موسم خوشگوار ہے۔ آیئے‘ ڈرائیو کرتے ہیں۔
ہم آبادی سے باہر آ گئے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ شاہراہ کے بائیں طرف ایک درخت کا کٹا ہوا تنا پڑا ہے۔ یہ کافی عرصہ سے یوں ہی رکھا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔ جلانے کے کام آ سکتا ہے نہ اس سے کچھ بن ہی سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس پر بچے چڑھ کر چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ رنگ اس کا بارشوں‘ ہوائوں اور موسموں کی سختیوں سے عجیب سا ہو گیا ہے۔ کچھ کچھ سیاہ‘ کچھ کچھ مٹیالا۔ ایسی لکڑی کو انگریزی میں ڈَیڈ وُڈ کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں جب اردو‘ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو سے باہر بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی‘ یعنی باعزت اور مکمل اردو تو ایسی لکڑی کے بارے میں کہتے تھے کہ سوختنی ہے نہ فروختنی۔ یعنی جلانے کے کام آ سکتی ہے نہ ہی اسے بیچا جا سکتا ہے!
ہم گاڑی چلائے جا رہے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ ایک سبزپوش ملنگ شاہراہ کے کنارے کھڑا ہے اور سبز رنگ کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اس نے ساتھ ہی ایک بینر آویزاں کیا ہوا ہے۔ ’’مزار زیر تعمیر ہے‘ صندوقچی میں کچھ ڈال کر آگے بڑھیے‘‘۔ یہ سبزپوش بابا مدتوں سے یہی کچھ کر رہا ہے۔ جانے مزار کب مکمل ہوگا۔
اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہ دیکھیے‘ قبرستان ہے۔ آیئے‘ رُک کر دعا کر لیتے ہیں۔ الھکم التکاثر۔ حتی زرتم المقابر۔ السلام علیکم یا اہل القبور! اے محوِ خواب لوگو! خدا تمہاری مغفرت کرے۔ ہم نے بھی تم سے آ ملنا ہے‘ دعا کر کے پلٹنے لگتے ہیں تو ایک مجذوب سا شخص ایک کمرے سے نکلتا ہے۔ کمرے کے اندر ایک قبر ہے جس پر چادر چڑھی ہے۔ کمرے کی چھت سے کاغذ کے بنے سنہری رنگ کے پھول‘ زریں رنگ کی تاروں سے لٹک رہے ہیں۔ مجذوب شخص مانگتا ہے ’’میں بابے کی قبر کا مجاور ہوں۔ کچھ دیتے جائو‘‘۔ ہم کچھ رقم اس کی نذر کرتے ہیں۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہے اور دعائیں دیتا واپس کمرے کا رُخ کر لیتا ہے۔
اکیس اپریل کو علامہ اقبال کی برسی تھی۔ ہر سال شاعرِ مشرق کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔ لکڑی کے بیکار ٹکڑے (پنجابی میں جنہیں ’’مُڈیاں‘‘ کہتے ہیں۔) سٹیج پر رکھی کرسیوں پر آ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ
Dead Wood
ہیں جو کسی کام کی نہیں۔ علامہ کی شاعری اور فلسفے سے ان مُڈیوں کا تعلق وہی ہے جو ان کا اُس درخت سے ہے جس کا یہ ایک زمانے میں حصہ تھیں۔ لکڑی کے یہ بے جان ٹکڑے‘ سوختنی نہ فروختنی‘ بیچیں تو چار آنے نہ ملیں‘ جلائیں تو ایک پیالی چائے نہ بنے‘ ہر سال مائک پر لائے جاتے ہیں۔ کچھ ممیاتے ہیں۔ کچھ غوں غوں کرتے ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے‘ کئی عشروں سے‘ سالہا سال سے یہی باتیں کیے جا رہے ہیں۔ دہرائے جا رہے ہیں۔ ان میں کچھ اقبال کی قبر کے مجاور ہیں۔ کچھ جھنڈا لہرا کر‘ ٹریفک روک کر‘ چندہ مانگتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کی اقبال کے نام پر مسلسل کمائی ہو رہی ہے۔ انسان جتنا جاہل ہو‘ اتنا ہی پُراعتماد ہوتا ہے! اقبال کی دو تہائی سے زیادہ شاعری فارسی میں ہے۔ ان حضرات میں سے‘ سب نہیں‘ لیکن کچھ کو فارسی اتنی ہی آتی ہے جتنی آپ کو اور مجھے روسی یا جاپانی آتی ہے!
ایک زمانے میں ماہر القادری کی نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ چند اشعار اس کے یوں تھے ؎
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں‘ آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں‘ دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جیسے کسی طوطے مینا کو‘ کچھ بول رٹائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں‘ اس طرح سکھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں‘ آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں‘ پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
کس بزم میں میرا ذکر نہیں‘ کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں‘ مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
قرآن پاک پڑھتے ہوئے رو دینے والا اقبال بھی اس اسلامی ملک میں اتنا ہی مظلوم ہے جتنی اس کی آئیڈیل کتاب قرآن مجید ہے۔ اب اس پر بھی اعتراض ہوگا کہ اقبال نے قرآن کو کہاں آئیڈیل قرار دیا ہے۔ اس کا جواب ابھی دے دینا مناسب ہے۔ دو شخص آپس میں جھگڑ رہے تھے ایک نے دوسرے کو دھمکایا۔ میں تمہارے چونتیس کے چونتیس دانت توڑ دوں گا۔ ایک تیسرا شخص پاس کھڑا سُن رہا تھا۔ بولا‘ بھئی دانت بتیس ہوتے ہیں۔ چونتیس نہیں۔ دھمکی دینے والے نے وضاحت کی ’’مجھے معلوم تھا تم بھی بیچ میں بولو گے۔ دو دانت تمہارے بھی شامل کیے ہیں‘‘۔ کالم چھپنے کے بعد جو بمباری ہوتی ہے‘ خاص کر سمندروں کے اُس پار سے‘ اُس کا اندازہ وہی کالم نگار کر سکتے ہیں جو بدقسمتی سے اپنی ای میلیں چیک کرتے ہیں یا خود پڑھتے ہیں!
اقبال نے کہا تھا ؎
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآن زیستن
مسلمان ہو کر رہنا ہے تو ایک ہی طریقہ ہے‘ قرآن پاک کے ساتھ زندگی گزارو۔ لیکن یہ آج کا موضوع نہیں!
اقبال کی مظلومیت کا اندازہ لگایئے‘ کون سا طبقہ ہے جس کی دیہاڑی اقبال کے نام پر نہیں لگ رہی۔ جو مُلّا کے خلاف ہیں‘ وہ اقبال کو پیش کرتے ہیں کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘ یا یہ کہ مُلّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور‘ حالانکہ یہ بھی اقبال ہی نے کہا ہے کہ ؎
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
خود مُلّا بھی اقبال سے اپنے پسند کے حصے لے اُڑا۔ مثلاً ع تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘ یا یہ کہ ؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ‘ بھی منبر و محراب کا پسندیدہ حصہ ہے‘ یہ اور بات کہ اسی نظم میں اقبال نے کہا ہے… یہ مال و دولتِ دنیا۔ یہ رشتہ و پیوند۔ تو منبر و محراب کے رکھوالے اب مال و دولتِ دنیا کی تلاش میں۔ بلکہ‘ حفاظت میں‘ کسی سے پیچھے نہیں۔ اقبال نے ان دونوں طبقات سے بیزاری کا اعلان کیا تھا ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
یعنی اقبال کے نزدیک ابلہِ مسجد اور تہذیب کا فرزند… مُلا اور مسٹر‘ دونوں وہ بات نہیں کہتے جسے حق سمجھتے ہیں!
اور تو اور۔ اقبال پر دشنام طرازی کرنے والے بھی اقبال ہی کے نام پر برسرِ روزگار ہیں۔ اندھیرے میں دیکھے بغیر لکڑیاں چننے والے ان ’’دانش‘‘ وروں کی زیادہ کمین گاہیں بیرونِ ملک واقع ہیں۔ کبھی اقبال کی نجی زندگی کے حوالے سے کیچڑ اچھالا جاتا ہے کبھی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسے ریفرنس دیے جاتے ہیں۔ کبھی آج کل پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی ذمہ داری اقبال پر ڈالی جاتی ہے۔ اقبال نے کہیں بھی ولی ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ مافوق الفطرت ہونے کا۔ اب اگر نکاح اور وضو کے مسائل میں مُلّا بانگِ درا کھول لیتا ہے یا اعتراض برائے اعتراض کے لیے تہذیب کے فرزند ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو اولیا یا حکمرانوں کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں تو اس میں اقبال کا کیا قصور؟ اللہ کے بندو! اُس نے تو شاعری تک کا دعویٰ نہیں کیا ؎
من ای میرِامم! داد از تو خواہم
مرا یاران غزلخوانی شمردند
اے امتوں کے سردار! آپ ہی سے انصاف مانگ رہا ہوں۔ یاروں نے میرا شمار غزل خوانوں میں کر لیا!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“