے اقتدار سے نکالے جانے پر مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگایا تھا اور اب عمران خان اگر مجھے نکالا کا نعرہ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ عمران خان کے لئے سوچنے والی بات ہے کہ اگر عمران خان اپنی ساری توجہ اور وقت اپنے سیاسی مخالفین سے ذاتی انتقام لینے میں ضائع نہ کرتے اور عوام کیلئے کچھ کر جاتے تو ان کیلئے یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ عمران خان کو قوم کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا لیکن عمران خان کی حکومت اپنی نااہلی کے باعث عوامی مسائل کے حل میں بُری طرح ناکام رہی اور ملکی معیشت کو ایک بند موڑ پر پہنچا دیا، عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہو کر خود کشیاں کرتے رہے اور عمران خان نے مقتدرہ کے سہارے اپوزیشن کے خلاف انتقام کا بازار سرگرم کئے رکھا۔ عالمی سطح پر پاکستان بدترین تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اور ہمارے دیرینہ دوست ہم سے منہ موڑ چکے ہیں۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ملکی حالات کو ٹھیک کرنا عمران حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے بھی عمران حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو کر اپنے پراجیکٹ عمران خان کے سر سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ اب عمران خان ان بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر عوام میں آئیں گے تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔
دوسری طرف عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کی حکومت کے دوران کرپشن کے جو میگا سکینڈلز سامنے آئے اور ان کرپشن کیسسز پر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی، ہواؤں کا رخ بدلتے ہی یہ فائلیں بھی کھل جائیں گی اور عمران خان اور ان کے رفقا کو اسی طرح کے کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح کے کڑے احتساب سے ان کے دور میں اپوزیشن رہنماوں کو گزارا گیا یہ علیحدہ بات ہے کہ عمران خان ساڑہے تین سالوں میں اپوزیشن رہنماوں پر لگایا جانے والا کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں کرسکے۔ الٹا عمران حکومت کے احتساب کے سُرخیل شہزاد اکبر اپنے احتساب مشن میں ناکامی کے باعث استعفی دے کر جہاں سے آئے تھے وہیں واپس جا چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ اپوزیشن نے تو جیسے تیسے سیاسی انتقام اور فاشسٹ رویہ برداشت کر لیا ہے لیکن عمران خان اپنی باری آنے پر شائد یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکیں۔
مہنگائی سے ستائے ہوئے عوام کے موجودہ حکومت کے خلاف غم و غصہ اور پیپلزپارٹی کے پُرجوش اور انتھک کارکنوں کی محنت کےباعث پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اس حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہو گا۔ پورے ملک میں موجود جیالے لانگ مارچ میں شرکت کے لئے اپنا بوریا بستر باندھے انتظار کررہے ہیں۔ مزاحمت ویسے بھی پیپلزپارٹی کا میدان ہے اور اس میدان میں پیپلزپارٹی سے ضیا جیسا بدترین آمر نہیں جیت سکا تو عمران حکومت تو ویسے ہی بہت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب پیپلزپارٹی نے اپنے کارکنوں کو اتنے بڑے سیاسی ایونٹ کے لئے کال دی ہے اس لئے پیپلزپارٹی کے کارکن اپنے قائد بلاول بھٹو زرداری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں لانگ مارچ میں شریک ہو کر موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ستائیس فروری کو مزارِ قائد سے لانگ مارچ کی صورت میں جس سفر کا آغاز کریں گے اس سفر کے اختتام پر اپنے مقصد میں کامیابی کی صورت میں جہاں ایک نااہل اور سلیکٹڈ حکومت سے نجات حاصل ہو سکتی ہے وہاں صحیح معنوں میں جمہوری اصولوں اور اقدار کی حامل ایک نمائیندہ عوامی جمہوری حکومت کے حصول کی جانب سفر بھی شروع ہو گا۔ اب یہ اپوزیشن جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر کس حد قائم رہتی ہیں اور سلیکٹڈ حکومت کے خاتمے کے بعد متفقہ انتخابی اصلاحات کر کے ایک نمائیندہ عوامی جمہوری حکومت کے حصول کی بنیاد رکھتی ہیں یا ماضی کی طرح منزل کےقریب پہنچ کر اپنے ذاتی مفادات کی جنگ شروع کر دیتی ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سلیکٹڈ حکومت کے خاتمے کے بعد سلطانی جمہور کا دور شروع ہوتا ہے یا ایک نئی جدوجہد کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...