مجید امجد کی شاعری کے متعلق کچھ آرا اکثر سننے کو ملتی ہیں جیسا کہ مجید امجد کے ہاں سائنسی شعور پایا جاتا ہے، مجید امجد کے ہاں تصور وقت کثرت سے ملتا ہے، مجید امجد کائنات پہ غور و فکر کرنے والا شاعر ہے وغیرہ۔
گزوتہ چند دہائیوں میں مجید امجد کی مختلف شعری جہات پر خاصا لکھا گیا ہے اور تاحال لکھا جا رہا ہے۔
خواجہ زکریا صاحب کی ترتیب دی گئی کلیات مجید امجد میں سب سے اول حصہ “شب رفتہ” کے نام سے ہے۔
اس حصے کی پہلی نظم کا عنوان ہے “حسن”۔ جس کی
پہلی قرات میں محض حسن کی تعریف کا تاثر ابھرتا ہے۔
نظم کا متن دیکھیے۔
یہ کائنات مرا اک تبسم رنگیں
بہار خلد مری اک نگاہ فردوسیں
ہیں جلوہ خیز زمین و زماں مرے دم سے
ہے نور ریز فضائے جہاں مرے دم سے
گھٹا؟ نہیں یہ مرے گیسوؤں کا پرتو ہے
ہوا؟ نہیں مرے جذبات کی تگ و دو ہے
جمال گل؟ نہیں بے وجہ ہنس پڑا ہوں میں
نسیم صبح؟نہیں سانس لے رہا ہوں میں
یہ عشق تو ہے اک احساس بےخودانہ مرا
یہ زندگی تو ہے اک جذب والہانہ مرا
ظہور کون و مکاں کا سبب فقط میں ہوں
نظام سلسلہ روز و شب فقط میں ہوں
نظم کا متکلم خود “حسن” ہے اور نہایت پر شکوہ انداز میں اپنا تعارف کروا رہا ہے۔
تبسم،گیسو،جذبات، ہنسنا،سانس لینا کے الفاظ حسن کی جو پینٹنگ بنا رہے ہیں وہ انسانی شکل ہے گویا یہ حسن کی تجسیم ہے۔
پہلے ہی مصرع میں متکلم(حسن) پوری کائنات کو اپنا تبسم رنگیں قرار دیتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل_غور ہے کہ تبسم _رنگیں کوئی نئی یا جدید ترکیب نہیں ہے بلکہ روایتی اور فرسودہ محسوس ہونے والی ترکیب ہے۔
مگر اس ترکیب میں ایسی فورس کے معنی پیدا ہو گئے ہیں جو کائنات کے قیام کا باعث ہے۔
پہلے مصرعے کے بعد اس “کائنات” کی جزئیات جن میں نہ صرف ہمارے حواس کی گرفت میں آنے والی دنیاؤں کا ذکر ہے بلکہ ماورائے احساس گوشے بھی یوں بیان ہوئے ہیں کہ ان میں ہر ایک حسن کے پرتو یا جلوے کی بدولت ہی ہے۔
جیسے کہ “زمین و زماں” اور “نور ریز فضائے جہاں” حسن ہی کے دم سے ہیں۔
ان مصرعوں میں زمین و زماں میں زمین دنیا، دھرتی اور زماں وقت ٹائم ہے۔اسے سپیس اینڈ ٹائم بھی کہا جا سکتا ہے۔یہ نظر سے ماورا حقیقتیں بھی حسن کہ رہا ہے کہ میری وجہ سے ہیں۔
“نور ریز فضائے جہاں” سے روشنی ستارے وغیرہ جیسے کائناتی اجزا مراد لیے جا سکتے ہیں یا یوں کہ لیجیے کہ کائنات کے روشن اور روشنی کرتے ہوئے وجود بھی متکلم (حسن) ہی کے دم سے ہیں۔
اس سے اگلے مصرعوں میں فطرت جس میں جمال_گل، نسیم صبح بالترتیب حسن کےبے وجہ ہنسنے اور سانس لینے سے منسوب کیے گئے ہیں۔
اس سے آگے عشق اور زندگی یعنی انسان اور اسکے جذبات کی دنیا بھی اسی حسن کے مختلف روپ کے طور پر بیان ہوئی ہے۔
آخری مصرعوں میں کون و مکاں یعنی کائنات میں جو کچھ بھی ہے حتی کہ دن اور رات یعنی وقت کی کوئی اکائی تک بھی میرے (متکلم/حسن) بغیر کچھ نہیں یا مجھ سے تہی نہیں ۔
گویا پہلے مصرعے کے بعد متکلم نے اپنے بیان کی تشریح کردی ہے۔ جس پر اینٹی کلائمس کا فتوہ اس لیے لگانا مناسب نہ ہو گا کہ یہ نظم کا پہلا مصرع ہے۔
نظم کے عنوان (حسن) پر ،جو نظم کا متکلم بھی ہے کو بطور تجسیم دیکھیں تو یہ نظم انسان کی عظمت کا تعارف بن جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ انسان کی حمد ہے اور وہ خود اپنا تعارف بھی اسی شان و شوکت سے کروا رہا ہے جیسے مقدس متون میں خالق_کائنات کرواتا ہے۔
یاد رہے کہ اردو شاعری کی روایت ہے کہ دواوین ،کلیات اور دیگر شعری مجموعوں کا آغاز حمد باری تعالٰی سے کرنے کا رواج ہے۔
اس سے یہ نکتہ برامد ہوتا ہے کہ اس روایت سے انحراف برتا گیا ہے لیکن اسی سے متصل نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ اصلا حمد ہی ہے اور صوفیا کی طرح یہاں “حسن” سے مراد حسن_ مطلق یعنی خدا ہے۔
“زمین و زماں” اور “نظام سلسلہ روز و شب” کی تراکیب وقت کی اکائیاں ہیں ،گھٹا ،ہوا،نسیم صبح،جمال گل عرف عام میں فطرت کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے الفاظ ہیں اور گیسو، جذبات،سانس ،عشق، احساس بےخودانہ،زندگی،جذب والہانہ کے الفاظ انسانی وجود کے عناصر ہیں۔
یعنی نظم میں کائنات،خدا،انسان اور وقت موجود ہیں۔
انھی چار عناصر سے مجید امجد کی شعری کائنات کی تشکیل ہوئی ہے۔
مجید امجد کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی جگہوں پر کائنات،وقت اور خدا ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر اور کئی جگہوں پر تخلیق کرنے والی قوتوں کے طور پر بیان ہوتے ہیں۔
یہ عناصر مجید امجد کی شاعری پر اس قدر چھائے ہوئے ہیں کہ
“کلیات مجید امجد”کی تقسیم پر بھی ایک نظر ڈالیں تو اسکے مختلف حصوں کے نام بھی قابل توجہ ہیں۔
پہلا حصہ”شب رفتہ” کے نام سے ہے۔
یہ مجموعہ مجید امجد کی زندگی میں شائع ہوا تھا۔
اس نام کی معنویت وقت کے تصور پر محیط ہے۔
دوسرا حصہ “روز رفتہ” بھی اسی تاثر پر مشتمل ہے۔
اس حصے کا نام مرتب(خواجہ محمد زکریا) نے خود رکھا ہے۔البتہ انہوں نے اس بات ذکر نہیں کیا کہ یہ نام مجید امجد کے نہایت مرغوب مضمون”وقت” کو مد نظر رکھتے ہوئے رکھا گیا ہے۔
تیسرے حصے کا نام “امروز” اور چوتھے حصے کا نام “فردا” ہے۔
اگرچہ مرتب نے ان ناموں کی وجہ تسمیہ بیان نہیں کی مگر یہ تمام نام وقت کی اکائیوں پر مشتمل ہیں اور اس شاعری کے مزاج کے غماز بھی۔
“فردا”میں وہ کلام شامل ہے جس میں مجید امجد نے ہئیتی سطح پر تجربات کیے ہیں۔
*جاری ہے*