جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو وہ صرف مجازی تھا خدا نہیں تھا
پُر فسوں سبز آنکھوں اور سنہری مائل رنگت والا سجیلا جوان ۔ وہ سیدھا میری آنکھوں میں تک رہا تھا اور میرے دل میں اتر رہا تھا ۔ میری سانسیں سیڑھیاں بن گئی تھیں اور وہ ان پر قدم دھرتا ہؤا میرے لہو میں گم ہو رہا تھا ۔ میں نے تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا مگر اس پر مطلق کوئی اثر نہ ہؤا ۔ وہ بدستور مجھے تکتا رہا میں نے نظریں چرا لیں اور اس کی تصویر ایک طرف رکھ دی ۔ اور ایک گہری سانس لی ، پتہ نہیں کتنی ہی لڑکیاں اس کو پانے کے خواب دیکھتی ہوں گی جیون کی ناؤ اس کے نام لگانا چاہتی ہوں گی ۔ مگر وہ میرا ناخدا بننے لگا تھا ۔
پھر اس نے میری تصویر دیکھی ۔ پتہ نہیں کتنے ہی لڑکے اس کے خواب دیکھتے ہوں گے شاید اس نے بھی کچھ ایسا ہی سوچا ہو ۔ پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر اس نے انکار کردیا ۔
پہلی بار تم نے کیوں منع کر دیا تھا؟ ایکبار میں نے اس سے پوچھا ۔ اس نے جواب لکھا مجھے کسی لڑکی کو اپنے نام پر باندھ کر بٹھا دینا گوارا نہیں تھا ۔
تو پھر اب تم نے کیا کیا ہے؟ مگر میں صرف سوچ کر رہ گئی کہتے ہوئے ڈرتی تھی کہیں صنم خفا نہ ہو جائے ۔ وہ بہت خوبصورت تھا پر میرے کس کام کا تھا؟ بھلے سے اتنا خوبصورت نہ ہوتا چاہے غریب ہوتا مگر میرے پاس میرے ساتھ ہوتا ۔ اس کی آنکھوں کی طرح اس کے قدم بھی سبز تھے جو میرے دل کی سرزمین پر دھرے گئے تو جا بجا کانٹے بو گئے وہاں پھوٹنے والی ہر کونپل کھلنے سے پہلے ہی جل کر راکھ ہو گئی ۔ کانچ جیسی آنکھوں والے نے میرے قدموں تلے کہکشاں کی جگہ کانچ بچھا دیئے ۔ وہ میرا ہو کے بھی میرا نہیں تھا اور میں اس کے پاس اس کے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی صرف اسی کی تھی ہمیشہ سے اسی کی تھی ۔ میں نے اسے اپنا خدا بنا لیا اور سوتے جاگتے اسے پوجتی تھی ۔ اور یہ نہیں سوچتی تھی کہ خدا کبھی اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا اور جو ایسا کرے وہ خدا نہیں ہو سکتا ۔ وہ اپنا بنا کے چھوڑ گیا تھا اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی تھی جو دنیا کی بھیڑ میں گم ہو گیا تھا ۔
وہ جب تک مجازی خدا رہا مجھ سے جدا رہا ، جس روز بندہء خدا بنا اپنے حقیقی منصب کو جان گیا وہ میرا مسیحا بن گیا ۔ جن کانٹوں کانچوں کنکروں کو چنتے چنتے میرے دل کی انگلیاں فگار ہو چکی تھیں انہیں اس نے اپنی پلکوں سے چن لیا ۔ اس کی آنکھوں کا سبز رنگ کہیں کھو چکا تھا ۔ مگر وہ کہیں نہیں کھویا تھا وہ جہاں بھی تھا صرف میرا تھا بس مجھے پتہ نہیں تھا ۔ مجھے لگتا تھا کہ صرف وہ ہی نہیں خدا بھی مجھے بھول گیا ہے ۔ کسی کو میری کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ تو گم ہو گیا ہے یہ خدا کو کیا ہو گیا ہے؟ آج مڑ کر دیکھتی ہوں خدا کبھی گم نہیں ہؤا تھا ۔ خدا گم ہونے کے لیے نہیں ہوتا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...