مجبوری
سہ پہر کا وقت تھا، ٹیوشن پڑھا کر اوپر آیا تو نظر بجلی کے بل پر پڑ گئی۔ اٹھایا رقم پڑھی اور رکھ دیا۔ والدہ کہنے لگیں آج پکانے کے لیے کچھ نہیں دال لے آؤ۔
"حنیف سے لے آؤں"
"نہیں وہ کم دیتا ہے شیخوں سے دونوں مکس لے آؤ بیس کی"
اور میں شیخوں کی دوکان سے دال لینے چلا گیا۔ وہاں کچھ اور گاہک موجود تھے۔ ایک لڑکا جس نے کوئی سودا لیا اور چلا گیا۔ ایک بچی جو چھٹی ساتویں کی طالبہ لگتی تھی اپنی ننھی سی بہن کے ساتھ وہاں تھی۔
"وہ ناں ہمیں آج سودا دے دیں"
"پیسے"
"آپ کو پتا ہے ابو بیمار ہیں آپ ادھار دے دیں مہینے کے مہینے پیسے مل جاتے ہیں آپ کو پہلے بھی"
"لیکن اب دو ماہ سے پیسے نہیں ملے"
"اصل میں بھائیوں کی ابھی تنخواہ نہیں ملی"
"تمہارا بھائی تو اس دن میں موٹر سائیکل پر ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کھاتے سے میرے ابے کا تعلق ہے میرا نہیں"
شیخ جی کے چہرے پر تمسخرانہ سے مسکراہٹ تھی، اور بچی کے چہرے پر لجاجت۔۔ اس دوران شیخ جی نے میرے ہاتھ سے پچاس روپے پکڑ لیے۔
"کیا لینا ہے"
"بیس کی مونگ مسور ملا کر دے دیں"
میں نے کہا اور انتظار کرنے لگا۔ اس بچی کے الفاظ میرے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح بجنے لگے۔
"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"
"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"
میں نے شیخ جی سے سودا پکڑا اور بقایا تیس روپے بھی پکڑے۔ ایک بار سوچا کہ یہ پیسے اس بچی کو دے دوں تاکہ ان کا چولہا جل جائے۔ پھر میرے سامنے میرے گھر کے خرچے آگئے۔ فلاں چیز لانی ہے، فلاں چیز لانی ہے۔ بجلی کا بل 5 روپے 65 پیسے فی یونٹ کے حساب سے 333 کا 2400 روپے دینا ہے۔ میں نے اس بچی پر ترحم آمیز نگاہ ڈالی اور سرجھکا کر چلا آیا۔
شاید میری مجبوری تھی، یا زمانے کی بے رحمی تھی، لیکن میں اپنی نظروں میں گر گیا۔ میرے اندر اتنا دکھ بھر گیا کہ اگر میں اسے ان الفاظ کی صورت میں نہ ڈھالتا تو جانے کیا ہوجاتا۔
(منقول)
اپنے ارد گرد نظر رکھا کیجئے اور ایسے لوگوں کی حتی الامکان خبر گیری کیجئے۔اللہ بہت بڑا ہے۔
انتخاب
ثناءاللہ خان احسن
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔