آج – ٤ ؍ جون ؍ ١٩٨٨
اردو کے ممتاز ترین نقاد ، شاعر، مترجم، افسانہ نگار اور معروف شاعر” مجنوں گورکھپوری صاحب “ کا یومِ وفات…
مجنوں گورکھپوری نے ترقی پسند ادب کوتنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مجنوں کی پیدائش ۱۰ مئی ١٩٠٤ء جوت ضلع بستی میں ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی ۔ مجنوں کے والد فاروق دیوانہ بھی شاعر تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر تھے ۔ مجنوں کی ابتدائی تعلیم منجھر گاؤں میں ہوئی ۔ اوائل عمری میں ہی عربی ، فارسی اور ہندی میں دسترس حاصل کرلی تھی ۔ درس نظامیہ کی تکمیل کے بعد بی ، اے تک کی تعلیم گورکھپور ، علی گڑھ اور الہ آباد میں مکمل کی ۔ ۱۹۳۴ میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی میں اور ۱۹۳۵ میں کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم ،اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے ۔
مجنوں کی تمام شناختوں پر ان کی تنقیدی شناخت حاوی رہی انہوں نے بہت تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا ۔ مجنوں کی تنقیدی کتابوں کے نام یہ ہیں :
’ ادب اور زندگی ‘ ’ دوش وفردا ‘ ’ نکات مجنوں ‘ ’ شعر وغزل ‘ ’ غزل سرا ‘ ’ غالب شخص اور شاعر ‘ ’ شوپنہار ‘ ’ تاریخ جمالیات ‘ پردیسی کے خطوط ‘ ’ نقوش وافکار ‘ ۔ مجنوں کے چار افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے ’ خواب وخیال ‘ ’ سمن پوش ‘ ’ نقش ناہید ‘ ’ مجنوں کے افسانے ‘ ۔ان کے افسانے اس عہد کی یادگار ہیں جس میں نثر لطیف مقبول ہو رہی تھی اور عقلیت پسندی کے بجائے رومانیت اور جذباتیت تخلیقی ادب کا مزکزی محرک تھی۔ مجنوں نے آسکروائلڈ ، ٹالسٹائی ، اور ملٹن کی بعض تخلیقات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ مجنوں کی نظر مغربی ادبیات پر بھی گہری تھی ۔ ۴ جون ۱۹۸۸ء کو کراچی میں انتقال ہوا ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر مجنوں گورکھپوری کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
رہ جائیں فلک والے شورش سے نہ بیگانہ
ناہید کر تڑپا دے اے نعرہِ مستانہ
کچھ اور بھی جلوے ہیں کچھ اور بلاوے ہیں
لے تیرا خدا حافظ اے جلوہ ء جانانہ
میخانے کی حرمت کا کچھ پاس بھی ہے لازم
لغزش میں قرینے سے اے لغزشِ مستانہ
آزادی کی دھومیں ہیں شہرے ہیں ترقی کے
ہر گام ہے پسپائی ہر وضع غلامانہ
اے عقل و خرد والو مجنوںؔ کا گلہ کیسا
دیوانے کو کیا کہیے دیوانہ ہے دیوانہ
مجنوں گورکھپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ