آج – یکم؍ جون؍١٩٣٨
اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر، منفرد لب و لہجے کے جدیدیت پسند اساتذہ میں شمار اور معروف شاعر” ماجدؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام عاشق حسین سیّال تخلص ماجدؔ، یکم جون ١٩٣٨ء کو ضلع چکوال کے گاؤں نور پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد خان سیّال اور والدہ کا نام اللہ رکھی تھا جو خود بھی شاعرہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم علاقائی اسکولوں میں پائی اور انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج چکوال سے کیا۔ ماجد صدّیقی نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پہلے بی اے اور پھر ایم اے اردو کی ڈگری 1962ء میں حاصل کی۔ ضلع چکوال کے دیہی علاقوں ڈھڈیال، دھرابی اور کریالہ میں تدریسی فرائض ادا کرنے کے بعد اکتوبر 1964ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بطور لیکچرار ان کا تقرر ہو گیا۔ ستمبر 1966 میں ان کا تبادلہ اٹک کالج (اس وقت کیمبل پور کالج) میں اور دو سال کے بعد تلہ گنگ میں ہو گیا۔ ستمبر 1973ء میں ان کی تقرری اصغر مال کالج راولپنڈی میں ہوئی جہاں وہ بائیس سال تک شعبۂِ اردو میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور 1995ء میں ریٹائر ہوئے۔
پاکستان رائٹرز گلڈ نے پنجابی شاعری کی کتاب ’’میں کنّے پانی وچ آں‘‘ پر بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا۔ اس کے علاوہ ان کو نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن، پاکستان کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایوارڈ کی تقریب سے چار دن پہلے وہ ١٩ مارچ ٢٠١٥ء کو حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
فہرست کتب درج ذیل ہیں ۔
آغاز 1971ء، ہوا کا تخت 1978ء، تمازتیں 1978ء سُخناب 1984ء ،غزل سرا 1987ء، آنگن آنگن رات 1988ء
مکر کا جال اور شہر 2000ء
سُرخ لبوں کی آگ 2002ء، اکھیاں بِیچ الاؤ 2002ء، دِل دِل کرب کمان 2002ء، شہر پناہ 2002ء، ٹوٹتے خمار کے دن 2015ء، چاند رات 2015ء
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر ماجدؔ صدیقی کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین..
اسِیرِ قُرب کرے وُسعَتِ خُُدائی نہ دے
یہی جُنُوں ہے مِرا وہ مُجھے رہائی نہ دے
وہ مِثلِ مَوج مِلے آکے ریگِ ساحِل سے
مگر اُسے بھی کبھی اِذنِ آشنائی نہ دے
یہ عہدِ جیب تراشی ہے کیا کہ جِس میں کہِیں
کوئی بھی کُھل کے کِسی اور کی صفائی نہ دے
یہی دُعا ہے کہ بے آب ہوں نہ حرف مِرے
سزا کوئی بھی وہ دے عِجزِ بے نَوائی نہ دے
امیرِ شہر کا کیا وہ تو بس یہی چاہے
یہاں کوئی بھی کِسی بات کی دُہائی نہ دے
یہ کیسا منبعِ ظُلمت ہے دَورِ نَو کہ جہاں
جُز اپنی ذات کے ماجدؔ کوئی دِکھائی نہ دے۔۔۔!
※☆▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔☆※
خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂ شر سے نکلے
زخم وہ کھل بھی تو سکتا ہے سلایا ہے جسے
ہم بھلا کب ہیں حدِ خوف و خطر سے نکلے
یہ سفر اپنا کہیں جانبِ محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
کل جو ٹپکے تھے سرِ کوچۂ کوتہ نظراں
اشک اب کے بھی وہی دیدۂ تر سے نکلے
عکس کچھ اپنا ہی آئینۂ حالات میں تھا
سٹپٹائے ہوئے جب دامِ سفر سے نکلے
کون کہہ سکتا ہے ماجدؔ کہ بایں کم نگہی
حشر کیا ساعت آئندہ کے در سے نکلے
* ─━━━════● ●════━━━─*
عرش سے رخ جانبِ دنیائے دوں کرنا پڑا
بندگی میں کیا سے کیا یہ سر نگوں کرنا پڑا
منتِ ساحل بھی سر لے لی بھنور میں ڈولتے
ہاں یہ حیلہ بھی ہمیں بہرِ سکوں کرنا پڑا
سامنے اس یار کے بھی اور سرِ دربار بھی
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا
ہم کہ تھے اہلِ صفا یہ راز کس پر کھولتے
قافلے کا ساتھ آخر ترک کیوں کرنا پڑا
خم نہ ہو پایا تو سر ہم نے قلم کروا لیا
ووں نہ کچھ ماجدؔ ہوا ہم سے تو یوں کرنا پڑا
ماجدؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ