مجازؔہماری اردو شاعری کی ایک پُر اسرار شخصیت کا نام ہے جن کی زندگی بڑے پیچ وخم اور مختلف نشیب و فرازسے عبارت ہے ۔مجازؔ فطری طور پر جدت پسند طبیعت اور آزادانہ خیال کے مالک تھے لہذا،انھوں نے ہمیشہ اپنی آورہ گردی کو، کوچہ عقل کی خوش خرامی پر ترجیح دی ، مجازؔ کی مطلق العنان محبوبیت کا یہ عالم تھا کہ وہ بیک وقت مملکتِ غمِ جاں اور غمِ جاناں میں کارِ سلطانی کے فرائض انجام دیتے رہے ۔مجاز جتنے آزاد خیال تھے اس سے کہیں زیادہ حساس طبع بھی تھے لیکن وقت اور حالات کی مسلسل ضرب نے ان کی طبع نازک پر وہ اثر ڈالاکہ رفتہ رفتہ ان کی حساسیت نے وحشت کی شکل اختیار کر لی۔ مزید یہ کہ مجازؔ کی مابہ الاحتیاج چیزوں میں ایک محبوب ترین چیز مئے نوشی تھی ۔مجازؔ اپنی روح کی اس حیرت انگیز ا حتیاج کی تکمیل وتسکین کے لئے اس شغل میں کسی طرح کی وضع احتیاط کے قائل نہیں تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ مجازؔ نے خود کو وحشت سے بچانے کے لئے اپنے کو غرقِ دریائے بادۂ ناب کردیا۔ ان کا یہی انحراف و بے راہ روی آگے چل کر ایک بڑے المیہ کا موجب بنا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں علتوں نے مجازؔ کو صرف تباہ حال ہی نہیں کیا بلکہ ان کی ناوقت مو ت کی وجہ بھی بنی ۔ مجازؔ کی زندگی سے متعلق جعفر علی خاں اثرؔ کا یہ جملہ بڑا مفہوم خیزہے۔
’’ہماری اردو شاعری میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا لیکن اُسے ترقی پسند بھیڑئے اُٹھا لے گئے۔‘‘
مجازؔ بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے ان کی شاعری نے کم وقت میں اپنی مقبولیت کی ایک طویل مسافت طے کی۔ ان کے احباب کا حلقہ بہت وسیع تھاجو مجازؔکے اخلاقانہ سعادتمندی اور متواضع شخصیت کی دلیل تھی ۔مجازؔ اپنے ادبی بزرگوں کے درمیان جتنی قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے اتنا ہی اپنے ہم عصر نوجوان ادیبوں میں بھی محترم گردانے جاتے تھے۔
مجازؔ کا تخلیقی رجحان ترقی پسند تحریک کے نظریاتی اصولوں کا مرہونِ منت نہیں تھا ۔اس لئے کہ ترقی پسند تحریک کے معرض وجو د میں آنے سے پہلے ہی ان کی شاعری کا اپنا ایک الگ انقلابی تیور تھا جس کی بنیاد پر ترقی پسندیوں نے انھیں اپنے حلقہ میں شامل کر لیا ۔ یہ بات تو سچ ہے کہ مجازؔ ترقی پسند ضرور تھے لیکن ان کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ دیگر ترقی پسند شعرا کی طرح ان کی شاعری میں ترقی پسند یت کا وہ غلبہ نہیں پایا جاتا جس کے لئے ترقی پسند شعرا مشہور تھے۔ جہاں تک مجازؔ کے احتجاجی و انقلابی آہنگ کی بات ہے تو یہ بات بالکل درست ہے لیکن انھوں نے غمِ روزگار پر غمِ ذات کو ہی ترجیح دی ہے ۔اس سے قطع نظر یہاں پر محض اس نظم کا ایک تجزیاتی تعارف مقصود ہے۔لیکن اس نظم کے حوالہ سے حمیدہ سالم کی تحریر ملاحظہ کریں۔
’’میری نظر میں ان کاتعارف اس سے بہتر نہیں ہوسکتا ۔ انھوں نے اپنی خوبیاں ،خامیا ں سب ہی کچھ آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔ شاید ہی ان کے جاننے والوں میں سے کوئی یہ کہہ سکے کہ مجازؔ کا اصلی روپ اس تصویر سے مختلف تھا جو ان اشعار میں جھلکتی ہے ‘‘
جیسا کہ اس نظم کے عنوان سے یہ بات ظاہر ہے کہ مجازؔ نے اس نظم کے ذریعہ اپنا تعارف پیش کیا ہے ۔
کہنے کو تو یہ ایک نظم ہے لیکن اس پر نظم کے انطباق سے زیادہ غزل کا گمان ہوتا ہے۔اس لئے کہ اس میں نظم کا وہ ہیتی التزام نہیں پایاجاتا جو ایک نظم کے لئے ہونا چاہئے اگر بااعتبار موضوع دیکھا جائے تو اس کے مضمون میں وہ اتصال و ارتبا ط بھی نہیں جو ایک نظم کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے اس نظم کا ہر شعر غزل کی طرح اپنے ایک الگ معنیاتی زوایہ انفراد کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نظم ۱۹؍اشعار پر مشتمل ہے ۔ا س نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ۔
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنسِ الفت کا طلبگار ہوں میں
جیسا کہ مذکورہ شعر کی قرات سے یہ بات واشگاف ہوتی ہے کہ مجاز اپنا تعارف پیش کررہے ہیں لیکن مجازؔ کا یہ تعارف رسمی نہیں بلکہ یہ ان کا تعارف باالفعل ہے۔ اس شعرکی ظاہری ہیت نہایت سنجیدہ اور سلاست سے بھر پور ہے۔ نہ تو اس میں کسی طرح کی لفظیاتی تعقید و تقصیر ہے اور نہ کسی طرح کی نادیدہ ترکیب اور ناشنیدہ علامت کا استعمال کیا گیاہے ۔جہاں تک مفہوم کی بات ہے تو یہ ظاہراً اسی ایک مفہوم پر دلالت کررہاہے جیسا کہ ایک عام قاری اس شعر کو پڑھنے کے بعد محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر اس شعر کی قرات اپنی ناقدانہ بصیرت کی روشنی میں کریں تو اس سے کچھ اور ہی معنوی امکان روشن ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مذکورہ شعر میں دو اہم لفظ ہیں ’’اسرار‘‘ اور ’’الفت‘‘ لیکن مجازؔ نے الفت کا استعمال ’’جنس‘‘ کی ترکیب کے ساتھ کیا ہے۔ جو مجازؔ کی تخلیقانہ حکمت کی غمازی کرتا ہے۔ اس شعر کے پہلے مصرعہ میں مجازؔ نے لفظ’’اسرار‘‘ پر کافی زور دیا ہے اور ’’اسرار‘‘سے پہلے ’’خوب ‘‘ کی تاکید بھی بہت خوب ہے ۔جو کہیں نہ کہیں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مجازؔ کا مقصود اس لفظ کی عمومی نسبت سے نہیں بلکہ اس کے معنوی تصرف پر ہے۔ یہ بات معقول جواز رکھتی ہے پہلی بات یہ کی اس نظم میں مجازؔ نے اپنے اصل نام ’’اسرار‘ ‘ کا استعمال تخلص کے طور پر کیا ہے۔حالانکہ مجازؔ کا مقصود تخاطب ایک ایسا حلقہ ہے جو اس بات سے بخوبی متعارف ہے کہ ’’اسرارؔ‘‘ کیا ہیں اور مجازؔ کون ہیں۔لہذا ایسی صورت میں یہ کہنا کہ مجھے پہچانو !اس ’’اسرار‘‘ کی اسراریت میں مزید اضافہ پیدا کررہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں پر ’’اسرار‘‘ کا یہ لفظ ظاہری مفہوم سے زیادہ اپنے معنوی مقصود پر دلالت کررہا ہے۔ گویامجازؔ اس لفظِ’’اسرار‘‘ کے ذریعہ اس حقیقت انسان کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیںجس کا نکتۂ ارتکاذخود ان کی ذات بھی (یعنی ذات انسان )ہے۔ حضرت علیؑ نے اپنے اس شعر میں اس نکتہ کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔
اَتزعَمُ اِنّکَ جِرم صغیرُ
وَفِیکَ الطھویٰ العَالمُ الاکبر
وَانتَ الکتابُ المبین الّذی
باِحرفِہِ تظھر المضمرُ
(دیوانِ علی ابن ابی طالبؑ)
’’(اے انسان) کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تواک چھوٹا ساجسم ہے حالانکہ تیرے اندر ایک عالم اکبر پوشیدہ ہے ۔ ‘‘
’’تو ایک ایسی کھلی ہوئی کتاب ہے جس کے حرفوں سے پوشیدہ اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘
انسان اپنی ظاہری ساخت کے حساب سے بہت ہی کمزور وناتواں ہے لیکن اس کی معنوی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اس لئے کہ اسکے اندر ایک ایسا عالم اکبر ہے پوشیدہ جس میں سیکڑوں جہان آباد ہیںاورانسان کے اس کائنات جسم میں ہزاروں اسرار مخفی ہیں جس سے ابھی یہ انسان ناواقف ہے۔ اس لئے کہ ان سربستہ رموزکو درک کرنے اور اس کی گہرائی اور گیرائی تک پہنچنے کے لئے بصار ت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مذکورہ شعر کے دوسرے مصرعہ میں مجاز ؔ نے لفظ’’الفت‘‘ کا استعمال ’’جنس‘‘ کی ترکیب کے ساتھ کیا ہے۔’’الفت‘‘ کے ساتھ’’جنس‘‘ کی ترکیب معیوب تو نہیں لیکن اپنے اندر ایک مفہوم خیز استفہام ضرور رکھتی ہے۔اگر ان لفظوں کی نوعیت پر غور کریں تو یہ دونوں عربی نژاد ہیں لیکن معنوی اعتبار سے دونوں لفظوں کے محل استعمال میں بُعد السمتین پایا جاتا ہے ۔اس لئے کہ ــ’’جنس‘‘ کا انطباق مادی وجود پرہوتا ہے اس کے برعکس ’’الفت‘‘ کا اپنا کوئی مادی وجود نہیں ہوتابلکہ یہ وجود کی ایک ایسی ماہیت ہے جو غیر مری کیفیت و احساس سے عبارت ہے۔اگر اس شعر میں ’’اسرار‘‘ اور ’’جنسِ الفت‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے والے تلازم پر غور کریں تو یہ واضح ہوتاہے کہ مجازؔ ایک ایسی انسانی قدر کا تعارف پیش کررہے ہیں جو اس عہد میں عدم بصیر ت کا شکار ہوتی جارہی ہے الفت و محبت جیسی اعلیٰ قدروں پر کنزیومر ازم کا اسقدر تسلط ہے کہ اس عہد صارفیت میں اس کی حیثیت متاع کوچہ وبازار سے زیادہ نہیں ہے گویا مجاز ؔ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مجھے پہچانو میں ایک ایسے عہد میں پیدا ہوا ہوں جہاں محبت ہمدری اور انسانیت کسی بازاری اشیا کی طرح اپنے زرِ متبادل کی مقتضی ہے اورمیں ایک ایسی انسانی قدر کا مطالبہ کررہا ہوں جسے الفت کہتے ہیں۔
اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ مجازؔ کا جنس الفت کا طلبگار ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وہ اب اپنی تنہائی سے اوب چکے ہیں لہذا وہ اس کا تدارک ایک ایسی چیز کے مطالبہ سے کر رہے ہیں جسے الفت کہتے ہیں۔حالانکہ یہ الفت ایک ناعاقبت اندیش غم و اندوہ کا پیش خیمہ ہے ۔اگر ہم یہاں پر اس ’’الفت‘‘ کی تفہیم بدھ ازم کے تناظر میں کریں تو یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔
چونکہ بدھمتی کے مطابق کسی انسان کو اسوقت تک ’’نروان‘‘ نہیں حاصل ہوسکتا جب تک کہ وہ دنیا کے اس مادی وجود سے بے رغبتی وبے اعتنائی نہیں اختیار کرتا۔لہذاایسی صورت میںاس مادی وجود کے تقاضوں سے انحراف و احتراز کا لازمی نتیجہ تنہائی ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر علی شریعتی کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔
’’غم کی ساری پونجی فراق ،موت اور بیماری وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر الفت ورغبت نہ ہوتو میرے لئے میرے بچے کی موت ایسی ہوگی جیسے کسی اور کا بچہ مرا ہو مجھے اس کا غم نہیں ہوگا اس فکر کی بنیاد پر جو زندگی میں استقلال و تنہائی سے عبارت ہے ۔فرانس میں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک شکاری ایک وقت میں کبھی دو گینڈے کا شکار نہیں کرسکتا ۔گینڈا ۔۔۔۔۔۔۔لگاؤ سے خالی تنہا انسان سے عبارت ہے۔‘‘اس سے متعلق یہ ایک بہت مشہور نظم ہے جس میں بدھ ازم کی پوری روح سمائی ہوئی ہے۔‘‘
لکڑی کو جس چیز کے لئے وہ جی رہے ایک طرف رکھ دو
کسی کو اس سے دکھ نہ دو
فرزند کے لئے رغبت نہیں
تو پھر دوست کے لئے کیسی رغبت
گینڈے کی طرح تنہا سفر کرو
ساتھی سے محبت وجود میں آتی ہے
اور محبت سے دکھ
تاکہ تم اس زہر کو
اس بے الفتی کو
کہ جوبے الفت سے وجود میں آتی ہے دیکھو
گینڈے کی طرح تنہا سفر کرو
(نوٹ:مصنف محترم نے اس نظم کا ماخذ اور اس کے اصل متن کی نشاندہی نہیں کی ہے۔لیکن نظم سے متعلق یہ ضرور تحریر کیا ہے کہ یہ نظم آج سے تین ہزار سال پرانی ہے ۔اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نظم عربی وفارسی زبان کے علاوہ کسی اورزبان کی ہے اردو کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔)
اگراس پس منظر میں مجازؔ کے مذکورہ شعر کی تفہیم کی جائے تو یہ بات واشگاف ہوتی ہے کہ مجازؔ کا ’’جنسِ الفت‘‘ کا مطالبہ کرنا ایک بڑے نظریہ کی تردید کرتا ہے جسے اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔مجازؔ ایک ایسے انسانی سماج کا مطالبہ کررہے ہیں ۔جس میں کسی طرح کی موہومیت، منہومیت، مندومیت،محزونیت،محرومیت اورلاحاصلیت کا احساس نہ پایا جاتا ہو۔ ایک ایسا سماج جہاں تما م انسانی قدروں کا برابر احترام ہو محبت اور محبوبیت سے بھرا ہوا سماج۔
اس نظم کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں۔
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
مذکورہ شعرمیں’’عشق‘‘ اور’’ فتنۂ عقل‘‘کا استعما ل بڑی خصوصیت کے ساتھ کیا گیاہے اس شعر میں لفظ ’‘دنیا‘‘ کا استعمال ’’عشق ‘‘ کے تلازمہ کے طور پر ہوا ہے ۔’’دنیا‘‘کے اس تلازم نے عشق کے معنیاتی کینوس کو بہت وسیع کردیا ہے ۔لیکن اس شعر میں کلیدی لفظ ’’عشق‘‘ اور عقل ہیں۔ عشق اور عقل دونوں عربی لفظ ہیں لیکن خارج از وجود ذات عشق اور عقل کا اپنا کوئی مستقل خارجی وجود نہیں ہوتا کہ جس کے لئے یہ کہا جائے کہ یہ عشق ہے اور یہ عقل ۔عشق کے بالمقابل عقل کا ابتدائی اور انتہائی مستقر محض وجود انسان ہے۔ جس کی نشو و نما انسان کے دیگر اعصاب کی طرح تدریجی طور سے مرحلہ در مرحلہ ہوتی ہے۔ لیکن عشق کا الہامی جذبہ انسان کی روح پر نزول کرتا ہے۔ جس کی تجلی سے انسان کا دل ہی نہیں پورا وجود منور ہوجاتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ عشق اور عقل کی حریفانہ چشمکیں صرف ہماری اردو شاعری کا ہی نہیں بلکہ دیگر زبانوں کی شاعری کا ہمیشہ سے ایک بہت ہی دلچسپ موضوع رہا ہے ۔لیکن عقل و عشق کا یہ باب ہمیشہ عرفانیات کے زمرے میں ہی رہا ہے ۔اس لئے کہ عرفان کا نکتہ اول وآخر عشق ہے اور اس عشق کی راہ میں اگر کوئی قوت مزاہم ہوتی ہے ،تو اس کا نام عقل ہے ۔عرفا عشق کے مقابلے عقل کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے لہذاعقل کے مقابلے عشق کا یہ غالب رجحان دونوں قدروں کے مابین مجادلانہ کیفیت کو جنم دیتا ہے۔حافظ شیزازی کا یہ اشعار اس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کریں۔
عارف از پر توی رازِ نہانی دانست
گوہر ہر کس ازیں لعل توانی دانست
ای کہ در دفتر عقل آیت آموزی
ترسم این نکتہ بہ تحقیق ندانی دانست
’’ایک عارف شراب کی چمک میں پوشیدہ راز کو دریافت کرلیتا ہے۔‘‘
’’ تو بھی اس لعل کے ذریعہ (انسان) کے اندر پوشیدہ صلاحیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔‘‘
’’اے وہ شخص جو عشق کو عقل کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔‘‘
’’مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تو اس نکتے کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکتا ۔‘‘
اس تناظر میں میرتقی میرؔکے یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں پھر رہا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا بھی مبتلا ہے عشق
کون مقصد کو عشق میں پہونچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
عشق اور عقل انسان کے اندر پائی جانے والی قدریں ہیں جب انسان کا میلان ان دونوں قدروں میں سے کسی ایک کی طرف بڑھتا ہے تو ایک قدر دوسری قدر پر غالب آجاتی ہے۔جیسا کہ افلاطون کا یہ نظریہ بہت مشہور ہے کہ۔
’’انسان جب کسی چیز کو چاہتا ہے تو ابتدا میں اُسے ٹوٹ کر چاہتا ہے زبردست جذبہ کے ساتھ اس چیز سے عشق کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو وہ پہلی والی شدت ختم ہوجاتی ہے اور اس کے عشق کا جذبہ دھیرے دھیرے فرو ہوجاتا ہے اس لئے کہ وصال ِ عشق ہی عشق کا مدفن ہے جب وصال کے بعد انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے تو وہیں سے نفرت و فرار کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘
اسی ضمن میںعرب کے ایک بزرگ عارف و فلسفی محی الدین ابن عربی (محی الدین عربی حاتم طائی کی اولاد میں سے تھے یہ اندلس کے رہنے والے تھے، چھٹی صدی عیسوی کے صوفی ابو مدین مغربی اندلسی ان کے استاد تھے ان کا سلسلہ طریقت شیخ عبد القادر گیلانی سے منتہی ہوتا ہے ان کا ایک مشہور لقب شیخ اکبر بھی ہے ۔یہ تقریبا دوسو کتابوں کے مصنف تھے ان کی مشہور زمانہ کتاب ’’فتوحات مکیہ ‘‘ ہے جسے تصوف کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا ہے ۶۳۸ء میں دمشق میں ان کا نتقال ہوا اور ان کی قبر شام میں اب بھی مرجع خلائق ہے ۔ان کی ایک مشہور کتاب’’ فصوص الحکم‘‘ بھی ہے جس کی شرح دیوبند کے ایک مشہور عالم مولانا اشرف علی تھانوی نے کی ہے ) نے بہت ہی عمدہ بات کہی ہے ۔
’’لااُحِبُّ احدا غیرُ خالقۃ‘‘ِ کوئی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرسکتی ۔
حالانکہ یہ ایک غیر فطری امر ہے اس باب میں مفکرین نے جو نتیجہ پیش کیا ہے وہ قابل ذکر ضرور ہے۔چونکہ انسان طبعی طور پر ایک ایسی مخلوق ہے جس کا معشوق محدود وفانی نہیں ہوسکتا ۔وصالِ عشق کی صورت میں فرارو نفرت کا پیدا ہونے والا احسا س اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انسان ا پنے اس فانی ومجازی معشوق میں ایک ایسے عاشق ِ حقیقی کی تلاش کرتا ہے جو غیر فانی ہے ۔
اس سے متعلق ہماری اردو شاعری میں کثرت سے اشعار موجود ہیں۔مضمون کی طولت کے پیش نظر امثالِ اشعار سے پرہیز کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
مذکورہ اشعار کے دوسرے مصرعہ میں ’’فتنۂ عقل ‘‘کی ترکیب بھی قابل غور ہے فتنہ بھی عقل کی طرح عربی لفظ ہے لیکن یہاں پر عقل کے ساتھ اس کا استعمال عشق کے مقابلے انسان کی منفی قدروں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔حالانکہ عقل بھی عشق کی طرح ایک مثبت قدر ہے ۔اس لئے کہ عقل انسان کے لئے ایک پیغمبر کی حیثیت رکھتی ہے ۔جو انسان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت کرتی ہے ناکہ تخریب کاریوں اور بداعمالیوں کی۔چونکہ ہر چیز کی شناخت اس وجود میں پوشیدہ اس کے جوہر حقیقت سے ہوتی ہے۔جو اس وجود کا جزو لاینفک ہوتا ہے اگر اس وجود سے اس جوہرِ حقیقت کو سلب کرلیا جائے تو اس کی اصل شناخت ختم ہوجائے گی۔ جیسے کہ سورج کاجوہرِ حقیقت نور اور روشنی ہے۔بالکل اسی طرح سے جیسے کہ پتھر کاجوہرِ حقیقت اس کا جمود اور سختی ہے ۔ اس کے برعکس پانی کا جوہرِ حقیقت اس کی ملائمیت اور شفافیت ہے ۔ ایسے ہی عقل کا جوہرِ حقیقت اس کاتنوع و ترفع ہے ناکہ پستی و ضلالت۔ لہذا جس طرح سے سورج سے اندھیرا ،پانی سے سختی وکرختگی اور پتھر سے ملایمیت اور نمو کی توقع نہیں کی جاسکتی اس طرح عقل سے کسی طرح کے فتنہ یا تخریب و تفریق کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ،کہ آخر وہ کون سی طاقت وقوت ہے ،جو انسان کے اندر پوشیدہ منفی قدروں کو مہمیزکرتی ہے کہ جسے کے برئے نتائج سے باخبر ہونے کے باوجود انسان احکامِ عقل کی سرتابی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ تو وہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ اس قوت کا نام ’’نکراء‘‘ ہے ۔یہ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی عیاری ،مکاری اور فتنہ وفریب کے ہیں،اسے ’’شبہِ عقل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔یعنی ایک ایسی قوت جو حرفت و صناعیت و درّاکیت میں عقل کے ہم مرتبہ ہوتی ہے لیکن وہ عقل نہیں ہوتی۔لہذاہماری اردو شاعری میں جہاں جہاں بھی عقل کا استعمال تخریب کاری اور فتنہ انگیزی کے علامت کے طور پر کیا گیا ہے اس سے مراد عقل نہیں بلکہ’’ نکراء‘‘ ہے۔
مجازؔ اس شعر میں ایک ایسی دنیا کے متلاشی ہیں جسے عشق کہتے ہیں اس لئے کہ مجازؔ اس بات سے واقف ہیں کہ عشق کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی لہذا مجازؔ اپنی اس مادی دنیا پر اپنے عشق کی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں جو ریاکاریوں ،تباہ کاریوں ،عیاریوں ،مکاریوں ،تخریب کاریوں اورنفرتوں و دنایت سے بھری ہوئی ہے۔
اس نظم کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں۔
کفروالحاد سے نفرت ہے مجھے
اور مذہب سے بھی بیزار ہوں میں
اس شعر میں مجازؔ نے اپنے مفہوم کی ترسیل کے لیے کچھ اہم لفظوں کا استعمال کیا ہے ۔جیسے کہ ’’کفروالحاد‘‘ ،’’نفرت‘‘ ،’’مذہب‘‘ اور ’’بیزار‘‘ اس شعر کے پہلے مصرعہ میں ’’کفروالحاد‘‘ سے اظہارِ برات کے لئے نفرت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔حالانکہ پہلے مصرعہ میں نفرت کی جگہ ’’بیزار‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاسکتا تھا ۔لیکن مجازؔ نے شعوری طور پر اس سے پرہیز کیا ہے اگر اس مصرعہ میں نفرت کی جگہ اس کے مترادفات کا بھی استعمال کیا جاتا تو اس شعر کی معنوی حقیقت متاثر ہوجاتی ۔
مجازؔ کا اس طرح سے ’’کفرو الحاد‘‘ سے اپنی نفرت کا اظہار کرنا ان کے یکتا ء پرست ہونے پر دلیل ہے۔ا س لئے کہ مجازؔ ناتو یونانی افسانوں کے خدا ’’جانوس ‘‘کے پرستار ہیں نا تو مسیحیت کے تین جلووں والے خدا کے پیروکار اور نا ہی زرتشت و مانی کے دومتناقض چہروں والے خدا کے معتقد بلکہ وہ ایک ایسے خدا کے ماننے والے ہیں جو اپنی ذات میں احد وصمد یعنی یگانہ وبے نیاز ہے ۔لہذاان کی موحدانہ طبیعت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ مجازؔ میں لاکھ برائیاں سہی لیکن یہ عمل میری (مجازؔ)مواحدانہ طبعیت کے خلاف ہے کہ میں ایک لمحہ کے لئے بھی ’’کفر والحاد ‘‘کو روا رکھوں۔
اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں مجازؔ نے مذہب سے بیزار ہونے کی بات کہی ہے ۔اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں ۔ رہی مذہب سے بیزاری کی بات تو دنیا کے تمام تر قی پذیر ممالک کے متمدن معاشرہ اور تہذیب یافتہ سماج میں کچھ ایسے دانشمند ان اور مفکرین ہر دور میں رہے ہیں جن میں مذہب بیزاری کا رجحان عام رہا ہے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتاہے کہ مذہب بیزاری کا یہ چلن فیشن متصور کیا جانے لگتا ہے ۔لیکن معاصر عہد کے مقابل اٹھارویں صدی عیسوی اور انیسویں صدی کے ربع آخر تک مذہب بیزاری کا یہ چلن بہت عام تھا ۔اگر آ پ اس پہلو پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذہب کے خلا سے ابھرنے والے اسی غم و غصہ نے کمیونزم کو جنم دیا ۔دھیرے دھیرے مذہب بیزاری کے اسی رجحان نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔مذہب بیزاری کا یہ جنون ہمارے سماج و معاشرے پر اسقدر غالب آگیا کہ کسی کا کمیونسٹ ہونا اس کے روشن دماغ اور دانشمند ہونے کی علامت تصور کیا جانے لگا۔
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ مغرب کا ایک عظیم دانشور و مفکر جسے لوگ ’’سارتر‘‘ کے نام سے جانتے ہیں وہ بھی بڑے شدید قسم کا مذہب بیزار شخص تھالیکن اس کی یہ بات حیران کرتی ہے وہ کہتا ہے۔
’’ انسان کا دکھ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مقصد نہیں اور آج کا انسان بغیر مقصد جی نہیں سکتا ۔ہستی کو ہم کوئی مفہوم نہیں دے سکتے اس لئے کہ وہ بے خرد اور نا معقول ہے ۔اس طرح انسان کی زندگی اور اس کے علم و فلسفہ وہنر سے متعلق ذخیروں میں سے کسی کا بھی مقدس ہدف نہیں ۔پس ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں؟اور یہ مسلم ہے کہ جو چیز ’’سارتر‘‘بنائے گا وہ لوگوں کے کام نہیں آئے گی۔‘‘
’’سارتر‘‘ کا یہ اضطراب و اضطرار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کہ انسان کی ہستی کی طرح اس کے وضع کئے ہوئے آئین میںعدمِ دوامیت کا اندیشہ پایا جاتا ہے ۔لہذا وہ ایسی صورت میں ایک ایسے قانون اور آئین کا تقاضہ کررہا ہے جو اس کے معنوی ہدف تک رہنمائی کرنے میں کار گر ثابت ہو۔اور اس قانون کا واضع ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے جو ہم سے اور آپ سے بالاتر ہو ۔ورنہ ’’سارتر ‘‘ یہ کبھی نہ کہتا کہ جو میں بناؤں گا وہ لوگوں کے کام نہیں آئے گا ۔ اس کی یہی عاجزی مذہب کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر علی شریعتی کا یہ جملہ اس بات کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔
’’ انسان جس قدر مذہب سے منہ موڑتا ہے اتنا ہی مذہب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ــ‘‘
یہ جملہ بڑافلسفیانہ اور مفہوم خیز ہے ۔ اس لئے کہ یہ بات مسلم ہے کی جب کوئی بھی چیز اپنے نقطۂ آغاز سے دائرہ کی شکل میں حرکت کرتی ہے تو اس کا نقطۂ اختتام اس کے نقطۂ آغاز پر ہی منتہی ہوتا ہے۔غالبا اس عمل کو عرفا کی اصطلاح میں قوسِ نزول اور قوسِ صعود بھی کہتے ہیں۔
لہذا اس شعر میں مجاز ؔ کی مذہب بیزاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مذہب کے آئین و اصول کے منکر ہیں وہ اللہ کے بنائے ہوئے مذہب سے بیزار نہیں ہیں بلکہ اس مذہب سے بیزار ہیں جسے ملائیت کا مذہب کہتے ہے ہیںجس کے مذہب میں آدمی کے مسائل و وسائل پر گفتگو نہیں شرک و بدعت اور حلال وحرام کے قضیہ پر جنگ وجدال کی جاتی ہے۔اللہ کے دین اور اس کے اصولوں کا استعمال اپنے مفاد کے لئے کیا جاتا ہے اپنے مقصد کے تکمیل کے لئے حدیث وروایات وضع کی جاتی ہیں اپنے مطلب کی برآوری کے لئے آیات ِ قرآنی کا غلط انٹر پٹیشن کرکے عوام کو غلط فہمیوں کا شکار بنایا جاتا ہے لہذا مجاز کا ؔ ایسے مذہب سے بیزار ہونا ایک لازمی امر ہے۔اسی تناظر میں مجازؔ کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں۔
حورو غلماں کا یہاں ذکر نہیں
نوعِ انساں کا پرستار ہوں میں
مجازؔ کا یہ شعر مذکورہ بالا شعر کی معنوی توسیع ہے ۔جس کے ذریعہ مجاز ؔاپنے مذہبی موقف کا براہ راست اظہار فرما رہے ہیں وہ مذہب میں کسی طرح کے جبر کے قائل نہیں۔وہ حقوق العباد کے پرستار ہیںاور وہ اُن عبادات کے حامی نہیں ہیں جو حورو قصور اور جنت و غلماں کے حصول کے لئے کی جائے اس لئے کہ وہ کسی عابد وزاہد کی زندگی بھر کی عبادت و ریاضت پر اس ایک سجدہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو خدا ئے بے نیاز کی بارگاہ میںہر طرح کے مفاد سے بلند ہوکر ادا کیا جائے۔ ورنہ میرے یہ اشعار۔۔۔۔۔۔
خلوصِ نیت اگر نہیں ہے تو پھر بتاؤ یہ کیسا سجدہ
ہے یہ پرستش بتِ ریا کی یہ بندگی ، بندگی نہیں ہے
اے شیخ تجھ کو عبادتوں نے حریصِ جنت بنا دیا ہے
کہ تیری نیت کے خاکداں میں شرارۂ دوزخی نہیں ہے
مجازؔ کی نظم کا اک اور شعر ملاحظہ کریں۔
زندگی کیا ہے گناہِ آدم
آدمی ہوں تو گنہگار ہوں میں
اس شعر میں تین اہم لفظیں ہیں ’’زندگی‘‘،’’آدم‘‘اور ’’گناہ‘‘اس شعر میں ’’آدم‘‘ زندگی کا استعارہ ہے اور زندگی علامت ہے اس رونقِ آب و گِل کی جس کی وجہ سے اس کائنات میں تحرک اور گہما گہمی ہے ۔اور ’’گناہ ‘‘انسان کے نسیان اور ہواو ہوس کے خمیازہ کا نام ہے۔
اگر لفظی اعتبار سے اس شعر کو دیکھا جائے تو اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں مجازؔ نے ’’ہوں‘‘ لفظ کا استعمال دو مرتبہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی فصاحت میں خلل واقع ہورہا ہے۔’’آدمی ہوں‘‘ کی اس لفظی تاکید میں ایک استفہام ضرور ہے۔ لیکن یہ استفہام ایک قطعی حقیقت میں تشکیک پید ا کررہا ہے ۔گویا مجازؔ کو آدمی ہونے پر یقین نہیں ہے۔جب کہ یہ ایک قطعی حقیقت ہے ۔؟خیر۔۔۔۔۔
بنیادی طور پر یہ شعر تلمیح کا ہے جس میں حضرت آدم ؑ کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ سے انھیں پروردگار عالم نے بہشت سے نکا ل دیا تھا۔اور وہ اس دنیا میں وارد ہوئے جس کے بعد اس روئے زمین پر نسلِ آدمیت کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ اس شعر کے ذریعہ مجازؔ اپنے قاری کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔کہ ہماری اور آپ کی زندگی حضرت آدمؑ کے گناہوں کا نتیجہ ہے اگر ابوالبشر آدمؑ اس گناہ کو انجام نہ دیتے تو آج ہمارا وجود ممکن نہ تھا۔ اس واقعہ کی قطیعت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس بات پر یہ اعتراض ضرور ،وارد ہوتا ہے کہ ہماری زندگی آدم ؑ کے گناہوں کا نتیجہ کیسے ہوسکتی ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ اسلامی نکتۂ نظر اور نصوصِ قرآن کے مطابق انبیائے کرام معصیت ِ پروردگار کے مرتکب نہیں ہوتے ۔ ہم میں اور انبیائے کرام میں دیگر خوبیوں اور خصوصیت کے علاوہ ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ نبی ؐ معصوم عن الخطاہوتا ہے ۔لیکن علمائے اسلام میں اس مسئلہ کو لے کر اختلاف ضرور پایا جاتا ہے ان کی اپنی اپنی دلیلیں اور نظریات ہیں۔جس کا تذکرہ کرنا یہاں پر مناسب نہیں سمجھتا۔
لیکن اس کے کچھ منطقی پہلو ضرور ہیں جو اس کے بطلان و استراد کا جواز پیش کرتے ہیں ۔پہلی بات تو یہ کہ جنت انسانوں کے عمل کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے عمل کی جزا کا نام ہے ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ جنت میں انسانوں سے نمازو روزہ اور حلال و حرام کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔
اگر اس بات کو درست مان لیا جائے کہ زندگی آدم کے گناہوں کا نتیجہ ہے تو اس میں ’دور‘ لازم آئے گا۔ اس لئے کہ اگر ہماری اور آپ کی زندگی آدم کے گناہوں کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں آدم و حواؑ کی زندگی سے متعلق بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ نظریہ باطل ہوجاتا ہے ۔کہ ہماری زندگی حضرت آدمؑ کے گناہو ں کا نتیجہ ہے۔
اب اس شعر سے جو مفہوم سامنے نکل کر آتا ہے وہ یہ ہے کہ گناہ کرنے کے لئے آدمی ہونا شرط ہے اس لئے کہ گناہ آدمی سے ہی ہوتا ہے فرشتوں سے نہیں ۔اور رہی حضرت آدمؑ کے گناہ کی بات تو آدمؑ باالقوت گناہ کا مادہ رکھتے ہیں لیکن باالفعل نہیں ۔
٭٭٭٭٭