::: "مجنون گورکھ پوری، ادیب، فکشن نگار، نقاد ، مترجم ۔۔۔ افسانے کی جمالیات، اور ان کا ' مجنون' ہونا' { کچھ گم گشتہ یادین} " :::
::: 1975 میں شعبہ فلسفہ جامعہ کراچی میں " دی رائٹرز" نام کی ایک ادبی اور فکری نشست ہوا کرتی تھی۔ اس نشست / سیمنار میں اردو کے ادبّا، ناقدین، محقیقین ، اوردانشوروں جو مدعو کیا جاتا تھا۔ یہ تصویر اس دن کی ہے جب اردو کے ترقی پسند فکشن نگار، نقار اوراستاد جناب مجنوں گورکھ پوری نے " اردو افسانے کی جمالیات" پر ایک پر فکر اور ایک بہتریں مقالہ پیش کیا تھا۔ اس پر طلبا، اساتذہ اور دیگر مہمانوں نے کھل کر بات کی اور مجنوں صاحب نے تمام سوالات کے کو جوابات بڑے تحمل اور تفصیل سے دئیے۔ مجھے یاد ہے میں نے مجنون صاحب سے یہ سوال کیا تھا کہ " ترقی پسند افسانے میں جمالیات کی ماہیت کیا تھی اور ان مِں جمالیات کا تناسب کتنا پاتے ہیں۔؟ آپ اپنی تخلیقات ۔۔" شہاب کے سرگذشت " اور ۔۔۔" زیدی کا حشر" ۔۔۔ کو آپ ترقی پسند کے خانے میں رکھتے ہیں یا ان کو رومانی فکشن کر زمرے میں تصور کرتے ہیں؟ تو مجنوں صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا " اس کو قاری رومانی فکش سمجھتے ہیں تو مجھے ان کی رائے پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ مگر یہ بات یاد رکھیں میں بہت بڑا ' مجنوں' بھی ہوں۔" ۔۔۔ یہ جواب سن کر محفل زعفران زار ہوگئی۔
مرقع ذات اور ادبی فکریات :
===============
احمد صدیق مجنوں گورکھپوری 10مئی 1904کو مشرقی یوپی کےمنجھریا ضلع بستی، تحصیل خلیل آباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’مجھے نسبت کہاں سے ہے‘‘ میں اس سلسلے میں خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ مضمون پہلے پہل رسالہ نقوش لاہور1964کے شخصیات نمبر میں شائع ہوا، بعد ازاں ’ادب اور زندگی‘ میں بھی اسے شامل کر لیا گیا۔ مجنوں گورکھپوری نے شاعری بھی کی اور افسانے بھی لکھے ، لیکن اردو ادب میں ان کی بنیادی پہچان ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ ان کی تنقید نگاری کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن بطور افسانہ نگار وہ ناقدین کی توجہ کم ہی مبذول کرا سکے۔ مجنوں گورکھپوری کے زیادہ تر افسانے 1925سے 1935کے درمیان شائع ہوئے۔ جس میں سے بیشتر افسانے انھوں نے 1929 تک لکھ لیے تھے۔ 1935 کے بعد ترقی پسند تحریک کا دور شروع ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد مجنوں گورکھپوری نے مضامین اور تنقیدیں تو لکھیں لیکن ان کے افسانے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جامعہ ڈھاکہ اور جامعہ کراچی سے بطورعا رضی استاد وابستہ رہے۔ مجنوں صاحب کا انتقال چار/4 جون 1988 ،بلاک ایل، شمالی ناظم آباد کراچی میں ان کے بیٹے کے گھر میں ہوا۔ کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکات مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر، شعر و غزل اور غزل سرا کے نام اہم ہیں۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اوران کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے۔ وہ انگریزی زبان و ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے وہ وسیع مطالعہ ادیب اور استاد تھے۔ اور انہوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈشا، آسکر وائلڈ اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ مجحنوں صاحب کا کہنا ہے۔"اگر چہ افسانہ لکھنامیری زندگی کا اولین مقصد نہیں تھا، تاہم مجھے اس قدر تو ماننا ہی پڑتا ہے کہ جب میں تنقیدیں لکھتا ہوں تو ان کی تمام تر بنیاد مطالعہ اور فکر و تخیل پر ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے جب افسانے لکھتا ہوں تو ان میں میرے مطالعے اور مشاہدے دونوں آ جاتے ہیں اور تجربات و تخیلات مل کر ایک تخئیلی کل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یعنی میرے افسانوں میں ادب اور زندگی دونوں عناصر شامل ہوتے ہیں، جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ میرے افسانے میری زیادہ مکمل نمائندگی کرتے ہیں۔"{۔ مجنوں گورکھپوری، شان نزول، مجنوں کے افسانے،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی، 2014، ص ۱۰}۔
"ڈاکٹر شاہین فردوس کی ایک کتاب ’مجنوں گورکھپوری: حیات اور ادبی کارنامے‘ کے عنوان سے ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ نے 2001میں شائع کی ہے۔ یہ کتاب شاہین فردوس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ مقالے کا ایک حصہ جو تقریباً 73صفحات کو محیط ہے ، مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس حصے کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ شاہین فردوس کی رسائی پہلے دو مجموعوں یعنی ’’خواب و خیال‘‘ اور ’’سمن پوش‘‘ تک تو ہو گئی تھی لیکن تیسرا افسانوی مجموعہ ان کی دسترس سے باہر تھا۔ ممکن ہے کہ ان کے علم میں نہیں رہا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تلاش و جستجو کے بعد بھی تیسرے مجموعے تک رسائی نہ ہو سکی ہو۔ اس مجموعے میں کل آٹھ افسانے شامل ہیں۔ (1) ہتیا (2)گہنا (3) حسنین کا انجام (4) مراد (5)جشن عروسی (6)بڑھاپا (7) کلثوم (8) محبت کا دم واپسیں۔ ان آٹھ افسانوں میں سے ابتدائی چار افسانوں کا ذکر تو شاہین فردوس نے بھی اپنے مقالے میں کیا ہے جو غالباً پہلے دونوں افسانوی مجموعوں میں شامل رہے ہوں گے لیکن آخر کے چار افسانوں کا ذکر ان کے مقالے میں نہیں ملتا اور نہ ہی انھوں نے اپنے مقالے میں تیسرے افسانوی مجموعے کا کہیں ذکر کیا ہے۔ پہلے چار افسانوں کے تعلق سے میں نے لکھا ہے کہ ’غالباً‘ یہ افسانے پہلے دو مجموعوں یعنی ’خواب و خیال‘ اور ’سمن پوش‘ میں شامل ہوں گے۔ ’غالباً‘ اس لیے لکھا کہ ابھی تک میری رسائی ان مجموعوں تک نہیں ہو سکی ہے لیکن شاہین فردوس کے مقالے میں ابتدائی چار افسانوں کا ذکر میری بات کو قوی بناتا ہے۔ خیر جب بات ڈاکٹر شاہین فردوس کے تحقیقی مقالے پر آہی گئی ہے تو صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ان کے اس تحقیقی کام کے بعد بھی مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری پر ایک اچھے اور بھرپور کام کی ضرورت باقی ہے۔ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ شاہین فردوس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا اور پی ایچ ڈی یا دیگر مقالے جو کسی خاص بندھے ٹکے اصول کے تحت لکھے جاتے ہیں ان میں مقالہ نگار کو بعض اوقات آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا اور اس کے لیے اصول و ضوابط کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ بہرحال شاہین فردوس کے مقالے پر مزید گفتگو نہ کرتے ہوئے ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
مجنوں گورکھپوری نے ’مجنوں کے افسانے‘ میں ’شان نزول‘ کے عنوان سے مقدمہ بھی لکھا ہے۔ مقدمہ میں وہ اپنے افسانوں کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ مجھے ارمان تھا اور میں اس کا اہتمام بھی کر رہا تھا کہ اب میرے جتنے مختصر اور طویل افسانے مختلف رسائل میں منتشر پڑے رہ گئے ہیں، ان کو بڑی تقطیع پر، یکجا کرکے شائع کر دیا جائے۔ یہ کتاب اگر وجود میں آتی تو 800صفحات سے کم ضخیم نہ ہوتی۔ لیکن ضعیف البنیان انسان کا ارادہ ہی کیا؟ سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔‘‘
مجنوں گورکھپوری کے درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مختصر سی مدت میں کتنی کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔ بہرحال ان کے تمام افسانے ابھی رسائل تک ہی محدود ہیں جن کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا عمل ابھی باقی ہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ اپنے جن افسانوں کو یکجا کرنے کی ابتدا مجنوں گورکھپوری نے کی تھی اور کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے وہ مرحلہ طے نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں وہ اپنے مقد مہ میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ میرے اس ضخیم مجموعہ کی کتابت شروع ہو چکی تھی اور ڈیڑھ سو صفحات لکھے جا چکے تھے کہ وہ بے درد و سفاک قوت جس کو عرف عام میں ’آب و دانہ‘ کہتے ہیں خلاف توقع مجھے کشاں کشاں کر کے علی گڑھ لے آئی اور اس طرح میں اپنے ارادوں کو ارادہ کے ساتھ ملتوی بھی نہ کرسکا۔ اس کی مہلت بھی نہ ملی کہ ’ایوان‘ اور ’ایوان اشاعت‘ کے التوا کا اعلان کر سکتا۔ چنانچہ اکثر احباب کو اس کی مطلق خبر نہیں
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔
درج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’ایوان اشاعت‘ جہاں سے ان کے پہلے دو مجموعے اشاعت پذیر ہوئے وہ مجنوں گورکھپوری کا ہی ادارہ تھا۔ ساتھ ہی مجنوں اس ادارے سے ’ایوان‘ رسالہ بھی شائع کرتے تھے جس کے مدیر وہ خود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اشاعت کے التوا کا اعلان نہ کرنے کا قلق تھا۔ رزق کے لیے گورکھپور چھوڑنا ان کے لیے تکلیف دہ عمل تھا۔ وہ اپنے وطن سے حد درجہ محبت کرتے تھے۔ اس لیے وہ گورکھپور واپس جانے کے خواہش مند بھی رہتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ مجھے گورکھپور چھوڑنا پڑا اور گورکھپور سے الگ ہو کر میں کوئی ایسی سنجیدہ زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کو شعر و ادب کی زندگی کہتے ہیں اور جس کو ایک نقاد شعر ایک ’لطیف دیوانگی‘ بتاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ ادبی جمود ہمیشہ قائم رہے گا اس لیے کہ گورکھپور واپس جانے کی آرزو میرے اندر اسی قدر موجود ہے جس قدر کہ ہارڈی کے مشہور ناول "The Return of the Native" کے ہیرو اور خود میرے افسانے ’بازگشت‘ کے ہیرو ادریس کے اندر موجود تھی اور بہت ممکن ہے کہ میں ان ہی دونوں کی طرح پھر گورکھپور واپس جاؤں، چاہے وہ مٹ جانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن فی الحال تو میں گورکھپور میں نہیں ہوں اور ’ایوان‘ اور ’ایوان اشاعت‘ کا کاروبار بند ہے۔‘‘ {مجنوں گورکھپوری، شان نزول، مجنوں کے افسانے،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی، 2014 }
مجنوں گورکھپوری کی تنقید نے رومانیت سے مارکسیت کی طرف آہستگی سے سفر کیا، کیونکہ ابتدا میں ان کے یہاں ایک عرصے تک تاثراتی تنقید کا انداز غالب رہا۔ مجنوں کی ابتدائی تنقید تحریریں جو ”تنقید حاشیے “ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں، تاثراتی تنقید کا انداز نمایاں ہے۔
مجنوں گورکھ پوری پر یساریت پسند/ مارکسی تنقید کے اثرات غالب نظر آتے ہیں یہ ترقی پسند تحریک کا اثر تھا ۔ چنانچہ ان کے دوسرے مجموعہ مضامین ” ادب اور زندگی “، ”مبادیاتِ تنقید “، "زندگی اور ادب کا بحرانی دور“ اور ”ادب اور ترقی “ میں انہوں نے اپنے قائم کردہ تنقید نظریات کی روشنی میں عملی تنقید کی ہے۔ وہ بھی دوسر ے ترقی پسند نقادوں کی طرح ادب کو زندگی کی کشمکش کا رجحان سمجھتے ہیں۔ لیکن مارکسی ہونے کے باوجود اُن کے ہاں ایک توازن کی کیفیت ملتی ہے اور اتنہا پسندی اُن کے ہاں پیدا نہیں ہوتی۔وہ ادب کی جمالیاتی اقدار کے قائل تھے۔ راقم السطور سے انھوں نے اٹلی کے ادیب اور فلسفی کروچے کے نظریہ جمالیات اور اس حولے سے اردو افسانے پر کئی بار گفتگو رہی۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-
** مجنوں صاحب کی زندگی کا دلچسپ واقعہ ۔۔۔" لیلٰی گورکھ پوری"
برسات کا موسم تھا۔ یونیورسٹی میں چاروں طرف گھاس اُگ آئی تھی۔ گھسیارے گھاس کاٹنے میں جتے ہوئے تھے۔
ممتاز شاعر ،پروفیسر مجنوں گورکھ پوری کی کلاس جاری تھی۔ ایک گھسیارن کلاس کے سامنے والے برآمدے سے گزری۔ طلبا کی نظریں لا محالہ اس کی طرف اٹھیں۔ مجنوں نے بھی اس جانب دیکھا اور بے ساختہ بولے:
’’یہ کون ہے؟‘‘
ایک گوشے سے آواز آئی۔۔۔۔۔’’لیلٰی گورکھ پوری‘‘۔
یہ سننا تھا کہ سارے کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔
————–
مجنوں گورکھپوری کا شمار اردو کے چند بڑے نقادوں میں ہوتا ہے۔ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکات مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر، شعر و غزل اور غزل سرا کے نام اہم ہیں[۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اوران کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے۔ وہ انگریزی زبان و ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور انہوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈشا، آسکر وائلڈ اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو میں منتقل کیا۔
* ان کی تصانیف ی فہرست کچھ یوں ہے: *
تین مغربی ڈرامے (ترجمہ)
سراب
دُوش و فردا (تنقید)
سمن پوش اور دوسرے افسانے (افسانے)
آغاز ہستی (ترجمہ)
مریم مجدلانی (ترجمہ)
سالومی (ترجمہ)
سرنوشت (ناول)
سوگوار شباب (افسانے)
شعر و غزل
گردش(ناولٹ)
غزل سرا
خواب و خیال
نقوش و افکار (تنقید)
نکات ِ مجنوں (تنقید)
تنقیدی حاشیے (تنقید)
اقبال اجمالی تبصرہ (تنقید)
تاریخ ِ جمالیات
مجنوں کے افسانے (افسانے)
زہر عشق
پردیسی کے خطوط
غالب شخص اور شاعر (غالبیات)
انتخاب دیوان شمس تبریز
ادب اور زندگی
ارمغان ِ مجنوں
———–
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے چند سال مجنوں گورکھپوری کے ساتھ گذارے اوران سے ادب اور تنقید کے رموز اور اس کی جمالیات سیکھی دوسری جانب ان سے ادبی سیاست اور جامعات اور کالجوں کے اساتذہ کے سازشی زہنوں کو سمجھنے کے موقعہ ملا کیونکہ وہ ان سازشوں کا شکار رہے تھے۔ جو ایک دلخراش اور جگر سوز داستان ہے۔ جس کا ذکر وہ کم ہی کیا کرتے تھے۔ ۱۹۶۸ میں ملازت سے سبکدوشی کے بعدوہ اپنی بیٹی کے پاس پاکستان چلے گئےتھے اور چوراسی برس کی عمر میں ۱۹۸۸ میں وہ داغ مفارقت دے گئے۔ وہ زندگی کے آخری ایام میں کراچی کے علاقے شمالی ناظم آباد ، بلاک "ایل" میں مقیم رہے۔
۔۔۔۔۔۔ پس نوشت :۔۔۔۔۔۔
===========
تصویر میں دائیں طرف سے راشد عزیز، پروفیسر مجنوں گورکھ پوری اور احمد سہیل ہیں ۔ یہ تصویر 1974 میں شبعہ فلسفہ، جامعہ کراچی کی ایک ادبی نشت میں کھینچی گئ۔