۱۱ مئی ۱۹۷۴ء کو ساہیوال میں وفات پانے والے جھنگ سے متعلق اُردو شاعری کے قادر الکلام شاعر مجید امجد نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اُن کی شاعری سے جھنگ کے دبستان شاعری کا ایک نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ اُن کو ضلع جھنگ کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اُن کی قبر کے کتبے پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
جھنگ کو شہر سدا رنگ کی حیثیت سے پوری دُنیا میں اہم مقام حاصل رہا ہے۔ جھنگ کی ادبی کہکشاں کی ضیاء پاشیوں سے نگاہیں خیرہ ہوتی رہی ہیں۔ جو اہل قلم آفتاب بن کر جھنگ کی سرزمین پر چمکے اور پوری دُنیا میں اپنی ڈھاک بٹھائی اُن میں سید جعفر طاہر، شیر افضل جعفری، حفیظ ہوشیارپوری، عبدالعزیز خالد، خادم رزمی، کبیر انور جعفری، امیر اختر بھٹی، صاحبزادہ رفعت سلطان، پروفیسر سمیع اللہ قریشی ، ڈاکٹر غلام شبیر رانا، معین تابش، محمد حیات خان سیال، شارب انصاری، پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ) ، قیصر رومانی، ڈاکٹر سید نذیر احمد ، حکمت ادیب مرزا معین تابش، بیدل پانی پتی، فضل بانو، احمد تنویر، طاہر سردھنوی،خادم مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر، آغا نو بہار، علی خان ، حنیف باوا، شفیع ہمدم اور مجید امجد کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
مجید امجد ۲۹ جون ۱۹۱۴ء کو جھنگ کی زرخیز ادبی سرزمین میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام عبدالمجید ہے۔ شاعری میں مجید امجد کے نام سے پہچان کرائی۔ مجید امجد نے نظم اور غزل دونوں اصناف سخن میں طبع ازمائی کی۔ لیکن جلد ہی اُن کو ادراک ہو گیا کہ غزل کی ریزہ خیالی اور باطن بینی کسی بڑے مقصد کے ابلاغ کے لیے ہرگز موثر نہیں ہو سکتی۔ اِس لیے انہوں نے نظم کی طرف خصوصی توجہ دی۔ ہم اُن کی معترکتہ آرا نظموں کو انتہائی فخر کے ساتھ بین الاقوامی ادب کے مقابل رکھ سکتے ہیں۔
مجید امجد ابھی دو سال کے ہی تھے کہ اُن کے والد اور والدہ میں علیٰحدگی ہو گئی اور اُن کی والدہ انہیں اپنے میکے لیے آئیں۔ مجید امجد کے ننھیال کی فضا کافی مذہبی، علمی اور ادبی تھی اور انہوں نے ابتدائی تعلیم اسی فضا میں اپنے نانا مولوی نور محمد سے حاصل کی۔ ۱۹۲۳ء میں انہیں مولوی غلام قاسم کے مدرسے میں بھیجا گیا۔ جہاں انہوں نے روایتی مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ، علم جفر اور علم طب کا درس لیا۔ مجید امجد نے ۱۹۳۰ء میں اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دو سال بعد ۱۹۳۲ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے انٹر کے امتحان میں کامیابی کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور آ گئے اور ۱۹۳۴ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۳۹ء میں مجید امجد کی شادی اُن کی خالہ زادحمیدہ بیگم سے ہوئی جو گورنمنٹ سکول جھنگ میں پرائمری کی اُستاد تھیں لیکن مزاج میں اختلاف کی وجہ سے اُن کی ازدواجی زندگی سردمہری کا شکار رہی اور مجید امجد نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اکیلے ہی بسر کیا۔
۱۹۳۵ء میں مجید امجد نے ایمپائر آف انڈیا انشورنس کمپنی میں بطور ایجنٹ کام کیا۔ ۱۹۳۶ء میں جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ کے دیہات سدھار پروگرام میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر تعینات ہوئے۔ ۱۹۴۴ء میں سول سپلائز ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں آیا تو بذریعہ ٹیسٹ منتخب ہو کر انسپکٹر سول سپلائر تعینات ہو گئے۔ مجید امجد نے سول سپلائر ڈیپارٹمنٹ کی ملازمت کے ابتدائی سالوں میں پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے فرائض انجام دئیے۔ ۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۱ء تک وہ بسلسلہ ملازمت لائل پور (فیصل آباد) گوجرہ، سمندری ، تاندلیانوالہ، جڑانوالہ، مظفر گڑھ، چیچہ وطنی، لیہ ، پاک پتن ، عارف والا، راولپنڈی اور شاہدرہ (لاہور) میں مقیم رہے۔
تاہم ۱۹۵۱ء میں وہ مستقل طور پر منٹگمری (ساہیوال) میں تعینات ہوئے اور ۲۹ جون ۱۹۷۳ء کو یہیں سے اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ۱۹۷۴ء کو وفات کے وقت وہ اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاؤن ساہیوال میں بالکل اکیلے تھے۔
مجید امجد کے فکر و فن پر ایم ۔ اے کے پانچ مقالے لکھے جا چکے ہیں جب کہ ایم فل سطح کے چار اور پی ایچ ڈی سطح پر ایک مقالہ لکھا جا چکا ہے۔ مجید امجد ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے نظم کی ہیئت اور اسلوب میں نئے نئے تجربات کیے۔ اُن کی نظمیں یوں تو تمام سرکردہ رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہیں مگر اُن کی زیرِ ادارت شائع ہوئے والے ہفت روزہ ’’عروج‘‘ جھنگ میں اُن کی نظمیں سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہوئیں۔
مجید امجد کی زندگی میں اُن کا اپنا مرتب کردہ شعری مجموعہ’’ شب رفتہ‘‘ ۱۹۵۸ء میں چھپ کر منصّہ شہود پر آ گیا تھا ۔ اس مجموعے کی اشاعت کے بعد اُن کے کلام اور اُن کے مقام سے ادبی حلقے آگاہ ہو چکے تھے لیکن روایتی ادبی مراکز سے دُوری اور کسی ادبی گروہ میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ادبی حلقوں نے انہیں کبھی قابل اعتنا نہ سمجھا۔ اِدھر مجید امجد بھی اپنی آفتاد طبع کے زیر اثر کبھی ادبی دھڑوں کی طرف مائل نہ ہوئے اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر خاموشی سے اعلیٰ ترین معیار کی نظمیں تخلیق کرتے رہے۔
اُن کا ’’شب رفتہ ‘‘شعری مجموعہ کے بعد ’’کلیاتِ مجید امجد‘‘ مرتبہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے مجید امجد کی وفات کے بعد شائع کیا۔ مجید امجد کے کلام کی سماجی اور معاشرتی سطح پر ادراکِ حقیقت ، کرب احساس اور جذبہ بغاوت سبھی جہتیں موجود ہیں۔ بعض اوقات کھلے لفظوں میں ، بعض اوقات اشاروں کی شکل میں ، بنیادی وصف جذبہ ہمدردی ہے جو اِن سب جہتوں کو منور و تابندہ کرتا نظر آتا ہے۔
بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
’’اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ مجید امجد کی شاعری میں کون سا جذبہ اپنی گہرائی اور تنوع کے ساتھ اُبھرا ہے تو میں کہوں گا کہ دردمندی مجید امجد کی شاعری کا سب سے فعال، سب سے حسین جذبہ ہے اور یہ جذبہ محض کسی طبقے کے لیے نہیں ہے۔ اس کی سرحدیں اتنی وسیع ہیں کہ اس کے دائرے میں جمادات ، حیوانات ، حشرات الارض ، پھل، پھول اور بچے ۔۔۔سب سمٹ آئے ہیں۔‘‘
اُن کا شاعری کا موضوع وہ مفلوک الحال طبقہ ہے جو ننگا اور بھوکا ہے جو جھونپڑیوں میں زندگی کی تلخیوں سے دو چار ہوتے ہوئے زندہ رہنے کی دھن میں سِسک رہا ہے اور بے رحم سماج کے ہاتھوں زندہ درگور ہے۔ مجید امجد ایسے تباہ حال اور پسے ہوئے لوگوں کے طبقے سے اس قدر قریب رہے ہیں کہ ان کے دھڑکتے دلوں کی آواز خوب سن سکیں ہیں واقعات ومناظر کا ہو بہو پیش کرنا ان کا امتیازی پیرایۂ بیان ہے یہ تصویر کشی بھی وہ ایک فنکار کی طرح کرتے ہیں ۔ اور تصویر کے خدوخال اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ ضرورت و خواہش کے مطابق اثر زیادہ سے زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکثر اس اثر کو زیادہ تیز کرنے کے لیے مجید امجد ایک بہت دلکش تمہید یا پس منظر دے کر مفلسی کی کوئی دل سوز تصویر پیش کرتے ہیں یا امیروں کی شان و شوکت کے مقابلے میں غریبوں کی بے کسی اور حرماں نصیبی دکھاتے ہیں یا کبھی فطرت کی مسرت بخش آغوش میں کسی مصیبت زدہ کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ تمام کائنات رونے پر مجبور ہو جائے۔ بعض اوقات وہ دُکھی اور حرماں دِلوں کا نوحہ بیان کرتے کرتے بہت زیادہ بے باک اور نڈر ہو جاتے ہیں کہ اُن کے پڑھنے والے اُنہیں ترقی پسند، قبیل کا فرد محسوس کرتے ہیں۔ نظم ’’بیسویں صدی کے خدا سے‘‘ میں وہ جس طرح دکھی دلوں پر ہمدردی کا پھایا رکھتے ہیں نظم کے ایک ایک شعر میں دل سوزی اور دردمندی کے گہرے نقش موجود ہیں۔ اِسی نظم کے آخری میں ان کا رویہ بے باک اور باغیانہ ہو جاتا ہے جب وہ کہتے ہیں۔
نظم ’’بیسویں صدی کے خدا سے‘‘
انہیں آنکھوں سے میں نے ربِّ اکبر تیری دُنیا میں
غرور حُسن کو برباد و رسوا ہوتے دیکھا ہے
زر و دولت کے بے حس مورتی کے پاؤں پرمیں نے
حسیں فاقہ کشوں کی انکھڑیوں کو روتے دیکھا ہے
چمکتی دُھوپ میں مزدور دوشیزہ کو رستوں پر
کڑکتے کوڑوں کی چھاؤں میں اینٹیں ڈھوتے دیکھا ہے
جوانی کی مہکتی رُت میں بیواؤں کی آنکھوں کو
جگر کے زخم نمکیں آنسوؤں سے دھوتے دیکھا ہے
تری جنت پہ مجھ کو کیوں یقیں آئے کہ دُنیا میں
گل انداموں کو میں نے خارو خس پر سوتے دیکھا ہے
وہ جن پر تو نے برسائے ہیں اپنی بخششوں کے پھول
انہی کو میں نے ہر رستے پر کانٹے بوتے دیکھا ہے
تری آنکھیں نہیں لیکن سُنا ہے دیکھتا ہے تو
ذرا دیکھ اپنے بندوں کی نظر سے گر رہا ہے تو
آخر الذکر شعر میں وہ اتنے بے باک نظر آتے ہیں کہ اُن پر بلاشبہ ترقی پسند کا لیبل لگایا جاتا ہے مگر ممتاز محقق اور ادیب ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :
’’گو تقسیم ملک اور اس کے بعد آنے والی دہائی کے نمایاں شعراء کو بآسانی ترقی پسند اور غیر ترقی پسند میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن مجید امجد ایسا انفرادیت پسند شاعر ہے جس پر کوئی لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجید امجد اپنے ہمعصروں کے مقابلہ میں زیادہ پیچیدہ تخلیقی شعور کا حامل ہے جس کا اظہار خیالات و اسلوب کے اشکال سے نہیں بلکہ نظموں کی فضا سے ہوتا ہے۔ ‘‘
مجید امجد بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے اور ایسا شاعر ہے کہ بیک وقت کائنات اصغر (انسان) اور کائنات اکبر سے تخلیقی سطح پر رابطہ رکھتا ہے مجید امجد نے بعض نظموں میں وقت کو کائنات کے تخلیقی استعارے کے طور پر استعمال کیا۔ (مثال امروز) اور ان سب پر مستزاد ۔مجید امجد کا عصری شعور (مثال ، ’’توسیعِ شہر‘‘ ، ’’طلوع فرض‘‘) اور ذاتی محرومیوں کا احساس(مثال ’’آٹو گراف‘‘،’’جلوس جہاں‘‘) وہ بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے مگر غزلیں بھی فنکاری کا نمونہ ہیں۔
؎ اِس جلتی دُھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
؎ گٹھڑی کالی رین کی سونٹی سے لٹکائے
اپنی دھن میں دھیان نگر کو گئے کیا کیا لوگ
ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول:
’’یوں لگتا ہے جیسے مجید امجد عمر بھر خود بھی ایک درخت ہی کی طرح ساہیوال سٹیڈیم کے ایک گوشے میں چپ چاپ کھڑا رہا اور تخلیق کاروں کی کئی نسلیں اس کی شاخوں پر بسیرا کرنے اور اس پر مشقِ ناز کا منظر دکھانے کے بعد ہوا میں اُڑتی اور بکھرتی چلی گئیں۔‘‘
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرہ دار
گھنے سہانے ، چھاؤں ، چھڑکتے ، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چِیر گئے اِن ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
دُنیا کا فانی ہونا اور یہاں سے ایک دن جانا ایک حقیقت ہے کل نفس ً ذائقہ الموت ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ انسان اِس کائنات کے اندر قدرت کی طرف سے طے شدہ وقت اور قسمت کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ کوشش کے باوجود اپنی پیدائش، موت اور زندگی کے بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔
نظم ’’شاعر‘‘ میں اُنہوں نے ادراک حقیقت ، کرب احساس اور جذبہ بغاوت تینوں جہتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بعض اوقات وہ کھلے لفظوں میں اور بعض اوقات وہ اشاروں کنایوں سے بغاوت کرتے دکھائی دیتے ہیں بنیادی وصف جذبہ ہمدردی ہے۔
پھر وہ اِسی دُنیا کی بے ثباتی کا نوحہ بیان کرتے ہوئے وہ رنجیدہ و دلگیر ہو جاتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں اِس سماج میں جینے کا حق صرف پیسے والوں کو ہی ہے۔ لاچار اور کسمپرسی سے زندگی گزارنے والے تو صرف زندگی کا بوجھ اُتار کر جینے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ وہ رجائی لہجہ اختیار کر کے قاری کے دل سے دُکھوں اور مصیبتوں کی وجہ سے پیدا شدہ نا اُمیدی، پژمردگی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
اِس نظم ’’شاعر‘‘ کے آخری تین بند کھر درے انداز میں ادراک حقیقت، کرب احساس اور جذبہ بغاوت تینوں جہتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(پہلے تین بند ایک مشہور ترقی پسند شاعر کے ہاں ہوبہو موجود ہیں۔ )
یہ محلوں ، یہ تختوں ، یہ تاجوں کی دُنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دُنیا
محبت کے دُشمن ، سماجوں کی دُنیا
یہاں پر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چِق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
میرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے
اگر میں خدا اِس زمانے کا ہوتا
تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دُنیا میں آنے کا ہوتا
مجید امجد کی افتادِ طبع انہیں انسانیت کے دُکھ درد میں شریک ہونے اور اُسے نئی سے نئی بلندیوں تک پہنچانے کی سعی کے میدان میں کھلتی نظر آتی ہے۔ انسان تو انسان وہ تو کائنات کی ہر چیز سے پیار کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوںنے درخت کے موضوع پر کئی نظمیں لکھیں ہیں۔ اُسے درخت بے ریا، دستگیر ، خاموشی سے جہاں بھر کے دُکھ سہہ جانے والے نفوس ہی کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ مجید امجد نے دُنیاوی دُکھوں سے قلمی جنگ کی ہے بلاشبہ اِس دُنیا میں قدم قدم پر مسائل اور آلام انسان کو تاریک اندھیروں میںجیتے جی غرق کر دیتے ہیں۔ کیوں کہ صرف مرنے کے بعد قبر کے اندر اندھیرا کم نہیں ہو گا بلکہ لوگوں کے غلط رویوں ، احباب کی چیرہ دستیوں کے ساتھ ساتھ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کی وجہ سے یہ دُنیا تاریک رہی ہے۔ وہ موت سے گھبراتا نہیں اُسے معلوم ہے کہ یہ جینا لمحوں کا کھیل ہے اِس زندگی میں اندر اور باہر دُکھ اور کرب کی فضا کو جس طرح اُس نے پیش کیا وہ اُسی کا خاصا ہے۔
موت کتنی تیرہ و تاریک ہے
ہو گی لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اِس طرف ، باہر ، اندھیرا کم نہیں
مجید امجد کا کلام رنگ تغزل کا شہکار نظر آتا ہے ۔ اُن کی پاکیزہ خیالی ان کے اشعار میں ایسا رنگ بھرتی ہے جو اُن کی شاعری کو آفاقی وسعتوں اور بلندی سے ہمکنار کرتی ہے۔ ان کی شاعری کی اصل خوبی اور سب سے زیادہ دلکش چیز ان کا رنگ تغزل ہے۔ اس میں ترنم ، پاکیزگی ، متانت اور نُدرت موجود ہے۔ وہ زندگی کے ایک مخصوص نظرئیے کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ نظریہ ہے اپنی ذات کی پہچان اور مسلسل آگے پڑھنے کا عمل۔
وہ زندگی سے مایوس نہیں بلکہ زندگی میں کچھ کر گزرنے اور کروانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ مجید امجد ہماری نوجوان نسل سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور ہمارا آج سے ہمارا کل تابندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں:
چراغ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جوانو! اب تمہارے ہاتھ میں تقدیرِ عالم ہے
تمہیں ہو گے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زُلف جاناں گی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراںہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے
جبیں دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوع مہر کا جلوہ
سحر ہو جائے گی شام غریباں ہم نہیں ہوں گے
کہیں ہم کو دکھا وہ اک کرن ہی ٹمٹماتی سی
کہ جس دن جگمائے گا شبستاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا
یہی سُرخی بنے گی زیبِ عنواں ہم نہیں ہوں گے
میرا جی اور راشد کی شعری روایت میں مجید اجد سب سے اہم نام ہے۔ اُس نے جدید شاعری میں زرخیز تجربات کی ایک کائنات آباد کی ہے۔ وہ ایک ایسا شعری نقش بنانے میں کامیاب ہوا ہے جس میں تجربات انتہاؤں کی طرف بڑھتے ہیں۔
مجید امجد اپنی شاعری میں ہمیں جا بجا عمل اور جدوجہد کا درس دے رہے ہیں ۔ حصول مقصد کے لیے عمل، جدوجہد اور تگ و تاز اولین شرط ہے۔ کامیابی کے اسباب خود بخود پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ وہ نصرتِ خداوندی اور تائید ایزدی پر پورے بھروسے کا سبق دیتے نظر آتے ہیں۔
اِس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا
کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے ، پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے ، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
اِس اُجڑی نظروں میں ، پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوزِ دروں ، یہ اشک رواں ، یہ کاوش ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کچھ دن جی لیں ہم ، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے
مجید امجد ایک عمدہ مصور کے طور پر بھی اپنی شاعری میں پوری آن بان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اُنکی نظمیں آئل پینٹگز کی طرح ہمیں قریب سے کھردری ابھرواں اور دُور سے خیال افروز اور تہہ دار لگتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں نئے نئے تجربے کر کے باہر کے سارے مناظر اپنے داخل کی دُنیا میں لے آتے ہیں۔
مجید امجد کی بیشتر نظموں میں دُنیا کی بے ثباتی ہونے کا جو سبق ملتا ہے وہ دل و روح کو جگانے کے ساتھ ساتھ عمل کی طرف مائل بھی کرتا ہے۔ ہر اچھے شاعر کی طرح وہ اس دُنیا کو مسافر خانے سے زیادہ ترجیح نہیں دیتے۔ سلامتی کا خوف، آسمانوں کا ہفت خواں اور ہر قدم پر ہر مسافر کے لٹنے کی داستان المناک بے دلی مایوسی و نامرادی سے کیفیت پیدا کرتی ہے۔
بقول ڈاکٹر ناصر عباس نیر:
’’ نظم ’’بے نشاں‘‘ میں زندگی اور موت کی وساطت سے ایک ایسے عرفان کی جستجو نظر آتی ہے جسے حیاتِ انسانی کی سب سے عظیم یافت اور طلب کہنا چاہیے۔ متکلم اپنے نادیدہ پیش رو کی قبر کو پہلے نشان زد کرتا اور پھر اُسے بے نشان کرتا ہے۔ نشان زد کرنے کا عمل، آندھیوں اور بدلیوں یعنی فطرت کی تخریبی قوتوں کے خلاف انسانی رد عمل ہے۔ گویا زندگی کی نشانی کو قائم رکھنے کی ایک کمزور انسانی سعی ہے۔ ‘‘
الغرض مجید امجد کی آواز اپنے عہد کی دوسری آوازوں سے نہ صرف ممتاز بلکہ صحت مند روپ میں سامنے آئی تھی اُن کی شاعری فطرت بیان سے پرے ہو کر روح کا کلمہ بن گئی ہے۔ فطرت اُن کے یہاں تزئین شعر کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ ایک ایسے حواسی تجربے کے طور پر رونما ہوتی ہے جسے شاعر نے اپنے باطن سے خُلق کیا ہو۔
مجید امجد اپنی شاعری میں فطرت سے بے انتہا پیار کرتے نظر آتے ہیں جس طرح ویلیئم ورڈ ورتھ نے فطرت کے حسن اور جمالیاتی خوبصورتی سے اپنی شاعری کو مالا مال کیا ہے اِسی طرح مجید امجد نے جن ہرے بھرے اشجار کو کھیتوں ، کھلیانوں کا پہرے دار قرار دیا ہے ۔ وہ وسیع تر فطرت ہی کے نہیں زمین پر بسر کرنے والے تمام اجسام نامی اور ذی روح ہستیوں کے امین ہیں۔ حق کی موت کے ایک معنی ماحولیاتی تباہی کے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں درختوں ، پرند ، چرند، ندی، چشموں ، بادلوں اور زمین پر بسیرا کرنے والے ہر ذی روح کو موضوع بنایا ہے۔ اور ہر ایک کے درد کو نوک قلم پر لا کر نہ صرف اپنی شاعری کو امر کیا ہے بلکہ فطرت کے حُسن کی خوشبو کو چہار دانگ عالم میں بھی پھیلانے کی سعی کی ہے۔
مجید امجد ذوق عمل کے مالک ہیں اور زندگی میں معجز نمائی کے قائل بھی۔ اُن کی شاعری میں حرکت و عمل میں اصل زندگی ہے۔ اس کے نزدیک انسان اندھیروں کا رُخ بدلنے پر قادر ہے اگر ایسا نہ ہو تو نہ صرف انسان ہی اپنا رُتبہ کھو دے بلکہ زندگی کا وقار بھی ختم ہو جائے پس مخالف قوتوں سے ہرگز نہ ڈرو۔ اپنی جدوجہد جاری رکھو کیوں کہ اسی جہد مسلسل میں زندگی کا راز پنہاں ہے ۔یہی اِس آفاقی شاعر کا نظریہ حیات رہا ہے اور یہی اس شاعر کا آفاق اور ابدی پیغام ہے۔
مآخذ
۱۔ مجید امجد کی مستقل شناسی(مضمون) ، ڈاکٹر محمد امین، مشمولہ ادبیات، اسلام آباد
۲۔ مجید امجد، کلیاتِ مجید امجد ، مرتبہ: ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا لاہور، ماورا پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء
۳۔ ایضاً، ص ۷۲
۴۔ ایضاً، ص ۱۰۸
۵۔ ایضاً، ص ۱۱۳
۶۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر، پھول نرگس کا، ’’مشمولہ ‘‘چراغ طاق جہاں ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز ، ۱۹۸۰ء ، ص ۱۵
۷۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر ، اُردو ادب کی مختصر تاریخ
۸۔ مجید امجد ایک دِل درد مند، ڈاکٹر وزیر آغا، ’’مجید امجد نئے تناظر میں ‘‘ ، لاہور: بیکن بکس، ص ۳۹
۹۔ مجید امجد کی شاعری میں شجر، ڈاکٹر وزیر آغا، ’’مجید امجد نئے تناظر میں‘‘، لاہور: بیکن بکس، ص ۷۳
۱۰۔ ناصر عباس ، نیئر ، ڈاکٹر، نظم بے نشان کا تجزیاتی جائزہ
۱۱۔ کلیات مجید امجد، مرتبہ: ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، لاہور: ماورا پبلی کیشنز ، ۱۹۸۹ء ، ص ۷۱
۱۲۔ ایضاً، ص ۷۳
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۰۸
۱۴۔ ایضاً، ص ۱۲۱
۱۵۔ ایضاً، ص ۱۲۵
۱۶۔ کلیات مجید امجد، ص ۱۵۸
۱۷۔ ایضاً، ص ۱۷۴
۱۸۔ ایضاً، ص ۱۹۵
۱۹۔ ایضاً
۲۰۔ ایضاً، ص ۲۱۹
۲۱۔ ایضاً، ص ۲۳۶
۲۲۔ ایضاً، ص ۲۷۱
۲۳۔ ایضاً، ص ۳۳۷
۲۴۔ آفتاب اقبال شمیم، مجید امجد کی شاعری کا ایک جائزہ، مجید امجد ایک تناظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“